وزیر اعظم کو مشکل اور دور رس فیصلے فوری کرنا ہوں گے
وزیراعظم میاں نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر مشکل فیصلوں کے مرحلے کو ذمہ داری...
5 جون 2013 ء کو تیسری بار وزارتِ عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے میاں محمد نواز شریف کی حکومت کو ابھی ایک سال بھی مکمل نہیں ہوا کہ وہ ملک و قوم کو ترقی و خوشحالی کے سفر پر گامزن کرنے کا مصمم ارادہ رکھنے کے باوجود الجھاؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔
توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے ان کے مخالفین بھی انصاف سے کام لیں تو انہیں تعریف کرنا پڑتی ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ، نیلم پاور پراجیکٹ، داسو، دیامیر بھاشا، گڈانی پاور پراجیکٹ اور قائداعظم سولر پارک جیسے منصوبے شروع کرنے کے علاوہ لائن لاسز کو ختم کرنے کی کامیاب کوششیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ بجلی و گیس چوروں کے خلاف کارروائی کرنے میں البتہ انہیں شدید دشواریاں پیش ہیں اور انہیں اس جانب سے ہرگز آنکھیں بند نہ کرنا چاہئیں۔ اگر ایف آئی اے کے ذریعے بجلی و گیس چوروں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کامیاب نہ ہوئیں تو مناسب قانون سازی کے بعد متبادل راستہ اختیار کیا جانا ضروری ہے اور اس سلسلے میں فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
میاں نواز شریف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے بھی درست قدم اٹھایا کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی آل پارٹیز کانفرنس بلا کر انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں سے مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوشش کا مینڈیٹ حاصل کیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی حکومتی کوشش کا مثبت جواب دیا اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر بھارت جیسے ہمارے سرعام دشمن اور بعض خفیہ دشمنوں کو مذاکرات کا یہ سلسلہ ناگوار گزرا اور پھر شکوک و شبہات کی دیواریں کھڑی کرنا شروع کر دی گئیں۔
طالبان کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی قیدی رہا ہی نہیں کیے جبکہ وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے آفس کے ذرائع انہیں قیدیوں کی رہائی کی خبر سنا چکے ہیں، اس کنفیوژن سے پاکستان مخالف اور امن دشمن عناصر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان کی کامیابی ہی ہے کہ امن مذاکرات کے لیے کی جانے والی جنگ بندی کی مدت ختم ہو گئی مگر اس میں توسیع کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی اور اب تو امن دشمن گزشتہ 36 گھنٹوں میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر اور چارسدہ میں پولیس اہلکاروں پر مجموعی طور پر 3 حملے کر چکے ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری کوئی قبول کرے یا نہ کرے نقصان پولیس کا، ان خاندانوں کا، صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا، مرکز میں میاں نواز شریف کی حکومت کا، مذاکرات کے ذریعے امن کے خواہاں فیصلہ سازوں کا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا ہوا۔ چند دن کے وقفے سے شاید مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع بھی ہو جائے مگر اس غفلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ بظاہر بہت پراعتماد نظر آتی ہے۔ مگر عملی اعتبار سے وہ کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے معاملے میں بھی ان کے موقف کو جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص جھٹلا نہیں سکتا مگر وزیراعظم نواز شریف کو ایسے اہم اور حساس معاملات پر جہاں ضرورت ہو خود براہ راست اپنے اصولی موقف کے اظہار سے نہیں ہچکچانا چاہیے کہ ان کے دور حکومت میں ہونے والے ہر اچھے برے فیصلے کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر مشکل فیصلوں کے مرحلے کو ذمہ داری سے نبھائیں۔ اگر وہ سوچتے ہی رہ گئے کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ہے یا آپریشن کرنا ہے، سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ہے یا نہیں، سول ملٹری تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا ہے یا مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا ہے۔ یہ فیصلے وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی دانشمندی کے ساتھ بروقت عملی اقدامات کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف ابھی اسی الجھن کے سلجھاؤ کے راستے تلاشن کرنے کی سوچ بچار میں مصروف تھے کہ ملک کے ایک نامور صحافی حامد میر پر گزشتہ روز کراچی میں کیے گئے قاتلانہ حملے اور اس کی بعد کی صورتحال نے انہیں مزید پریشان کر دیا۔ اس ناخوشگوار واقعہ کے ذمہ داران تک پہنچنا سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا بھی کھوج لگائیں کہ ان پر حملے کے محرکات کیا ہیں۔
