سنو خدمت سے خُدا ملتا ہے۔۔۔۔۔
’’مار ڈالا تم کو مال کی کثرت کی خواہش نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘
امام الانبیاء سیّد المرسلین حضور سرور کائنات ﷺ کا عطا کردہ ضابطۂ حیات اسلام اتنا جامع و مانع، اتنا اکمل و اجمل، اتنا لامثال و بے عدیل اور اتنا خوب صورت و دل پذیر ہے کہ دنیا کے بڑے بڑے مفکر و مدبر، بڑے بڑے صاحبان ِ فراست و تفکر تقابل ادیان کرتے وقت بالآخر حضور اکرم ﷺ کے علّوِ مرتبت اور آپؐ کے لائے ہوئے دین کی رفعت و جامعیت اور تفّوق کو ماننے پر مجبور ہوگئے اور انہیں یہ کہنا پڑا کہ بے شک! دین خدا و مصطفیؐ ہی وہ دستورِِ زندگی ہے۔
جس میں کسی بھی زاویے سے کسی بھی کمی یا محرومی کا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا اور یہ ضابطۂ اخلاق ناصرف انسان کی دنیوی عزت و حرمت اور اس کے شرف و وقار میں اضافہ کرتا ہے اور ناصرف اسے تسکین و طمانیت کی دولت سے بہرہ یاب کرتا ہے بل کہ سرا سر نجات اُخروی کا باعث بھی بنتا اور تقربِ خدا و حبیب خدا ﷺ کا بھی ذریعہ ہے۔
جو افلاطون زمن تحقیق و تدقیق کے میدان میں مہینوں اور سالوں رازِ حیات کو پانے کے لیے محوِ جستجو رہے اپنی عمروں کا ایک بڑا حصہ تقدیس و تحریم اسلام سے گریز پائی میں صرف کرتے رہے اور زندگی کی عافیت کہیں اور تلاش کرتے رہے وہ وقت کے ضیاع کے بعد اﷲ رب العزت کے پسندیدہ دین اسلام کے دامن ِ تقدس سے وابستگی میں ہی فخر محسوس کرنے لگے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام حیات نے کار گہۂ دہر میں زندگی گزارنے کے لیے کوئی تشنگی نہیں چھوڑی۔
دامنِ دین اسلام سے وابستہ رہتے ہوئے روحانی مسرت و انبساط حاصل کرنے اور آخرت میں آتش جہنّم سے لرزہ شعلوں سے بچاؤ اور بہار خلد بریں سمیٹنے کے لیے جہاں اسلام نے متنوع طریقوں سے آشنائی بخشی ہے مثال کے طور پر عبادات کے مختلف طریقے، شب بیداریاں، رزق حلال کا حصول، فرائض منصبی کی دیانت دارانہ ادائی، والدین کی اطاعت و خدمت گزاری وغیرہ یہ سب چیزیں صراطِ مستقیم کے زُمرے میں آتی ہیں اور نیت میں خلوص موجود ہو تو تمازتِ خورشید محشر میں ابرِ باراں کا کام دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں موجودہ مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے برق رفتار دور میں خدمت خلق وہ راز حیات ہے جو انسان کی جان لیوا علالت میں ایسے زبردست تریاق کا کام کرتا ہے جس کی مثال دنیا بھر کے شفا خانوں سے ملنا محال و ناممکن ہے۔ کیوں کہ یہ وہ ارفع و اعلیٰ اور برتر از اندیشۂ سود و زیاں عبادت ہے جس میں رضائے خدا و مصطفی ﷺ کے ساتھ عوام الناس کی مخلصانہ دعائیں شامل حال ہوتی ہیں اور جس خوش بخت کو ان نعمتوں کی تائید و نصرت حاصل ہو جائے کیا وہ راز حیات پا لینے میں کام یاب و سُرخ رو نہیں ہوجاتا۔
المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں انسانی رخش زندگی بے لگام اور بے محابا خواہشات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے روحانیت سے دور نامعلوم منزل کی جانب سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ لامحدود زر پرستانہ خواہشات نے زندگی کو اتنا بے چین کر رکھا ہے کہ مقصد تخلیق سے بے خبر آئینہ جوہر ایام ہوتے ہوئے بھی تعشیات کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ سورۃ التکاثر میں اﷲ رب العزت نے انسانی فطرت کی لاابالیوں کا کتنا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے۔ سورۃ مبارکہ کا آغاز ہی ان معنی خیز اور جامع ترین الفاظ سے ہوتا ہے، مفہوم:
''مار ڈالا تم کو مال کی کثرت کی خواہش نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔''
خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو کثرت ثروت کو عطائے الٰہی خیال کرتے ہوئے اﷲ کے مفلوک الحال بندوں کی فلاح و بہبود کا سوچتے ہیں اور شکوۂ ظلمت شب کرنے کے بہ جائے اپنے حصے کی کوئی شمع جلانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ کیا بہ حیثیت مسلمان قصر مرمر میں شب باشیاں کرنے والوں کو فٹ پاتھوں پر بلکنے والے ذی روح نظر نہیں آتے۔۔۔۔ ؟ کیا اعلی ترین گاڑی میں سفر کرنے والوں کو بے نیازانہ گزرتے ہوئے پریشان حال اور گریباں چاک نظر نہیں آتے۔ اے کاش! ایک بار پھر ہمیں شاہ کارِ رسالتؐ سیدنا عمر فاروق ؓ اور عمر ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا وہ دور مبارکہ میسر آجائے جس میں اُن بوریا نشین غلامانِ مصطفی ؐ نے تصور ارتکازِ دولت کے پرخچے اڑا دیے تھے اور عالی ظرف اُمراء اپنے خزائن ِ دولت ہاتھوں پہ سجائے خدمت کے لیے پھرا کرتے لیکن کو ئی صاحب احتیاج نظر نہیں آتا تھا۔ یہی تو وہ راز حیات ہے۔
جس کی اہمیت و شوکت کے پیش نظر سیدنا عمر فاروق ؓ نے اشک بار آنکھوں سے ارشاد فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اس کا بھی مجھے حساب دینا ہوگا۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ خدمت خلق ہی تقرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے، خدمت خلق ہی قلوب عوام الناس میں بسنے کا ذریعہ ہو تی ہے، خدمت خلق ہی لوگوں کی دعائیں سمیٹنے کا ذریعہ ہوتی ہے، خدمت خلق ہی انسانی جذبوں کو وہ اوج و رفعت بخشتی ہے کہ وہ رشک آسمان بن جاتے ہیں، خدمت خلق ہی رات کو بستر پر دراز ہوتے وقت حلاوت طمانیت عطا کرتی ہے، خدمت خلق ہی نیند کو ہم آغوش فرحت بنا دیتی ہے۔
خدمت خلق ہی انسان کو حلقہ یاراں میں ممیز ہونے کا شرف بخشتی ہے، خدمت خلق ہی حرارتِ قلب و جگر کو دوام بخشتی ہے اور انہیں ٹھنڈا نہیں ہونے دیتی، خدمت خلق ہی زندگی کو آشنائے بندگی، بندگی کو رخشندگی اور رخشندگی کو تابندگی بخشتی ہے۔ اسی لیے میدان تصوف کے تاج ور اولیا، اصفیا، زہاد، اتقیا اور دیگر کاملین خدمت خلق میں ہی راز حیات پاتے ہوئے محسوس کرتے تھے۔ رات کو اﷲ کی عبادت میں مستغرق رہنا اور دن کو خدمت خلق میں مصروف رہنا اُن کا طرۂ امتیاز اور شیوۂ حیات تھا اسی لیے اﷲ رب العزت نے اُن محبوب بندوں کو دنیا میں ہی پروانۂ نجات و عافیت عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم :
''آگاہ ہوجاؤ! میرے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ کوئی حزن۔''
لیکن اس میں ایک احتیاط بہ ہر حال ضروری ہے کہ اتنی بڑی محبوب خلائق خدمت انجام دیتے وقت دل میں احساس ریا و تصنع نہیں ابھرنے دینا چاہیے ورنہ یہ شان فیاضی رائیگاں جائے گی۔ اسی لیے سیدنا صدیق اکبر ؓ نے ارشاد فرمایا:
''عظیم انسان وہ ہے جو رات کی تاریکی میں کسی ضرورت مند کی مدد کرتا ہے۔''
جس میں کسی بھی زاویے سے کسی بھی کمی یا محرومی کا شائبہ تک بھی نہیں پایا جاتا اور یہ ضابطۂ اخلاق ناصرف انسان کی دنیوی عزت و حرمت اور اس کے شرف و وقار میں اضافہ کرتا ہے اور ناصرف اسے تسکین و طمانیت کی دولت سے بہرہ یاب کرتا ہے بل کہ سرا سر نجات اُخروی کا باعث بھی بنتا اور تقربِ خدا و حبیب خدا ﷺ کا بھی ذریعہ ہے۔
جو افلاطون زمن تحقیق و تدقیق کے میدان میں مہینوں اور سالوں رازِ حیات کو پانے کے لیے محوِ جستجو رہے اپنی عمروں کا ایک بڑا حصہ تقدیس و تحریم اسلام سے گریز پائی میں صرف کرتے رہے اور زندگی کی عافیت کہیں اور تلاش کرتے رہے وہ وقت کے ضیاع کے بعد اﷲ رب العزت کے پسندیدہ دین اسلام کے دامن ِ تقدس سے وابستگی میں ہی فخر محسوس کرنے لگے۔ اور اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اسلامی نظام حیات نے کار گہۂ دہر میں زندگی گزارنے کے لیے کوئی تشنگی نہیں چھوڑی۔
دامنِ دین اسلام سے وابستہ رہتے ہوئے روحانی مسرت و انبساط حاصل کرنے اور آخرت میں آتش جہنّم سے لرزہ شعلوں سے بچاؤ اور بہار خلد بریں سمیٹنے کے لیے جہاں اسلام نے متنوع طریقوں سے آشنائی بخشی ہے مثال کے طور پر عبادات کے مختلف طریقے، شب بیداریاں، رزق حلال کا حصول، فرائض منصبی کی دیانت دارانہ ادائی، والدین کی اطاعت و خدمت گزاری وغیرہ یہ سب چیزیں صراطِ مستقیم کے زُمرے میں آتی ہیں اور نیت میں خلوص موجود ہو تو تمازتِ خورشید محشر میں ابرِ باراں کا کام دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت میں موجودہ مادہ پرستی اور نفسا نفسی کے برق رفتار دور میں خدمت خلق وہ راز حیات ہے جو انسان کی جان لیوا علالت میں ایسے زبردست تریاق کا کام کرتا ہے جس کی مثال دنیا بھر کے شفا خانوں سے ملنا محال و ناممکن ہے۔ کیوں کہ یہ وہ ارفع و اعلیٰ اور برتر از اندیشۂ سود و زیاں عبادت ہے جس میں رضائے خدا و مصطفی ﷺ کے ساتھ عوام الناس کی مخلصانہ دعائیں شامل حال ہوتی ہیں اور جس خوش بخت کو ان نعمتوں کی تائید و نصرت حاصل ہو جائے کیا وہ راز حیات پا لینے میں کام یاب و سُرخ رو نہیں ہوجاتا۔
المیہ یہ ہے کہ موجودہ دور میں انسانی رخش زندگی بے لگام اور بے محابا خواہشات کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے روحانیت سے دور نامعلوم منزل کی جانب سر پٹ دوڑ رہا ہے۔ لامحدود زر پرستانہ خواہشات نے زندگی کو اتنا بے چین کر رکھا ہے کہ مقصد تخلیق سے بے خبر آئینہ جوہر ایام ہوتے ہوئے بھی تعشیات کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ سورۃ التکاثر میں اﷲ رب العزت نے انسانی فطرت کی لاابالیوں کا کتنا خوب صورت نقشہ کھینچا ہے۔ سورۃ مبارکہ کا آغاز ہی ان معنی خیز اور جامع ترین الفاظ سے ہوتا ہے، مفہوم:
''مار ڈالا تم کو مال کی کثرت کی خواہش نے یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔''
خُوش نصیب ہیں وہ لوگ جو کثرت ثروت کو عطائے الٰہی خیال کرتے ہوئے اﷲ کے مفلوک الحال بندوں کی فلاح و بہبود کا سوچتے ہیں اور شکوۂ ظلمت شب کرنے کے بہ جائے اپنے حصے کی کوئی شمع جلانے میں ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔ کیا بہ حیثیت مسلمان قصر مرمر میں شب باشیاں کرنے والوں کو فٹ پاتھوں پر بلکنے والے ذی روح نظر نہیں آتے۔۔۔۔ ؟ کیا اعلی ترین گاڑی میں سفر کرنے والوں کو بے نیازانہ گزرتے ہوئے پریشان حال اور گریباں چاک نظر نہیں آتے۔ اے کاش! ایک بار پھر ہمیں شاہ کارِ رسالتؐ سیدنا عمر فاروق ؓ اور عمر ثانی حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کا وہ دور مبارکہ میسر آجائے جس میں اُن بوریا نشین غلامانِ مصطفی ؐ نے تصور ارتکازِ دولت کے پرخچے اڑا دیے تھے اور عالی ظرف اُمراء اپنے خزائن ِ دولت ہاتھوں پہ سجائے خدمت کے لیے پھرا کرتے لیکن کو ئی صاحب احتیاج نظر نہیں آتا تھا۔ یہی تو وہ راز حیات ہے۔
جس کی اہمیت و شوکت کے پیش نظر سیدنا عمر فاروق ؓ نے اشک بار آنکھوں سے ارشاد فرمایا تھا کہ فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا پیاسا مرگیا تو اس کا بھی مجھے حساب دینا ہوگا۔ اس لیے کہ وہ جانتے تھے کہ خدمت خلق ہی تقرب الٰہی کا ذریعہ بن سکتی ہے، خدمت خلق ہی قلوب عوام الناس میں بسنے کا ذریعہ ہو تی ہے، خدمت خلق ہی لوگوں کی دعائیں سمیٹنے کا ذریعہ ہوتی ہے، خدمت خلق ہی انسانی جذبوں کو وہ اوج و رفعت بخشتی ہے کہ وہ رشک آسمان بن جاتے ہیں، خدمت خلق ہی رات کو بستر پر دراز ہوتے وقت حلاوت طمانیت عطا کرتی ہے، خدمت خلق ہی نیند کو ہم آغوش فرحت بنا دیتی ہے۔
خدمت خلق ہی انسان کو حلقہ یاراں میں ممیز ہونے کا شرف بخشتی ہے، خدمت خلق ہی حرارتِ قلب و جگر کو دوام بخشتی ہے اور انہیں ٹھنڈا نہیں ہونے دیتی، خدمت خلق ہی زندگی کو آشنائے بندگی، بندگی کو رخشندگی اور رخشندگی کو تابندگی بخشتی ہے۔ اسی لیے میدان تصوف کے تاج ور اولیا، اصفیا، زہاد، اتقیا اور دیگر کاملین خدمت خلق میں ہی راز حیات پاتے ہوئے محسوس کرتے تھے۔ رات کو اﷲ کی عبادت میں مستغرق رہنا اور دن کو خدمت خلق میں مصروف رہنا اُن کا طرۂ امتیاز اور شیوۂ حیات تھا اسی لیے اﷲ رب العزت نے اُن محبوب بندوں کو دنیا میں ہی پروانۂ نجات و عافیت عطا فرمایا۔ ارشاد ربانی ہے، مفہوم :
''آگاہ ہوجاؤ! میرے دوستوں کو نہ کوئی خوف ہوگا نہ کوئی حزن۔''
لیکن اس میں ایک احتیاط بہ ہر حال ضروری ہے کہ اتنی بڑی محبوب خلائق خدمت انجام دیتے وقت دل میں احساس ریا و تصنع نہیں ابھرنے دینا چاہیے ورنہ یہ شان فیاضی رائیگاں جائے گی۔ اسی لیے سیدنا صدیق اکبر ؓ نے ارشاد فرمایا:
''عظیم انسان وہ ہے جو رات کی تاریکی میں کسی ضرورت مند کی مدد کرتا ہے۔''