اسلام اور تحفّظ ماحولیات
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الاوسط)
خالقِ کائنات نے تخلیقِ کائنات کے ساتھ ہی ایک مضبوط نظام عطا فرما کر پوری کائنات کو محفوظ و مامون بنا دیا، جس پر قرآن مجید کی کئی آیات ِ مبارکہ شاہد ہیں، ارشاد باری تعالی کا مفہوم ہے: ''اور بے شک! ہم نے سب سے قریبی آسمانی کائنات کو (ستاروں، سیاروں، دیگر خلائی کرّوں اور ذرّوں کی شکل میں) چراغوں سے مزین فرما دیا ہے اور ہم نے ان (ہی میں سے بعض) کو شیطانوں (سرکش قوتوں) کو مار بھگانے (یعنی ان کے منفی اثرات ختم کرنے) کا ذریعہ (بھی) بنایا ہے اور ہم نے ان (شیطانوں) کے لیے دہکتی آگ کا عذاب تیار کر رکھا ہے۔'' (سورۃالملک)
سورۃ الرحمن میں ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ''سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔'' (الرحمن) یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کے لیے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ رُوگردانی، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں، کیا مجال کہ دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں۔ کیا ہی انوکھا، عجیب تر اور حیران کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ، حضرت قتادہؓ اور ابو مالکؓ نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی) منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علاحدہ ہوتے ہیں۔ (یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے) اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ و سال کا حساب بنتا ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔
یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگی میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے۔ جب دنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور ان کے وسیع پیمانے پر استعمال کے دور میں قدم رکھا، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گونا گوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی، اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت انسانی جان کی بقاء کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ جو موسم کی ناہم واری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں۔
اب تو فطری ماحول کی ناہم واری نے بھی انسانی وجود کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جان داروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طرح اور بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں:
واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا، پانی، مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے ا س کا اطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پر بھی ہوتا ہے۔
ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے اگر معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اور غرباء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بن جائے۔
پورا شہر ہر جگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے سیلابی علاقے کی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پر طبعی اور طبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے۔
طوالت کے خوف کی وجہ سے سیرت طیبہ ؐ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
پانی کو ضایع کرنے کی ممانعت:
پانی اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضایع ہونے سے بچایا جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو پانی کے ضایع ہونے سے بچانے کے لیے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہوجاتا ہے ۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔''
(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہار ۃ و سننہا)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ کا گزر حضرت سعدؓ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے) پس آپ ﷺ نے (اسے دیکھ کر) فرمایا: اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعدؓ نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔''
پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم:
جس طرح آپ ﷺ نے پانی کو ضایع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپؐ نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے۔''
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الاوسط)
پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر:
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جائے۔ چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے صابن کے استعمال کے وقت نل کو کھلا نہ رکھا جائے، برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لیے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیوں کہ پائپ سے پانی زیادہ ضایع ہوجاتا ہے۔
اسی طرح مسواک اور وضو کرنے کے لیے بھی پانی لوٹے یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں نہیں بہانا چاہیے کیوں کہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے۔ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرنا:
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیے اس پر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرے۔''
(صحیح مسلم ، کتاب الذکر و الدعا و التوبۃ)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے، مفہوم: ''یااﷲ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں۔'' (صحیح مسلم ، کتاب الرقاق)
زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک:
زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شجر کاری کی صحابہ کرامؓ کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔''
(صحیح البخاری، کتاب المزارع)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھا لیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا۔''
(صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ)
صحابہ کرامؓ کا شجرکاری کرنا:
حضرت ابودردا ؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے ایک شخص گزرا۔ اس وقت وہ دمشق میں پودا لگا رہے تھے۔ اس شخص نے ابُودرداؓ سے کہا: کیا آپ بھی یہ (دنیاوی) کام کررہے ہیں، حالاں کہ آپ تو رسول اﷲ ﷺ کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ''جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اﷲ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔'' (مسند احمد)
بلا ضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت:
حضرت عبداﷲ بن حبشؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا، اﷲ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا۔ حضرت امام ابوداؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ حدیث مختصر ہے (پوری حدیث اس طرح ہے) کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آکر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آکر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اﷲ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔ (ابو داؤد)
بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت:
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنی شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے۔''
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا) اﷲ تعالی نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا۔'' (سنن ابو داؤد)
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے۔''
(سنن ابو داؤد ، کتاب الطہارۃ)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''لعنت والے تین مقامات سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔'' (مسند حمد)
قارئین کرام! پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوب صورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کے لیے سیرت طیبہ ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ماحول کو پاک صاف رکھ کر اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا خیال رکھنا چاہیے۔
سورۃ الرحمن میں ارشادِ خداوندی کا مفہوم: ''سورج اور چاند (اسی کے) مقررہ حساب سے چل رہے ہیں۔'' (الرحمن) یعنی یہ سورج اور چاند مقررہ حساب کے مطابق حرکت کر رہے ہیں جو منزلیں اور بروج ان کے لیے مقرر ہیں نہ ان سے تجاوز کرتے ہیں اور نہ رُوگردانی، اپنے اپنے مدار میں مصروف سیر ہیں، کیا مجال کہ دائیں یا بائیں سرکیں یا لمحہ بھر کی بھی تقدیم و تاخیر کریں۔ کیا ہی انوکھا، عجیب تر اور حیران کن نظم و ضبط نظام شمسی میں رکھا ہے۔
حضرت ابن عباسؓ، حضرت قتادہؓ اور ابو مالکؓ نے فرمایا کہ وہ (سورج اور چاند) حساب سے (اپنی) منازل میں چلتے ہیں اور ان سے تجاوز نہیں کرتے اور نہ ہی ان سے علاحدہ ہوتے ہیں۔ (یعنی اپنا راستہ تبدیل نہیں کرتے) اسی نظام کی پابندی کے باعث وقت پر موسم بدلتے ہیں، وقت پر دن طلوع ہوتا ہے اور رات آتی ہے، ہر روز مقررہ وقت پر ان کا طلوع و غروب ہوتا ہے، اسی سے ماہ و سال کا حساب بنتا ہے۔ اگر اس نظام میں ذرا سا بھی خلل آجائے تو ساری کائنات چشم زدن میں درہم برہم ہو جائے۔
یہ جو آج پوری دنیا مختلف قسم کی آلودگی میں گھری ہوئی نظر آتی ہے یہ انسان کی اپنی پیدا کردہ ہے جس کا مختصر جائزہ یہ ہے۔ جب دنیا نے گیسی مادوں کی ایجادات اور ان کے وسیع پیمانے پر استعمال کے دور میں قدم رکھا، صنعتی ترقی کے ذریعے مختلف الانواع ایجادات، گونا گوں تحقیقات ، کیمیائی اور حیاتیاتی دریافتوں کے میدان میں انسان نے بے پناہ ترقی حاصل کی، اِس بے احتساب اور بھاگم بھاگ کی ترقی کی وجہ سے قدرتی ماحول پر انتہائی بھیانک اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
اس وقت انسانی جان کی بقاء کو جن چیزوں سے خطرہ لاحق ہے ان میں سے ایک بڑا خطرہ ماحولیاتی آلودگی بھی ہے۔ جو موسم کی ناہم واری، درجہ حرارت کی کمی و زیادتی، خشک سالی، طوفان، سیلاب، قدرتی آفات اور دیگر انسانی عوامل کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے کثرتِ امراض جنم لیتے ہیں۔
اب تو فطری ماحول کی ناہم واری نے بھی انسانی وجود کی بقاء کو خطرے میں ڈال دیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ روئے زمین پر تمام جان داروں اور بالخصوص انسانی جان کے تحفظ کا انحصار جن باتوں پر کیا جا سکتا ہے ان میں سے ایک آلودگی سے پاک ماحول ہے۔ ہم سب کے لیے ان ماحولیاتی تبدیلیوں کو سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ خود انسانی زندگی اس سے پوری طرح اور بُری طرح متاثر ہو رہی ہے۔
ماحولیاتی آلودگی کا تدارک سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں:
واضح رہے کہ ماحولیاتی آلودگی کو ہم نے ہوا، پانی، مٹی، دھواں، درجہ حرارت کی کمی یا زیادتی تک محدود کر دیا ہے لیکن اگر غور کیا جائے تو ماحولیاتی آلودگی کا مسئلہ فقط انہی کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ ماحولیاتی آلودگی کا دائرہ کار وسیع ہے ا س کا اطلاق اخلاقی آلودگی، اقتصادی آلودگی، سیاسی آلودگی، تعلیمی آلودگی، ظاہری و باطنی آلودگی، ذہنی، فکری اور معاشرتی آلودگی پر بھی ہوتا ہے۔
ماحول ہی کی وجہ سے انسان جسمانی اور روحانی طور پر متاثر ہوتا ہے اگر معاشرہ اپنی اخلاقی اقدار کھو بیٹھے تو اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے ہر طرف خوف و ہراس پھیل جاتا ہے جہاں پر شرفاء اور غرباء کے لیے ایام زندگی گزارنا مشکل ہو جاتے ہیں اور اگر معاشرہ اپنی طبعی اور احساسی اقدار کھو بیٹھے تو ہر گلی و کوچہ غلاظت اور گندگی کا ڈھیر بن جائے۔
پورا شہر ہر جگہ کھڑے بدبودار پانی کی وجہ سے سیلابی علاقے کی صورت اختیار کر لے تو پھر ایسی جگہ پر طبعی اور طبی لحاظ سے انسانی زندگی گزارنا ناممکن ہو جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے ہر قسم کی ماحولیاتی آلودگی ختم کرنے کی تعلیم دی ہے تاکہ انسان ذہنی، فکری اور جسمانی لحاظ سے محفوظ اور پرسکون زندگی گزار سکے۔ حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ ان ہمہ قسم کی ماحولیاتی آلودگی کے خاتمہ کا احاطہ کرتی ہے۔
طوالت کے خوف کی وجہ سے سیرت طیبہ ؐ میں سے یہاں پر فقط چند چیزوں کو ذکر کیا جاتا ہے۔
پانی کو ضایع کرنے کی ممانعت:
پانی اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت ہے اس کو محفوظ کیا جائے اور ہر ممکن اسے ضایع ہونے سے بچایا جائے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے صحابہ کرامؓ کو پانی کے ضایع ہونے سے بچانے کے لیے جس قدر تاکید فرمائی ہے آدمی پڑھ کر حیران ہوجاتا ہے ۔
حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک شخص کو وضو کرتے دیکھا تو ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اسراف نہ کرو، اسراف نہ کرو۔''
(سنن ابن ماجہ، کتاب الطہار ۃ و سننہا)
حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دو عالم ﷺ کا گزر حضرت سعدؓ پر ہوا جب کہ وہ وضو کر رہے تھے (اور وضو میں اسراف بھی کر رہے تھے) پس آپ ﷺ نے (اسے دیکھ کر) فرمایا: اے سعد! یہ کیا اسراف (زیادتی ہے)؟ حضرت سعدؓ نے عرض کیا: کیا وضو میں بھی اسراف ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ہاں! اگرچہ تم نہر جاری ہی پر (کیوں نہ وضو کر رہے) ہو۔''
پانی کو نجاست سے بچانے کا حکم:
جس طرح آپ ﷺ نے پانی کو ضایع کرنے سے منع فرمایا ہے اسی طرح آپؐ نے پانی کو نجاست وغیرہ سے بھی بچانے کا حکم فرمایا ہے چاہے پانی ٹھہرا ہوا ہو یا جاری ہو۔
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ''تم میں سے کوئی شخص ٹھہرے ہوئے پانی میں پیشاب نہ کرے۔''
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے جاری پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے۔ (المعجم الاوسط)
پانی کے تحفظ کی احتیاطی تدابیر:
حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہر ممکن پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جائے۔ چند مقامات ایسے ہیں جہاں سے پانی کو محفوظ کیا جا سکتا ہے مثال کے طور پر غسل کرنے اور ہاتھ منہ دھونے کے لیے صابن کے استعمال کے وقت نل کو کھلا نہ رکھا جائے، برتن، کپڑے یا گھر کی صفائی کے لیے کسی بالٹی میں پانی ڈال کر استعمال کرنا چاہیے کیوں کہ پائپ سے پانی زیادہ ضایع ہوجاتا ہے۔
اسی طرح مسواک اور وضو کرنے کے لیے بھی پانی لوٹے یا کسی برتن میں ڈال کر استعمال کرنا چاہیے تاکہ حد درجے تک پانی کو ضایع ہونے سے بچایا جا سکے اور گھر کے استعمال شدہ پانی کو گلیوں میں نہیں بہانا چاہیے کیوں کہ ایک تو کھڑے پانی سے گلی، محلے کا ماحول خراب ہوتا ہے اور دوسرا اس سے جراثیم و بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ اس لیے اسے فصلوں، کھیتوں یا کسی طریقے سے کار آمد بنانا چاہیے۔ اسی طرح ملکی سطح پر بھی بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے بڑے ڈیم اور بند قائم کیے جائیں اور اسے کار آمد بنایا جائے۔ پانی ایک بہت بڑی نعمت ہے اس کی قدر کرنی چاہیے۔
پانی کے ایک ایک گھونٹ پر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرنا:
حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''اﷲ اس بندے پر خوش ہوتا ہے جو کھانا کھا کر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرے یا جو بھی چیز پیے اس پر اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرے۔''
(صحیح مسلم ، کتاب الذکر و الدعا و التوبۃ)
حضرت عبداﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ دعا فرمایا کرتے تھے، مفہوم: ''یااﷲ! میں تجھ سے تیری نعمت کے زائل ہوجانے، تیری عافیت کے پلٹ جانے، اچانک مصیبت آجانے اور تیری ہر قسم کی ناراضی سے پناہ مانگتا ہوں۔'' (صحیح مسلم ، کتاب الرقاق)
زمینی اور فضائی آلودگی کا تدارک:
زمینی اور فضائی آلودگی سے نجات پانے کا ایک ذریعہ شجر کاری بھی ہے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کے خاتمے اور آکسیجن کی افزودگی کا بہترین ذریعہ ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے شجر کاری کی صحابہ کرامؓ کو ترغیب بھی دلائی اور درخت لگانے پر اجر ملنے کا مژدہ بھی سنایا۔ حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان درخت لگائے یا کھیتی کاشت کرے پس اس میں سے پرندے، انسان یا جانور کھالیں تو اس کے لیے اس میں صدقہ ہے۔''
(صحیح البخاری، کتاب المزارع)