اس معاملے کے براہ راست شکار حامد میر اور اس کے بیوی بچے ہیں، ان چار افراد کے علاوہ اگر کوئی تبصرہ یا الزام سامنے آتا ہے تو اس کی بنیاد پر حساس اور اہم اداروں پر الزام تراشی کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اس سے ان اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ اس معاملے پر سیاست اور ذاتی سکور سیٹل کرنے والوں نے گزشتہ دو دنوں کے دوران اپنا کھیل خوب کھیلا اور اس سارے عمل کا سب سے زیادہ نقصان زخمی ہونے والے صحافی اور وزیراعظم نواز شریف کو ہوا، ایک کا کیس اور دوسرے کی حکومت کمزور ہوئی۔
اس ساری صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف کو ملک بھر میں صحافت کے موجودہ غیر ذمہ دار رویے کو بھی قاعدے قانون میں لانے کے لیے ا قدامات ضرور کرنا ہوں گے کہ اب ہمارے ہاں خبر دینے والے کم اور خبر ٹھونسنے والے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ٹاک شوز کے دوران رول آف لاء کی تکرار کرنے والے بعض خود پسندی کا شکار صحافیوں کے لیے ایسی قانون سازی کرنا ہو گی جس سے ان کا یہ زعم دور ہو جائے کہ وہ حکومتیں بنا بھی سکتے ہیں گرا بھی سکتے ہیں۔ پاور گیم کا حصہ بننے والے صحافیوں کو برطانیہ، امریکہ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صحافتی مثالیں دیتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں حادثات اور حادثاتی خبروں کی لائیو کوریج اور فوری تبصروں کی بھی ایسی آزادی حاصل نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اور کچھ نہیں کر سکتے تو ملک کے عظیم صحافی ہونے کے زعم میں مبتلا ان چند صحافیوں کو بیرون ملک کی کسی یونیورسٹی سے صحافتی اقدار کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی مختصر کو رس پر ہی بھیج دیں تاکہ انھیں آزادی صحافت کے سا تھ ساتھ ذمہ داری کا بھی پتہ چل سکے۔ اور جب تک حکومت پاکستان نے صحافتی آزادی اور بے لگامی کے درمیان موجود تفریق کرنے والی انتہائی باریک لائن کو واضح نہ کیا اور صحافتی اداروں و صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے اصول از سر نو وضع نہ کیے اس وقت تک معاملات بہتر نہیں ہو سکیں گے۔
توانائی کے بحران کے خاتمے کے لیے کی جانے والی کوششوں کے حوالے سے ان کے مخالفین بھی انصاف سے کام لیں تو انہیں تعریف کرنا پڑتی ہے کہ نندی پور پاور پراجیکٹ، نیلم پاور پراجیکٹ، داسو، دیامیر بھاشا، گڈانی پاور پراجیکٹ اور قائداعظم سولر پارک جیسے منصوبے شروع کرنے کے علاوہ لائن لاسز کو ختم کرنے کی کامیاب کوششیں ان کے کریڈٹ پر ہیں۔ بجلی و گیس چوروں کے خلاف کارروائی کرنے میں البتہ انہیں شدید دشواریاں پیش ہیں اور انہیں اس جانب سے ہرگز آنکھیں بند نہ کرنا چاہئیں۔ اگر ایف آئی اے کے ذریعے بجلی و گیس چوروں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں کامیاب نہ ہوئیں تو مناسب قانون سازی کے بعد متبادل راستہ اختیار کیا جانا ضروری ہے اور اس سلسلے میں فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں۔
میاں نواز شریف کے لیے دوسرا بڑا چیلنج دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنا تھا۔ انہوں نے اس حوالے سے بھی درست قدم اٹھایا کہ پارلیمنٹ میں موجود تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کی آل پارٹیز کانفرنس بلا کر انتہا پسندی کی راہ پر چلنے والوں سے مذاکرات کے ذریعے قیام امن کی کوشش کا مینڈیٹ حاصل کیا۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے بھی حکومتی کوشش کا مثبت جواب دیا اور مذاکرات کا سلسلہ شروع ہو گیا مگر بھارت جیسے ہمارے سرعام دشمن اور بعض خفیہ دشمنوں کو مذاکرات کا یہ سلسلہ ناگوار گزرا اور پھر شکوک و شبہات کی دیواریں کھڑی کرنا شروع کر دی گئیں۔
طالبان کہتے ہیں کہ حکومت نے کوئی قیدی رہا ہی نہیں کیے جبکہ وزیرستان کے پولیٹیکل ایجنٹ کے آفس کے ذرائع انہیں قیدیوں کی رہائی کی خبر سنا چکے ہیں، اس کنفیوژن سے پاکستان مخالف اور امن دشمن عناصر فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ ان کی کامیابی ہی ہے کہ امن مذاکرات کے لیے کی جانے والی جنگ بندی کی مدت ختم ہو گئی مگر اس میں توسیع کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش ہی نہیں کی گئی اور اب تو امن دشمن گزشتہ 36 گھنٹوں میں پشاور کے نواحی علاقے بڈھ بیر اور چارسدہ میں پولیس اہلکاروں پر مجموعی طور پر 3 حملے کر چکے ہیں۔
