مقصد
اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان کا مقصد اپنی مظلومیت سے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا
ہم کسی ایک زمانے میں کسی آنے والے زمانے کے لیے اپنی خاطر ایک مقصد بناتے ہیں تاکہ وہ آنے والا زمانہ آسانی سے گزرے، لیکن جب وہ زمانہ نہیں آیا بلکہ کچھ اور ہی آگیا۔ یا یہ کہ وہ گزرا ہوا زمانہ جس میں ہم اپنے لیے ایک مخصوص مقصد بنا رہے تھے وہ اس قابل ہی نہیں تھا کہ ہم نئے زمانے کو پرانے زمانے کی نگاہ سے سمجھ سکتے۔
اس طرح مقصد کا حصول ایک بے معنی کھیل بن کر رہ جاتا ہے اور اس میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے، پھر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کیا مقصد بنایا تھا ، ہم نے کیا سوچا تھا ، ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ وہ جو دور سے خوبصورت نظر آ رہا تھا، قریب سے اتنا بھیانک نکلا کہ تصور سے بھی کہیں زیادہ۔ جیسے ہمارا چاند دور سے تو چاندنی دیتا ہے اور قریب جاؤ تو تاریک ہو جاتا ہے۔
کیا عجب بات ہے کہ جیسے سایہ دار درخت ہیں دعوتِ سفر دیں اور جب دھوپ سر پر آجائے تو وہی درخت آنکھیں چرا لیں اور اپنے پتے بھی چھپا لیں۔ پھر ہم نہ آگے جا سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اب مواقع نہیں کہ ہم دوبارہ کوئی نیا مقصد بنا لیں، دوبارہ کوئی نیا راستہ بنالیں، بس یہ کہ امیدیں حسرتیں بن جاتی ہیں۔
دراصل مقصد بنانا اپنی آزادی کا ایک اعلان ہے کہ ہم جو بھی چاہیں بن سکتے ہیں، جو چاہیں کر سکتے ہیں، ہم آزاد ہیں اپنے فیصلے کرنے میں اور جو چاہیں راستہ اختیار کر سکتے ہیں، لیکن ذرا غور کیجیے کہ راستہ بنانے والوں نے راستے ہی کچھ اس طرح سے بنا رکھے ہوتے ہیں کہ وہ آزاد رستے درحقیقت پابند منزل تک ہی پہنچتے ہیں۔
انسان کی آزادی کی سوچ صرف اس کا اپنا احساس ہے، اندر کا اطمینان ہے۔ اسے خوش فہمی سمجھیے یا غلط فہمی۔ ہم بہت کچھ کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں لیکن ایک کام کبھی نہیں کرسکتے اور وہ یہ کہ ہم زندگی کے کسی موڑ پر ناگہانی سے خود کو نہیں بچا سکتے۔اب آپ سوچیے کہ مقصد اور مقصد کے انتخاب پر اس قدر ہنگامے کا کیا فائدہ ؟ اصل کیا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام کسی اورکا ہے، یہ پروگرام کسی اور کا ہے جب کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پروگرام بنانے والے ہیں اور نظام اپنی مرضی سے چلانے کا اختیار اور استحقاق رکھتے ہیں اور ایسا کر بھی سکتے ہیں، انھی خوش فہمیوں میں مسرور و شاداں رہتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اچانک کسی موڑ پر ہنستے ہنستے رونے لگ جاتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
ہمیں اپنے مقصد کا تعین کرنے سے پہلے بہت اچھی طرح تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر یہ سوچنا چاہیے کہ کیا حالات ہمارے کنٹرول میں ہیں؟ ہم جن پر بھروسہ کر رہے ہیں وہ کہاں تک ہمارا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بقول شاعر ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے'' کے مصداق ہمیں کف افسوس ملنا پڑے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ اپنے مقصد کے حوالے سے ہم ایک خاص حد سے آگے نہیں جاسکتے ہمیں انجام کار پر نظر رکھنا چاہیے۔
آپ اس پس منظر میں ملکی حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ قیادت، سیاست، عدالت، حکومت، صحافت سب ہی اپنے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔ آپ پہلے حکومت کو لے لیجیے۔
پی ڈی ایم اتحاد کا اول مقصد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے خود حکومت بنانا تھا، اتحادی حکومت نے عوام میں یہ بیانیا بنایا کہ عمران حکومت نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، غریب آدمی کی زندگی مشکل ہوگئی ہے، ہم اقتدار میں آ کر مہنگائی ختم کریں گے، عوام کو ریلیف فراہم کریں گے، بجلی گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم اور تباہ حال معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
عمران خان اپنی حکومت کے آخری ایام میں مقبولیت کھوتے جا رہے تھے، سو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ پی ڈی ایم اقتدار میں آگئی، لیکن بعد کے حالات نے پی ڈی ایم کو مشکل ترین حالات سے دوچار کردیا، نہ ان سے معیشت سنبھلی، نہ مہنگائی کنٹرول کرسکے اور نہ عوام کو کوئی قابل ذکر ریلیف فراہم کرسکے۔ آج یہ حالت ہے کہ معیشت رو بہ زوال، بجلی، گیس، دواؤں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ، مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق ملک میں مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، آئی ایم ایف کا دباؤ، قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ اور ڈالر تاریخی بلندی پر ہے، یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم اتحاد جس مقصد کے تحت حکومت میں آیا اور جو بیانیہ انھوں نے عوام کے لیے تراشا تھا وہ دم توڑ گیا ہے۔
تمام تر تاویلوں، دلیلوں اور نت نئے بیانیوں کے باوجود کیا حکومت عوام میں اپنا اعتبار و اعتماد کھو چکی ہے، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کو حالات کی نزاکت اور سنگینی اور اپنی روز بہ روز کمزور ہوتی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں عوام کے پاس وہ کیا بیانیہ لے کر جائیںگے۔ پی ڈی ایم کی کیفیت فارسی کی اس ضرب المثل کی مانند ہوگئی ہے '' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔''
عمران خان نت نئے بیانیے بنانے، یو ٹرن لینے اور عوام میں اپنی مقبولیت بنانے کے مقصد میں پی ڈی ایم کے گھاگ و تجربہ کار سیاستدانوں سے آج کی تاریخ میں کہیں آگے جا رہے ہیں۔ بظاہر وہ اپنی حکومت کی ناکامی کے باعث اقتدار سے نکالے گئے لیکن اس ناکامی نے ان کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیے۔
اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان کا مقصد اپنی مظلومیت سے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا جس میں وہ ابھی تک تو خاصے کامیاب جا رہے ہیں۔ اسی باعث انھوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑیں کہ 90 دن میں الیکشن ہوگئے تو وہ پھر سے پنجاب و کے پی کے میں مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پی ڈی ایم عمران خان کی پنجاب میں ممکنہ کامیابی سے سخت خائف ہے اور پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ کر انتخابات سے فرار کی راہ پر چل رہی ہے، اب گیند عدالت کے کورٹ میں ہے، عدالت عظمیٰ فیصلہ دے چکی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو ہوں گے، لیکن تادم تحریر21 ارب روپے وزارت خزانہ قومی اسمبلی کی قرارداد کے تناظر میں دینے سے انکار کردیا۔
عدالت کا مقصد و مدعا ہے کہ آئین کے تحت وہ حکم پر عمل درآمد کروائے لیکن حکومتی اتحاد کی طرف سے جو منظر نامہ ترتیب دیا جا رہا ہے قومی اسمبلی میں جس طرح تقاریر کی جا رہی ہیںاس سے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کشمکش اور محاذ آرائی کی جنگ جاری ہے۔
