سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی فروخت
ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والی سیاسی قیادت اپنے اندر جمہوریت رائج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں
پاکستان میں جمہوریت کے کمزور ہونے کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوریت نہ ہونا ہے۔ ہماری سیاسی جماعتیں ملک میں جمہوریت کے لیے جدو جہد توکرتی ہیں لیکن اپنے اندر جمہوریت قائم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والی سیاسی قیادت اپنے اندر جمہوریت رائج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں آمریت قائم ہے، اس آمریت نے سیاسی جماعتوں کو شخصیات کی ذاتی ملکیت بنا دیا ہے۔
اگر کچھ سیاسی جماعتیں خاندانوں کے حصار میں ہیں تو کچھ سیاسی جماعتیں شخصیات کے حصار میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی میں منتخب اورنئی سیاسی قیادت کے اوپر آنے کا ایک مضبوط طریقہ کار موجود ہے ، باقی کسی سیاسی جماعت میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی سیاسی جماعتوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تو الیکشن کمیشن کا کردار نظر آتا ہے۔الیکشن کمیشن کے پاس ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک مربوط نظام موجود ہے۔
لیکن الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوریت کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس کوئی نظام نہیں ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں پارٹی انتخابات نہیں ہوتے۔ نامزدگیوں اور پسند نا پسند پر سیاسی جماعتیں چلائی جاتی ہیں۔ جو لیڈر کو پسند ہے وہ اوپر آجاتا ہے، لیکن جو لیڈر کو پسند نہیں ہوتا، گھر بیٹھ جاتا ہے۔
آجکل تحریک انصاف میں بہت شور ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے بجائے پیسے کو ترجیح دی گئی ہے۔ لوگوں نے پیسے دے کر ٹکٹیں حاصل کی ہیں۔ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ ارب اکٹھے کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو بھی سامنے آئی ہے، اسی طرح سینیٹر اعجاز چوہدری کی بھی ایک آڈیو سامنے آئی ہے۔ پھر پنڈی سے بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں رشوت اور سفارش کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ جہلم سے بھی یہی آوازیں سامنے آرہی ہیں۔
اوکاڑہ میں وٹو خاندان بھی یہی کہہ رہا ہے۔ اس لیے ہر شہر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک شور نظرا ٓرہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کر رہے ہیں کہ ٹکٹیں میرٹ پر نہیں دی گئی ہیں۔ شور مچ رہا ہے ہے کہ پیسے چلے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پیسے کیوں چلتے ہیں؟کیوں سیاسی جماعتیں میرٹ پر ٹکٹیں نہیں دیتی ہیں؟ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کاکوئی شفاف نظام موجود نہیں ہے اور اس میںکارکنان کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ جہاں ٹکٹ دی جاتی ہے، اس سرکل میں کارکنان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
دنیا بھر میں پارٹی کے مقامی کارکنان کی رائے سے ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ مقامی تنظیم ہی فیصلہ کرتی ہے کہ اس علاقے سے کون الیکشن لڑے گا۔ پاکستان میں تو حلقے سے باہر بھی ٹکٹ دے دیے جاتے ہیں جو دنیا کی مضبوط جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔
