جرائم اور مہنگائی میں نمبرون…کراچی
کراچی ملک کو ہی نہیں چلا رہا بلکہ یہاں آئے ہوئے ملک بھر کے باشندوں کو بھی پال رہا ہے
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی غالباً دنیا کا واحد شہر بن گیا ہے جو کرپٹ سرکاری اہلکاروں، منافع خور تاجروں اور راہزنوں کے ہاتھوں بے دردی سے لٹ رہا ہے اور کسی کو کوئی فکر نہیں ہے، سندھ حکومت اسی خوشی میں مگن ہے کہ سب سے آگے سندھ۔ کراچی سندھ کا دارالحکومت ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان کا چہرہ ہے۔
کراچی ملک کو ہی نہیں چلا رہا بلکہ یہاں آئے ہوئے ملک بھر کے باشندوں کو بھی پال رہا ہے۔کرپٹ سرکاری ملازمین،ٹیکس چور سرمایہ دار اور تاجر کراچی کے شہریوں کو لوٹنے میں پیچھے نہیں، ڈاکواور رہزن الگ لوٹ رہے ہیں بلکہ ان سب میں زیادہ سے زیادہ لوٹ لینے کا بھرپور مقابلہ بھی جاری ہے۔
بلاشبہ سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں نمایاں کام کیے بھی ہیں لیکن کراچی میں سرکاری اداروں کے اہلکاروں کی کرپشن، کام چوری نے امن وامان کو بگاڑا ہے۔
حکومتی اداروں میں خصوصاً پولیس، کراچی میں بسیرا کیے ہوئے چور ڈاکو اور ناجائز منافع خور قانون کی گرفت سے آزاد ہیں، اسی لیے چوری، ڈکیتی، رشوت ستانی اور ناجائز منافع خوری میں کراچی سب سے آگے ہے۔
لاقانونیت ، اسٹریٹ کرائمز ، سرکاری اداروں کے اہکاروں کی کام چوری اور نکما پن اور تاجروں کی لوٹ کھسوٹ میں کراچی ملک بھر میں سب سے آگے نکل چکا ہے۔
کراچی انتظامیہ نے رمضان المبارک میں گراں فروشی کا ریکارڈ بنایا گیا، میڈیا نے ڈیری مافیا پر جرمانوں کا نام آخر میں دیا حالانکہ کراچی ملک میں سب سے مہنگا دودھ اور دہی فروخت کرنے کا ریکارڈ قائم کردیا گیا ہے مگر ان کی چیکنگ کم اور مہنگا دودھ فروخت کرنے والوں پر جرمانے کم اور نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ کراچی انتظامیہ کے ذمے داروں کو گھر بیٹھے مفت میں معیاری دودھ مل جاتا ہے۔
کراچی انتظامیہ کا کمال ہے کہ وہ رمضان کے پچیسویں روز 78 گراں فروشوں کے خلاف کارروائی کرتی ہے اور صرف 8 گراں فروشوں کو جیل بھیجتی ہے اور باقی سے لاکھوں روپے جرمانہ وصول کرکے سرکاری آمدنی بڑھا لیتی ہے اور جیل بھیجے جانے والوں میں کوئی دودھ فروش شامل نہیں۔
گراں فروشوں میں ہول سیل مارکیٹ کا تو انتظامیہ نے رخ کیا نہ سبزی و فروٹ منڈی میں جا کر دیکھا کہ وہاں قیمتیں کم مگر ریٹیل میں منڈی سے ڈبل سے بھی زیادہ نرخ کیوں وصول کیے جا رہے ہیں اور عام بازاروں، پتھاروں اور ریڑھیوں پر سبزی پھل فروخت کرنے والوں کے پاس سرکاری نرخوں کی تفصیل ہے نہ انھیں کوئی پوچھنے والا ہے رہی پولیس تو اس کا کام رمضان میں ان سے مفت افطاری اور عیدی وصول کرنے میں مصروف رہتی ہے۔
