سیاسی دنگل جاری ہے

یہ تو خود سیاستدانوں کا قصور ہے کہ وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں کہ ملک کو بچانے کیلیے اسٹیبلشمنٹ کو آنا پڑا


عثمان دموہی May 05, 2023
[email protected]

حقیقت یہ ہے کہ ایک سیاسی پارٹی کے رہنما کی سیماب صفت طبیعت کی وجہ سے ان کے مسائل بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ بقول بلاول بھٹو زرداری سربراہ پی ٹی آئی سیاسی رہنما جیسی سوچ ہی نہیں رکھتے وہ آج بھی کرکٹ ٹیم کے کپتان کے طور پر ہر معاملے کو دیکھتے اور نمٹتے ہیں۔

ان کی اسی سوچ کی وجہ سے کافی ایسے لوگ ان کے اردگرد جمع ہوگئے ہیں جو ان کے ذریعے ملک و قوم اور خاص طور پر ریاستی اداروں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ گوکہ پاکستان میں کئی مرتبہ جمہوری حکومتوں کو ختم کر کے غیر جمہوری حکومت آئی مگر آج تک ہمارے عوام ریاستی اداروں کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کی عزت و توقیر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔

عوام میں ان کے حق میں اس لیے بھی تاثرات پائے جاتے ہیں کیونکہ جن جمہوری حکومتوں کی بساط لپیٹی گئی انھوں نے ملک کو آگے بڑھانے کے بجائے پیچھے کی جانب دھکیلا ہے وہ حزب اختلاف سے محاذ آرائی میں جٹی رہیں۔ وہ ملک و قوم کا خیال رکھنے کے بجائے بس اقتدار کی جنگ لڑتی رہیں اور ملک کے حالات درہم برہم ہوتے رہے ایسے گمبھیر حالات میں اسٹیبلشمنٹ کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔

یہ تو خود سیاستدانوں کا قصور ہے کہ وہ ملک میں ایسے حالات پیدا کردیتے ہیں کہ ملک کو بچانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ آنا پڑا۔ بعض دفعہ تو ایسا بھی ہوا ہے کہ خود حزب اختلاف کی جانب سے غیر سول قوتوں کو اقتدار سنبھالنے کے لیے مدعو کیا گیا۔ بدقسمتی سے اس وقت بھی ملک میں حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان سخت معرکہ آرائی جاری ہے مگر اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے واضح اعلان کیا گیا ہے کہ وہ اب کبھی سیاسی معاملات میں مداخلت نہیں کرے گی۔

سابقہ حکومتی دور میں ایسے حالات رہے کہ غیر سیاسی قیادت سیاسی قیادت کے ساتھ ساتھ چلتی رہی جس پر سابقہ حکومت کی جانب سے فخر سے کہا جاتا رہا ہے کہ اس وقت حکومت اور فوج ایک پیج پر ہیں یہ وضاحت کوئی معمولی نوعیت کی نہیں تھی دراصل اس کے ذریعے حزب اختلاف کو خوب خوب مرعوب کیا جاتا رہا۔

پی ٹی آئی کو اقتدار میں لانے والی اسٹیبلشمنٹ بتائی جاتی ہے مگر اس احسان کا بدلہ یہ نکلا کہ جب پی ٹی آئی حکومت کا عدم اعتماد کی تحریک کے بعد خاتمہ ہو گیا اور وہی قوتیں جن کی تعریفوں کے ڈھیر لگائے جاتے تھے پی ٹی آئی نے اپنی حکومت کی تمام غلطیوں اور خرابیوں کا ملبہ ان پر ڈال دیا اور اس کی آڑ میں انھیں کہنہ مشق بنایا گیا۔ اس وقت عدالت عالیہ نے ایک سوموٹو کے ذریعے ملک میں الیکشن کے انعقاد کے سلسلے میں تمام سیاسی پارٹیوں کو آن بورڈ لیا ہوا ہے۔ ان سے کہا گیا ہے کہ وہ آپس میں بیٹھ کر بات کرکے معاملے کو حل کریں۔ مولانا فضل الرحمن جوکہ حکومتی اتحاد کے اہم لیڈر ہیں اس بات چیت کے سخت خلاف ہیں۔

ملک میں ماضی میں کئی دفعہ مارشل لا لگ چکے ہیں چنانچہ آمروں کی مرضی چلتی رہی ہے۔ بعض جج صاحبان ہر قسم کے ماحول میں ثابت قدم رہے انھوں نے آمروں کی خواہشات پر چلنے کے بجائے خود کو عدلیہ سے الگ ہی کرلیا تھا۔ کچھ سیاستدان پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کے ٹوٹنے کو ہی غلط قرار دے رہے ہیں۔

ان کے مطابق اسمبلیوں کے توڑنے کا کوئی جواز ہی نہیں تھا یہ اسمبلیاں اگر اپنی مدت پوری کرلیتیں تو ملک میں کوئی آئینی بحران پیدا نہ ہوتا۔ قومی اسمبلی کے ساتھ ساتھ چاروں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے انعقاد میں بھی کوئی مشکل پیش نہ آتی۔ تمام اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے پر ایک دن ایک ساتھ ان کے انتخابات کرائے جاسکتے تھے۔ مگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کے الیکشن کرانے کے بعد پھر بعد میں دیگر اسمبلیوں کے الیکشن کرانا پڑیں گے جن کے اخراجات اٹھانے کے لیے ملک کا خالی خزانہ متحمل نہیں ہو سکتا۔ پاکستان میں معاشی بحران گزشتہ چار سال سے جاری ہے اور شاید یہ ابھی مزید جاری رہے۔

اس لیے کہ آئی ایم ایف کے تیور بدلے ہوئے ہیں وہ شاید دشمنوں کی مرضی پر چل کر پاکستان کو دیوالیہ کرانے کے درپے ہے لیکن اب تو کچھ ملکی تجزیہ نگار یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ موجودہ حکومت کو ناکام بنانے کے لیے ملک کے اندر سے بھی سازش کی جا رہی یہ بہت ہی گمبھیر مسئلہ ہے اس سے موجودہ حکومت سے زیادہ ملک اور عوام کا نقصان ہوگا اور اس کے نتیجے میں اگر موجودہ حکومت چلی بھی گئی تو نئی حکومت کو بھی ملک چلانا آسان نہیں ہوگا وہ خود بھی بہت جلد عوام میں اپنی ساکھ کھو بیٹھے گی اور مشکل میں پڑ جائے گی۔

حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان موجودہ چپقلش تو اپنی جگہ جاری ہے اور لگتا ہے یہ اکتوبر تک جاری رہے گی ۔ ہمارا دشمن ہماری ایک ایک بات پر نظر رکھتا ہے اور ہم اپنی غلطی سے اسے اکثر اپنی بے عزتی کرنے کے مواقع فراہم کرتے رہتے ہیں مگر یہ بات پاکستانی عوام کے لیے ناقابل برداشت ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