یہ مساج سینٹرز
لڑکیاں رونے لگیں کہ اب معاف کردیں آیندہ نہیں آئیں گے، لڑکے بھی خوشامد کر رہے تھے
آج کل سوشل میڈیا پر کچھ ایسے واقعات نوجوان نسل کے حوالے سے گردش کر رہے ہیں جو ہم سب کے لیے خصوصاً والدین کے لیے باعث تشویش ہیں۔ کراچی، لاہور اور اسلام آباد کی خبریں تو سامنے آجاتی ہیں، لیکن مجھے یقین ہے کہ چھوٹے شہروں اور محلوں میں بھی ایسا ہی سب کچھ ہوتا ہوگا، لیکن وہ رپورٹ نہیں ہوتا۔ جب انٹرنیٹ نیا نیا آیا تھا تو انٹرنیٹ کیفے بھی وجود میں آگئے تھے، جگہ جگہ یہ کیفے کھلے تھے۔
ان دنوں ہم جہاں رہتے تھے وہیں اپارٹمنٹ کے نیچے دو انٹرنیٹ کیفے تھے، ایک بار مجھے کالم فیکس کرنے کے لیے اس کیفے میں جانا پڑا تو پتا چلا کہ یہاں تو کام ہی کچھ اور ہو رہا ہے، میں گھبرا کر باہر نکل آئی تو کیفے کا مالک پیچھے پیچھے آگیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں بولا کہ '' یہاں فیکس نہیں ہوتا۔'' پھر میں دوسرے کیفے میں جانے لگی تو مجھے باہر ہی روک لیا گیا، یہ کوئی دوپہر بارہ بجے کا وقت تھا، میں نے گھر آ کر اپنے شریک حیات اختر جونا گڑھی سے ان واقعات کا ذکر کیا تو انھوں نے فلیٹ اونر ایسوسی ایشن کے نمایندوں سے ذکر کیا۔
ان لوگوں نے پولیس کو فون کرکے ساری صورت حال بتائی اور کیفے بند کروانے پر زور دیا کہ آس پاس کا ماحول خراب نہ ہو۔ پولیس فوراً آئی بیک وقت دونوں کیفوں پر چھاپہ مارا، اندر نوجوان لڑکے، الٹرا ماڈرن لڑکیاں نکلیں، کچھ عبایا اور اسکارف میں بھی تھیں۔
پولیس ان سب کو تھانے لے جانے لگی تو میرے شوہر نے پولیس والوں سے کہا کہ '' ان لڑکیوں کے والدین کو یہاں بلا لیجیے، انھیں تھانے مت لے جائیے'' پولیس والے کچھ سمجھ دار تھے، انھوں نے لڑکے اور لڑکیوں سے ان کے والدین کے نمبر لیے اور انھیں فون کرکے بلوالیا۔
لڑکیاں رونے لگیں کہ اب معاف کردیں آیندہ نہیں آئیں گے، لڑکے بھی خوشامد کر رہے تھے، لیکن ایسوسی ایشن کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اگر والدین کے علم میں یہ بات نہ آئی کہ ان کے لخت جگر کالجوں کے بجائے انٹرنیٹ کیفے میں وقت گزار رہے ہیں تو یہ نوجوان لڑکے لڑکیاں کوئی دوسرا کیفے ڈھونڈ لیں گے۔
چنانچہ ان کے رونے دھونے کو نظر انداز کرکے ان کے گھر پہ فون کیا گیا، آدھے گھنٹے میں والدین وہاں پہنچ گئے، وہ سخت شرمندہ تھے، پولیس والوں نے ان کے ماں باپ سے کہا کہ وہ اپنی اولاد پہ نظر رکھیں۔ بعد میں اس واقعے کی تفصیل میں نے اپنے کالم میں لکھی تو میرے پاس بہت سے والدین کے فون آئے کہ وہ بھی اپنی بیٹیوں اور بیٹوں کی سرگرمیوں پہ نظر رکھیں گے۔ کالم پڑھ کر ایک کالج کی پرنسپل کا فون آیا اور انھوں نے کہا کہ ان کے کالج کے قریب بھی ایک انٹرنیٹ کیفے ہے۔
وہ وہاں جا کر بھی دیکھیں گی، پھر ایک دن بعد ان کا فون دوبارہ آیا کہ وہاں بھی یہی صورت حال تھی، پولیس کو بتایا گیا تو اس نے چھاپہ مارا اور لڑکے لڑکیوں کو تھانے لے گئی اور وہاں والدین کو بلوا کر ان کی اولادوں کی کارگزاریاں بتائی گئیں۔