حضرت جابرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو مسلمان کوئی پودا لگاتا ہے تو اس درخت میں سے جتنا کھا لیا جائے تو اس (درخت لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جو کچھ اس میں سے چوری ہو وہ بھی اس کا صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے درندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے اور جتنا اس میں سے پرندے کھا لیں وہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے (غرض یہ کہ) جو شخص اس میں سے کم کرے گا وہ اس کا صدقہ ہو جائے گا۔''
(صحیح مسلم ، کتاب المساقاۃ)
صحابہ کرامؓ کا شجرکاری کرنا:
حضرت ابودردا ؓ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے ایک شخص گزرا۔ اس وقت وہ دمشق میں پودا لگا رہے تھے۔ اس شخص نے ابُودرداؓ سے کہا: کیا آپ بھی یہ (دنیاوی) کام کررہے ہیں، حالاں کہ آپ تو رسول اﷲ ﷺ کے صحابی ہیں۔ حضرت ابودرداؓ نے فرمایا: مجھے (ملامت کرنے میں) جلدی نہ کر، میں نے رسول اﷲ ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا: ''جو شخص پودا لگاتا ہے اور اس میں سے کوئی انسان یا اﷲ تعالی کی مخلوق میں سے کوئی مخلوق کھاتی ہے تو وہ اس (پودا لگانے والے) کے لیے صدقہ ہو جاتا ہے۔'' (مسند احمد)
بلا ضرورت درختوں کو کاٹنے کی ممانعت:
حضرت عبداﷲ بن حبشؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''جو شخص (بلا ضرورت) بیری کا درخت کاٹے گا، اﷲ اسے سر کے بل جہنم میں گرا دے گا۔ حضرت امام ابوداؤد سے اس حدیث کے معنی و مفہوم سے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: یہ حدیث مختصر ہے (پوری حدیث اس طرح ہے) کہ کوئی بیری کا درخت چٹیل میدان میں ہو جس کے نیچے آکر مسافر اور جانور سایہ حاصل کرتے ہوں اور کوئی شخص آکر بلا سبب بلا ضرورت ناحق کاٹ دے (تو مسافروں اور چوپایوں کو تکلیف پہنچانے کے باعث وہ مستحق عذاب ہے) اﷲ ایسے شخص کو سر کے بل جہنم میں جھونک دے گا۔ (ابو داؤد)
بازار یا راہ گزر پہ گندگی پھیلانے کی ممانعت:
نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں راستوں تک کو صاف ستھرا رکھنے کی تعلیم ملتی ہے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایمان کی ستر یا ساٹھ شاخیں ہیں اور سب سے ادنی شاخ راستے میں سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کردینا ہے۔''
(صحیح مسلم ، کتاب الایمان)
حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''ایک آدمی نے قطعاً کوئی نیکی نہیں کی سوائے ایک کانٹے دار ٹہنی کو راستے سے ہٹانے کے، خواہ اسے درخت سے کاٹ کر کسی نے ڈال دیا تھا یا کسی اور طرح پڑی تھی تو اس کی تکلیف دہ چیز کو (راستے سے ہٹانا) اﷲ تعالی نے قبول فرمایا اور اس کی وجہ سے جنت میں داخل فرما دیا۔'' (سنن ابو داؤد)
حضرت معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''لعنت کے تین کاموں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی جگہ میں، عام راستے میں اور سائے میں قضائے حاجت کرنے سے۔''
(سنن ابو داؤد ، کتاب الطہارۃ)
حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''لعنت والے تین مقامات سے بچو۔ کسی نے کہا: اے اﷲ کے رسول ﷺ! وہ لعنت والے مقامات کیا ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: جس سائے کو استعمال کیا جاتا ہو، اس میں یا راستے میں یا پانی کے گھاٹ میں پیشاب کرنا۔'' (مسند حمد)
قارئین کرام! پاکیزگی اور صفائی کے اعتبار سے اسلام سے بڑھ کر کوئی مذہب نہیں ہے۔ اسلام نے اپنے پیروکاروں کو اپنے جسم سمیت اپنے آس پاس کے ماحول کو بھی صاف ستھرا رکھنے کا حکم دیا ہے۔ ہر سلیم الطبع انسان صفائی ستھرائی و خوب صورتی کو پسند کرتا ہے اور گندگی، ناپاکی اور غلاظت سے ناپسندیدگی و نفرت کا اظہار کرتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے پاکیزگی کو نصف ایمان قرار دیا ہے۔ اس لیے ہمیں ہر قسم کی آلودگی سے پیدا ہونے والے مسائل کے تدارک کے لیے سیرت طیبہ ﷺ کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور ماحول کو پاک صاف رکھ کر اپنا اور اپنی آنے والی نسلوں کا خیال رکھنا چاہیے۔