غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت

پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک اس انتظامی‘ عدالتی اور پارلیمانی ڈھانچے میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے

پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک اس انتظامی‘ عدالتی اور پارلیمانی ڈھانچے میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے ۔ فوٹو: فائل

ایک خبر میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان دنیا کے افلاس زدہ 121ممالک کی فہرست میں 99ویں نمبر پر ہے،اس کے ساتھ ساتھ اس رپورٹ میں یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ پاکستان میں سالانہ 4ارب ڈالر کی خوراک ضایع کر دی جاتی یا ہو جاتی ہے۔

وزارت قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے اپنی چشم کشا رپورٹ میں اس کی وجوہات بھی بتا دی ہیں، یقینی طور پر اس رپورٹ پر ارباب اختیار کو غور کرنا چاہیے اور خوراک کے ضیاع کی روک تھام کے لیے اقدامات کرنا چاہئیں۔

بلاشبہ پاکستان دنیا کا ایک غریب ملک ہے لیکن اس غریب ملک میں سالانہ تقریباً بیس ملین ٹن خوراک ضایع ہوناایک المیے سے کم نہیں ہے، ضایع ہونے والی خوراک کا حجم ملکی پیداوار کا تقریبا 26فیصد بنتا ہے،خبر میں اس رپورٹ کے حوالے سے یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ایک پاکستانی گھرانہ اوسطا اپنی ماہانہ آمدن کا 50.8فیصد خوراک پر خرچ کرنے پر مجبور ہے۔

پاکستان میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں بہت زیادہ ہیں' یہی وجہ ہے کہ ایک عام پاکستانی گھرانہ اپنی ماہانہ آمدنی کا آدھے سے زیادہ حصہ صرف خوراک پر خرچ کر دیتا ہے بلکہ موجودہ مہنگائی کی لہر کو دیکھا جائے تو یہ حصہ 70سے 80فیصد بن جاتا ہے۔

وفاقی ادارہ شماریات کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ماہ اپریل کے دوران مہنگائی کی شرح36.4 فیصد رہی ہے جو 964کے بعد سب سے زیادہ ہے،صرف اپریل کے مہینے میں مہنگائی میں 2.41فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا، یوں مہنگائی کی ماہانہ شرح 36.42 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے۔

ایک سال میںآٹاسو فیصد مہنگا ہواہے ،انڈوں کی قیمت میں بھی سو فیصد سے زائد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح ایک گھر میں روزانہ کی بنیاد پر استعمال ہونے والی دیگر اشیا جن میں دودھ' دہی' دالیں 'سبزیاں 'بیکری پراڈکٹس اور ادویات کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔

پاکستان میں خوراک کی کسی نہ کسی شے کا بحران سال بھر رہتا ہے' قیام پاکستان کے بعد سے ہی بیرونی امداد آنا شروع ہو گئی تھی ' امریکا سے گندم پاکستان پہنچی تھی 'اس زمانے کے حساب سے بھی قیمتوں میں خاصا اضافہ ہوا۔ سقوط ڈھاکا کے بعد مہنگائی بڑھنے کی رفتار خاصی تیز ہو گئی لیکن اب یہ رفتار پہلے سے بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے ' اصولی طور پر تو یہاں اناج کا بحران نہیں ہونا چاہیے لیکن یہ دیکھا گیا ہے کہ منصوبہ بندی کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا اورادویات وغیرہ کی قلت پیدکر دی جاتی ہے'یہ ایک تاجرانہ حربہ ہوتا ہے۔

حکومت اس حربے سے نمٹنے میںناکام رہتی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ ٹماٹر ، سبزی ، آٹا اور خاص طور پر چینی کی نایابی معمول بن جاتی ہے پیداواری سطح پر حکومتی ناکامی منڈی کی سطح پر ناقص اقدامات کے باعث اور آڑھتیوں کی ملی بھگت کے نتیجے میں بحران پیدا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں خوراک کے نرخوں میں عوام کو خود ساختہ اور منصوبہ بند اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دیکھا جائے تو منڈی کے محرکات آزاد ہیں اور حکومت ان محرکات پر اقدامات کے ذریعے قابو پانے میں کامیاب نہیں ہوتی، ان حالات میں قیمتوں کو کیونکر اعتدال میں رکھنا ممکن ہوگا۔

مہنگائی کے ان داخلی عوامل کے علاوہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں کے اثرات کے باعث مہنگائی کی پندرہ روزہ اور ماہوار لہر کا ایک تسلسل جاری ہے حکومت آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے توانائی پر عائد ٹیکسوں میں اضافہ کرتی ہے ساتھ ہی ساتھ عالمی سطح پر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

مشکل امر یہ ہے کہ حکومت ٹیکس اور برآمدات سے ریکارڈ آمدنی کے دعوے تو کرتی ہے مگر عوام پر بوجھ ڈالنے کے سوا کوئی اور بہتری نظر نہیں آتی۔

رواں مالی سال کے ابتدائی 10ماہ کے دوران تجارتی خسارہ 40 فیصد کمی ہوئی ہے۔یہ ایک اچھی خبر ہے چلو کسی ایک جگہ تو بہتری آئی۔


ادارہ شماریات کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق جولائی تا اپریل تجارتی خسارے میں 15.6 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے اور درآمدات تین ارب ڈالر کی سطح سے بھی نیچے آگئیں جو پاکستان کی ضروریات کا نصف بنتی ہے، تاہم درآمدات میں کمی کی وجہ سے پاکستان میں دیگر کئی مسائل بھی پیدا ہوئے، ضروری خام مال کی عدم فراہمی کی وجہ سے بہت سی فیکٹریوں کی پیداواری سرگرمیاں متاثر ہوئی ہیں تو وہاں امپورٹرز بھی پریشان ہوئے ہیں۔

ادارہ شماریات کے مطابق جولائی تا اپریل پاکستان نے 46.7 ارب ڈالر کی اشیاء درآمد کیں جو گزشہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں18.6 ارب ڈالر یا 28.4 فیصد کم تھیں۔ درآمدات میں کمی حکومت کے انتظامی اقدامات کی وجہ سے ہوئی، اندازہ ہے کہ درآمدات 55 ارب ڈالر تک رہیں گی۔

درآمدی پالیسی میں سختیوں کی وجہ سے پاکستان کے ریزرو 4.5 ارب ڈالر کی سطح پر برقرار ہیںتاہم افراط زر 36.4 کی شرح پر پہنچ گیا ہے، جو 1964 کے بعد بلند ترین شرح ہے۔ادھر برآمدات میں 11.7 فیصد کی کمی کے ساتھ 23.1 ارب ڈالر رہیں۔

برآمدات کا سالانہ ہدف 38 ارب ڈالر مقرر کیا گیا تھا، لیکن دس ماہ کے دوران صرف 61 فیصد ہی حاصل کیا جاسکا ہے، نظر ثانی شدہ جائزے کے مطابق برآمدات 28 ارب ڈالر سے کم رہنے کا امکان ہے، اگلے مالی سال کے دوران بھی برآمدات میں کسی خاص اضافے کی توقع نہیں ہے ۔

معیشت کو مستحکم رکھنا کوئی آسان کام نہیں ہے ' درآمدات یقینی طور پر زرمبادلہ بیرون ملک منتقل کرتی ہیں جب کہ برآمدات بیرون ملک سے زرمبادلہ لاتی ہیں۔ اس لیے پاکستان کو اپنی برآمدات میں اضافے کے لیے مربوط حکمت عملی بنانے کی ضرورت ہے۔

اس وقت حالت یہ ہے کہ پاکستان میں فلورملز مالکان اپنے مفادات کے لیے سرگرم ہیں جب کہ محکمہ خوراک اور دیگر سرکاری اداروں کے افسران و اہلکار روایتی طریقے پر ہی چل رہے ہیں۔