یہ سب بتانے کی مجھے ضرورت اس لیے پیش آئی کہ والدین اولاد کی طرف سے اکثر غافل رہتے ہیں، اب موبائل نے بہت آسانیاں پیدا کردی ہیں، لڑکیوں سے زیادہ لڑکوں پہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ گھر سے باہر رہتے ہیں، ان کے دوست کیسے ہیں، آیا وہ کالج پابندی سے جاتے ہیں یا نہیں، ان کی سرگرمیاں کیا ہیں، اکثر والدین بچوں سے نالاں ہیں کہ ان کے بچے ان کی بات نہیں سنتے، میں یہ جواز نہیں مانتی، اگر شروع ہی سے ماں باپ بالخصوص ماں ان پر نظر رکھے تو معاملات بگڑ نہیں سکتے۔
ہوا کچھ یوں کہ بڑے شہروں خصوصاً کراچی، لاہور اور اسلام آباد میں بعض ایسے بیوٹی پارلرز ہیں جہاں عورتوں اور مردوں کا مساج کیا جاتا ہے۔ یہ دراصل مساج سینٹرز ہیں، ان مساج سینٹرز کے اشتہارات لگے ہوتے ہیں۔ بتانے والے نے یہ بھی بتایا کہ ان بینرز پہ صاف صاف لکھا ہوتا ہے کہ چاہے مرد سے مساج کرائیں چاہے عورت سے۔ کراچی میں کافی پہلے مساج سینٹروں پہ چھاپے پڑے لیکن ان کے مالکان اثر و رسوخ والے تھے، اس لیے کچھ نہیں ہوا۔
البتہ وہاں موجود مساج کرانے والے مردوں سے پولیس نے ٹھیک ٹھاک مال سمیٹا، لیکن پچھلے دنوں لاہور میں جو واقعہ پیش آیا وہ یوں ہے کہ ایک علاقے میں کئی بیوٹی پارلرز ہیں۔
ان میں سے چند ایک میں یہ دھندا ہوتا ہے۔ ایک امیر مذہبی گھرانے کا سترہ سالہ لڑکا مارے تجسس کے ایک مساج سینٹر میں چلا گیا، وہاں اس کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ گھبرا گیا اور پھر کبھی نہ جانے کی قسم کھالی، جب کئی دن تک وہ نہ گیا تو اس کے پاس ایک فون آیا اور پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آرہا، اس نے کہا کہ '' وہ اب کبھی نہیں آئے گا'' وہ پھر بھی نہ گیا تو اگلے دن اس کے موبائل پر ایک ویڈیو آئی جس میں وہ بہت شرم ناک حالت میں تھا، اسے کہا گیا کہ اگر وہ نہ آیا تو یہ ویڈیو سوشل میڈیا پہ اپ لوڈ کردی جائے گی۔
لڑکا گھبرا گیا اور اس نے پہلی بار اپنے ہی گھر میں چوری کی، ماں کی انگوٹھیاں چرائیں اور ایک کوئی اور قیمتی چیز چرا کر بازار میں بیچی، ایک بہت بڑی رقم لے کر وہ اس مساج سینٹر پہنچا اور اس کے مالک کو دے کر کہا کہ ''یہ رقم لے لو اور میری ویڈیو ڈیلیٹ کردو۔'' اسی وقت اس مساج سینٹر پہ چھاپہ پڑ گیا۔
پولیس اس لڑکے کو بھی لے گئی، وہاں سے لڑکے نے اپنی ماں کو فون کرکے بلایا، جب ماں پہنچی تو اس کے تو اوسان خطا ہوگئے، لڑکے نے رو رو کر بتایا کہ اس کا ایک دوست زبردستی اسے لے گیا تھا، اور یہ بھی بتایا کہ چوری اس نے کی تھی، جب کہ ماں گھر کے ملازمین پر شک کر رہی تھیں۔
یہ تو ایک کہانی تھی، یہاں تو جگہ جگہ بیوٹی پارلرز اور مساج سینٹرز کی آڑ میں بہت کچھ ہو رہا ہے۔ کچھ غربت اور کچھ عیاشی کی بدولت یہ کام براہ راست موبائل فون پر ہو رہا ہے، چند بیوٹی پارلرز اور مساج سینٹرز نہیں بلکہ ''شکارگاہیں'' ہیں۔ پولیس ان سے ملی ہوئی ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی یہ کام ہوتے ہیں وہ پولیس کی سرپرستی میں ہوتے ہیں۔
