پاکستان کی کامیاب خارجہ پالیسی
بلاول بھٹو زرداری نے گوا کانفرنس میں پاکستان کے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے
بھارت کی ریاست گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کونسل کا اجلاس اس خطے کے تناظر میں خاصی اہم رہا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر خاصا متحرک اور سرگرم کردار ادا کیا ہے اور بھارت میں جا کر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، پاکستان کا ریاست جموں کشمیر سے متعلق مؤقف واضح اور ٹھوس ہے،مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدمات سے مشکلات پیدا ہوئیں ، بھارت کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ان اقدامات کو ختم اور بات چیت کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے گوا میں جمعہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی اور بعدازاں کراچی پہنچنے پر ایئر پورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر صحافیوں سے گفتگوکے دوران گوا میں ہونے والی سرگرمیوں اور پاکستانی موقف کے بارے میں باتیں کیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا گوا جانا ایک اہم پیش رفت ضرور ہے۔ جب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخیاں زیادہ بڑھی ہیں 'تب سے دونوں ملکوں کے درمیان اس سطح پر کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ پاکستان نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ حالات کو نارمل کیا جائے لیکن بھارت نے برسراقتدار بی جے پی کی حکومت کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی 'اسے تقسیم کر کے لداخ کو الگ صوبہ بنایا گیا ' مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو جائیدادیں خریدنے اور وہاں کا ڈومیسائل جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاہے کہ مقبوضہ کشمیر پر یکطرفہ فیصلے کرکے بھارت نے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے' اسے 4 اگست 2019کی پوزیشن پر واپس آنا ہوگا،یہ کہنا ٹھیک ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں۔ تاہم اگست 2019کے بعد سے صورت حال یکسر برعکس ہے۔
بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔بھارت نے اپنے غیر ذمے دارانہ اقدامات سے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ پیپلزپارٹی سمیت وہ جماعتیں جو ہمیشہ سے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کی خواہش مند رہی ہیں کے لیے سپیس ختم ہو چکی ہے۔
بھارت کے عوام اور میڈیا کا جو بھی مؤقف ہو، ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے بھارت کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔انھوں نے امید ظاہرکی کہ بھارت کھیلوں کے معاملے میں بْرے فیصلے نہیں کرے گا۔ کھیلوں کو سفارتی اختلافات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
بی جے پی کی حکومت نے جنوبی ایشیا میں دھونس دھاندلی کو ریاستی پالیسی کا اصول بنا رکھا ہے' پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سری لنکا'نیپال اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھارت کا رویہ ہر گز دوستانہ نہیں ہے ۔بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف بھارت کی بڑی پارٹیاں بھی احتجاج کر رہی ہیں ' پاکستان کے وزیر خارجہ نے گوا میں بھارتی صحافیوں کے سوالوں کا جوابات بھی دیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم تاریخ کے ہاتھوں یرغمال بنے نہیں رہیں گے، جوہماری پچھلی نسلیں حاصل نہیں کرسکیں ہم کریں گے تاہم حالات کو یرغمال بنائے رکھنا بھارت کی چھوٹی حرکت ہے،میری کوشش کے باوجود پاکستانی بلائنڈ کرکٹرز کو بھارت کا ویزا نہیں دیا گیا۔جب ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہے کہ پاکستان آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے فوج نکالے گا تو کیاآپ ایسا کرنے کو تیار ہیں۔
اس پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا، بھارتی حکومت اس استصواب یا ریفرنڈم سے خوفزدہ کیوں ہے جس میں کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرسکیں۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس کی میزبانی کے بھارتی فیصلے کے بارے میں سوال پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ 2026میں پاکستان سی ایف ایم کی سربراہی سنبھالے گا، توقع ہے کہ بھارت باہمی سفارتی معاہدوں کی بنیاد پر اجلاس میں شرکت کرے گا۔
پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشت گری کے معاملے پر بے جی پی اور آر ایس ایس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلم ممالک پر الزامات لگاتے رہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے ہندو امیدواروں کو قومی اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار بناتی ہے لیکن میں حیران ہوں کہ بی جے پی کا بھارتی پارلیمنٹ کے اپر اور لوئر ہاؤس میں کوئی مسلمان رکن نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے بالکل درست بات کی ہے۔ بی جے پی کی نفرت انگیز پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے مسلمانوں کے بارے میں نظریات سب کو معلوم ہیں۔
بھارتی جنتا پارٹی کے دیگر رہنماؤں جن میں امیت شاہ اور یوگی ادیتیا ناتھ سرفہرست ہیں ' وہ اپنی تقریروں میں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں متصبانہ گفتگو اور تقاریر کرتے رہتے ہیں۔بھارتی پولیس میں بھی ہندو انتہا پسند نظریات کے حامل افسر اور جوانوں کو ترقیاں دے کر اہم جگہوں پر تقرریاں کی گئی ہیں۔ اس وجہ سے بھی مسلمان اور دیگر اقلیتیں پریشان ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ کی باتوں کے بارے میں واضح کیا کہ انھوں نے جو بھی بات کی ہے وہ ان کی اپنی مرضی ہے' ان کی تنقید کے پیچھے ان کا اپنا عدم تحفظ کا احساس ہے۔وہ جس جماعت کا وزیر خارجہ ہے وہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے، ان کی کوشش ہے کہ ہر پاکستانی کو دہشت گرد ثابت کریں اگر وہ یہ بات نہیں کریں گے تو ان کا جھوٹا بیانیہ ختم ہوجائے گا۔
بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعتیں سروں کی قیمتیں لگاتی ہیں ؟ بی جے پی یہ کام کرتی ہے۔بھارت میں میرے سر کی قیمت لگائی گئی مگرہم اپنے مؤقف اور نظرئیے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
بھارتی ٹی وی کو انٹرویو میں سرحد پار دہشت گردی کے الزام پر بلاول بھٹو زرداری نے صحافی کو یہ دو ٹوک جواب دے کر خاموش کرا دیا کہ بھارتی نیوی کمانڈر اور ریاستی ایکٹرکلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟ اگر وہ بھارتی نہیں تو بھارتی حکومت اس کا دفاع کیوں کر رہی ہے؟
انھیں نے مزید کہا پاکستان تو ممبئی حملے کا عدالتی ٹرائل کر رہا ہے ،بھارت سمجھوتہ ایکسپریس حملے جس میں پاکستانی شہید ہوئے کے ملزمان کو بَری کر چکا ہے ۔ بھارت میں جب بھی الیکشن ہوں، وہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرتا ہے۔
گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرا ئے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کا قیام پورے یوریشیا میں سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا،دہشت گردی سے عالمی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں،خطے کی اجتماعی سلامتی سب کی مشترکہ ذمے داری ہے،پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کی کوششوں کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہے لیکن دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہتھیارکے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کو تشویشناک قراردیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپ آپس میں زیادہ تعاون کر رہے ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے بہت سے ممالک میں اکثر کو یکساں قسم کے دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے اس مطالبے کو دہرایا کہ بین الاقوامی برادری عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کرے تاکہ وہ حالات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ انھوں نے افغان عبوری حکومت پر بھی زور دیا کہ اس نے اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ کرنے کا عالمی برادری کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل کرے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گوا کانفرنس میں پاکستان کے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے' چین کے بارے میں بھی پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ون چائینہ پالیسی کا حامی ہے۔ بہرحال جنوبی ایشیا میں مثبت پیش رفت کا آغاز ہونے کے اشارے مل رہے ہیں 'ایسا لگتا ہے کہ جس طرح چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کو بہتر کیا 'اسی طرح چین جنوبی ایشیا میں بھی ایک رہنما کردار ادا کرسکتا ہے' اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً جنوبی ایشیا میں تنازعات اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس موقع پر خاصا متحرک اور سرگرم کردار ادا کیا ہے اور بھارت میں جا کر کشمیر کے حوالے سے پاکستان کے موقف کا اعادہ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ چین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کے حوالے سے بھی کھل کر بات کی ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے دو ٹوک الفاظ میں اعلان کیا کہ ریاست جموں و کشمیر کے بارے میں پاکستان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے، پاکستان کا ریاست جموں کشمیر سے متعلق مؤقف واضح اور ٹھوس ہے،مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے اگست 2019ء کے یکطرفہ اقدمات سے مشکلات پیدا ہوئیں ، بھارت کواقوام متحدہ کی قراردادوں کے منافی ان اقدامات کو ختم اور بات چیت کے لیے ساز گار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔
پاکستانی وزیر خارجہ نے گوا میں جمعہ کو شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کی کونسل کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کی اور بعدازاں کراچی پہنچنے پر ایئر پورٹ کے اولڈ ٹرمینل پر صحافیوں سے گفتگوکے دوران گوا میں ہونے والی سرگرمیوں اور پاکستانی موقف کے بارے میں باتیں کیں۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری کا گوا جانا ایک اہم پیش رفت ضرور ہے۔ جب سے پاکستان اور بھارت کے درمیان تلخیاں زیادہ بڑھی ہیں 'تب سے دونوں ملکوں کے درمیان اس سطح پر کبھی رابطہ نہیں ہوا۔ پاکستان نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ حالات کو نارمل کیا جائے لیکن بھارت نے برسراقتدار بی جے پی کی حکومت کی سخت گیر پالیسی کی وجہ سے ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوئی ہے۔
بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی 'اسے تقسیم کر کے لداخ کو الگ صوبہ بنایا گیا ' مقبوضہ کشمیر میں غیر کشمیریوں کو جائیدادیں خریدنے اور وہاں کا ڈومیسائل جاری کرنے کا فیصلہ بھی کیا ۔ اس صورت حال میں پاکستان کے لیے بھارت کے ساتھ بات چیت کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اس جانب اشارہ کرتے ہوئے کہاہے کہ مقبوضہ کشمیر پر یکطرفہ فیصلے کرکے بھارت نے دو طرفہ تعلقات کو نقصان پہنچایا ہے' اسے 4 اگست 2019کی پوزیشن پر واپس آنا ہوگا،یہ کہنا ٹھیک ہے کہ بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لائیں۔ تاہم اگست 2019کے بعد سے صورت حال یکسر برعکس ہے۔
بھارت نے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی بلکہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی قراردادوں کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔بھارت نے اپنے غیر ذمے دارانہ اقدامات سے ایسے حالات پیدا کردیے ہیں کہ پیپلزپارٹی سمیت وہ جماعتیں جو ہمیشہ سے پاک بھارت تعلقات معمول پر لانے کی خواہش مند رہی ہیں کے لیے سپیس ختم ہو چکی ہے۔
بھارت کے عوام اور میڈیا کا جو بھی مؤقف ہو، ہم بہتر تعلقات چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے بھارت کو سازگار ماحول پیدا کرنا ہوگا۔انھوں نے امید ظاہرکی کہ بھارت کھیلوں کے معاملے میں بْرے فیصلے نہیں کرے گا۔ کھیلوں کو سفارتی اختلافات سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔
بی جے پی کی حکومت نے جنوبی ایشیا میں دھونس دھاندلی کو ریاستی پالیسی کا اصول بنا رکھا ہے' پاکستان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ سری لنکا'نیپال اور دیگر ہمسایہ ممالک کے ساتھ بھارت کا رویہ ہر گز دوستانہ نہیں ہے ۔بی جے پی کی پالیسیوں کے خلاف بھارت کی بڑی پارٹیاں بھی احتجاج کر رہی ہیں ' پاکستان کے وزیر خارجہ نے گوا میں بھارتی صحافیوں کے سوالوں کا جوابات بھی دیے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ہم تاریخ کے ہاتھوں یرغمال بنے نہیں رہیں گے، جوہماری پچھلی نسلیں حاصل نہیں کرسکیں ہم کریں گے تاہم حالات کو یرغمال بنائے رکھنا بھارت کی چھوٹی حرکت ہے،میری کوشش کے باوجود پاکستانی بلائنڈ کرکٹرز کو بھارت کا ویزا نہیں دیا گیا۔جب ایک بھارتی صحافی نے سوال کیا کہ کشمیر پراقوام متحدہ کی قراردادوں میں لکھا ہے کہ پاکستان آزادکشمیر اور گلگت بلتستان سے فوج نکالے گا تو کیاآپ ایسا کرنے کو تیار ہیں۔
اس پر بلاول بھٹو زرداری نے جواب دیا، بھارتی حکومت اس استصواب یا ریفرنڈم سے خوفزدہ کیوں ہے جس میں کشمیری اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرسکیں۔ بھارت کے غیر قانونی زیر قبضہ جموں و کشمیر میں جی 20 سربراہ اجلاس کی میزبانی کے بھارتی فیصلے کے بارے میں سوال پر پاکستان کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہم اس کی مذمت کرتے ہیں ۔ انھوں نے بتایا کہ 2026میں پاکستان سی ایف ایم کی سربراہی سنبھالے گا، توقع ہے کہ بھارت باہمی سفارتی معاہدوں کی بنیاد پر اجلاس میں شرکت کرے گا۔
