سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری ملکی سیاست پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے
پاکستان میں اس وقت پارلیمانی جمہوری نظام رائج ہے اور پارلیمنٹ کا وجود بھی برقرار ہے، لیکن اس کے باوجود اس وقت ملک کو سیاسی بحران کا شکار ہے، وجہ یہ ہے کہ اپوزیشن سیاسی بحران پر پارلیمنٹ میں بحث نہیں کرنا چاہتی۔ سیاسی تنازعات آئینی لبادہ پہنا کر عدالتوں میں ہی لائے جا رہے ہیں۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری ملکی سیاست پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ سیاسی معاملات سیاسی سطح پر حل ہونے کے بجائے عدالتوں میں زیر بحث ہیں جس سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو بحث پارلیمان کے ذریعے آنی چاہیے تھی، وہ عدالتوں کے باہر وکلا اور سیاستدانوں کے ذریعے آ رہی ہے۔
اس سے نہ صرف عدلیہ کو مشکل صورتحال میں پھنسا دیا گیا ہے، بلکہ پارلیمانی ادارے بھی متنازعہ ہورہے ہیں، سیاسی قیادت بھی عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدان مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جب کبھی بھی سیاسی معاملات عدالتوں میں گئے ہیں ، اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں۔ ملک کی سیاست اور جمہوریت کو نقصان ہوا ہے۔
عدلیہ کو بھی نقصان پہنچا ہے، آج بھی عدلیہ میں تقسیم نظر آرہی ہے، عدالتی فیصلوں سے سیاسی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ جب سیاست اور سیاسی مسائل ایوانوں سے نکل کر عدالتوں میں جاتے ہیں تو اس سے دو بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلے تو عدالتوں پر سیاسی مقدمات جلد نبٹانے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور عام مقدمات التوا میں چلے جاتے ہیں۔ یوں عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھتی جاتی ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں نہ صرف تاخیر ہوتی ہے بلکہ انصاف کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔
اس وقت عدالتوں میں جو بھی معاملات ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین مسلمہ جمہوری اقدار پر نہیں چل رہے، ادھر پارلیمان اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، حزب اقتدار تو پارلیمنٹ میں ہے، لیکن اپوزیشن نے اپنا پارلیمانی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
سیاسی اور پارلیمانی سطح پر اتفاق رائے نہیں ہوتا اور تمام لوگوں کی رائے شامل نہیں ہوتی تو جو فریق سمجھتا ہے کہ اس کی بات نہیں مانی گئی تو وہ عدالت کا رخ کرتا ہے، حالانکہ قانونی طور پر اس فریق کو پارلیمان میں ہی اپنی رائے دینی چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی معاملات عدالتوں میں پہنچنے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی جتنا پرانا پاکستان ہے، لیکن گزشتہ ایک سال میں عدالتوں میں سیاسی مقدمات اس تواتر کے ساتھ آئے ہیں کہ سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہمہ وقت انھیں مقدمات میں مصروف رہتی ہیں۔
موجودہ سلسلہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے بجائے اسے مسترد کر کے اسمبلی تحلیل کرنے سے شروع ہوا، منحرف ارکان سے متعلق آئین دفعات کی تشریح، پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا انتخاب، نیب قوانین میں ترامیم، الیکشن ایکٹ میں ترامیم، گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ سے حلف لینے اور نہ لینے سمیت متعدد ایسے معاملات ہیں جو مسلسل اعلیٰ عدلیہ میں آتے رہے اور ایسی درخواستوں اور ازخود نوٹس کیس پر سماعت ہورہی ہے۔
