ڈالر اور پٹرولیم مصنوعات کی درآمد

کسی بھی پالیسی کے نفاذ سے قبل اس کے تمام تر اثرات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے

ہوا کچھ یوں کہ ابتدائی سالوں میں روپے اور ڈالر کے درمیان شرح مبادلہ تین ایک یعنی ایک ڈالر کے تین پھر کئی ملکوں نے حتیٰ کہ مضبوط کرنسی والے ملکوں نے کوریا جنگ کے باعث اپنی کرنسی کی قدر کم کی لیکن پاکستان نے باوجود دباؤ کے ایسا کرنے سے انکار کر کے اپنی کرنسی کی مضبوطی کو ظاہر کر دیا ، لیکن پاکستان 7 سال کا ہی ہوا تھا کہ نسبت ایک چار کی ہوگئی۔

یعنی چار روپے کا ایک ڈالر۔ اسی کے ساتھ 1955-60 کا پہلا پانچ سالہ منصوبہ بنایا گیا۔ پھر دوسرا اور تیسرا۔ عملدرآمد کے اختتام تک پاکستان کا مشرقی بازو الگ ہوگیا۔ جلد ہی حکومت نے بھی روپے کو دھڑام سے گرا کر نسبت ایک نو کردی یعنی ایک ڈالر کی قیمت 9 روپے سے بڑھ گئی۔

پھر درمیان میں آئی ایم ایف بار بار نصیحت کرتا رہا کہ روپے کی قدر گھٹاؤ اور برآمدات کو بڑھاؤ۔ برآمدات تو اس نسبت سے نہ بڑھ سکی البتہ روپیہ ایک بار کمزور ہوا تو شدید کمزور ہوتا چلا گیا۔ یہاں تک کہ 30 سال قبل روپے اور ڈالر کے درمیان اوسط شرح مبادلہ 25 روپے رہا۔ پھر جون 2000 کی بات ہے جب اسٹیٹ بینک نے شرح مبادلہ میں ایڈجسٹمنٹ کرنے کے بعد ایک ڈالر 55 روپے کا کردیا۔ لیکن سوا سال کے کم عرصے میں نائن الیون کا واقعہ ہو گیا۔

اس کے بعد قرضوں کی ری شیڈولنگ ہوگئی۔ اور افغان جنگ کے بعد روپیہ کافی عرصے تک مستحکم رہا اور آج سے 20 سال قبل کی بات ہے افغانستان کی جنگ اور امداد و گرانٹس کی آمد بیرونی ترسیلات زر میں اضافہ اور دیگر معاشی اعشاریوں کی بہتری کے نتیجے میں بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر ساڑھے دس ارب ڈالر بنتی تھی اور 20 سال بعد بھی ہم کبھی اس سے کم اور کبھی زیادہ کے حامل رہے ہیں۔

حالانکہ اس کے بعد عالمی منڈی میں تمام تر درآمدات کی قیمت بڑھتی رہی۔ 20 سال قبل 20 ارب سے زائد کی درآمدات تھیں اس کا مطلب تھا کہ زرمبادلہ کے ذخائر کم ازکم 4 یا 5 ماہ کے لیے کافی تھے۔ لیکن اب کبھی یہ اندیشہ ظاہر کیا جاتا کہ بیرونی زرمبادلہ کے ذخائر اتنے کم ہوگئے کہ صرف چند ہفتوں کے لیے کافی ہیں۔

اب مالی سال 2021-22 کی درآمدات کو دیکھتے ہیں تو وہ 80 ارب ڈالر سے متجاوز کر چکی تھیں، لیکن 2021 کے دسمبر جنوری میں اس وقت کی حکومت نے درآمدات کی اس قدر تیز رفتاری کو قابو میں لانے کے لیے کچھ سنجیدہ کوشش نہ کرسکی اور جب 30 جون 2022کو سارا حساب کتاب کرنے کے بعد فارغ ہوئے تو معلوم ہوا کہ درآمدات تاریخ میں پہلی بار 80 ارب ڈالر تک پہنچ گئی۔ یہیں سے کمزور ترین معیشت کے قدم لڑکھڑانے شروع ہوئے۔

ڈالر کی قدر نے تیز رفتاری سے اونچی اڑان بھرنی شروع کردی۔ اسے مزید شہ آئی ایم ایف کے رویے نے دینا شروع کردی۔ درآمدات کے شعبے میں مالیاتی دباؤ لانے والا شعبہ پٹرولیم مصنوعات کی درآمد کا ہے جس پر معاشی حکام کو زبردست گہری نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو صاف معلوم ہوجائے گا کہ 2020-21 کے درآمدی بل کو مدنظر رکھتے ہوئے 2021 کے ستمبر اکتوبر سے ہی اس شعبے کی سنگینی کا جائزہ لیتے ہوئے اس پر کنٹرول یعنی پٹرول کی کھپت کو اس طرح گھٹانا جس سے معاشی پہیے کی رفتار پر کوئی زد نہ آئے۔


