قوم کو بادام کھلائے جائیں

قوم بادام کھائےتاکہ کم سےکم اسےاپنا اور دوسروں کاماضی یادرہ سکے۔اور وہ اپنےنمائندوں کےچناؤکےوقت گریبان پکڑنانہ بھولیں۔


Rizwan Tahir Mubeen April 22, 2014
قوم بادام کھائےتاکہ کم سےکم اسےاپنا اور دوسروں کاماضی یادرہ سکے۔اور وہ اپنےنمائندوں کے چناؤ کے وقت گریبان پکڑنانہ بھولیں۔

HYDERABAD: یہ طے کرنا مشکل ہے کہ ہم بھلکڑ زیادہ ہیں یا جذباتی۔ جذبات کو تو ایک جان دار پر بیتنے والی فطری چیز کہہ کر ٹال لیں، مگر یہ بھلکڑ پن کا آخر کیا جواز؟ عوام کے سب سے بڑے مسئلے پر گھنٹوں اپنا اور دوسروں کا وقت صرف کرنے والے بھی کبھی اس پر بات نہیں کرتے کہ آخر ہم بھلکڑ کیوں؟ بس حال میں بیتنے والے واقعے کو لے کر جذبات کی رو میں ایسے بہے چلے جاتے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ گویا ایک فیشن چل نکلتا ہے اظہار یک جہتی اور خراج عقیدت کا۔ کیا برقی ذرائع ابلاغ اور کیا سماجی ذرائع ابلاغ۔ عام تو عام یہاں بڑی بڑی شخصیات بھی دیوانی ہوئی چلی جاتی ہیں۔ کوئی تو انہیں ٹھوکا لگا دیا کرے کہ ''حضرت، آپ کے جذبات اپنی جگہ، لیکن ماضی کو یاد رکھیے اور توازن کو تو ہاتھ سے نہ جانے دیجیے!''

کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی کی پس کیمرہ ویڈیو منظر عام پر آئی اور پاکستان میں برقی ذرائع ابلاغ کا اب تک ایک بہت بڑا ''دھماکا'' ہو گیا۔ ناظرین نے دانتوں میں انگلیاں دبا لیں اور جھٹ فیصلہ صادر کیا کہ اور کچھ ہو نہ ہوان دونوں ٹی وی میزبانوں کی صحافت کی فاتحہ پڑھ لو! ہمیں اس لمحے بھی یقین تھا کہ ہونا ہوانا کچھ بھی نہیں۔ چینل بھی یہی ہوگا، ٹی وی میزبان بھی یہی اور دیکھنے والے ناظرین بھی۔ پھر وہی ہوا ، چینل کی طرف سے صفائیاں تو شروع ہوئیں ہی، ساتھ ہی ان میں شامل ایک خاتون صحافی بھی اپنا ''نقطہ نظر'' پیش کرنے لگیں اور بتایا کہ واقعے میں شامل دوسرے مرد صحافی کو نکال دیا گیا ہے۔ اب لوگوں نے کہا کہ ''حکیم لقمان'' کا تو قصہ تمام! مگر ہوا کیا؟ پہلے تو مختلف چینلوں نے بطور ''مہمان'' ان کا درشن کرانا شروع کیا اور کچھ ہی وقت بعد وہ کسی دوسرے چینل پر نمودار ہوگئے۔ بہر حال لوگ سب بھول بھال گئے اور کچھ بھی تو نہیں ہوا۔

اسی سے ملتا جلتا قصہ ایک اور ٹی وی میزبان کا ہے، جو اس سے کچھ پہلے رونما ہوا۔ ان کی بھی ایسی ویڈیو کسی نے لیک کر ڈالی، جس میں موصوف ایسے بے تکلف تھے کہ بیان سے باہر اور بھی بہت کچھ ایسا تھا کہ کہنے کو الفاظ نہیں۔ ہوا کیا؟ کتنی اچھل کود کی لوگوں نے۔ آج وہی سب سے زیادہ بکنے (''ب'' کے نیچے زیر پڑھیں) والے ٹی وی میزبان ہیں۔ اس کے بعد ان کے ''قیمتی'' ہونے کی بنا پر رمضان کے ''سیزن'' کے لیے بھی ان کے پرانے چینل نے انہیں واپس گھسیٹا۔ یعنی شرم سے ڈوب مرجانے والی چیزیں تو یہاں لوگوں کے ''بھائو'' بڑھایا کرتی ہیں اور وہ پہلے سے زیادہ تنخواہ پر واپس آتے ہیں۔

دور کیوں جاتے ہیں۔ لوگ سیاست دانوں کے کون سے وعدے یاد کرتے ہیں۔ یہاں تو انتخابات کی شام جشن فتح سے ہی سارے وعدوں کی وضاحتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ صرف لوڈ شیڈنگ کی مثال لے لیں۔ چند ماہ کی مار کہے جانے والے مسئلے پراب کیا رائے ہے؟ عوام تو یہ بھی بھول گئے کہ 2007ء میں ججوں کی بحالی کی تحریک میں کیا کیا کہا گیا کہ ہم بدعنوانی روک دیں گے، منہگائی پر روک لگا دیں گے اور انصاف کا دور دورہ ہوگا ۔یہ ہوگا اور وہ ہوگا۔ کیا ہوا؟ کچھ بھی نہیں۔

غداری کیس کا بڑا چرچا تو بہت سنا ہے لیکن کچھ جذباتی لوگوں کو یہ یاد نہیں رہتا کہ آئین تو 1999ء میں بھی پامال ہوا، جب ''عدل و انصاف'' کی علامت بننے والوں نے بھی منڈ کے ''پی'' اور جسٹس سلیم الزماں صدیقی جیسے لوگوں نے گُم نامی کا حصہ بن جانا قبول کر لیا، مگر آج بات کی جاتی ہے صرف 2007 ء کی آئین شکنی کی! کیوں؟

یہاں توکچھ لوگ سیاست چھوڑنے کے بھی وعدے کرتے ہیں مگر یہ لوگ جان کو آجاتے ہیں۔ کچھ ''لوٹے'' ہوتے ہیں مگر قبول کر لیے جاتے ہیں۔ کتنی بار انقلاب کی نوید دی جاتی ہے، کتنی بار دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانے کی تاریخ دی جاتی ہے،مگر سب وہی رہتا ہے۔

کسی نے کہا تھا ''دھرنے'' سے تبدیلی آئے گی کسی نے ''مارچ'' کے بعد خوش خبری کا کہا۔ بہت سے ایسے ''پہنچے ہوئے'' بھی تھے جنہوں نے الہامی حوالوں سے لکھوا کر کے اخبارات کے کالم کے کالم سیاہ کیے۔ مستقبل بینی تو ویسے بھی ہر ایک کے لیے کشش رکھتی ہے، ایک اخبار تو پر اسرار ''ذرائع'' سے خبریں دینے میں خاصا ملکہ رکھتا ہے،المیہ یہ ہے کہ کمزور یادداشت کی بنا پر کوئی اس کے ماضی کی خبروں کا انجام نہیں دیکھتا۔

تو پس ثابت ہوا کہ قوم کو بادام کی ضرورت ہے، تاکہ کم سے کم اسے اپنا اور دوسروں کا ماضی یاد رہ سکے۔ اور وہ اپنے نمائندوں کے چناؤ کے وقت گریبان پکڑنا نہ بھولیں اور ایسے ہی کسی کی موت پر جذباتی ہوکر حقائق خلط ملط نہ کرنے لگیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں