بلوچستان عوام ریاست سے دور
اختلاف رائے کو دبانے کے لیے جبری گمشدگی کے ہتھیار کو استعمال کیا جارہا ہے
انسانی حقوق کی سب سے بڑی غیر سرکاری تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان کی ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ بلوچستان میں جبری گمشدگی، معاشی محرومیوں، آزادی صحافت پر قدغن ، ناقص نظم و نسق اور اسٹیبلشمنٹ پر سیاسی ساز باز کے الزامات کی بناء پر بلوچستان کے عوام میں غصہ پایا جاتا ہے۔
ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کے سرگرم کارکن حسین نقی اور ایچ آر سی پی بلوچستان کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ پر مشتمل تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ بعض سیاسی کارکنوں نے ایچ آر سی پی کی اس ٹیم کوکہا کہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ نہیں بلکہ نو آبادی بن گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی بلوچستان کے حقائق پر مشتمل 27 سے زیادہ صفحات میں صورتحال کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ٹیم نے بلوچستان کا اپریل کے مہینہ میں بہت تفصیلی دورہ کیا اور سول سوسائٹی کے اراکین، انسانی حقوق کے رضا کاروں، وکلائ، صحافیوں اور ماہی گیر برادری کے ارکان کے ساتھ گوادر، تربت، پنجگور اور کوئٹہ میں سیاسی رہنماؤں اور انتظامیہ کے اہلکاروں سے انٹرویو کیے تھے۔
اس رپورٹ میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے جبری گمشدگی کے ہتھیار کو استعمال کیا جارہا ہے، لیویز چوکیوں کا دائرہ غیر ضروری حد تک وسیع ہے، ان چیک پوسٹوں سے مقامی آبادی میں فریسٹریشن کی فضاء کو تقویت ملتی ہے۔
خصوصاً مکران میں سنگین معاشی بد حالی کے دوران وسائل سے مالامال ترقیاتی منصوبوں سے حاصل کرنے والی آمدنی میں سے اپنے منصفانہ حصہ سے محروم ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کا تجزیہ ہے کہ بلوچستان اور پڑوسی ممالک کے درمیان صحت مند، قانونی، تجارتی، ماحولیاتی نظام کی عدم موجودگی نے صوبہ میں غربت کی سطح میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبہ کے ذرایع ابلاغ سے منسلک افراد کی سلامتی اور تحفظ کے لیے بلوچستان اسمبلی کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ گوادر کی حق دو تحریک کے دیرینہ مطالبات کو منظور ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ سی پیک اور مستقبل کے دیگر ترقیاتی منصوبوں سے گوادر کی ماہی گیر برادری کا ذریعہ معاش متاثر نہ ہو۔
اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سیاسی فریقین کو پشتو آبادی کے بعض علاقوں کی صوبائی اسمبلی میں نمایندگی کے حوالے سے شکایات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں سیلاب کے تباہ کن اثرات کے پیش ِ نظر مستقل اور با اختیار مقامی حکومت ازحد ضروری ہے ۔
ایچ آر سی پی کی ٹیم نے اپنے دورہ بلوچستان کے مشاہدات تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایچ آر سی پی کی ٹیم کو گوادر سے تربت جانے کے لیے تقریباً 35 کے قریب چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑا۔ ٹیم نے گوادر اور تربت کے لوگوں کے جب حالات کے بارے میں پوچھا تو کئی سیاسی کارکنوں نے کہا کہ '' ان چیک پوسٹوں کے طریقہ کار سے عام آدمی میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے اور نوجوانوں میں نفرت اور تشدد کے رجحانات تقویت پاتے ہیں۔''
جب گزشتہ سال گوادر میں حق دو تحریک شروع ہوئی اور اس تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن نے وفاقی وزراء سے مذاکرات کیے تو محض چند چیک پوسٹیں ختم کی گئیں۔
اس رپورٹ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بلوچستان کی بلوچ خواتین میں شعور اور حقوق کی جدوجہد میں ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ دسمبر 2021 میں گوادر میں 2 ہزار خواتین ایک انتخابی مہم کے لیے جمع ہوئیں۔
ان خواتین میں بعض کی عمریں 15 سال تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ گوادر کے مکینوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی، بجلی اور گیس فراہم کی جائے، شہریوں کے آنے جانے کے حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں جو شہریوں کو ان کے اس حق سے محروم کر رہی ہیں۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ بحیرہ عرب میں بڑے ٹرالرز پر مچھلی پکڑنے پر پابندی لگائی جائے اور گوادر کے ماہی گیرو ں کو مچھلی پکڑنے کے تمام تر مواقع فراہم کیے جائیں۔
اگرچہ بلوچ خواتین عرصہ دراز سے مختلف مزاحمتی تحریکوں میں حصہ لیتی رہی ہیں مگر کوئٹہ میں ہونے والے عورت مارچ میں بلوچ خواتین بھاری تعداد میں شرکت کرتی ہیں۔
بلوچ طلبہ کی تنظیموں میں خواتین کا ایک مؤثر کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج میں بلوچ خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ ایک بلوچ نوجوان ڈاکٹر ماہین بلوچ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں، ان کے والد 2009میں لاپتہ ہوئے تھے۔
دو سال قبل ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ماہین بلوچ اور ایک اور ایکٹیوسٹ سیما بتول نے ایچ آر سی پی کی ٹیم کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' بلوچ معاشرہ کے پدر سری نظام کی جڑیں انتہائی گہری ہیں مگر اب بلوچ خواتین جبری گمشدگی ، جنسی ہراسانی، جنسی تشدد، زبردستی شادی اور بچپن کی شادی جیسی برائیوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔'' ماہین بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچ خواتین نے فرسودہ روایات کو توڑتے ہوئے مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیما بتول کا بیانیہ ہے کہ بلوچ کلچر میں روایتی مذہبی پابندیوں مثلاً پردہ وغیرہ کا اثر نہیں تھا۔ اسی طرح جہیز اور دیگر ناروا پابندیاں بھی خواتین پر عائد نہیں ہوتی تھیں۔ بلوچ خواتین کو جائیداد کا حق حاصل تھا ۔ Post Urbanization کے دور میں بلوچستان میں ''ملا ازم'' کے اثرات بڑھتے ہی یہ روایتیں مخدوش ہوئیں۔ بتول کا بیانیہ ہے کہ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ بلوچ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں حصہ لیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ کوئٹہ میں ڈاکٹروں اور گوادر میں مزدوروں کے احتجاج میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر ماہین بلوچ اور سیما بتول نے اپنے خیالات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہونے والے طلبہ تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن سے بلوچ نوجوانوں میں مضبوط سیاسی شعور کے ارتقاء کا عمل رکاوٹ کا شکار ہوا ہے۔
ان خواتین نے اپنے ان دلائل کو وسعت دیتے ہوئے کوئٹہ کی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں عائد پابندیوں کا ذکر کیا ہے۔ اب اس خواتین کی یونیورسٹی میں کسی سیاسی موضوع پر بحث و مباحثہ کی مجلس کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان خواتین نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ بلوچستان میں جاری بدامنی نے صوبہ میں بنیادی حقوق کا معاملہ پسِ پشت چلا گیا ہے۔