شہر کے پوش علاقوں میں یہ کاروبار زیادہ ہے۔ جب بھی کہیں کوئی نئی آبادی ہوتی ہے وہاں ''رسوائے زمانہ'' عورتیں سب سے پہلے قبضہ جماتی ہیں، تاکہ انھیں کوئی پہچان نہ سکے، پولیس افسران ان کی جیب میں ہوتے ہیں، اس لیے انھیں کسی کا ڈر نہیں ہوتا۔
صورت حال جب یہ ہو کہ حکومت اور اپوزیشن کی توجہ صرف اور صرف اقتدار کا تخت حاصل کرنے پر لگی ہو تو امید فضول ہے۔ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی اولاد کی سرگرمیوں پہ نظر رکھیں، جماعت اسلامی یوں تو بہت سے مسائل پر آواز اٹھاتی ہے لیکن فحاشی کے اس مسئلے پر انھوں نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ خاص کر نام نہاد مساج سینٹرز اور دو نمبر کے بیوٹی پارلرز پر۔ بھٹو صاحب نے شراب پر پابندی لگا کر اس کی قیمت بڑھا دی اور ضیا الحق نے مختلف شہروں میں دھندا کرنے والی عورتوں کو ان کے مخصوص علاقوں سے بے دخل کرکے انھیں پورے پورے شہروں میں پھیلا دیا۔اور یہ گند ہر جگہ پھیل گیا ہے۔
ایسے میں والدین کو اپنے بچوں کی نگرانی کرنی چاہیے، وہ کب جاتے ہیں، کب آتے ہیں، ان کے دوست کون ہیں، لڑکیاں کیا کر رہی ہیں، تعلیمی اداروں میں جا کر ان کی اٹینڈنس چیک کریں، کوچنگ سینٹرز میں وہ کن سے ملتی ہیں۔
ایک طویل عرصہ کالجوں میں گزرانے کے بعد میں یہ کہنا چاہتی ہوں کہ اساتذہ اسکول کے ہوں، کالج کے ہوں یا یونی ورسٹی کے وہ والدین کی توجہ چاہتے ہیں اور ایسے والدین کی بہت عزت کرتے ہیں جو اپنے بچوں کے بارے میں جان کاری کے لیے تعلیمی اداروں میں آتے ہیں اور اپنے بچوں کی سرگرمیوں کی رپورٹ لیتے ہیں۔ خدارا! اپنے بچوں کو وقت دیجیے، انھیں دوست بنائیے ان پر سختی بھی کیجیے کہ یہ تربیت کا لازمی حصہ ہے۔
ان کے موبائل چیک کرتے رہیے، اور بچوں پر اندھا بھروسہ مت کیجیے۔ پودوں کو سیدھا رکھنے اور انھیں بڑھانے کے لیے ان کے گرد ایک جنگلہ سا لگا دیا جاتا ہے اور جب وہ پودے سیدھی سمت میں بڑھنے لگتے ہیں تو وہ جنگلہ ہٹا دیا جاتا ہے۔ یہی حال تربیت کا بھی ہے، لیکن ماؤں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ بچوں کی سرگرمیوں کو جانچیں، زیادہ تر مائیں اپنے میکے والوں یا سہیلیوں سے لمبی گپ شپ کرتی رہتی ہیں یا پھر ٹی وی کے ڈراموں میں مصروف رہتی ہیں۔
اولاد کو تعلیمی اداروں اور کوچنگ سینٹروں کے سپرد کرکے سمجھتی ہیں کہ ان کی ذمے داری پوری ہوگئی۔ لڑکیاں اور لڑکے اپنے دوستوں سے موبائل پر کیا باتیں کرتے ہیں، مائیں پتا نہیں کرتیں۔ جو واقعہ میں نے ابتدا میں بتایا ہے وہ سامنے آگیا تو پتا چل گیا، پتا نہیں ان مساج سینٹرز میں اور کتنے مرد، عورتیں اور لڑکے لڑکیوں کو خوفیہ کیمرے لگا کر بلیک میل کیا جاتا ہوگا اور کتنے اب بھی بلیک میل ہو رہے ہوں گے۔