عمران خان کی جانب سے احتجاج کی کال اور اسے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر بھی عدلیہ سے رجوع کیا گیا ۔ یوں ایک طرف سڑکوں پر سیاسی پاور شو جاری تھا تو دوسری طرف عدالتی محاذ پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاخیر پر از خود نوٹس لیا تو یہ ایک ایسا سیاسی معاملہ تھا جو پہلے کبھی عدالتوں میں نہیں آیا تھا۔
جب نظام انصاف بہت زیادہ سیاسی مقدمات میں الجھ جاتا ہے تو پھر ان پر بحث و مباحثہ نہیں روکا جاسکتا ، آج کل یہی کچھ ہورہا ہے ۔ملک میں جاری سیاسی تناؤ اور عدم استحکام کے نتیجے میں ہم معاشی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ رواں سال کے پاکستان میں مہنگائی کی شرح ، پچاس سالہ بلند ترین سطح ہے، جب کہ اقتصادی ماہرین کے نزدیک اس شرح کا تیزی بڑھنا معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
جس کے نتیجے میں بنیادی ضرورت کی اشیا ء بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہر طرف معاشی بحران کا تذکرہ ملتا ہے ، پاکستان موجودہ بحران سے کب اور کیسے نکل پائے گا؟ اس سوال کا جواب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے سامنے یہ سوال بھی رکھیں کہ پاکستان یہاں تک کیسے پہنچا۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معیشت اعداد و شمار کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہی ہے۔ موجودہ بحران کی زیادہ ذمے داری ماضی اور حال کے حکمرانوں اور ان کی ناقص منصوبہ بندیوں پر عائد ہوتی ہے، مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یو کرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
ماضی میں پاکستان کی معیشت کو کبھی دہشت گردی نے تباہ کیا اور کبھی یہ زلزلوں، سانحات اور سیلابوں کی نذر ہوئی تو کبھی پاکستان کی جغرافیائی مجبوریوں اور معاشی پابندیوں نے ریاست کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ صرف گزشتہ سال کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے، جو ایک کمزور معیشت کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال اور ملکی معیشت کی تنزلی میں ہمارا اپنا کردار سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں ووٹرز کو راغب کرنے کی غرض سے کچھ ایسے معاشی فیصلے لیے جو قابل فہم نہ تھے۔
مہنگی توانائی کا حصول، سبسڈیز کا بے ترتیب استعمال، بیجا بیرونی قرضے اور پبلک سیکٹر کرپشن کی زد میں رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کی پستی کو چھونے لگے تھے۔ حکومتی آمدن کے دو بنیادی طریقے ہوتے ہیں۔
پہلا ملک میں ٹیکس کا نظام اور دوسرا اسٹیٹ انٹرپرائزز، جیسا کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور پاکستان پوسٹ جیسے اداروں کی آمدن وغیرہ۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام پرانا اور ناقص ہے، جب کہ پاکستانی اسٹیٹ انٹرپرائزز سرکاری خزانے پر ہی بوجھ بنتے ہیں۔
اخراجات اور آمدن کے اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ماضی کی حکومتوں نے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا اور یوں ہر آتے سال سود سمیت قرض بھی بڑھا اور بجٹ میں خسارہ بھی۔ اس خسارے کا سب سے زیادہ اثر ملک میں ترقیاتی کاموں پر پڑتا ہے۔ بجٹ میں خسارے کے باعث نئے اسکول، کالجز، اور اسپتال نہیں بن پاتے اور نہ ہی سرکار کے خزانے میں غریب کی مالی مدد کے لیے کچھ بچتا ہے۔
