بلاول کا گوا کا دورہ نئی امیدیں

پاکستان اور بھارت کی اس تنظیم میں شمولیت سے یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ اس خطہ میں امن کی صورتحال بہتر ہوگی

tauceeph@gmail.com

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری 4 اور 5 مئی کو بھارت کے سیاحتی مرکز گوا میں ہونے والی شنگھائی تعاون کی تنظیم کے وزراء خارجہ کے اجلاس میں شرکت کریں گے۔

وزیراعظم میاں شہباز شریف کی قیادت میں اقتدار میں آنے والی حکومت کا خارجہ پالیسی کے تناظر میں یہ پہلا جرات مندانہ فیصلہ ہے۔

کیا بلاول بھٹو زرداری کی اس کانفرنس میں بھارتی وزیر خارجہ سبرا منیم جے شنکر سے ملاقات میں باہمی تعلقات معمول پر لانے کے لیے کوئی پیش رفت ہوگی؟ بھارت اور پاکستان کے وزراء خارجہ کی متوقع ملاقات سے کچھ امید بندھی ہے۔ کیا یہ امید حقیقی شکل اختیارکرے گی؟ یہ سوال اہم ہے۔

2016 کے بعد پاکستان کے وزیر خارجہ کا یہ پہلا دورہ ہوگا۔ شنگھائی تنظیم کا شمار دنیا کی بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے۔ اس آرگنائزیشن میں چین، بھارت، قازقستان، ترکمانستان، روس، پاکستان، تاجکستان اور ازبکستان شامل ہیں جب کہ افغانستان ، بیلا، روس، ایران اور منگولیا کو مبصر کی حیثیت حاصل ہے جب کہ 6ڈائیلاگ پارٹنرز بھی شامل ہیں اور ایران کو بھی اس تنظیم کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اس تنظیم کے بنیادی مقاصد میں رکن ممالک کے سیاسی، سیکیورٹی اور اقتصادی شعبوں میں تعاون کو مستحکم کرنا ہے۔ ایس سی او کا ایک مقصد دہشت گردی، انتہا پسندی اور علیحدگی پسندی کے رجحانات کا خاتمہ کرنا ہے۔ چین کی کوششوں سے یہ تنظیم 1996 میں قائم ہوئی تھی۔

پاکستان اور بھارت کی اس تنظیم میں شمولیت سے یہ توقع ظاہر کی گئی تھی کہ اس خطہ میں امن کی صورتحال بہتر ہوگی اور اقتصادی ترقی کی رفتار بڑھ جائے گی۔ سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے اپنے اقتدار کے تینوں ادوار میں بھارت اور اس تنظیم کے دیگر ممالک سے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش کی۔

ان کے دوسرے دورِ اقتدار میں اٹل بہاری واجپائی لاہور آئے اور مینارِ پاکستان پر حاضری دی۔ نئی دہلی اور لاہور کے درمیان دوستی بس کی سروس شروع ہوئی۔ میاں نواز شریف کی کامیاب خارجہ پالیسی کی بنا پر نریندر مودی بھی پاکستان آئے، تب یہ امید ہوچکی تھی کہ دونوں ممالک کے عوام سے رابطوں میں حائل رکاوٹیں کم ہوںگی، تجارتی تعلقات مستحکم ہوںگے اور دیگر مسائل کے حل کا پر امن راستہ تلاش کریں گے۔

اس وقت کی عسکری قیادت کو میاں نواز شریف کی بھارت سے دوستی کی پالیسی قبول نہیں تھی، یوں میاں نواز شریف کی حکومت کے خلاف ایک منظم مہم شروع کی گئی۔ انھیں بعض اینکرز نے '' مودی کا یار '' جیسے القابات سے پکارا۔ عمران خان وزارتِ عظمی کے عہدہ پر فائز ہوئے۔

عمران خان بحیثیت کرکٹ کے کھلاڑی بھارت میں بہت مقبول تھے، ان کے شوکت خانم اسپتال کی تعمیر کی مہم میں بھارتی نامور اداکاروں اور کھلاڑیوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ عمران خان کی وزیر اعظم کی حیثیت سے تقریب حلف برداری کی بھارتی سیاست دانوں اور کھلاڑیوں کی شرکت کی خبریں شایع اور نشر ہوئی تھیں مگر پھر اچانک اعلان ہوا کہ محدود تعداد میں بھارتی مہمانوں کو مدعو کیا گیا ہے اور بھارتی معروف کرکٹر اور سیاسی رہنما نوجت سنگھ سدھو کے سوا کسی معروف کھلاڑی نے شرکت نہیں کی۔ پلوامہ واقعہ کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات خطرناک حد تک بگڑ گئے۔

دونوں ممالک کی فضائی طیاروں کی ڈاگ فائٹ نے جنگی جنون کو بڑھاوا دیا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے سابق گورنر ستپال ملک نے ایک انٹرویو میں مودی حکومت کے اس واقعہ میں ملوث ہونے کا انکشاف کیا۔


