معاشرے کا بانجھ پن
آج کا معاشرہ جتنا ترقی یافتہ ہے اتنا ہی تہذیب، دانائی اور شعور سے عاری ہے
صدف اپنے کمرے میں بیٹھی آج کے واقعے کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ کیسے اسے یونیورسٹی میں باڈی شیمنگ کا نشانہ بنا کر اس کے موٹاپے کا مذاق اڑایا گیا تھا۔ اس میں اس کا ایسا کیا قصور تھا کہ باوجود ورزش اور ڈائٹنگ کے بھی وہ دبلی نہیں ہو پا رہی تھی۔ اب اس موٹاپے میں مبتلا ہونے کا مطلب یہ تو نہیں تھا کہ طنز کرکے اس کی زندگی ہی اجیرن کردی جائے۔
وہ کئی مرتبہ خودکشی کے بارے میں سوچ چکی تھی یہ الگ بات کہ حرام موت کا تصور ہی اسے دہشت دلانے کےلیے کافی تھا۔ اس لیے وہ اس مکروہ خیال سے باز رہی تھی لیکن اس سب سے وہ ایک ذہنی کشمکش کا شکار ضرور ہوچکی تھی۔
وہ کتنی محنتی اور ذہین بھی تو تھی لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان تک نہ جاتا تھا۔ شاید یہی ہمارے معاشرے کی صفت ہے کہ لوگ صرف ہماری خامیوں پر ہی توجہ دیتے ہیں اور خوبیوں کو فوری نظر انداز کر دیتے ہیں۔
سلمان ایک بزنس مین ہے لیکن اس مرتبہ اسے کاروبار میں بہت نقصان ہوا۔ جس کا اسے دکھ تو ہے ہی لیکن زیادہ رنج لوگوں کے رویوں پر ہے جنہوں نے اس کی ایک ناکامی پر ہی اس کی پوری شخصیت کو پرکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام سی کہانیاں ہیں۔ بچے ہوں یا بوڑھے، عمل اور کردار سے کچھ ثابت نہیں کریں گے لیکن زبان کے نشتر ضرور چلائیں گے اور بجائے اس کے کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو، وہ یہی کہیں گے کہ بھئی ہم تو آپ کے بہت خیر خواہ ہیں اور ہم تو آپ کی اصلاح کےلیے کوشاں ہیں لیکن آپ لوگ ہی ہمیں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔
اس طرح نوجوان نسل پر بے راہ روی کے بہت سے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور وہ بہت حد تک درست بھی ہیں لیکن انھیں سوشل میڈیا کے درست استعمال سے آگاہ کرنا ہم بڑوں کی ذمے داری ہے۔ نہ تو گھروں میں اس سلسلے میں کوئی روک ٹوک ہے، نہ ہی قانونی طور پر اور قانون ان کو روکتا بھی ہے تو وہ سزا سے پہلے ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔ جب ایسے نوجوانوں کو ان کی حرکات کی بنا پر دھر لیا جاتا ہے تب والدین ضرور شرمندہ نظر آتے ہیں لیکن والدین اپنی ذمے داری ان سانحات سے پہلے نہیں نبھاتے۔
جب ان بچوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ہر جائز اور ناجائز کام کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر ون ویلنگ کرنے والے لڑکے زیادہ تر اخلاقیات سے عاری ہوتے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کے ساتھ بھی بدتمیزی کی جاتی ہے اور بہت آسانی کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعمال بھی کرلیا جاتا ہے۔
اسپتالوں میں مریضوں کو نظر انداز کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے کلینکوں پر بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور بہت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نجی کمپنیاں ملازمین کا استحصال کرتی ہیں اور سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے ماسوائے چند ایک اداروں کے۔ گھروں میں رکھے جانے والے ملازموں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ خانگی تشدد بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ غیرت کے نام پر بہن بیٹیاں قتل ہوتی ہیں اور کئی خواتین کی عصمت دری بھی کی جاتی ہے، یعنی معاشرے کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اور بنایا اس کو ہم سب نے ہے۔
آج کا معاشرہ جتنا ترقی یافتہ ہے اتنا ہی تہذیب سے عاری، دانائی اور شعور سے عاری ہے۔ کیونکہ یہ معاشرہ بانجھ ہے۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو کچھ نہیں دیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تربیت بھی اس طرح نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ ہمارے کئی بزرگ بھی ہمیں نئی نسل کے طور پر لے کر نہیں چلے بلکہ صرف اپنی مثالیں ہی دیتے رہے، جب کہ ہر بچہ ایک نئی نسل اور نئے زمانے کی نمائندگی کرتا ہے اور نئے زمانے کے بچوں کو اسی طرح سے ٹریٹ کیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا، نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بچے بڑوں سے کترانے لگتے ہیں۔
بزرگوں کو بھی بچوں کی تربیت ایسے کرنی چاہیے کہ ان کی دلچسپی بھی مخلتف امور میں مدنظر رکھی جائے اور ساتھ ہی باتوں باتوں میں ان کی اصلاح بھی کردی جائے۔ بزرگوں کے حوالے سے میں چند ایک کی بات کررہی ہوں ورنہ ہمارے زمانے کے اکثر بزرگوں نے اپنے حصے کا کردار بخوبی نبھایا۔ لیکن آج کل کے بڑوں کی تربیت بھی لگتا ہے کہ بچے ہی کر رہے ہیں۔ بچوں میں والدین کا کوئی ڈر و خوف نہیں، والدین انھیں کھلا تو سونے کا نوالہ رہے ہیں لیکن شیر کی آنکھ سے بالکل نہیں دیکھ رہے۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے جس چیز سے منع کیا جائے اس ہی چیز میں اسے کشش محسوس ہوتی ہے، لہٰذا ہماری نوجوان نسل نے بھی نفرت، شدت اور انتہاپسندی کو ہی اپنا لیا۔
ہم اچھی چیزوں یعنی اخلاقیات، سچائی، خلوص، محبت، رواداری اور ہمدردی کو پروان نہیں چڑھا سکے اور یہ معاشرہ بانجھ ہوکر رہ گیا، جہاں بے حیائی، ناانصافی، عدم مساوات، دہشت گردی، غربت و افلاس نے ڈیرے جما لیے۔ ۔معاشرہ ایک ہی جگہ پر رک نہیں جاتا بلکہ مختلف لوگوں کی وجہ سے متحرک رہتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ، سوچ یا عمل پتھر پر لکیر نہیں ہوتی، جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چند افراد بھی مل کر اس معاشرے کی ازسر نو تنظیم و ترتیب کرسکتے ہیں۔ اس معاشرے کو بانجھ کے بجائے سرسبز و شاداب بنا سکتے ہیں لیکن اس کےلیے مستقل مزاجی، نئی سوچ اور اخلاقی ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
وہ کئی مرتبہ خودکشی کے بارے میں سوچ چکی تھی یہ الگ بات کہ حرام موت کا تصور ہی اسے دہشت دلانے کےلیے کافی تھا۔ اس لیے وہ اس مکروہ خیال سے باز رہی تھی لیکن اس سب سے وہ ایک ذہنی کشمکش کا شکار ضرور ہوچکی تھی۔
وہ کتنی محنتی اور ذہین بھی تو تھی لیکن اس کی طرف کسی کا دھیان تک نہ جاتا تھا۔ شاید یہی ہمارے معاشرے کی صفت ہے کہ لوگ صرف ہماری خامیوں پر ہی توجہ دیتے ہیں اور خوبیوں کو فوری نظر انداز کر دیتے ہیں۔
سلمان ایک بزنس مین ہے لیکن اس مرتبہ اسے کاروبار میں بہت نقصان ہوا۔ جس کا اسے دکھ تو ہے ہی لیکن زیادہ رنج لوگوں کے رویوں پر ہے جنہوں نے اس کی ایک ناکامی پر ہی اس کی پوری شخصیت کو پرکھنے کا فیصلہ کرلیا۔
ہمارے معاشرے میں یہ بہت عام سی کہانیاں ہیں۔ بچے ہوں یا بوڑھے، عمل اور کردار سے کچھ ثابت نہیں کریں گے لیکن زبان کے نشتر ضرور چلائیں گے اور بجائے اس کے کہ انھیں اپنی غلطی کا احساس ہو، وہ یہی کہیں گے کہ بھئی ہم تو آپ کے بہت خیر خواہ ہیں اور ہم تو آپ کی اصلاح کےلیے کوشاں ہیں لیکن آپ لوگ ہی ہمیں اپنا دشمن تصور کرتے ہیں۔