ان خواتین نے بتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندانوں کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ ایف آئی آر واپس لیں اور احتجاج کا سلسلہ ختم کریں۔ ان خواتین کو یہ بھی شکوہ ہے کہ قومی ذرایع ابلاغ پر بلوچستان کے اتنے اہم مسائل کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ انتہا پسندی اور مذہبی عناصر کے بغیر کسی رکاوٹ کے انفلینس کی بناء پر سول سوسائٹی کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی قیادت میں متحرک نیشنل پارٹی کے ایک کارکن نے تربت میں ایچ آر سی پی کی ٹیم کو بتایا کہ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی ہے اور صرف بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
سول سوسائٹی کے کئی اور فعال کارکنوں نے بتایا کہ بلوچ طلبہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں پہلے ہی محفوظ نہیں تھے بلکہ اسلام آباد، پنجاب اور کراچی کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے اور ان میں سے کچھ کے لاپتہ ہونے کی مصدقہ اطلاعات عام ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سردار اختر مینگل کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی تفصیلی رپورٹ معزز عدالت میں جمع کرادی تھی۔ جسٹس اطہر من اﷲ کو سپریم کورٹ کا جج مقررکیا گیا۔
یہ رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ ایچ آر سی پی کی ٹیم نے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، وکلائ، صحافیوں، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے اراکین کے انٹرویو کیے۔ ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ بلوچستان کے عوام ریاست سے دور ہو رہے ہیں اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔
ایچ آر سی پی کی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی سینئر صحافی اور انسانی حقوق کی تحریک کے سرگرم کارکن حسین نقی اور ایچ آر سی پی بلوچستان کے وائس چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ پر مشتمل تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان میں ریاست اور عوام کے درمیان فاصلے اتنے بڑھ گئے ہیں کہ بعض سیاسی کارکنوں نے ایچ آر سی پی کی اس ٹیم کوکہا کہ بلوچستان پاکستان کا صوبہ نہیں بلکہ نو آبادی بن گیا ہے۔
ایچ آر سی پی کی بلوچستان کے حقائق پر مشتمل 27 سے زیادہ صفحات میں صورتحال کا انتہائی گہرائی سے جائزہ لیا گیا ہے۔ اس ٹیم نے بلوچستان کا اپریل کے مہینہ میں بہت تفصیلی دورہ کیا اور سول سوسائٹی کے اراکین، انسانی حقوق کے رضا کاروں، وکلائ، صحافیوں اور ماہی گیر برادری کے ارکان کے ساتھ گوادر، تربت، پنجگور اور کوئٹہ میں سیاسی رہنماؤں اور انتظامیہ کے اہلکاروں سے انٹرویو کیے تھے۔
اس رپورٹ میں اس امر پر تشویش کا اظہار کیا گیا کہ اختلاف رائے کو دبانے کے لیے جبری گمشدگی کے ہتھیار کو استعمال کیا جارہا ہے، لیویز چوکیوں کا دائرہ غیر ضروری حد تک وسیع ہے، ان چیک پوسٹوں سے مقامی آبادی میں فریسٹریشن کی فضاء کو تقویت ملتی ہے۔
خصوصاً مکران میں سنگین معاشی بد حالی کے دوران وسائل سے مالامال ترقیاتی منصوبوں سے حاصل کرنے والی آمدنی میں سے اپنے منصفانہ حصہ سے محروم ہے۔ رپورٹ کے مصنفین کا تجزیہ ہے کہ بلوچستان اور پڑوسی ممالک کے درمیان صحت مند، قانونی، تجارتی، ماحولیاتی نظام کی عدم موجودگی نے صوبہ میں غربت کی سطح میں اضافہ کیا ہے۔
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ صوبہ کے ذرایع ابلاغ سے منسلک افراد کی سلامتی اور تحفظ کے لیے بلوچستان اسمبلی کو قانون سازی کرنی چاہیے۔ یہ ضروری ہے کہ گوادر کی حق دو تحریک کے دیرینہ مطالبات کو منظور ہونا چاہیے۔ یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ سی پیک اور مستقبل کے دیگر ترقیاتی منصوبوں سے گوادر کی ماہی گیر برادری کا ذریعہ معاش متاثر نہ ہو۔
اس رپورٹ میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ سیاسی فریقین کو پشتو آبادی کے بعض علاقوں کی صوبائی اسمبلی میں نمایندگی کے حوالے سے شکایات کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے۔ رپورٹ میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ بلوچستان کے بعض علاقوں میں سیلاب کے تباہ کن اثرات کے پیش ِ نظر مستقل اور با اختیار مقامی حکومت ازحد ضروری ہے ۔
ایچ آر سی پی کی ٹیم نے اپنے دورہ بلوچستان کے مشاہدات تحریر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایچ آر سی پی کی ٹیم کو گوادر سے تربت جانے کے لیے تقریباً 35 کے قریب چیک پوسٹوں سے گزرنا پڑا۔ ٹیم نے گوادر اور تربت کے لوگوں کے جب حالات کے بارے میں پوچھا تو کئی سیاسی کارکنوں نے کہا کہ '' ان چیک پوسٹوں کے طریقہ کار سے عام آدمی میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے اور نوجوانوں میں نفرت اور تشدد کے رجحانات تقویت پاتے ہیں۔''
جب گزشتہ سال گوادر میں حق دو تحریک شروع ہوئی اور اس تحریک کے قائد مولانا ہدایت الرحمن نے وفاقی وزراء سے مذاکرات کیے تو محض چند چیک پوسٹیں ختم کی گئیں۔
اس رپورٹ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ بلوچستان کی بلوچ خواتین میں شعور اور حقوق کی جدوجہد میں ان کے کردار کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مصنفین نے لکھا ہے کہ دسمبر 2021 میں گوادر میں 2 ہزار خواتین ایک انتخابی مہم کے لیے جمع ہوئیں۔
ان خواتین میں بعض کی عمریں 15 سال تھیں۔ ان کا مطالبہ تھا کہ گوادر کے مکینوں کو بغیر کسی رکاوٹ کے پانی، بجلی اور گیس فراہم کی جائے، شہریوں کے آنے جانے کے حق کو تسلیم کیا جائے اور وہ تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں جو شہریوں کو ان کے اس حق سے محروم کر رہی ہیں۔ ایک مطالبہ یہ تھا کہ بحیرہ عرب میں بڑے ٹرالرز پر مچھلی پکڑنے پر پابندی لگائی جائے اور گوادر کے ماہی گیرو ں کو مچھلی پکڑنے کے تمام تر مواقع فراہم کیے جائیں۔
اگرچہ بلوچ خواتین عرصہ دراز سے مختلف مزاحمتی تحریکوں میں حصہ لیتی رہی ہیں مگر کوئٹہ میں ہونے والے عورت مارچ میں بلوچ خواتین بھاری تعداد میں شرکت کرتی ہیں۔
بلوچ طلبہ کی تنظیموں میں خواتین کا ایک مؤثر کردار ابھر کر سامنے آیا ہے۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جبری گمشدگی کے خلاف احتجاج میں بلوچ خواتین کا اہم کردار رہا ہے۔ ایک بلوچ نوجوان ڈاکٹر ماہین بلوچ گزشتہ کئی برسوں سے اپنے والد کی بازیابی کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں، ان کے والد 2009میں لاپتہ ہوئے تھے۔
دو سال قبل ان کی مسخ شدہ لاش برآمد ہوئی تھی۔ ڈاکٹر ماہین بلوچ اور ایک اور ایکٹیوسٹ سیما بتول نے ایچ آر سی پی کی ٹیم کے سامنے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ '' بلوچ معاشرہ کے پدر سری نظام کی جڑیں انتہائی گہری ہیں مگر اب بلوچ خواتین جبری گمشدگی ، جنسی ہراسانی، جنسی تشدد، زبردستی شادی اور بچپن کی شادی جیسی برائیوں کے خلاف مزاحمت کر رہی ہیں۔'' ماہین بلوچ کا کہنا ہے کہ بلوچ خواتین نے فرسودہ روایات کو توڑتے ہوئے مزاحمتی تحریک کو منظم کرنے کی کوشش کی ہے۔