ٹکٹو ں کی تقسیم میں پارٹی قیادت کے لامحدود اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں بادشاہت قائم کر دی ہے۔ بادشاہی اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو ختم کر دیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کو ذاتی کمپنیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی کمزوری کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے۔
الیکشن کمیشن کو ایسے قواعد بنانے چاہیے کہ سیاسی جماعتیں شفاف سسٹم کے تحت امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پابند ہوں۔ مر ضی کا پارٹی آئین بنانے کی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ مرضی کے آئین کا یہ مطلب نہیں کہ آمریت قائم کر دی جائے۔ مر ضی کے آئین کا یہ مطلب نہیں کہ بادشاہت قائم کر لی جائے۔
مرکزی پارلیمانی بورڈ بھی بادشاہت کا ہی شکل ہے۔ جب تک مقامی پارلیمانی بورڈ نہیں بنائے جائیں گے بادشاہت ختم نہیں ہوگی۔ عمران خان کا یہ موقف کی سب ٹکٹ میں خود دوں گا بھی کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس سے کرپشن اور اقربا پروری کا زیادہ شور سامنے آیا ہے۔
عمران خان کے فیصلوں کے خلاف ان کی اپنی پارٹی میں اختلافات و احتجاج ثابت کر رہا ہے کہ ایک آدمی عقل کل نہیں ہو سکتا، اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں پر کوئی کوڈ آف کنڈکٹ لاگو نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ضابطے اور قانون کی پابند نہیں ہیں، کارکنا ن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم ہر اہم موقع پر کارکنان کا استحصال دیکھتے ہیں۔سالہا سال کی محنت کے بعد بھی سیاسی کارکن کی سنوائی نہیں ہے۔ اس کی سیاسی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے، اس کی قربانیوں کا کوئی دام نہیں ہے۔ وہ کرسیاں لگاتے ہوئے مر جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے سرمایہ دارآگے نکل جاتے ہیں۔
ٹکٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے وسائل ہیں۔ کارکن کو یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ٹکٹ دے بھی دیں تو الیکشن کا خرچہ کہاں سے کرو گے۔ تمھارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہے۔ پیسے کہاں سے لاؤ گے۔ اس لیے پیسے والے کو ٹکٹ لینے دو تاکہ سیٹ جیتی جا سکے۔ پیسے کے اس کلچر نے سیاست کو آلودہ کر دیا ہے۔
عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت میں الیکشن کرائیں گے لیکن وہ ناکام رہے۔ کیونکہ انتخابات میں کارکنوں نے ان کے حمایت یافتہ امیدواران کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا، وہ خود اپنی جماعت میں ہارتے نظر آئے۔ اس لیے انھوں نے انتخابات کرانے بند کر دیے ۔ ان کے اپنے الیکشن کمیشن نے پیسے چلنے کا اعلان کر دیا۔
بلکہ پیسے چلنے کے ثبوت دینے والے الیکشن کمیشن کو ہی فارغ کر دیا گیا۔ بات صرف تحریک انصاف کی نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی صورتحال ہے۔ لیکن عمران خان نے اس کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی نہیں کر سکے ہیں۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں جب تک سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں آئے گی ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔جب تک ٹکوں کی شفاف تقسیم نہیں ہو گی، تب تک پیسے کی سیاست ختم نہیں ہوگی۔جو پیسے دے کر ٹکٹ لیتے ہیں، وہ پیسے کماتے بھی ہیں۔ امیر اور بااثر لوگوں نے ٹکٹوں کو ایک کاروبار بنا لیا ہے۔
