اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت

ایک دن نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی با اعتماد ہوگیا

gfhlb169@gmail.com

جنوری 1979 میں مری میں محکمہ جاتی تربیت کے لیے پہنچے تو بہت سخت سردی تھی۔برفباری کا سیزن شروع ہو چکا تھا۔ مری میں سی ایس ایس کر کے آنے والے ایک اور آفیسربھی زیرِ تربیت تھے۔

اگر موسم اجازت دیتا تو ہم دونوں بعد دوپہر مال روڈ پر واقع ایک ہوٹل میں اکٹھے ہو جاتے،کچھ دیر بیٹھتے،چائے پی جاتی اور پھر واپس۔ مال روڈ مری پر چرچ کے سامنے کتابوں کی سب سے بڑی دکان کے مالک خاصے پڑھے لکھے شخص تھے۔انھوں نے بھی وہاںآ کر ہمارے ساتھ بیٹھنا شروع کر دیا اور چند دن بعد ان کے ساتھ ایک اور صاحب آنے لگے۔ مال روڈ پر ان کی الیکٹرانک شاپ تھی۔

انگریزی میں ماسٹرز کر رکھا تھا۔ گفتگو بہت اچھی کرتے تھے۔ چند دن اسی طرح ملنا ملانا رہا لیکن کسی نے بھی انھیں ان کے اصلی نام سے نہ پکارا۔ہر کوئی ان کو خدا والا صاحب ہی کہہ کر مخاطب کرتا تھا جو مجھے بہت عجیب لگا۔ایک دن میں ہوٹل پہنچا تو باقی ساتھی ابھی نہیں آئے تھے۔کوئی پانچ منٹ انتظار کے بعد خدا والا صاحب پہنچ گئے۔

چونکہ اب ہم دونوں تھے اس لیے موقع مناسب جان کر میں نے ان سے پوچھ لیا کہ یہ نام کی کیا کہانی ہے۔ انھوں نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے کہ میں تو یہ ہرگز نہیں چاہتا کہ کوئی مجھے اس نام سے پکارے لیکن اب ہر ایک کی زبان پر یہی ہے اور اس سے مفر نہیں، تو قصہ یوں ہے کہ میں نے 1964میں لاہور سے بی اے اور پھر انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔واپس آ کر پہلے گورنمنٹ کالج راولپنڈی اور کوئی ایک سال بعد تبادلہ کروا کے مری میں انگریزی کا لیکچرر ہو گیا۔ اپنا شہر تھا۔

مکان اپنا تھا۔ کھانے پینے کا کوئی خرچہ نہیں تھا۔ کالج سے دوپہر کو فارغ ہو کر پچھلے پہر کچھ لوگوں کے ساتھ مری مونسپل لائبریری کے سامنے چھوٹے سے باغ میں محفل جمانی شروع کر دی۔ میں نے محسوس کیا کہ لوگ میری باتوں کو پسند کرتے ہیں۔انگریزی ،یونانی ، اورلاطینی ادب میں شدھ بدھ کی وجہ سے میری باتیں شاید عالمانہ لگتی تھیں۔میرا حلقہ احباب بڑھنے لگا تو میں نے اپنے ہاں یہ محفل جمانی شروع کر دی۔

میں نے صوفیائے کرام کے قصے بیان کرنے شرع کر دیے۔ صوفیائے کرام کے قصوں اور کرامات سے متاثر ہو کر لوگوں نے مجھے بھی ولی اﷲ سمجھنا شروع کر دیا۔لوگ میرے ہاتھ چومنے اور پاؤں چھونے لگے۔پھر ایک دن میںنے کچھ تمہیدی باتوں کے بعد کہا کہ مجھے کشف ہوتا ہے اور میں ولی اﷲ کے مقام پر فائز کر دیا گیا ہوں۔


میرے حاضرین کی تعداد بڑھ گئی تھی۔ ایک دن نہ جانے مجھے کیا ہوا کہ میں کچھ زیادہ ہی با اعتماد ہوگیا۔ میں نے زور دے کر کہا کہ اب تک میں نے اپنی اصل حقیقت پر پردہ ڈالے رکھا ہے۔ دراصل انسانی روپ میں، میں ایک فرشتہ ہوں۔ میرے سامنے بیٹھے لوگوں میں سے ایک آدمی اٹھا، اس نے کرسی اُٹھائی اور اس سے پہلے کہ میں سنبھلتا، میرے سر پر دے ماری۔میں شدید زخمی ہو گیا۔

لوگوں نے اُٹھا کر سی ایم ایچ پہنچایا ہو گا۔مجھے تو کوئی ہوش نہیں تھا۔جب مجھے ہوش آیا تو میں اسپتال میں تھا۔ایک آدمی نے میرے خلاف کالج میں شکایت کر دی تھی۔صحت یاب ہونے پر ڈر کے مارے پھر کبھی کالج کا رخ نہ کیا۔ مار پڑنے سے میرے ہوش ٹھکانے آ گئے تھے۔اب نہ تو میں ولی اﷲ تھا،نہ کوئی کشف ہوتا ہے۔میں دوبارہ ایک عام آدمی بن گیا تھا لیکن لوگوں نے مجھے چھیڑنے کے لیے خدا والا صاحب کہنا شروع کر دیا۔

عید الفطر کے دنوں میں زمان پارک لاہور میں ایک مجلس منعقد ہوئی جس میں لوگوں نے جناب عمران خاں صاحب سے سوالات کرنے تھے۔ جناب عمران خان کے مجلس میں آنے سے پہلے سینیٹر فیصل جاوید نے یہ مجلس کنڈکٹ کی۔مجلس میں اعظم سواتی سینیٹر فیصل جاوید کے ہمراہ کھڑے نظر آئے۔ مجلس میں ایک بچے نے بظاہر سوال کیا گو کہ یہ سوال نہیں بلکہ ایک کمنٹ تھا۔

بچے نے بتایا کہ اس کا نام محمد علی ہے اور وہ لٹل سولجر آف عمران خان کہلاتا ہے۔بچے محمد علی نے عمران اور ان کے والدین کی شان میں جو تعریفی الفاظ کہے ، میں انھیں دہرانا نہیں چاہتا۔ یوں سمجھ لیں خدا والا صاحب والی بلکہ اس سے بھی آگے کی بات ہے ،بہرحال اس بات پر سینیٹر فیصل جاوید،اعظم سواتی سمیت حاضرین میں موجود ہر کسی نے داد و تحسین کی،تالیاں بجائیں اور اپنی خوشی و تائید سے نوازا۔چھوٹی سی عمر کے بچے سے بظاہر یہ توقع نہیں کی جا سکتی کہ اس نے خود سے چاپلوسی کے یہ کلمات کہے ہوں۔

لگتا ہے کہ یا تو اس کے والدین نے اسے یہ سکھایا یا پھر مجلس میں سے کسی نے اس کو اس کے لیے تیار کیا ہو۔ پاکستان میں ہمارے وہ قائد جس نے تنِ تنہا ہمیں انگریز اور ہندو کے چنگل سے نکالا اور ایک آزاد وطن دیا،کیا پاکستان میں ان سے بڑھ کر کسی کو مقام و مرتبہ دیا جا سکتا ہے۔ہر ایک کو اپنے خیالات کا کھل کر اظہار کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور جناب عمران خان کے چاہنے والوں کو بھی یہ حق حاصل ہے۔محبت اندھا کر دیتی ہے اور محبت میں سب سے پہلی Casualty عقل کی ہوتی ہے ۔

جناب عمران خان صاحب کو آگے بڑھ کر اپنے چاہنے والوں کی گوشمالی کرنی چاہیے۔اس قسم کی تعریف ایک آگ کی مانند ہے جس سے جناب کو بچنا ہو گا۔انھیں اپنے آپ کو باور کرانا ہو گا کہ اتنی نہ بڑھا پاکی داماں کی حکایت۔
Load Next Story