رہی سہی کسر ملک میں توانائی کی قلت پورا کر دیتی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر ملک میں قدم نہیں رکھتا۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں برآمدات کا اہم کردار ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان سوائے ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کے علاوہ کوئی قابل ذکر پروڈکٹ بھی برآمد نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ہے۔
یہ کرائسس تب ہوتا ہے جب کسی ملک کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کرسکے یا درآمدات حاصل کرسکے۔ ایسے موڑ پر حکومتیں آئی ایم ایف کا رخ کرتی ہیں۔
عمومی تاثر کے برعکس آئی ایم ایف وہ مالیاتی ادارہ ہے جو بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ممالک کی مالی مدد کو آتا ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی مالیاتی پالیسیوں پر تحفظات اپنی جگہ مگر یہ وہ دشمن نہیں جیسا کہ حکومتی وزراء اور مشیر اسے بتاتے ہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مشکل مگر ضروری ہیں۔ جس کی بہت سادہ اور بنیادی شرط حکومتی آمدن میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہے۔ آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس میں اضافہ مجبوری ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کا مطلب سبسیڈیز اور سوشل سروسز کا خاتمہ ہے۔
سادہ الفاظ میں غریب کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام پہلی شرط ہے۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل دوسری اہم ضرورت ہے۔ ملک میں ٹیکس اصلاحات بھی وقت کی ضرورت ہیں مگر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور کاروباری برادری اس بات کو سمجھے کہ پاکستان کا معاشی بحران صرف سیاسی جماعتیں حل نہیں کر سکتیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا فعال رہنا بہت ضروری ہے۔
زرمبادلہ ایسے وقت میں ملک سے باہر لے جانا معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور ضروریات زندگی کو ذخیرہ کرنا غریب کا قتل ہے۔ سیاسی معاملات کا سیاسی حل ہی پائیدار ہوتا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل خود حل کر لیں ورنہ سبکا نقصان ہونے جا رہا ہے۔
یوں کہا جا سکتا ہے کہ پوری کی پوری ملکی سیاست پارلیمنٹ کے بجائے عدالتوں کے چکر کاٹ رہی ہے۔ سیاسی معاملات سیاسی سطح پر حل ہونے کے بجائے عدالتوں میں زیر بحث ہیں جس سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر جو بحث پارلیمان کے ذریعے آنی چاہیے تھی، وہ عدالتوں کے باہر وکلا اور سیاستدانوں کے ذریعے آ رہی ہے۔
اس سے نہ صرف عدلیہ کو مشکل صورتحال میں پھنسا دیا گیا ہے، بلکہ پارلیمانی ادارے بھی متنازعہ ہورہے ہیں، سیاسی قیادت بھی عوام میں اپنا اعتماد کھو رہی ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ سیاستدان مسائل حل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ جب کبھی بھی سیاسی معاملات عدالتوں میں گئے ہیں ، اس سے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں۔ ملک کی سیاست اور جمہوریت کو نقصان ہوا ہے۔
عدلیہ کو بھی نقصان پہنچا ہے، آج بھی عدلیہ میں تقسیم نظر آرہی ہے، عدالتی فیصلوں سے سیاسی مسائل کا حل نہیں نکلتا۔ جب سیاست اور سیاسی مسائل ایوانوں سے نکل کر عدالتوں میں جاتے ہیں تو اس سے دو بڑے مسائل جنم لیتے ہیں۔
سب سے پہلے تو عدالتوں پر سیاسی مقدمات جلد نبٹانے کا بوجھ بڑھ جاتا ہے اور عام مقدمات التوا میں چلے جاتے ہیں۔ یوں عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد مسلسل بڑھتی جاتی ہے اور عوام کو انصاف کی فراہمی میں نہ صرف تاخیر ہوتی ہے بلکہ انصاف کا معیار بھی متاثر ہوتا ہے۔
