میرا پاکستان
پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ہو یا ملک کے اندر کوئی قدرتی آفت پاک فوج کے جوان ہمیشہ صف اول میں نظر آئے
پاکستان کی ترقی و تعمیر میں پاک فوج کے مثبت کردار سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔دفاع پاکستان کے بنیادی کردار کے علاوہ ملک کی تعمیر اور ترقی کے منصوبہ جات میں فوج نے اپنا بھرپور حصہ ڈالا ہے کراچی پورٹ کی تعمیر، بڑے ہائیڈرو پاور پروجیکٹس بھی فوج کی نگرانی میں تعمیر کیے گئے ہیں
سی پیک بھی فوج کی حفاظتی نگرانی میں ہی مکمل کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ قدرتی آفات میں بھی فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ہو یا ملک کے اندر کوئی قدرتی آفت پاک فوج کے جوان ہمیشہ صف اول میں نظر آئے ۔ بہرحال فوج کے سیاسی کردار پر بحث ضرور ہوتی ہے ، سیاسی قیادت فوج کو ہدف تنقید بھی بناتی ہے مگر مشکل کی ہر گھڑی میں اور سیاسی تنارعات کے حل کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی دیکھتی ہے، یہی وہ دو عملی ہے جس کا ہماری سیاسی اشرافیہ ہمیشہ سے شکار چلی آرہی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کے پس منظر میں ہماری سیاسی قیادت ہی شامل رہی ہے کیونکہ جب سیاسی قیادت سیاسی تنارعات کو سیاسی انداز میں حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر لامحالہ ان کی نظر اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی اٹھ جاتی ہے۔ آج پاکستان کے سیاسی حالات کا حل بھی ہمارے سیاسی قائدین کے بس سے باہر نظر آتا ہے اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو برمل اسٹیبلشمنٹ کو دعوت بھی دے دی ہے۔
پاکستان میں فوج کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو یہ سمجھتا ہے کہ فوج کے بغیر ملک کا نظام چلایا جا سکتا ہے،اس کی سیاسی بصیرت پر شک ہوتا ہے۔ جمہوری حکومتوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا پس پردہ کردار ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ ہو یا اندرونی سیکیورٹی پالیسی ان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ عرصہ سے چند ناعاقبت اندیش سیاستدان اور ان کے حامیان براہ راست فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
ماضی قریب میں ہمارے ہاں ایک بات کی بہت پابندی کی جاتی رہی کہ فوج اور عدلیہ کو عوامی فورم پر قطعاً زیربحث نہیں لایا جائے گا اورفوج کو بلاوجہ سیاسی تنارعات میںملوث نہیں کیا جائے گا ،اس پر سختی سے عمل بھی ہوتا رہا لیکن حالیہ دو تین برس میں اداروں پر بے جا ہدف تنقیدکا عمل تیز ہواہے جو پاکستان کی سلامتی کو خطرات کی جانب دھکیلنے کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتا ہے اور جو کام ہمارا دشمن نہ کر سکا۔
حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ شہداء کی قربانیوں کو بھی متنازعہ بنانے کی مہم شروع کی گئی ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فوج کے بغیر کوئی ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی ، جو لوگ فوج کی قربانیوں کو متنازعہ بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
وہ رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ سیاسی تنازعات اپنے بل بوتے پر طے کریں، اداروں کو ان معاملات میں نہ گھسیٹیں۔ سیاسی رہنماؤں کی تنقیدیں اپنے ہی ملک کے اداروں کی تنزلی اور توڑ پھوڑ کا سبب بن رہی ہیں۔