عمران خان بضد ہیں کہ تمام اسمبلیاں 16 مئی سے پہلے تحلیل کردی جائیں حکومت انکاری اور اکتوبر میں انتخابات پر اڑی ہوئی ہے تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ عدالت، حکومت اور اپوزیشن کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔
اس طرح مقصد کا حصول ایک بے معنی کھیل بن کر رہ جاتا ہے اور اس میں کوئی ابہام بھی نہیں ہے، پھر ہم یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم نے کیا مقصد بنایا تھا ، ہم نے کیا سوچا تھا ، ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا ؟ وہ جو دور سے خوبصورت نظر آ رہا تھا، قریب سے اتنا بھیانک نکلا کہ تصور سے بھی کہیں زیادہ۔ جیسے ہمارا چاند دور سے تو چاندنی دیتا ہے اور قریب جاؤ تو تاریک ہو جاتا ہے۔
کیا عجب بات ہے کہ جیسے سایہ دار درخت ہیں دعوتِ سفر دیں اور جب دھوپ سر پر آجائے تو وہی درخت آنکھیں چرا لیں اور اپنے پتے بھی چھپا لیں۔ پھر ہم نہ آگے جا سکتے ہیں اور نہ پیچھے ہٹ سکتے ہیں۔ اب مواقع نہیں کہ ہم دوبارہ کوئی نیا مقصد بنا لیں، دوبارہ کوئی نیا راستہ بنالیں، بس یہ کہ امیدیں حسرتیں بن جاتی ہیں۔
دراصل مقصد بنانا اپنی آزادی کا ایک اعلان ہے کہ ہم جو بھی چاہیں بن سکتے ہیں، جو چاہیں کر سکتے ہیں، ہم آزاد ہیں اپنے فیصلے کرنے میں اور جو چاہیں راستہ اختیار کر سکتے ہیں، لیکن ذرا غور کیجیے کہ راستہ بنانے والوں نے راستے ہی کچھ اس طرح سے بنا رکھے ہوتے ہیں کہ وہ آزاد رستے درحقیقت پابند منزل تک ہی پہنچتے ہیں۔
انسان کی آزادی کی سوچ صرف اس کا اپنا احساس ہے، اندر کا اطمینان ہے۔ اسے خوش فہمی سمجھیے یا غلط فہمی۔ ہم بہت کچھ کرتے ہیں اور کر سکتے ہیں لیکن ایک کام کبھی نہیں کرسکتے اور وہ یہ کہ ہم زندگی کے کسی موڑ پر ناگہانی سے خود کو نہیں بچا سکتے۔اب آپ سوچیے کہ مقصد اور مقصد کے انتخاب پر اس قدر ہنگامے کا کیا فائدہ ؟ اصل کیا ہے ؟
حقیقت یہ ہے کہ یہ نظام کسی اورکا ہے، یہ پروگرام کسی اور کا ہے جب کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پروگرام بنانے والے ہیں اور نظام اپنی مرضی سے چلانے کا اختیار اور استحقاق رکھتے ہیں اور ایسا کر بھی سکتے ہیں، انھی خوش فہمیوں میں مسرور و شاداں رہتے ہیں لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ ہم اچانک کسی موڑ پر ہنستے ہنستے رونے لگ جاتے ہیں کہ یہ ہمارے ساتھ کیا ہوا؟
ہمیں اپنے مقصد کا تعین کرنے سے پہلے بہت اچھی طرح تمام پہلوؤں کا جائزہ لے کر یہ سوچنا چاہیے کہ کیا حالات ہمارے کنٹرول میں ہیں؟ ہم جن پر بھروسہ کر رہے ہیں وہ کہاں تک ہمارا ساتھ نبھا سکتے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ بقول شاعر ''جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے'' کے مصداق ہمیں کف افسوس ملنا پڑے۔ کیوں کہ یہ بات تو طے ہے کہ اپنے مقصد کے حوالے سے ہم ایک خاص حد سے آگے نہیں جاسکتے ہمیں انجام کار پر نظر رکھنا چاہیے۔
آپ اس پس منظر میں ملکی حالات کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ قیادت، سیاست، عدالت، حکومت، صحافت سب ہی اپنے اپنے مخصوص مقاصد کی تکمیل کے لیے سرگرداں ہیں۔ آپ پہلے حکومت کو لے لیجیے۔
پی ڈی ایم اتحاد کا اول مقصد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کو اقتدار سے بے دخل کرکے خود حکومت بنانا تھا، اتحادی حکومت نے عوام میں یہ بیانیا بنایا کہ عمران حکومت نے ملک کی معیشت کو تباہ کردیا ہے، مہنگائی آسمان سے باتیں کر رہی ہے، بے روزگاری بڑھ رہی ہے، غریب آدمی کی زندگی مشکل ہوگئی ہے، ہم اقتدار میں آ کر مہنگائی ختم کریں گے، عوام کو ریلیف فراہم کریں گے، بجلی گیس، پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم اور تباہ حال معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کریں گے وغیرہ وغیرہ۔
عمران خان اپنی حکومت کے آخری ایام میں مقبولیت کھوتے جا رہے تھے، سو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ پی ڈی ایم اقتدار میں آگئی، لیکن بعد کے حالات نے پی ڈی ایم کو مشکل ترین حالات سے دوچار کردیا، نہ ان سے معیشت سنبھلی، نہ مہنگائی کنٹرول کرسکے اور نہ عوام کو کوئی قابل ذکر ریلیف فراہم کرسکے۔ آج یہ حالت ہے کہ معیشت رو بہ زوال، بجلی، گیس، دواؤں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں آئے دن اضافہ، مہنگائی کا گراف تاریخ کی بلند ترین سطح پر ہے۔
وزارت خزانہ کے مطابق ملک میں مہنگائی مزید بڑھنے کا خدشہ ہے، آئی ایم ایف کا دباؤ، قرضوں کے بوجھ میں مسلسل اضافہ اور ڈالر تاریخی بلندی پر ہے، یوں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پی ڈی ایم اتحاد جس مقصد کے تحت حکومت میں آیا اور جو بیانیہ انھوں نے عوام کے لیے تراشا تھا وہ دم توڑ گیا ہے۔
تمام تر تاویلوں، دلیلوں اور نت نئے بیانیوں کے باوجود کیا حکومت عوام میں اپنا اعتبار و اعتماد کھو چکی ہے، پی ڈی ایم کی بڑی جماعتوں پیپلز پارٹی، (ن) لیگ، جے یو آئی اور ایم کیو ایم کو حالات کی نزاکت اور سنگینی اور اپنی روز بہ روز کمزور ہوتی پوزیشن کا بخوبی اندازہ ہے کہ آیندہ انتخابات میں عوام کے پاس وہ کیا بیانیہ لے کر جائیںگے۔ پی ڈی ایم کی کیفیت فارسی کی اس ضرب المثل کی مانند ہوگئی ہے '' نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔''
عمران خان نت نئے بیانیے بنانے، یو ٹرن لینے اور عوام میں اپنی مقبولیت بنانے کے مقصد میں پی ڈی ایم کے گھاگ و تجربہ کار سیاستدانوں سے آج کی تاریخ میں کہیں آگے جا رہے ہیں۔ بظاہر وہ اپنی حکومت کی ناکامی کے باعث اقتدار سے نکالے گئے لیکن اس ناکامی نے ان کے لیے کامیابی کے راستے کھول دیے۔
اقتدار سے بے دخلی کے بعد ان کا مقصد اپنی مظلومیت سے عوامی ہمدردیاں حاصل کرنا تھا جس میں وہ ابھی تک تو خاصے کامیاب جا رہے ہیں۔ اسی باعث انھوں نے پنجاب اور کے پی کے اسمبلیاں توڑیں کہ 90 دن میں الیکشن ہوگئے تو وہ پھر سے پنجاب و کے پی کے میں مضبوط حکومت بنانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
پی ڈی ایم عمران خان کی پنجاب میں ممکنہ کامیابی سے سخت خائف ہے اور پارلیمنٹ کے پیچھے چھپ کر انتخابات سے فرار کی راہ پر چل رہی ہے، اب گیند عدالت کے کورٹ میں ہے، عدالت عظمیٰ فیصلہ دے چکی ہے کہ پنجاب اسمبلی کے انتخابات 14 مئی کو ہوں گے، لیکن تادم تحریر21 ارب روپے وزارت خزانہ قومی اسمبلی کی قرارداد کے تناظر میں دینے سے انکار کردیا۔
عدالت کا مقصد و مدعا ہے کہ آئین کے تحت وہ حکم پر عمل درآمد کروائے لیکن حکومتی اتحاد کی طرف سے جو منظر نامہ ترتیب دیا جا رہا ہے قومی اسمبلی میں جس طرح تقاریر کی جا رہی ہیںاس سے پارلیمنٹ اور عدلیہ کے درمیان اپنے اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں کشمکش اور محاذ آرائی کی جنگ جاری ہے۔
عمران خان بضد ہیں کہ تمام اسمبلیاں 16 مئی سے پہلے تحلیل کردی جائیں حکومت انکاری اور اکتوبر میں انتخابات پر اڑی ہوئی ہے تو مذاکرات کیسے کامیاب ہوسکتے ہیں۔ عدالت، حکومت اور اپوزیشن کون اپنے مقصد میں کامیاب ہوگا یہ آنے والا وقت بتائے گا۔