جس کی وجہ سے سیاست ایک کاروبار بن گئی ہے۔ اس رحجان کو ختم کیے بغیر سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔
ملک میں جمہوریت کا مطالبہ کرنے والی سیاسی قیادت اپنے اندر جمہوریت رائج کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اسی لیے ہم کہتے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں میں آمریت قائم ہے، اس آمریت نے سیاسی جماعتوں کو شخصیات کی ذاتی ملکیت بنا دیا ہے۔
اگر کچھ سیاسی جماعتیں خاندانوں کے حصار میں ہیں تو کچھ سیاسی جماعتیں شخصیات کے حصار میں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کے علاوہ ملک کی کسی بھی سیاسی جماعت میں جمہوریت نہیں ہے۔ صرف جماعت اسلامی میں منتخب اورنئی سیاسی قیادت کے اوپر آنے کا ایک مضبوط طریقہ کار موجود ہے ، باقی کسی سیاسی جماعت میں ایسا کوئی نظام نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی سیاسی جماعتوں پر کوئی گرفت نہیں ہے۔ شفاف انتخابات کے انعقاد کے لیے تو الیکشن کمیشن کا کردار نظر آتا ہے۔الیکشن کمیشن کے پاس ملک میں انتخابات کے انعقاد کے لیے ایک مربوط نظام موجود ہے۔
لیکن الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کے اندر انتخابات اور جمہوریت کے لیے الیکشن کمیشن کے پاس کوئی نظام نہیں ہے۔ کسی بھی سیاسی جماعت میں پارٹی انتخابات نہیں ہوتے۔ نامزدگیوں اور پسند نا پسند پر سیاسی جماعتیں چلائی جاتی ہیں۔ جو لیڈر کو پسند ہے وہ اوپر آجاتا ہے، لیکن جو لیڈر کو پسند نہیں ہوتا، گھر بیٹھ جاتا ہے۔
آجکل تحریک انصاف میں بہت شور ہے کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں میرٹ کے بجائے پیسے کو ترجیح دی گئی ہے۔ لوگوں نے پیسے دے کر ٹکٹیں حاصل کی ہیں۔ ایسی باتیں بھی سامنے آئی ہیں کہ ٹکٹوں کی تقسیم میں پانچ ارب اکٹھے کیے گئے ہیں۔
اس حوالے سے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بیٹے کی آڈیو بھی سامنے آئی ہے، اسی طرح سینیٹر اعجاز چوہدری کی بھی ایک آڈیو سامنے آئی ہے۔ پھر پنڈی سے بھی ٹکٹوں کی تقسیم میں رشوت اور سفارش کی باتیں سامنے آئی ہیں۔ جہلم سے بھی یہی آوازیں سامنے آرہی ہیں۔
اوکاڑہ میں وٹو خاندان بھی یہی کہہ رہا ہے۔ اس لیے ہر شہر میں ٹکٹوں کی تقسیم پر ایک شور نظرا ٓرہا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن احتجاج کر رہے ہیں کہ ٹکٹیں میرٹ پر نہیں دی گئی ہیں۔ شور مچ رہا ہے ہے کہ پیسے چلے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ پیسے کیوں چلتے ہیں؟کیوں سیاسی جماعتیں میرٹ پر ٹکٹیں نہیں دیتی ہیں؟ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں ٹکٹوں کی تقسیم کاکوئی شفاف نظام موجود نہیں ہے اور اس میںکارکنان کا کوئی کردار ہی نہیں ہے۔ جہاں ٹکٹ دی جاتی ہے، اس سرکل میں کارکنان کی رائے کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
دنیا بھر میں پارٹی کے مقامی کارکنان کی رائے سے ٹکٹ دیے جاتے ہیں۔ مقامی تنظیم ہی فیصلہ کرتی ہے کہ اس علاقے سے کون الیکشن لڑے گا۔ پاکستان میں تو حلقے سے باہر بھی ٹکٹ دے دیے جاتے ہیں جو دنیا کی مضبوط جمہوریت میں ممکن نہیں ہے۔