ان حملوں کی ذمہ داری کوئی قبول کرے یا نہ کرے نقصان پولیس کا، ان خاندانوں کا، صوبہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کا، مرکز میں میاں نواز شریف کی حکومت کا، مذاکرات کے ذریعے امن کے خواہاں فیصلہ سازوں کا اور سب سے بڑھ کر پاکستان کا ہوا۔ چند دن کے وقفے سے شاید مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع بھی ہو جائے مگر اس غفلت اور اس کے نتیجے میں ہونے والے جانی و مالی نقصان کا ذمہ دار کون ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف اور ان کی کابینہ بظاہر بہت پراعتماد نظر آتی ہے۔ مگر عملی اعتبار سے وہ کنفیوژن کا شکار نظر آتے ہیں۔ سابق آرمی چیف پرویز مشرف کے معاملے میں بھی ان کے موقف کو جمہوریت پسند اور قانون کی حکمرانی پر یقین رکھنے والا کوئی بھی شخص جھٹلا نہیں سکتا مگر وزیراعظم نواز شریف کو ایسے اہم اور حساس معاملات پر جہاں ضرورت ہو خود براہ راست اپنے اصولی موقف کے اظہار سے نہیں ہچکچانا چاہیے کہ ان کے دور حکومت میں ہونے والے ہر اچھے برے فیصلے کے وہ خود ذمہ دار ہیں۔
وزیراعظم میاں نواز شریف کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حکومت کو درپیش چیلنجز کے پیش نظر مشکل فیصلوں کے مرحلے کو ذمہ داری سے نبھائیں۔ اگر وہ سوچتے ہی رہ گئے کہ مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھنا ہے یا آپریشن کرنا ہے، سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور انہیں بیرون ملک جانے کی اجازت دینا ہے یا نہیں، سول ملٹری تعلقات خراب کرنے کی کوشش کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا ہے یا مصلحتاً خاموشی اختیار کرنا ہے۔ یہ فیصلے وزیراعظم نواز شریف کی سیاسی دانشمندی کے ساتھ بروقت عملی اقدامات کرنے کا تقاضا بھی کرتے ہیں۔
میاں نواز شریف ابھی اسی الجھن کے سلجھاؤ کے راستے تلاشن کرنے کی سوچ بچار میں مصروف تھے کہ ملک کے ایک نامور صحافی حامد میر پر گزشتہ روز کراچی میں کیے گئے قاتلانہ حملے اور اس کی بعد کی صورتحال نے انہیں مزید پریشان کر دیا۔ اس ناخوشگوار واقعہ کے ذمہ داران تک پہنچنا سندھ کی صوبائی حکومت کے ساتھ ساتھ وفاقی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کا بھی کھوج لگائیں کہ ان پر حملے کے محرکات کیا ہیں۔
اس معاملے کے براہ راست شکار حامد میر اور اس کے بیوی بچے ہیں، ان چار افراد کے علاوہ اگر کوئی تبصرہ یا الزام سامنے آتا ہے تو اس کی بنیاد پر حساس اور اہم اداروں پر الزام تراشی کسی صورت ملکی مفاد میں نہیں کیونکہ اس سے ان اداروں کے وقار کو ٹھیس پہنچتی ہے اور عوام کا ان اداروں پر اعتماد مجروح ہوتا ہے۔ اس معاملے پر سیاست اور ذاتی سکور سیٹل کرنے والوں نے گزشتہ دو دنوں کے دوران اپنا کھیل خوب کھیلا اور اس سارے عمل کا سب سے زیادہ نقصان زخمی ہونے والے صحافی اور وزیراعظم نواز شریف کو ہوا، ایک کا کیس اور دوسرے کی حکومت کمزور ہوئی۔
اس ساری صورتحال میں وزیراعظم نواز شریف کو ملک بھر میں صحافت کے موجودہ غیر ذمہ دار رویے کو بھی قاعدے قانون میں لانے کے لیے ا قدامات ضرور کرنا ہوں گے کہ اب ہمارے ہاں خبر دینے والے کم اور خبر ٹھونسنے والے زیادہ ہو چکے ہیں۔ ٹاک شوز کے دوران رول آف لاء کی تکرار کرنے والے بعض خود پسندی کا شکار صحافیوں کے لیے ایسی قانون سازی کرنا ہو گی جس سے ان کا یہ زعم دور ہو جائے کہ وہ حکومتیں بنا بھی سکتے ہیں گرا بھی سکتے ہیں۔ پاور گیم کا حصہ بننے والے صحافیوں کو برطانیہ، امریکہ اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی صحافتی مثالیں دیتے ہوئے اس بات کا بھی خیال رکھنا چاہیے کہ وہاں حادثات اور حادثاتی خبروں کی لائیو کوریج اور فوری تبصروں کی بھی ایسی آزادی حاصل نہیں۔
وزیراعظم نواز شریف اور کچھ نہیں کر سکتے تو ملک کے عظیم صحافی ہونے کے زعم میں مبتلا ان چند صحافیوں کو بیرون ملک کی کسی یونیورسٹی سے صحافتی اقدار کی تعلیم حاصل کرنے کے لئے کسی مختصر کو رس پر ہی بھیج دیں تاکہ انھیں آزادی صحافت کے سا تھ ساتھ ذمہ داری کا بھی پتہ چل سکے۔ اور جب تک حکومت پاکستان نے صحافتی آزادی اور بے لگامی کے درمیان موجود تفریق کرنے والی انتہائی باریک لائن کو واضح نہ کیا اور صحافتی اداروں و صحافیوں کے لیے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے اصول از سر نو وضع نہ کیے اس وقت تک معاملات بہتر نہیں ہو سکیں گے۔