اس سال سوا 6 لاکھ سائیبیرین پرندوں نے کراچی سمیت سندھ ہجرت کی

غیرمعمولی بارشوں اورسیلاب سے روایتی جھیلوں کے علاوہ بارش سے بنی عارضی آب گاہوں پربھی مہمان پرندوں نے بسیراکیا

سائبیریائی پرندوں کا قیام4 ماہ،مارچ کے آغازپر آبائی علاقوںکی جانب رخ کرتے ہیں،محکمہ تحفظ جنگلی حیات ۔ فوٹو : فائل

کراچی سمیت دیہی سندھ کے اضلاع میں سال 2022 اور2023 کے دوران سائبیریا کے انتہائی سرد علاقوں سے نقل مکانی کرکے آنے والے پرندوں کی تعداد 6 لاکھ 13ہزار851 ریکارڈ ہوئی۔

غیرمعمولی مون سون بارشوں اورسیلابی صورتحال میں روایتی جھیلوں کے علاوہ بارش کے پانی سے بننے والی عارضی آب گاہوں پربھی مہمان پرندوں نے بسیراکیا، دیہی سندھ کے بیشتر اضلاع میں پرندے روایتی آب گاہوں اور بارش کے جمع پانی کے عارضی ذخائر میں تقسیم ہوئے۔

ڈپٹی سینچوری وارڈن محکمہ جنگلی حیات سندھ رشید احمد خان نے 2022 اور 2023 کی پرندہ شماری کی رپورٹ جاری کردی جس کے مطابق رواں سال کراچی سمیت سندھ بھرمیں 6لاکھ 13ہزار 851 کے لگ بھگ پرندے رپورٹ ہوئے،سال 2021 میں6 لاکھ 61 ہزار537 پرندے جھیلوں اورآب گاہوں پررپورٹ ہوئے تھے۔

پرندہ شماری کا عمل لگ بھگ ایک ماہ تک جاری رہا، محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ایڈمن ممتاز سومرو کے مطابق کراچی سمیت سندھ بھر کی آب گاہوں پر ہر سال گلابی ہنس، نیل ہنس،چینا بطخ، پیلکن، چیکلا، ڈگوش، آڑی، قاز،کرینزکی بڑی تعدادبسیرا کرتے ہیں۔

ہرسال نومبرکے اوائل اوروسط میں سردترین مقامات سے ان پرندوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے،یہ قیام 4 ماہ پرمحیط ہوتاہے،مارچ کے آغاز میں یہ واپس اپنے آبائی علاقوں کی جانب رخت سفرباندھتے ہیں۔

شدیدبارش سے بنی عارضی جھیلوں سے پرندے تقسیم ہوئے

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ڈپٹی سینچوری وارڈن رشید احمد خان کے مطابق پرندہ شماری کے لیے کراچی میں سپر ٹیم جبکہ سندھ کے دیگراضلاع میں وہاں کے حجم کے مطابق دیگر ٹیمیں تشکیل دی گئیں ان کا کہنا ہے کہ پرندوں میں کی تعداد میں کمی حالیہ مون سون کی بارشیں ہیں۔

ماضی میں سندھ کی 30کے لگ بھگ جھیلوں اوردیگر آب گاہوں کی پرندہ شماری کی جاتی رہی جن میں لنگھ جھیل، ڈرگ جھیل، حمل جھیل، کرش جھیل، اچ جھیل،چاری جھیل، ونگائی کنڈی، ہندرو جھیل، کیجھر جھیل، فوسٹا جھیلیں جبکہ دراوت ڈیم، ران پورڈیم، سابوسن ڈیم، رن آف کچ اور کراچی کے رشین بیچ، پورٹ قاسم اورحب ڈیم صوفی انور شاہ پارک شامل ہیں۔

ان کاکہنا ہے کہ رواں سال بارشوں کی وجہ سے جگہ جگہ سیکڑوں کی تعداد میں جھیلیں بنی، عارضی واٹر باڈیز کی وجہ سے پرندے تقسیم ہوئے۔


بارش کے سبب بیشتر پانی کے ذخیرے پہاڑوں اوردشوار گزار راستوں میں بنے، پرندہ شماری ٹیموں کی ان مقامات تک رسائی کے سبب انھیں سینسز میں شامل نہیں کیا گیا اس وجہ سے یہ گمان ہے کہ مہمان پرندوں کی آمد مذکورہ تعداد سے زیادہ ہے۔

سائبیرین پرندوں کی خوراک مچھلی گھاس،پودے اورچاول ہوتی ہے

سائبیریا سے ہجرت کرکے آنے والے مہمان پرندوں میں پیلکن پرندے مچھلی کھاتے ہیں مگر دیگر آبی پرندوں کی خوراک پانی میں اگنے والی گھاس اورکچھ مختلف اقسام کے پودے ہیں جبکہ چاول کی فصل کٹنے کے بعد یہ پرندے چاول کھانے ان کھیتوں میں اترتے ہیں۔

سردعلاقوں میں پرندوں کی خوراک پر برف کی تہہ جمنے پرپرندے ہجرت پر مجبور ہوجاتے ہیں

سائبیریا سے ان نایاب پرندوں ن کی دیگرممالک کی جانب ہجرت کا پس منظریہ ہے کہ دنیا کے سردترین مقامات پران مہمان پرندوں کی خوراک پر برف کی گہری تہہ جم جاتی ہے جس کے بعد یہ خوراک کی تلاش میں دنیا کے معتدل خطوں کا رخ کرتے ہیں جن میں پاکستان بھی شامل ہے ان پرندوں میں پانی اورخشکی دونوں طرح کے پرندے شامل ہیں۔

کراچی، بدین، ننگرپارکر کی 100 سے زائد جھیلوں،آب گاہوں،کھارے اورمیٹھے پانی کے ذخائر پر یہ پرندے قیام کرتے ہیں جن میں کراچی کا ساحل سمندر،ہاکس بے، سینڈزپٹ، پیراڈائز پوائنٹ رشین بیچ جبکہ دیہی سندھ کی کینجھر،ہالے جھیل،صوفی انور پارک سمیت دیگرمقامات شامل ہیں۔

پرندہ شماری کاآزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ ہے

محکمہ تحفظ جنگلی حیات کے ڈپٹی سینچوری وارڈن رشید احمد خان کے مطابق پرندہ شماری کا آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ ہے، پرندوں کو شمار کرنے کے لیے روایتی طریقوں کے علاوہ عصرحاضر کے جدید طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں جن میں سب سے آزمودہ طریقہ اسپاٹنگ اسکوپ کے دوران بلاک میتھڈ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پرندہ شماری کے دوران کسی بھی آب گاہ کے قرب جوارمیں لکڑی کا ایک چوکورفریم بنادیا جاتا ہے جس کے ساتھ اسپاٹنگ اسکوپ سمیت دیگر آلات نصب کردیے جاتے ہیں اس لکڑی کے فریم میں جو بھی پرندے بیٹھ جاتے ہیں،ان کی تعداد کو گنا جاتا ہے،یہی عمل چندکلومیٹرکے فاصلے پر بار باردہرایا جاتا ہے اور اس تعداد کو بتدریج پرندہ شمار کے بعد رپورٹ کی شکل میں مرتب کیا جاتا ہے، پرندہ شماری کا یہ سلسلہ سال 1972 سے جاری ہے۔
Load Next Story