ٹکٹو ں کی تقسیم میں پارٹی قیادت کے لامحدود اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں بادشاہت قائم کر دی ہے۔ بادشاہی اختیارات نے سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کو ختم کر دیا ہے بلکہ سیاسی جماعتوں کو ذاتی کمپنیوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ملک میں جمہوریت کی کمزوری کی بنیادی وجہ سیاسی جماعتوں میں جمہوریت کا فقدان ہے۔
الیکشن کمیشن کو ایسے قواعد بنانے چاہیے کہ سیاسی جماعتیں شفاف سسٹم کے تحت امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی پابند ہوں۔ مر ضی کا پارٹی آئین بنانے کی سہولت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ مرضی کے آئین کا یہ مطلب نہیں کہ آمریت قائم کر دی جائے۔ مر ضی کے آئین کا یہ مطلب نہیں کہ بادشاہت قائم کر لی جائے۔
مرکزی پارلیمانی بورڈ بھی بادشاہت کا ہی شکل ہے۔ جب تک مقامی پارلیمانی بورڈ نہیں بنائے جائیں گے بادشاہت ختم نہیں ہوگی۔ عمران خان کا یہ موقف کی سب ٹکٹ میں خود دوں گا بھی کوئی جمہوری طریقہ نہیں ہے۔ اس کے بھی کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں بلکہ اس سے کرپشن اور اقربا پروری کا زیادہ شور سامنے آیا ہے۔
عمران خان کے فیصلوں کے خلاف ان کی اپنی پارٹی میں اختلافات و احتجاج ثابت کر رہا ہے کہ ایک آدمی عقل کل نہیں ہو سکتا، اس سے بھی غلطیاں ہو سکتی ہیں۔
سیاسی جماعتوں پر کوئی کوڈ آف کنڈکٹ لاگو نہیں ہے۔ وہ کسی بھی ضابطے اور قانون کی پابند نہیں ہیں، کارکنا ن کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ ہم ہر اہم موقع پر کارکنان کا استحصال دیکھتے ہیں۔سالہا سال کی محنت کے بعد بھی سیاسی کارکن کی سنوائی نہیں ہے۔ اس کی سیاسی ترقی کا کوئی روڈ میپ نہیں ہے، اس کی قربانیوں کا کوئی دام نہیں ہے۔ وہ کرسیاں لگاتے ہوئے مر جاتا ہے۔ بعد میں آنے والے سرمایہ دارآگے نکل جاتے ہیں۔
ٹکٹ دیتے وقت یہ دیکھا جاتا ہے کہ کس کے پاس الیکشن لڑنے کے لیے وسائل ہیں۔ کارکن کو یہ کہہ کر انکار کر دیا جاتا ہے کہ اگر تمہیں ٹکٹ دے بھی دیں تو الیکشن کا خرچہ کہاں سے کرو گے۔ تمھارے پاس تو وسائل ہی نہیں ہے۔ پیسے کہاں سے لاؤ گے۔ اس لیے پیسے والے کو ٹکٹ لینے دو تاکہ سیٹ جیتی جا سکے۔ پیسے کے اس کلچر نے سیاست کو آلودہ کر دیا ہے۔
عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی سیاسی جماعت میں الیکشن کرائیں گے لیکن وہ ناکام رہے۔ کیونکہ انتخابات میں کارکنوں نے ان کے حمایت یافتہ امیدواران کو ووٹ دینے سے انکار کر دیا، وہ خود اپنی جماعت میں ہارتے نظر آئے۔ اس لیے انھوں نے انتخابات کرانے بند کر دیے ۔ ان کے اپنے الیکشن کمیشن نے پیسے چلنے کا اعلان کر دیا۔
بلکہ پیسے چلنے کے ثبوت دینے والے الیکشن کمیشن کو ہی فارغ کر دیا گیا۔ بات صرف تحریک انصاف کی نہیں ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں میں یہی صورتحال ہے۔ لیکن عمران خان نے اس کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن وہ بھی نہیں کر سکے ہیں۔
میں اب بھی سمجھتا ہوں جب تک سیاسی جماعتوں کے اپنے اندر جمہوریت نہیں آئے گی ملک میں جمہوریت نہیں آسکتی۔جب تک ٹکوں کی شفاف تقسیم نہیں ہو گی، تب تک پیسے کی سیاست ختم نہیں ہوگی۔جو پیسے دے کر ٹکٹ لیتے ہیں، وہ پیسے کماتے بھی ہیں۔ امیر اور بااثر لوگوں نے ٹکٹوں کو ایک کاروبار بنا لیا ہے۔
جس کی وجہ سے سیاست ایک کاروبار بن گئی ہے۔ اس رحجان کو ختم کیے بغیر سیاست کو کرپشن سے پاک نہیں کیا جا سکتا۔