جیساکہ بعد میں ایک سال بعد نئی حکومت نے اعلان کرتے ہوئے پٹرول کی کھپت کو گھٹانے کی کوشش کی۔ سرکاری محکموں سے گاڑیوں کی تعداد کو کم سے کم رکھنا اور دیگر کئی اصلاحی اقدامات اٹھائے اگرچہ ان کے نتائج اب بھی ہدف کے مطابق حاصل نہ ہوسکے لیکن پہلے کروڈ آئل کی درآمدات پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 2020-21 مالی سال کے دوران ایک کروڑ40 لاکھ 82 ہزار میٹرک تن کی درآمد پر 5 ارب 16 کروڑ ڈالر خرچ ہوئے اور اگلے مالی سال کروڈ آئل کی طلب میں اضافہ ہوکر ایک کروڑ 80 لاکھ 64 ہزار میٹرک ٹن تک جا پہنچی۔ جس پر 12 ارب 6 کروڑ 94 لاکھ ڈالر صرف ہوئے۔

یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ مارچ 2020 کے بعد عالمی منڈی میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں زبردست کمی ہوئی ایک وقت ایک بیرل کروڈ آئل 20 ڈالر سے بھی کم پر دستیاب تھا۔ دنیا کے بہت سے ملکوں چین، بھارت اور کئی صنعتی ممالک نے بڑے پیمانے پر پٹرولیم مصنوعات کی خریداری کرکے اپنے ذخیرہ گاہوں کو بھر دیا۔

پاکستان کے پاس ادائیگی کے لیے ڈالرز تو تھے لیکن ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے بڑے آئل ڈپو نہیں تھے۔ لیکن یہ بات توجہ طلب ہونی چاہیے کہ 2020-21 کے مقابلے میں 22 میں 40 لاکھ میٹرک ٹن کروڈ آئل زیادہ منگوایا گیا حالانکہ ان دنوں قیمت بھی بہت بڑھ رہی تھی یعنی مارچ اپریل تا اگست 2020 جیسی صورت حال نہ تھی جب عالمی منڈی میں ریٹس انتہائی کم تھے۔

اس وقت اگر ایک کروڈ 80 یا 90 لاکھ میٹرک ٹن کروڈ آئل منگوا لیتے تو مہنگے ہونے پر زائد اخراجات سے بچ کر ملک کو 3 یا 4 ارب ڈالر کا فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ اگرچہ اب تاخیر سے صحیح پٹرولیم مصنوعات کی درآمد میں کچھ کمی لائی جا رہی ہے لیکن یہ بلحاظ مقدار کمی ہونے کے باوجود چونکہ بلحاظ قیمت زیادہ ہیں پاکستان درآمدات میں اب بھی اول نمبر پر ہی آئے گا۔

حکومت اس سلسلے میں پٹرولیم مصنوعات کے درآمدی بل میں کمی لانے کے لیے سرکاری سطح پر جس قدر اصلاحات کا اعلان کر چکی ہے اگرچہ اس پر عملدرآمد کا فقدان ہی نظر آ رہا ہے۔ کیونکہ اس مد میں صرف اور صرف غیر ضروری کھپت کو ہی کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ حکومت آخری حربے کے طور پر بار بار پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ یا اسے برقرار رکھنے کی پالیسی اپناتی ہے۔

حالانکہ حالیہ دنوں میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی ہے لیکن یہاں پر چونکہ اب آئی ایم ایف کے مطالبات پر بھی عملدرآمد کرنا ہوتا ہے جس کے معیشت پر منفی اثرات ہی مرتب ہو رہے ہیں اگرچہ پٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی ہوئی درآمدی مالیت نے پاکستان کے مالی دباؤ میں زبردست اضافہ کردیا ہے۔

جس کے بارے میں 2021-22 کے اعداد و شمار ہی ظاہر کر رہے ہیں اور موجودہ مالی سال کے دوران اسے کس قدر گھٹایا جاسکے گا اس بارے میں چند ماہ بعد ہی اعداد و شمار سے ظاہر ہوگا۔ لیکن یہاں پھر اس امر کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ کسی طور پر بھی پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں کمی اور اس کی قیمتوں میں بلاجواز اضافہ معیشت کے لیے منفی اثرات کے حامل نہ ہوں۔

کیونکہ کسی بھی پالیسی کے نفاذ سے قبل اس کے تمام تر اثرات کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ اس وقت چونکہ روپیہ بھی انتہائی کمزور ترین، معیشت بھی انتہائی مضمحل مالی حالت انتہائی پتلی اور ڈالر ہے کہ سر چڑھ کر بول رہا ہے اور آئی ایم ایف کی ستم ظریفیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں ایسے میں ایسی پٹرولیم پالیسی کی ضرورت ہے ۔

جس سے معیشت پر کسی قسم کا قدغن نہ لگے گا بلکہ معیشت کا پہیہ چلانے کے لیے جس قدر سستا پٹرول ہو سکے مہیا کیا جائے۔ اگرچہ روس سے پٹرولیم مصنوعات کی درآمدات کا آغاز ہو چکا ہے اب اس سستے پٹرول کو معیشت کے بڑھاوے کے لیے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔
Load Next Story