اس کی وجہ سے کبھی فلور ملیں ہڑتال کی دھمکی دیتی ہیں تو دوسری طرف سرکاری ادارے گندم کی خریداری کا ہدف پورا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ فلورمل مالکان نے نئی گندم کی آمد کے ساتھ ہی قیمتوں میں غیر معمولی اضافے کو سرکاری پکڑ دھکڑ کا نتیجہ قرار دیا ہے۔بہر حال معاملہ کچھ بھی ہو اس لڑائی میں نقصان غریب طبقے کا ہو رہا ہے ۔

پاکستان کے پالیسی سازوں کو ہمہ جہت معاشی پالیسی کی ضرورت ہے۔خوراک کے حوالے سے حکومت کو اپنی پرانی پالیسی پر نظرثانی کرنی کی اشد ضرورت ہے۔

سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کو اتنی شوگر ملز کی ضرورت ہے جتنی کہ اس وقت ملک میں قائم ہیں' اسی طرح کم آبادی والے اضلاع میں زیادہ فلور ملز قائم کرنے کی اجازت دینے کے مقاصد کیا ہیں ؟پاکستان کی نوکر شاہی کو درست خطوط پر چلانے کے لیے نئے قوانین کی ضرورت ہے۔ جس کے ذریعے سرکاری افسروں اور اہلکاروں کے اختیارات اور ان کے غلط استعمال کے درمیان توازن پیدا کیا جا سکے۔

اسی طرح ریاست کے نام پر وجود میں آنے والے تمام اداروں کے سربراہان و افسران کے دائرہ اختیار کا حتمی اور غیر مبہم تعین کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ قوانین میں ابہام ہی وہ بیماری ہے جو پورے نظام کو مفلوج کرنے کا باعث بن چکی ہے۔ اس ابہام کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک ادارے کے دائرہ اختیار حدود سے باہر نکل جاتا ہے۔ اسی طرح ایک ہی طرح کے کئی ادارے قائم ہیں 'اس وجہ سے بھی بے پناہ انتظامی اور ادارہ جاتی مسائل پیدا ہوئے ہیں۔

مثلاً پاکستان میں لوکل باڈیز کا بس صرف نام رہ گیا ہے۔ ان کے پاس جو محکمے تھے 'انھیں اتھارٹیز میں تبدیل کر کے انڈیپیڈنٹ کر دیا گیا ہے۔

کراچی اور لاہور جیسے بڑے شہروں میں بلدیہ عظمیٰ اس لیے بے اثر ہے کہ اس کے دائرہ اختیار میں جو محکمے تھے ' اب وہ نہیں رہے ' کنٹونمنٹ بورڈ الگ ہے 'شہری ترقیاتی ادارے مثلاً کے ڈی اے اور ایل ڈی اے وغیرہ یہ الگ ہیں ' پارکس اینڈ ہارٹیکلچر ایک الگ ادارہ ہے ' پارکنگ ایریاز کوکنٹرول کرنے کے لیے الگ سے پارکنگ کمپنیاں بنا دی گئی ہیں 'شہروں میں چلنے والی موٹر کاروں کی نمبر پلیٹس اور دیگر ٹیکسز کے لیے محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن قائم ہے۔

اب ایسی صورت میں کراچی اور لاہور کی بلدیہ کے پاس کیا ہے جس کے بل بوتے پر وہ اپنی کارکردگی دکھا سکے۔اس حکمت عملی کی وجہ سے سرکاری افسروں اور ملازموں کی تعداد میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے ' ان کی تنخواہوں اور مراعات کا بوجھ سرکاری خزانے پر پڑا ہے جب کہ مسائل عوام کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔

پاکستان میں اوپر سے لے کر نیچے تک اس انتظامی' عدالتی اور پارلیمانی ڈھانچے میں غیر معمولی اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ طاقتور سے طاقتور آئین اور قانون کے دائرے سے باہر نہ نکل سکے۔
Load Next Story