اس طرح نوجوان نسل پر بے راہ روی کے بہت سے الزامات عائد کیے جاتے ہیں اور وہ بہت حد تک درست بھی ہیں لیکن انھیں سوشل میڈیا کے درست استعمال سے آگاہ کرنا ہم بڑوں کی ذمے داری ہے۔ نہ تو گھروں میں اس سلسلے میں کوئی روک ٹوک ہے، نہ ہی قانونی طور پر اور قانون ان کو روکتا بھی ہے تو وہ سزا سے پہلے ہوش کے ناخن نہیں لیتے۔ جب ایسے نوجوانوں کو ان کی حرکات کی بنا پر دھر لیا جاتا ہے تب والدین ضرور شرمندہ نظر آتے ہیں لیکن والدین اپنی ذمے داری ان سانحات سے پہلے نہیں نبھاتے۔
جب ان بچوں کو کھلی چھوٹ مل جاتی ہے تو ظاہر ہے کہ وہ ہر جائز اور ناجائز کام کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ مثال کے طور پر ون ویلنگ کرنے والے لڑکے زیادہ تر اخلاقیات سے عاری ہوتے ہیں۔ ٹریفک وارڈنز کے ساتھ بھی بدتمیزی کی جاتی ہے اور بہت آسانی کے ساتھ اپنے تعلقات کا استعمال بھی کرلیا جاتا ہے۔
اسپتالوں میں مریضوں کو نظر انداز کرنے والے ڈاکٹر صاحبان اپنے کلینکوں پر بھاری فیسیں وصول کرتے ہیں اور بہت خوش اخلاقی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ نجی کمپنیاں ملازمین کا استحصال کرتی ہیں اور سرکاری ملازمین کام نہیں کرتے ماسوائے چند ایک اداروں کے۔ گھروں میں رکھے جانے والے ملازموں کے ساتھ ناروا سلوک رکھا جاتا ہے۔ خانگی تشدد بھی دیکھنے میں آتا ہے۔ غیرت کے نام پر بہن بیٹیاں قتل ہوتی ہیں اور کئی خواتین کی عصمت دری بھی کی جاتی ہے، یعنی معاشرے کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اور بنایا اس کو ہم سب نے ہے۔
آج کا معاشرہ جتنا ترقی یافتہ ہے اتنا ہی تہذیب سے عاری، دانائی اور شعور سے عاری ہے۔ کیونکہ یہ معاشرہ بانجھ ہے۔ ہم نے اپنی نئی نسل کو کچھ نہیں دیا، جس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری تربیت بھی اس طرح نہیں کی گئی جس طرح سے کی جانی چاہیے تھی۔ ہمارے کئی بزرگ بھی ہمیں نئی نسل کے طور پر لے کر نہیں چلے بلکہ صرف اپنی مثالیں ہی دیتے رہے، جب کہ ہر بچہ ایک نئی نسل اور نئے زمانے کی نمائندگی کرتا ہے اور نئے زمانے کے بچوں کو اسی طرح سے ٹریٹ کیا جانا چاہیے لیکن ایسا نہیں کیا جاتا، نتیجہ یہی ہوتا ہے کہ بچے بڑوں سے کترانے لگتے ہیں۔
بزرگوں کو بھی بچوں کی تربیت ایسے کرنی چاہیے کہ ان کی دلچسپی بھی مخلتف امور میں مدنظر رکھی جائے اور ساتھ ہی باتوں باتوں میں ان کی اصلاح بھی کردی جائے۔ بزرگوں کے حوالے سے میں چند ایک کی بات کررہی ہوں ورنہ ہمارے زمانے کے اکثر بزرگوں نے اپنے حصے کا کردار بخوبی نبھایا۔ لیکن آج کل کے بڑوں کی تربیت بھی لگتا ہے کہ بچے ہی کر رہے ہیں۔ بچوں میں والدین کا کوئی ڈر و خوف نہیں، والدین انھیں کھلا تو سونے کا نوالہ رہے ہیں لیکن شیر کی آنکھ سے بالکل نہیں دیکھ رہے۔ انسانی فطرت ہے کہ اسے جس چیز سے منع کیا جائے اس ہی چیز میں اسے کشش محسوس ہوتی ہے، لہٰذا ہماری نوجوان نسل نے بھی نفرت، شدت اور انتہاپسندی کو ہی اپنا لیا۔
ہم اچھی چیزوں یعنی اخلاقیات، سچائی، خلوص، محبت، رواداری اور ہمدردی کو پروان نہیں چڑھا سکے اور یہ معاشرہ بانجھ ہوکر رہ گیا، جہاں بے حیائی، ناانصافی، عدم مساوات، دہشت گردی، غربت و افلاس نے ڈیرے جما لیے۔ ۔معاشرہ ایک ہی جگہ پر رک نہیں جاتا بلکہ مختلف لوگوں کی وجہ سے متحرک رہتا ہے۔ کوئی بھی نظریہ، سوچ یا عمل پتھر پر لکیر نہیں ہوتی، جسے تبدیل نہیں کیا جاسکتا۔ چند افراد بھی مل کر اس معاشرے کی ازسر نو تنظیم و ترتیب کرسکتے ہیں۔ اس معاشرے کو بانجھ کے بجائے سرسبز و شاداب بنا سکتے ہیں لیکن اس کےلیے مستقل مزاجی، نئی سوچ اور اخلاقی ذمے داریوں کو بہتر طریقے سے نبھانے کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