بااثر خاتون کی سفارشی کال

’’سیٹھی صاحب جب تک آپ ہاں نہیں کہیں گے میں فون بند نہیں کروں گی‘‘


Saleem Khaliq May 05, 2023
(فوٹو: ایکسپریس ویب)

''سیٹھی صاحب جب تک آپ ہاں نہیں کہیں گے میں فون بند نہیں کروں گی، مجھے آپ سے یقین دہانی چاہیے کہ آپ ندیم خان کو ملازمت سے نہیں نکالیں گے، میں ویمنز لیگ میں ایک ٹیم بھی خریدنا چاہتی ہوں، آپ بھی پلیز میری بات مان لیں''

کچھ عرصے پہلے کی بات ہے جب پی سی بی مینجمنٹ کمیٹی کے سربراہ نجم سیٹھی کو برطانیہ سے ایک بااثر خاتون کی کال موصول ہوئی،ان کا دنیا بھر میں کافی نام ہے اور بعض لوگوں کو یہ ''ملال'' بھی ہے کہ وہ یہاں کیوں نہیں رہتیں، دراصل ان کے ایک قریبی عزیز کی ندیم خان سے دوستی تھی لہذا وہ ان کی نوکری بچانے کیلیے تگ و دو کر رہے تھے۔

نجم سیٹھی نے یہ سفارش مان لی اور ندیم خان کو نکالا نہیں بلکہ ویمنز ونگ میں تبادلہ کر دیا،البتہ تنخواہ تقریبا آدھی اور 10 لاکھ روپے ماہانہ سے بھی کم کر دی گئی، وہ چھٹیوں پر انگلینڈ چلے گئے جہاں اب برطرفی کا پروانہ مل گیا، پاکستان کرکٹ کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔

یہاں سفارش کے بغیر کام نہیں ہوتے اور بعض اوقات اصول پسندی کا لبادہ اوڑھے لوگ بھی ان میں شامل ہو جاتے ہیں، کیا آپ کو علم ہے کہ نیوزی لینڈ سے سیریز میں ایک کھلاڑی کو گھر سے بلا کر اچانک قومی ٹیم کا حصہ بنا دیا گیا تھا کیونکہ سفارش ایک اعلیٰ حکومتی شخصیت نے کی تھی لیکن فٹنس مسائل اس کے آڑے آ گئے،میں جانتا ہوں کہ کئی بار نجم سیٹھی ایسی سفارشیں نہیں مانتے جس پر انھیں مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے،انھیں بورڈ میں آئے کئی ماہ ہو گئے لیکن ماضی کے برعکس اب تک دفاعی اننگز ہی کھیل رہے ہیں،شاید اس کی وجہ مینجمنٹ کمیٹی ہے،اگر وہ تین سال کیلیے چیئرمین بن گئے تو ایک مختلف نجم سیٹھی نظر آئیں گے۔

ایسوسی ایشنز کے الیکشنز بھی جاری ہیں مگر ہمیشہ کی طرح بعض مقامات پر بات عدالت تک پہنچ گئی ہے جس کی وجہ سے تاخیر ہونے لگی، گذشتہ دنوں الیکشن کمشنر کی تقرری پر کچھ ہلچل بھی مچی پھر آئی پی سی منسٹری نے خلاف توقع 2سے4 ہفتوں تک ہی مینجمنٹ کمیٹی کی معیاد بڑھانے کی سفارش کی۔

ایک بڑی سیاسی پارٹی کے سربراہ نے چیئرمین کی پوسٹ کیلیے حکومت کو ذکا اشرف کا نام بھی پیش کیا ہے،دیکھتے ہیں آگے کیا ہوتا ہے لیکن آنے والے دن پاکستان کرکٹ میں کئی '' بریکنگ نیوز'' سامنے لا سکتے ہیں، دوسری طرف پی سی بی میں بہت سے لوگ حکومت تبدیل ہونے کے انتظار میںہیں، تنخواہیں آدھی ہونے اور اختیارات کی کمی کے باوجود اس آس میں ملازمت نہیں چھوڑی جا رہی کہ بورڈ میں تبدیلی ہونے پر پرانی پوزیشن واپس مل جائے گی۔

حقیقت یہ ہے کہ موجودہ ملکی حالات میں ملازمتیں بھی میسر نہیں، کئی نے کوشش کی مگر آدھی تنخواہ کے آدھی رقم پر بھی کوئی جاب نہیں ملی،موجودہ مینجمنٹ نے بیشتر تقرریاں چند ماہ کے کنٹریکٹ پر بطور کنسلٹنٹ کی ہیں، مستقل عہدہ سنبھالنے پر پھر کھل کر شاٹس کھیلے جائیں گے لیکن اس صورتحال کا بعض بورڈ آفیشلز فائدہ اٹھا رہے ہیں، جیسے میڈیا پر پی سی بی کا دفاع کرنے والا اب کوئی شخص موجود نہیں بلکہ منفی باتوں پر ایک طرح سے خوشیاں ہی منائی جاتی ہیں۔