سیما بتول کا بیانیہ ہے کہ بلوچ کلچر میں روایتی مذہبی پابندیوں مثلاً پردہ وغیرہ کا اثر نہیں تھا۔ اسی طرح جہیز اور دیگر ناروا پابندیاں بھی خواتین پر عائد نہیں ہوتی تھیں۔ بلوچ خواتین کو جائیداد کا حق حاصل تھا ۔ Post Urbanization کے دور میں بلوچستان میں ''ملا ازم'' کے اثرات بڑھتے ہی یہ روایتیں مخدوش ہوئیں۔ بتول کا بیانیہ ہے کہ اس صورتحال میں ضروری ہے کہ بلوچ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ جدوجہد میں حصہ لیں۔ ان کا مشاہدہ ہے کہ کوئٹہ میں ڈاکٹروں اور گوادر میں مزدوروں کے احتجاج میں خواتین نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔
ڈاکٹر ماہین بلوچ اور سیما بتول نے اپنے خیالات کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ تعلیمی اداروں میں ہونے والے طلبہ تنظیموں کے خلاف کریک ڈاؤن سے بلوچ نوجوانوں میں مضبوط سیاسی شعور کے ارتقاء کا عمل رکاوٹ کا شکار ہوا ہے۔
ان خواتین نے اپنے ان دلائل کو وسعت دیتے ہوئے کوئٹہ کی سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی میں عائد پابندیوں کا ذکر کیا ہے۔ اب اس خواتین کی یونیورسٹی میں کسی سیاسی موضوع پر بحث و مباحثہ کی مجلس کے انعقاد پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ ان خواتین نے اس خیال کا بھی اظہار کیا کہ بلوچستان میں جاری بدامنی نے صوبہ میں بنیادی حقوق کا معاملہ پسِ پشت چلا گیا ہے۔
ان خواتین نے بتایا کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کے خاندانوں کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے کہ وہ ایف آئی آر واپس لیں اور احتجاج کا سلسلہ ختم کریں۔ ان خواتین کو یہ بھی شکوہ ہے کہ قومی ذرایع ابلاغ پر بلوچستان کے اتنے اہم مسائل کو اجاگر نہیں کیا جاتا۔ انتہا پسندی اور مذہبی عناصر کے بغیر کسی رکاوٹ کے انفلینس کی بناء پر سول سوسائٹی کے لیے زمین تنگ ہورہی ہے۔
بلوچستان کے سابق وزیر اعلیٰ ڈاکٹر مالک بلوچ کی قیادت میں متحرک نیشنل پارٹی کے ایک کارکن نے تربت میں ایچ آر سی پی کی ٹیم کو بتایا کہ سیاسی کارکنوں کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ بنیادی طور پر سیاسی ہے اور صرف بات چیت سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔
سول سوسائٹی کے کئی اور فعال کارکنوں نے بتایا کہ بلوچ طلبہ بلوچستان کی یونیورسٹیوں میں پہلے ہی محفوظ نہیں تھے بلکہ اسلام آباد، پنجاب اور کراچی کی یونیورسٹیوں میں زیرِ تعلیم بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے اور ان میں سے کچھ کے لاپتہ ہونے کی مصدقہ اطلاعات عام ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اطہر من اﷲ نے اسلام آباد میں بلوچ طلبہ کو ہراساں کرنے کے واقعات کی تحقیقات کے لیے سردار اختر مینگل کی قیادت میں ایک کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن نے اپنی تفصیلی رپورٹ معزز عدالت میں جمع کرادی تھی۔ جسٹس اطہر من اﷲ کو سپریم کورٹ کا جج مقررکیا گیا۔
یہ رپورٹ عدالتی ریکارڈ کا حصہ بن گئی۔ ایچ آر سی پی کی ٹیم نے بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں، وکلائ، صحافیوں، اساتذہ اور سول سوسائٹی کے اراکین کے انٹرویو کیے۔ ان سب کی متفقہ رائے ہے کہ بلوچستان کے عوام ریاست سے دور ہو رہے ہیں اور یہ انتہائی خطرناک بات ہے۔