سیاسی رہنماؤں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ اپنے نظریات ومفادات کو تھوپنے کے لیے دوسروں کی قربانیاں نظر انداز نہ کردیں۔
ہمارے سپہ سالار نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ دشمن عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لیے سر گرم ہے، ملک کے حالات جیسے بھی ہوں پاکستان کے عوام اپنی ا فواج پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ فوج ہی ان کو ہر مشکل سے نکال سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مشکل میں عوام فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور وہ اس کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں کیونکہ ملک کی سیاسی قیادت نے توان کو ہمیشہ مشکلات کی جانب ہی دھکیلا دیا ہے ،عوام جانتے ہیں کہ فوج کے بغیر ملک کا دفاع اور حفاظت نا ممکن ہے۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں پاکستان کا ایک عام شہری سخت پریشان اور ہیجان کا شکار ہے اور اس ہیجان کے خاتمے کے لیے وہ سیاسی رہنماؤں سے مایوس ہے ۔
عوام کی توقعات کو بحال اور ان میں ملک کی محبت زندہ رکھنے کے لیے اداروں کو اپنا مثبت کردار کرنا چاہیے ورنہ جس محفل میںبیٹھیں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ملک کا کیا بنے گا اور محفلوں کی یہ گفتگو اب خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ میرے گھر میںبچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمار ا پاکستان کون سا والا ہے کیونکہ جب سے انھوں نے ہوش سنبھالا ہے کہ ان کے کانوں میں مختلف نعروں کی گونج ہی سنائی دیتی رہی ہے ۔
کبھی سب سے پہلے پاکستان، کبھی امیر اور غریب کا پاکستان، کبھی نیا پاکستان ،پرانا پاکستان،ریاست مدینہ،ہمارا پاکستان وغیرہ جیسے نعرے شامل ہیں، میں نے بچوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، یہ میرا اور عوام کا پاکستان ہے ۔
سی پیک بھی فوج کی حفاظتی نگرانی میں ہی مکمل کیا جارہا ہے، اس کے علاوہ قدرتی آفات میں بھی فوج کا کردار کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔
پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت ہو یا ملک کے اندر کوئی قدرتی آفت پاک فوج کے جوان ہمیشہ صف اول میں نظر آئے ۔ بہرحال فوج کے سیاسی کردار پر بحث ضرور ہوتی ہے ، سیاسی قیادت فوج کو ہدف تنقید بھی بناتی ہے مگر مشکل کی ہر گھڑی میں اور سیاسی تنارعات کے حل کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی دیکھتی ہے، یہی وہ دو عملی ہے جس کا ہماری سیاسی اشرافیہ ہمیشہ سے شکار چلی آرہی ہے ۔
اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ پاکستان میں فوج کے سیاسی کردار کے پس منظر میں ہماری سیاسی قیادت ہی شامل رہی ہے کیونکہ جب سیاسی قیادت سیاسی تنارعات کو سیاسی انداز میں حل کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے تو پھر لامحالہ ان کی نظر اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہی اٹھ جاتی ہے۔ آج پاکستان کے سیاسی حالات کا حل بھی ہمارے سیاسی قائدین کے بس سے باہر نظر آتا ہے اور سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے تو برمل اسٹیبلشمنٹ کو دعوت بھی دے دی ہے۔
پاکستان میں فوج کے کردار سے انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو یہ سمجھتا ہے کہ فوج کے بغیر ملک کا نظام چلایا جا سکتا ہے،اس کی سیاسی بصیرت پر شک ہوتا ہے۔ جمہوری حکومتوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا پس پردہ کردار ہمیشہ موجود رہتا ہے۔