اس وقت عدالتوں میں جو بھی معاملات ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے قائدین مسلمہ جمہوری اقدار پر نہیں چل رہے، ادھر پارلیمان اپنا حقیقی کردار ادا کرنے سے قاصر ہے، حزب اقتدار تو پارلیمنٹ میں ہے، لیکن اپوزیشن نے اپنا پارلیمانی کردار ادا نہیں کیا ہے۔
سیاسی اور پارلیمانی سطح پر اتفاق رائے نہیں ہوتا اور تمام لوگوں کی رائے شامل نہیں ہوتی تو جو فریق سمجھتا ہے کہ اس کی بات نہیں مانی گئی تو وہ عدالت کا رخ کرتا ہے، حالانکہ قانونی طور پر اس فریق کو پارلیمان میں ہی اپنی رائے دینی چاہیے۔
پاکستان میں سیاسی معاملات عدالتوں میں پہنچنے کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی جتنا پرانا پاکستان ہے، لیکن گزشتہ ایک سال میں عدالتوں میں سیاسی مقدمات اس تواتر کے ساتھ آئے ہیں کہ سپریم کورٹ، لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ ہمہ وقت انھیں مقدمات میں مصروف رہتی ہیں۔
موجودہ سلسلہ قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کرانے کے بجائے اسے مسترد کر کے اسمبلی تحلیل کرنے سے شروع ہوا، منحرف ارکان سے متعلق آئین دفعات کی تشریح، پنجاب اسمبلی میں وزارت اعلیٰ کا انتخاب، نیب قوانین میں ترامیم، الیکشن ایکٹ میں ترامیم، گورنر کی جانب سے وزیراعلیٰ سے حلف لینے اور نہ لینے سمیت متعدد ایسے معاملات ہیں جو مسلسل اعلیٰ عدلیہ میں آتے رہے اور ایسی درخواستوں اور ازخود نوٹس کیس پر سماعت ہورہی ہے۔
عمران خان کی جانب سے احتجاج کی کال اور اسے روکنے کے لیے حکومتی اقدامات پر بھی عدلیہ سے رجوع کیا گیا ۔ یوں ایک طرف سڑکوں پر سیاسی پاور شو جاری تھا تو دوسری طرف عدالتی محاذ پر بھی حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے کے خلاف برسر پیکار نظر آئے۔ یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاخیر پر از خود نوٹس لیا تو یہ ایک ایسا سیاسی معاملہ تھا جو پہلے کبھی عدالتوں میں نہیں آیا تھا۔
جب نظام انصاف بہت زیادہ سیاسی مقدمات میں الجھ جاتا ہے تو پھر ان پر بحث و مباحثہ نہیں روکا جاسکتا ، آج کل یہی کچھ ہورہا ہے ۔ملک میں جاری سیاسی تناؤ اور عدم استحکام کے نتیجے میں ہم معاشی بحران کا شکار ہوچکے ہیں۔ رواں سال کے پاکستان میں مہنگائی کی شرح ، پچاس سالہ بلند ترین سطح ہے، جب کہ اقتصادی ماہرین کے نزدیک اس شرح کا تیزی بڑھنا معیشت پر منفی اثرات مرتب کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ملک میں بے روزگاری، مہنگائی اور غربت میں ہوش ربا اضافہ دیکھنے کو ملتا ہے۔
جس کے نتیجے میں بنیادی ضرورت کی اشیا ء بھی عوام کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہر طرف معاشی بحران کا تذکرہ ملتا ہے ، پاکستان موجودہ بحران سے کب اور کیسے نکل پائے گا؟ اس سوال کا جواب تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے سامنے یہ سوال بھی رکھیں کہ پاکستان یہاں تک کیسے پہنچا۔
پاکستان کی تاریخ کا جائزہ لیں تو معیشت اعداد و شمار کے لحاظ سے اتار چڑھاؤ کا شکار ہی رہی ہے۔ موجودہ بحران کی زیادہ ذمے داری ماضی اور حال کے حکمرانوں اور ان کی ناقص منصوبہ بندیوں پر عائد ہوتی ہے، مگر ہمیں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ تاریخ کے بد ترین سیلاب، عالمی کساد بازاری اور یو کرین کی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈالا ہے۔
ماضی میں پاکستان کی معیشت کو کبھی دہشت گردی نے تباہ کیا اور کبھی یہ زلزلوں، سانحات اور سیلابوں کی نذر ہوئی تو کبھی پاکستان کی جغرافیائی مجبوریوں اور معاشی پابندیوں نے ریاست کو مشکل میں ڈالے رکھا۔ صرف گزشتہ سال کے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا تخمینہ 30ارب ڈالر سے زیادہ کا لگایا گیا ہے، جو ایک کمزور معیشت کے لیے بہت بڑا جھٹکا ہے۔
بلاشبہ موجودہ صورتحال اور ملکی معیشت کی تنزلی میں ہمارا اپنا کردار سب سے زیادہ ہے۔ ہمارے حکمرانوں نے ماضی میں ووٹرز کو راغب کرنے کی غرض سے کچھ ایسے معاشی فیصلے لیے جو قابل فہم نہ تھے۔
مہنگی توانائی کا حصول، سبسڈیز کا بے ترتیب استعمال، بیجا بیرونی قرضے اور پبلک سیکٹر کرپشن کی زد میں رہنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ گزشتہ سال ملکی زر مبادلہ کے ذخائر 3 ارب ڈالر کی پستی کو چھونے لگے تھے۔ حکومتی آمدن کے دو بنیادی طریقے ہوتے ہیں۔
پہلا ملک میں ٹیکس کا نظام اور دوسرا اسٹیٹ انٹرپرائزز، جیسا کہ پی آئی اے، اسٹیل ملز، ریلوے اور پاکستان پوسٹ جیسے اداروں کی آمدن وغیرہ۔ پاکستان میں ٹیکس کا نظام پرانا اور ناقص ہے، جب کہ پاکستانی اسٹیٹ انٹرپرائزز سرکاری خزانے پر ہی بوجھ بنتے ہیں۔
اخراجات اور آمدن کے اس فرق کو پورا کرنے کے لیے ماضی کی حکومتوں نے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا اور یوں ہر آتے سال سود سمیت قرض بھی بڑھا اور بجٹ میں خسارہ بھی۔ اس خسارے کا سب سے زیادہ اثر ملک میں ترقیاتی کاموں پر پڑتا ہے۔ بجٹ میں خسارے کے باعث نئے اسکول، کالجز، اور اسپتال نہیں بن پاتے اور نہ ہی سرکار کے خزانے میں غریب کی مالی مدد کے لیے کچھ بچتا ہے۔
رہی سہی کسر ملک میں توانائی کی قلت پورا کر دیتی ہے اور پرائیویٹ سیکٹر ملک میں قدم نہیں رکھتا۔ دوسری طرف کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں برآمدات کا اہم کردار ہے مگر بدقسمتی سے پاکستان سوائے ٹیکسٹائل، سرجیکل آلات اور کھیلوں کے سامان کے علاوہ کوئی قابل ذکر پروڈکٹ بھی برآمد نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ہے۔
یہ کرائسس تب ہوتا ہے جب کسی ملک کے پاس اتنے ڈالر نہیں ہوتے کہ وہ اپنا غیر ملکی قرض ادا کرسکے یا درآمدات حاصل کرسکے۔ ایسے موڑ پر حکومتیں آئی ایم ایف کا رخ کرتی ہیں۔
عمومی تاثر کے برعکس آئی ایم ایف وہ مالیاتی ادارہ ہے جو بیلنس آف پے منٹ کرائسس کا شکار ممالک کی مالی مدد کو آتا ہے۔ اس بین الاقوامی ادارے کی مالیاتی پالیسیوں پر تحفظات اپنی جگہ مگر یہ وہ دشمن نہیں جیسا کہ حکومتی وزراء اور مشیر اسے بتاتے ہیں۔
آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط مشکل مگر ضروری ہیں۔ جس کی بہت سادہ اور بنیادی شرط حکومتی آمدن میں اضافہ اور اخراجات میں کمی کرنا ہے۔ آمدن میں اضافے کے لیے ٹیکس میں اضافہ مجبوری ہے اور حکومتی اخراجات میں کمی کا مطلب سبسیڈیز اور سوشل سروسز کا خاتمہ ہے۔
سادہ الفاظ میں غریب کے لیے مشکلات میں مزید اضافہ ہے۔ ملک میں سیاسی استحکام پہلی شرط ہے۔ معاشی پالیسیوں کا تسلسل دوسری اہم ضرورت ہے۔ ملک میں ٹیکس اصلاحات بھی وقت کی ضرورت ہیں مگر سب سے زیادہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کی اشرافیہ اور کاروباری برادری اس بات کو سمجھے کہ پاکستان کا معاشی بحران صرف سیاسی جماعتیں حل نہیں کر سکتیں۔ کاروباری سرگرمیوں کا فعال رہنا بہت ضروری ہے۔
زرمبادلہ ایسے وقت میں ملک سے باہر لے جانا معیشت کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہے اور ضروریات زندگی کو ذخیرہ کرنا غریب کا قتل ہے۔ سیاسی معاملات کا سیاسی حل ہی پائیدار ہوتا ہے اور اب بھی وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں اپنے مسائل خود حل کر لیں ورنہ سبکا نقصان ہونے جا رہا ہے۔