جب مودی حکومت نے بھارتی یونین کے آئین میں ترمیم کی گئی اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کیا گیا اور کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے اسے بھارتی یونین میں شامل کیا گیا تو عمران خان حکومت نے بھارت سے تعلقات ختم کرنے کا فیصلہ کیا مگر عمران خان کی حکومت بھارت کے اس اقدام کے خلاف عالمی رائے عامہ کو ہموار کرنے میں ناکام رہی۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھارت سے مضبوط تجارتی تعلقات قائم کیے۔

ان دونوں مسلمان ممالک نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں سرمایہ کاری کے کئی منصوبے بھی شروع کیے۔ عمران خان حکومت کے دور میں سکھوں کے مقدس گوردوارہ کرتار پور کے لیے بھارت سے آنے والی راہ داری کھولنے کا فیصلہ کیا۔

اگرچہ ماضی میں کئی دفعہ کرتار پور راہ دار ی کھولنے کا فیصلہ کیا تھا مگر ان فیصلوں پر عمل نہیں ہوسکا۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے گزشتہ دنوں ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے بھارت سے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے کئی اہم اقدامات تجویز کیے تھے مگر عمران خان ان اقدامات کی گہرائی کا ادراک نہ کرسکے۔

عجیب المیہ یہ ہے کہ سویلین بالادستی پر یقین رکھنے والے دو معروف اینکر پرسن حضرات جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ کی مسئلہ کشمیر کے حل کی معقول تجویز کو ان کا جرم قرار دے رہے ہیں۔ پاکستان کے بھارت سے تجارتی تعلقات کو ختم کرنے کے زیادہ نقصانات ہوئے۔ بھارت سے تجارت ختم ہونے کا فوری نقصان ادویات سازی کی صنعت کو ہوا۔ بھارت ادویات کا خام مال تیار کرنے والا دنیا کا بڑا ملک ہے۔

بھارت میں ادویات کی صنعت جدید ترین ، ادویات کی کم قیمت اور زیادہ مؤثر سمجھی جاتی ہیں۔ بھارت سے شکر اور سیمنٹ، تیل اور گیس تلاش کرکے ادویات درآمد ہوتے تھے۔ اب یہ آلات دبئی کے راستہ پاکستان آنے لگے، یوں دبئی پاکستان کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر تو بن گیا اور پاکستانی صنعتوں کا بحران بھی بہت بڑھ گیا۔

بھارت سے سبزیاں ، پھل ، کھانے پینے کی اشیاء سستے داموں آتی ہیں۔ پاکستان کے مختلف پھلوں آم، کیلا اور کھجور وغیرہ کی سب سے بڑی مارکیٹ تھی۔ موجودہ حکومت برسر اقتدار آئی تو سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر مفتاح اسماعیل نے اعلان کیا تھا کہ بھارت سے تجارت پر پابندی کے خاتمہ کا نوٹی فکیشن جاری ہونے والا ہے مگر یہ نوٹی فکیشن لاپتہ ہوا۔

وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے چند ماہ قبل بھارتی وزیر اعظم مودی کے خلاف بیانات دے کر اپنے نانا ذوالفقار علی بھٹو کی یاد تازہ کرنے کی کوشش کی تھی، اب انھیں خطہ میں ہونے والی تبدیلیوں اور بڑی طاقتوں کی بھارت اور پاکستان کے تعلقات کو بہتر بنانے میں دلچسپی سے بلاول کو صورتحال کا ادراک ہوگیا ہوگا۔

معروف اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بھارت سے تجارت سے اقتصادی بحران کم ہوگا۔ بھارت کے ڈپٹی کمشنر نے گزشتہ ماہ لاہور میں تاجروں کی ایک مجلس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ نئی دہلی میں 20 روپے کلو میں دستیاب ہے ۔

پاکستان میں اس وقت پیازکی قیمت 300 روپے کو چھو رہی ہے اور بھارت سے اگر آٹا اور سبزیاں درآمد کی جاتیں تو آٹے کی قیمت گر جاتی اور پنجاب کے عوام کو روزمرہ کی اشیاء سستے داموں میسر آجاتیں۔ اب دنیا میں خارجہ تعلقات کے نئے زاویے سامنے آرہے ہیں۔

چین کی کوششوں سے ایران اور سعودی عرب سے تعلقات کو بحال کرادیا ہے۔ ایران اور سعودی عرب سے تعلقات معمول پر آئے تو عراق، یمن اور شام میں خانہ جنگی ختم ہوجائے گی۔

سارک کی تنظیم بھار ت اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات کی بناء پر تقریباً معطل ہے مگر اقتصادی تعاون کی اس تنظیم کو اس صورتحال کا سامنے نہیں کرنا چاہیے۔ یہی موقع ہے کہ بھارت اور پاکستان اپنے تعلقات کو معمول پر لائے۔ بلاول کا گوا کا دورہ دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے میں سنگ میل ثابت ہوسکتا ہے۔
Load Next Story