بین الاقوامی تعلقات کا معاملہ ہو یا اندرونی سیکیورٹی پالیسی ان میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کو کسی صورت رد نہیں کیا جا سکتا۔ کچھ عرصہ سے چند ناعاقبت اندیش سیاستدان اور ان کے حامیان براہ راست فوج پر تنقید کر رہے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسے لوگ پاکستان دشمن طاقتوں کے ایجنڈے کو پروان چڑھا رہے ہیں۔
ماضی قریب میں ہمارے ہاں ایک بات کی بہت پابندی کی جاتی رہی کہ فوج اور عدلیہ کو عوامی فورم پر قطعاً زیربحث نہیں لایا جائے گا اورفوج کو بلاوجہ سیاسی تنارعات میںملوث نہیں کیا جائے گا ،اس پر سختی سے عمل بھی ہوتا رہا لیکن حالیہ دو تین برس میں اداروں پر بے جا ہدف تنقیدکا عمل تیز ہواہے جو پاکستان کی سلامتی کو خطرات کی جانب دھکیلنے کی جانب پہلا قدم کہا جا سکتا ہے اور جو کام ہمارا دشمن نہ کر سکا۔
حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ شہداء کی قربانیوں کو بھی متنازعہ بنانے کی مہم شروع کی گئی ۔ یہ بات سمجھنے کی ہے کہ فوج کے بغیر کوئی ریاست اپنا وجود قائم نہیں رکھ سکتی ، جو لوگ فوج کی قربانیوں کو متنازعہ بنانے کے ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔
وہ رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔ پاکستانی سیاسی رہنماؤں کا فرض ہے کہ وہ سیاسی تنازعات اپنے بل بوتے پر طے کریں، اداروں کو ان معاملات میں نہ گھسیٹیں۔ سیاسی رہنماؤں کی تنقیدیں اپنے ہی ملک کے اداروں کی تنزلی اور توڑ پھوڑ کا سبب بن رہی ہیں۔
سیاسی رہنماؤں سے درخواست ہی کی جا سکتی ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں ۔ اپنے نظریات ومفادات کو تھوپنے کے لیے دوسروں کی قربانیاں نظر انداز نہ کردیں۔
ہمارے سپہ سالار نے قوم کو خبردار کیا ہے کہ دشمن عوام اور فوج کے درمیان دراڑ ڈالنے کے لیے سر گرم ہے، ملک کے حالات جیسے بھی ہوں پاکستان کے عوام اپنی ا فواج پر مکمل اعتماد رکھتے ہیں کیونکہ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ فوج ہی ان کو ہر مشکل سے نکال سکتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہر مشکل میں عوام فوج کی طرف ہی دیکھتے ہیں اور وہ اس کو اپنا مسیحا سمجھتے ہیں کیونکہ ملک کی سیاسی قیادت نے توان کو ہمیشہ مشکلات کی جانب ہی دھکیلا دیا ہے ،عوام جانتے ہیں کہ فوج کے بغیر ملک کا دفاع اور حفاظت نا ممکن ہے۔
ملک میں جاری سیاسی کشمکش میں پاکستان کا ایک عام شہری سخت پریشان اور ہیجان کا شکار ہے اور اس ہیجان کے خاتمے کے لیے وہ سیاسی رہنماؤں سے مایوس ہے ۔
عوام کی توقعات کو بحال اور ان میں ملک کی محبت زندہ رکھنے کے لیے اداروں کو اپنا مثبت کردار کرنا چاہیے ورنہ جس محفل میںبیٹھیں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ ملک کا کیا بنے گا اور محفلوں کی یہ گفتگو اب خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ میرے گھر میںبچے مجھ سے پوچھتے ہیں کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا؟ ہمار ا پاکستان کون سا والا ہے کیونکہ جب سے انھوں نے ہوش سنبھالا ہے کہ ان کے کانوں میں مختلف نعروں کی گونج ہی سنائی دیتی رہی ہے ۔
کبھی سب سے پہلے پاکستان، کبھی امیر اور غریب کا پاکستان، کبھی نیا پاکستان ،پرانا پاکستان،ریاست مدینہ،ہمارا پاکستان وغیرہ جیسے نعرے شامل ہیں، میں نے بچوں کے سوال کے جواب میں کہا کہ ہمارا پاکستان قائد اعظم کا پاکستان ہے جس کا خواب علامہ اقبال نے دیکھا تھا، یہ میرا اور عوام کا پاکستان ہے ۔