کراچی میں دودھ دہی کے نرخ جہاں ملک بھر میں سب سے زیادہ ہیں وہاں دکانوں پر بینر لگا کر دودھ اور دہی ڈیڑھ سو روپے سے دو سو روپے لیٹر اور کلو فروخت ہوتی ہے اور کراچی انتظامیہ ان سے نہیں پوچھتی کہ وہ ڈیڑھ سو سے دو سو بیس روپے لیٹر تک جو سفید چیز بیچ رہے ہیں۔
ان میں دودھ خالص ہے یا کیمیکل والا مضر صحت لیکیوڈ، کیونکہ ہر سفید چیز دودھ نہیں ہو سکتی جو مختلف نرخوں پر فروخت ہو رہی ہے، اس میں برف اور پانی کی مقدار چیک کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں۔
مسالہ جات، گھی، آئل بھی مختلف نرخوں پر فروخت ہو رہے ہیں جن کے پیکٹ اور ساشے مہنگے ہیں جب کہ یہ اشیا کھلی بھی عام فروخت ہو رہی ہیں جن کے معیار کا کچھ پتا نہیں کیونکہ مسالوں میں کیا کچھ ملایا جا رہا ہے سب کو پتا ہے اور گھی اور آئل کیسے بن کر کم قیمت پر فروخت ہوتا ہے یہ بھی کھانے والے جانتے ہیں مگر سرکاری اداروں کو پتا نہیں۔ اشیا مہنگی اور ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو کوئی نہیں پوچھتا کہ وہ عوام کو لوٹنے کے علاوہ زہر کیوں کھلا رہے ہیں۔
پھلوں میں تیز رنگ اور مصنوعی مٹھاس سے بھی عوام واقف ہے مگر دوران گرانی میں مضر صحت اشیا سستی خریدنے پر مجبور ہیں کیونکہ ڈاکٹروں کے کلینک بھی چلتے ہیں۔
خالص دوائیں بنانے میں حکومتی اقدامات رکاوٹ ہیں تو دو نمبر کیا تین نمبر مضر صحت دوائیں مجبوری میں لوگ خرید رہے ہیں اور کھلے عام لوگوں کی جانوں سے کھیلا جا رہا ہے۔
عطائیوں کا مذموم کاروبار بھی جاری ہے اور محکمہ صحت صرف بھتہ وصولی میں مصروف رہتا ہے۔ مردہ اور بیمار جانوروں کا مضر صحت گوشت اور مرغیاں سستے داموں مل جاتی ہیں اور لوگ خرید بھی رہے ہیں۔چینی کی مہنگی فروخت کا نیا ریکارڈ قائم ہو گیا ہے، آٹے کے نام پر کیا فروخت ہو رہا ہے کسی کو فکر نہیں، سب مزے میں ہیں کیونکہ جب حکومتیں ہی خاموش ہوں تو یہ گراں فروش کیسے باز آ سکتے ہیں۔
کراچی ہر قسم کی ملاوٹ، گراں فروشی کا شکار اور ہر قسم کے جرائم کرنے والوں کے لیے سب سے محفوظ شہر ہے۔ پنجاب کی فوڈ اتھارٹی انتہائی چوکس اور سندھ فوڈ اتھارٹی خواب خرگوش کے مزے لے رہی ہے۔
گراں فروشوں کے خلاف کراچی انتظامیہ کی دکھاؤے کی مہم ہمیشہ عارضی ثابت ہوتی ہے البتہ سرکاری خزانہ جرمانوں سے بڑھ جاتا ہے۔ جرمانوں سے عوام کو نہیں حکومت کو فائدہ ہوتا ہے اور گراں فروش نرخ مزید بڑھا دیتے ہیں۔ سب سے بڑا اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ مجرموں پر گرفت کرنے والا کوئی نہیں اور نہ ہی حکومت ان کے خلاف کچھ کرنا چاہتی ہے۔