احسان مانی اور رمیز راجہ کے لیے جان لڑا دینے والے لوگ نجم سیٹھی کے معاملے میں خاموشی سے صورتحال کو انجوائے کرتے ہیں،ایسا نہیں ہے کہ چیئرمین کو اس کا علم نہیں مگر پہلے انھوں نے پی ایس ایل ختم ہونے کے بعد کوئی قدم اٹھانے کا کہا اب نیوزی لینڈ سے سیریز کے بعد کی باتیں ہو رہی ہیں،دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، فیصل حسنین کو بھاری تنخواہ پر یو اے ای سے سی ای او بنانے کی لیے امپورٹ کیا گیا وہ کشتیاں جلا کر پاکستان آئے، ان کی کوئی خاص پرفارمنس بھی نہیں ہے۔

تنخواہ بھی آدھی ہو چکی،نئے آئین میں یہ عہدہ ہی موجود نہیں اس لیے وہ بغیر کسی پوسٹ کے کام کر رہے ہیں،ان کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کرنا ہوگا، جب تک نجم سیٹھی اپنی آستینیں نہیں جھاڑ لیتے لوگ انھیں چھپ چھپ کر نقصان ہی پہنچاتے رہیں گے، اس وقت انھیں بیک وقت کئی محاذوں پر لڑنا پڑ رہا ہے، میڈیا معاملات بھی اگر وہ نہ سنبھالیں تو مزید ابتری نظر آئے،ایشیا کپ بھی ایسی کڑوی گولی بن چکا جسے اگل نہ نگل سکتے ہیں۔

اگر پورا ایونٹ نیوٹرل وینیو پر لے گئے تو عوام کے سامنے فیس سیونگ نہیں ملے گی، نہیں لے گئے تو ایونٹ ہی منسوخ کرنا پڑے گا اور بھاری نقصان کے ساتھ ٹیم کی ورلڈکپ کیلیے تیاریوں کو بھی ضرب لگے گی،اسی لیے کہتے ہیں کہ بڑے دعوے کرنے سے پہلے سوچ لینا چاہیے کہ ایسا کر بھی سکیں گے یا نہیں،رمیز راجہ اور پھر نجم سیٹھی نے بھی ایشیا کپ کے حوالے سے بڑی باتیں کر دیں اب پیچھے ہٹنا ممکن نہیں ہے۔ آخر میں کچھ پاک نیوزی لینڈ میچ کی بات کر لیں۔

کراچی کے نیشنل اسٹیڈیم کو تیسرے ون ڈے میں تقریبا خالی دیکھ کر افسوس ہی ہوا، گرمی بہت شدید تھی، کمنٹیٹرز جب گراؤنڈ میں فرائض انجام دے کر واپس اپنے باکس میں آئے تو ان کے پسینے چھوٹ رہے تھے، میں نے اپنے ایک صحافی دوست کو دیکھا تو وہ کہنے لگے کچھ باتیں کرنی ہیں کھانا کھا کر آتا ہوں لیکن بھائی آپ کو ہمارے لیے لکھنا چاہیے کہ سب کو بڑے ہوٹل کا کھانا ملتا ہے لیکن ہمارے لیے اللہ دتہ پکوان سینٹر سے منگوایا جاتا ہے ۔

یہ امتیاز کیوں برتا جا رہا ہے، میں نے کہا کہ آپ دعا کیا کریں کہ ہر سیریز میں گورے صحافی بھی آئیں تاکہ آپ کو بھی معیاری لنچ مل سکے،ویسے ہم میڈیا والوں کا کام رپورٹنگ کرنا ہے، ایسی باتوں میں پڑ کر اپنا وقت کیوں ضائع کریں،یا میری طرح گھر سے کھانا کھا کر آیا کرو، اس پر انھوں نے کھا جانے والی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور کہا ٹھیک ہی بھائی مجھے اچانک ایک کام یاد آ گیا اب شاید کھانے کے بعد بھی آپ سے بات نہ ہو سکے، یہ سن کر میں مسکراتے ہوئے میڈیا سینٹر کی جانب چلا گیا کیونکہ میچ بھی شروع ہونے والا تھا،اب باقی باتیں انشا اللہ اگلے کالم میں ہوں گی۔

(نوٹ: آپ ٹویٹر پر مجھے @saleemkhaliq پر فالو کر سکتے ہیں)

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں