بلوچستان …پاکستان کی شہ رگ
بلوچستان کی سرزمین لہسن اور پیاز کی کاشت کے لیے انتہائی سازگار ہے
بلوچستان کو طویل عرصے سے سیاسی عدم استحکام ، غربت اور تشدد جیسے کافی مسائل کا سامنا ہے۔ بلوچستان زمینی رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے لیکن اس کی آبادی نسبتا کم ہے ، یہ حجم کے لحاظ سے سب سے بڑا اور آبادی میں سب سے چھوٹا ہے یہ صوبہ 34.7ملین ہیکڑ پر محیط ہے جو ملک کے رقبے کا تقریبا44% ہے جس کی آبادی تقریبا 8 ملین افراد ہے۔
بلوچستان کا صوبہ کوئٹہ سطح سمندر سے اوسطا 1,680 میٹر 5,510 فٹ بلندی پر ہے جو اسے پاکستان کا واحد اونچائی والا بڑا شہر بناتا ہے اس شہر کو پاکستان کا ـــپھلوں والا باغ کے نام سے جانا جاتا ہے کیونکہ اس کے ارد گرد بے شمار پھلوں کے باغات ہیں اور وہاں پیدا ہونے والے پھلوں اور میوہ جات کی بڑی اقسام ہیں۔ بلوچستان کا خطہ انتظامی طور پر تین ممالک پاکستان ، افغانستان اور ایران میں منقسم ہے ، رقبے اور آبادی میں سب سے بڑا حصہ پاکستان میں ہے جس کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ہے۔
بلوچستان اپنی طویل ساحلی پٹی کے لیے جانا جاتا ہے جو کراچی سے سومیانی ، اورماڑہ،کلمت، پسنی، گوادر،جیوانی اور ایران تک پھیلا ہوا ہے یہ اپنی پہاڑی چوٹیوں اور ناہموار پہاڑی خطوں کے لیے بھی مشہور ہے۔
بلوچستان پاکستان کی واحد صوبہ ہے، جہاں جشن قلات منایا جاتا ہے اس میلے میں سرکس ،پرفارمنس، رائفل شوٹنگ اور دیگر ثقافتی پروگرام اور شو شامل ہیں، اس کا نام ایک شہنشاہ کے نام پر رکھا گیا ہے جس نے اس علاقے پر حکومت کی تھی ۔زراعت بلوچستان کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی 75% آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔
بلوچستان کی سرزمین لہسن اور پیاز کی کاشت کے لیے انتہائی سازگار ہے جب کہ سیب، انگور ،کھجور، چیری ،آڑو اور خوبانی کی کوالٹی مزید بہتر ہوئی ہے جس سے برآمدات اور اچھی ہوئی ہیں۔بلوچستان میں زرعی پالیسی کا بنیادی مقصد دیہی لوگوں کی آمدنی اور روزگار میں اضافہ کرنا ہے جب کہ ایک ہی وقت میں وسائل کی تیزی سے انحطاط کو روکنا اور آخر کار بہتری لانا ہے۔بیروزگاری ،کم ہنر مندی،زیرو صنعت کاری اور سماجی و اقتصادی پسماندگی صوبے کی پست ترین ترقی کے اہم معاشی مسائل ہیں۔وسائل کی کثرت کی وجہ سے بلوچستان کو Basket Pakistan's Fruit کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔
انگور چیری اور بادام صوبے میں قومی پیداوار کا 90 فیصد حصہ ہیں بلوچستان تقریبا 60 فیصد آڑو ،انار، خوبانی تقریبا 34 فیصد سیب اور 70 فیصد کھجور بر آمد کرتا ہے۔ بلوچ اونٹ، گائے، بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں اور قالین بنانے اور کڑھائی میں مشغول ہوتے ہیں ان کے زرعی طریقے قدیم ہیں ،وہ سنی اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں کل بلوچ آبادی کا 70 فیصد پاکستان میں مقیم ہیں ۔کوئٹہ میں کل 117 صنعتی یونٹس ہیں جن میں 29 مختلف اقسام کی صنعتیں ہیں۔
ان یونٹوں میں 2500 سے زائد افراد کام کرتے ہیں، بلوچستان میں موجودہ کاروباری ادارے چھوٹے ہیں ااور چھوٹے کم آمدنی والے گاہکوں کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔پہاڑی علاقے اور پانی کی کمی کی وجہ سے یہاں کی آبادی کم ہے۔بلوچستان کی آبادی 1998 میں ریکارڈ کی گئی آبادی سے تقریبا دگنی ہے جس کی اوسط سالانہ شرح نمو 3.37 فیصد ہے، جو کہ پاکستان کے تمام صوبوں میں سب سے زیادہ ہے۔
بلوچستان پاکستان کے سب سے کم ترقی یافتہ صوبوں میں سے ایک ہے جہاں معاشی اور سماجی اشاریے کمزور ہیں بلوچستان ایک اہم سٹر ٹیجک محل و وقوع اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے باوجود قومی جی ڈی پی میں صرف 8.0 فیصد حصہ ڈالتا ہے۔آواران کا پرانا نام کولوا تھا یہ صوبے کا سب سے غریب ترین ضلع سمجھا جاتا ہے۔
بلوچستان میں 60 فیصد سے زائد لوگ خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں یہ صوبہ صحت ، تعلیم اور دیگر سماجی اشاریوں میں نہ صرف پاکستان بلکہ پورے جنوبی ایشیا میں سب سے نیچے ہے۔ سجی بلوچستان کی واحد ڈش ہے جو پورے پاکستان بلکہ دنیا بھر میں مشہور ہے بھیڑ کے ٹکڑوں کو آگ پر گھنٹوں پکایا جاتا ہے اور صرف کالی مرچ اور نمک کے ساتھ پکتا ہے۔بلوچستان کی ثقافت مذہبی اقدار ،ادب اور باہمی احترام کی روایتی اقدار کے لحاظ سے کی جاتی ہے۔
مہر گڑھ بلوچستان کا سب سے قدیم شہر ہے ۔ بلوچستان کے اہم دریا ، ژوب ،ناری ،بولان ،پشین، لورامولا، حب، پورالی ، ہنگول،رخشان اور دشت ہیں۔بلوچستان ی مٹی کو بے شمار چیلنجز کا سامنا ہے جیسے کہ ریگستانی ، زمین کی تنزلی ، زمین کی زرخیزی میں کمی ساختی عدم استحکام وغیرہ۔ بلوچستان میںسرمایہ کاری کے اہم شعبے معدنیات ،زراعت ،باغبانی، ماہی گیری، لائیو اسٹاک ،سیاحت اور تیل و گیس وغیرہ ہیں۔
اسی طرح لائیو اسٹاک کی ترقی صوبے غربت کو ختم کر سکتی ہے کیونکہ لائیو اسٹاک 70 فیصد سے زیادہ مقامی آبادی کے لیے زندگی کا بنیادی پائیدار ذریعہ ہے یہ صوبہ مویشیوں کے وسائل سے مالا مال ہے جس میں پاکستان کی کل مویشیوں کی آبادی کا 40 فیصد حصہ ہے۔اگرچہ بلوچستان کا کل کاشت شدہ رقبہ ملک ملک کے کل کاشت شدہ رقبہ 22.76 میں سے 3.8 فیصد ہے اور اس کے باوجود یہ صوبہ سیب (82فیصد) آڑو (69 فیصد) کی قومی پیداوار میں سب سے بڑا حصہ دار ہے ۔
انگور (97.6 فیصد ) انار (82 فیصد) اور کھجور (64 فیصد)ہے۔بلوچستان کے معاشی مسائل کی بنیادی وجوہات میں طلب کے مقابلے میں وسائل کی کمی جیسے محنت زمین اور سرمائے کی کمی ہے ویسے تو انسان کے مطالبات اور خواہشات لا محدود ہیں اور بڑھتے رہتے ہیں اس لیے محدود وسائل کی وجہ سے وہ مطمئن نہیں ہو سکتے۔بلوچستان کو درپیش اہم چیلنجوں میں سے ایک علیحدگی پسند شورش ہے جو کئی دہائیوں سے جاری ہے بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) اور دیگر علیحدگی پسندگروپ زیادہ خود مختاری اور خطے کے قدرتی وسائل میں حصہ لینے کے لیے لڑ رہے ہیں ۔
تنازع نے بڑے پیمانے پر تشدد کو جنم دیا ہے جس میں سیکیورٹی فورسز ،سرکاری اہلکاروں اور عام شہریوں پر حملے جاری ہیں۔ خطے میں شدت پسند گروپوں کی موجودگی کی وجہ سے صورتحال مزید پیچیدہ ہے ۔ پاکستانی حکومت ان گروہوں کے خلاف آپریشن کر رہی ہے لیکن تشدد کا سلسلہ جاری ہے ۔ غربت اور بیروزگاری کی بلند سطح کے ساتھ بلوچستان کو معاشی چیلنجز کا بھی سامنا ہے صوبے میں گیس، تیل اور معدنیات سمیت قدرتی وسائل وافر مقدار میں موجود ہیں ، لیکن سیکیورٹی خدشات اور شورش کی وجہ سے ان کے استحصال ہو رہا ہے اور یہ ایک رکاوٹ ہے۔
مجموعی طور پر بلوچستا ن کی صورتحال پیچیدہ ہے جس کا کوئی آسان حل نظر نہیں آتا، لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا اس صورتحال میں ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جایا جائے؟یہ صوبہ بلوچ ،پشتون اور ہزارہ اور دیگر اقلیتوں سمیت نسلی گروہوں کا متنوع گڑھ ہے۔ ان تمام مسائل کے باوجود کیا حکومت بلوچستان کے مسائل کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے؟