پاکستان کے وزیرخارجہ بلاول بھٹو نے کہا کہ دہشت گری کے معاملے پر بے جی پی اور آر ایس ایس کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ مسلم ممالک پر الزامات لگاتے رہیں۔ پیپلز پارٹی اپنے ہندو امیدواروں کو قومی اور صوبائی اسمبلی کا امیدوار بناتی ہے لیکن میں حیران ہوں کہ بی جے پی کا بھارتی پارلیمنٹ کے اپر اور لوئر ہاؤس میں کوئی مسلمان رکن نہیں ہے۔
پاکستان کے وزیر خارجہ نے بالکل درست بات کی ہے۔ بی جے پی کی نفرت انگیز پالیسیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کے مسلمانوں کے بارے میں نظریات سب کو معلوم ہیں۔
بھارتی جنتا پارٹی کے دیگر رہنماؤں جن میں امیت شاہ اور یوگی ادیتیا ناتھ سرفہرست ہیں ' وہ اپنی تقریروں میں بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کے بارے میں متصبانہ گفتگو اور تقاریر کرتے رہتے ہیں۔بھارتی پولیس میں بھی ہندو انتہا پسند نظریات کے حامل افسر اور جوانوں کو ترقیاں دے کر اہم جگہوں پر تقرریاں کی گئی ہیں۔ اس وجہ سے بھی مسلمان اور دیگر اقلیتیں پریشان ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے بھارتی وزیر خارجہ کی باتوں کے بارے میں واضح کیا کہ انھوں نے جو بھی بات کی ہے وہ ان کی اپنی مرضی ہے' ان کی تنقید کے پیچھے ان کا اپنا عدم تحفظ کا احساس ہے۔وہ جس جماعت کا وزیر خارجہ ہے وہ جھوٹا پروپیگنڈا کرتی رہی ہے، ان کی کوشش ہے کہ ہر پاکستانی کو دہشت گرد ثابت کریں اگر وہ یہ بات نہیں کریں گے تو ان کا جھوٹا بیانیہ ختم ہوجائے گا۔
بلاول بھٹو نے سوال کیا کہ کیا سیاسی جماعتیں سروں کی قیمتیں لگاتی ہیں ؟ بی جے پی یہ کام کرتی ہے۔بھارت میں میرے سر کی قیمت لگائی گئی مگرہم اپنے مؤقف اور نظرئیے سے پیچھے ہٹنے والے نہیں ہیں۔
بھارتی ٹی وی کو انٹرویو میں سرحد پار دہشت گردی کے الزام پر بلاول بھٹو زرداری نے صحافی کو یہ دو ٹوک جواب دے کر خاموش کرا دیا کہ بھارتی نیوی کمانڈر اور ریاستی ایکٹرکلبھوشن یادیو پاکستان میں کیا کر رہا تھا؟ اگر وہ بھارتی نہیں تو بھارتی حکومت اس کا دفاع کیوں کر رہی ہے؟
انھیں نے مزید کہا پاکستان تو ممبئی حملے کا عدالتی ٹرائل کر رہا ہے ،بھارت سمجھوتہ ایکسپریس حملے جس میں پاکستانی شہید ہوئے کے ملزمان کو بَری کر چکا ہے ۔ بھارت میں جب بھی الیکشن ہوں، وہ دہشت گردی کے کسی واقعہ کی آڑ میں پاکستان کو بدنام کرتا ہے۔
گوا میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے وزرا ئے خارجہ کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹوزرداری نے کہا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)کا قیام پورے یوریشیا میں سیکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے عمل میں لایا گیا تھا،دہشت گردی سے عالمی سلامتی کو خطرات لاحق ہیں،خطے کی اجتماعی سلامتی سب کی مشترکہ ذمے داری ہے،پاکستان دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے کی کوششوں کا حصہ بننے کے لیے پرعزم ہے لیکن دہشت گردی کو سفارتی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے ہتھیارکے طور پر استعمال نہ کیا جائے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اس بات کو تشویشناک قراردیا کہ افغانستان میں دہشت گرد گروپ آپس میں زیادہ تعاون کر رہے ہیں، شنگھائی تعاون تنظیم کے بہت سے ممالک میں اکثر کو یکساں قسم کے دہشت گرد گروہوں کی دہشت گردی کا سامنا ہے۔بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان کے اس مطالبے کو دہرایا کہ بین الاقوامی برادری عبوری افغان حکومت کے ساتھ بامعنی بات چیت کرے تاکہ وہ حالات کو بہتر طریقے سے سمجھ سکیں۔ انھوں نے افغان عبوری حکومت پر بھی زور دیا کہ اس نے اپنی سرزمین دہشتگردی کے لیے استعمال نہ کرنے کا عالمی برادری کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا اس پر عمل کرے۔
بلاول بھٹو زرداری نے گوا کانفرنس میں پاکستان کے موقف کو دو ٹوک انداز میں پیش کیا ہے' چین کے بارے میں بھی پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ وہ ون چائینہ پالیسی کا حامی ہے۔ بہرحال جنوبی ایشیا میں مثبت پیش رفت کا آغاز ہونے کے اشارے مل رہے ہیں 'ایسا لگتا ہے کہ جس طرح چین نے ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاملات کو بہتر کیا 'اسی طرح چین جنوبی ایشیا میں بھی ایک رہنما کردار ادا کرسکتا ہے' اگر ایسا ہوتا ہے تو یقیناً جنوبی ایشیا میں تنازعات اور دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے۔