’’زیست‘‘ افسانہ نمبر کی اشاعت
’’زیست‘‘ میں افسانہ نگاروں کی ایک کہکشاں جگ مگ کرتی نظر آ رہی ہے
آج کل ''زیست'' افسانہ نمبر کا بڑا چرچہ ہے یہ جریدہ اپریل 2003 میں منصہ شہود پر جلوہ گر ہوا اور اب ناقدین و قارئین سے داد و تحسین حاصل کر رہا ہے اس کے بانی و مرتب ڈاکٹر انصار شیخ ہیں۔
ان کی محنت شاقہ جس کی مدت دو سال بتائی جاتی ہے کے نتیجے میں 600 صفحات پر مضامین و مقالات، افسانہ اور عالمی افسانوں پر پھیلا ہوا ہے، اس کی جدت اور ندرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، وقیع تحریروں سے مرصع کتابی سلسلہ '' زیست '' اور ڈاکٹر انصار شیخ لازم و ملزوم بن گئے ہیں جہاں ڈاکٹر انصار شیخ کا نام آتا ہے اس کے ساتھ ہی '' زیست '' کا ذکر کرنا کوئی نہیں بھولتا ہے نیز یہ کہ اس پرچے کے سرپرست ڈاکٹر سید یونس حسنی اور معاون مدیرہ تزئین راز زیدی ہیں۔
پرچے کی ابتدا حمد و نعت سے ہوتی ہے اور انصار شیخ نے اپنے مضمون '' اظہاریہ '' میں لکھا ہے کہ کتابی سلسلہ زیست کا سترہواں شمارہ افسانہ نمبر پیش خدمت ہے ان کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ ''زیست'' 4 کے منٹو صدی نمبر کے بعد خاص نمبر نکالنے کی یہ دوسری کوشش ہے ان کا یہ کہنا درست ہے کہ '' زیست '' کے 15 شماروں کی یکسانیت نے طبیعت میں بے زاری پیدا کردی تھی، دوم یہ کہ گزشتہ برسوں میں تواتر کے ساتھ ناول نمبروں کا اجرا تھا، ان نمبروں کی اشاعت نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ناول کے سامنے افسانے کا چراغ گل ہو گیا ہے یا پھر کچھ عرصے کے لیے معدوم ہو گیا ہے، اس کے علاوہ گزشتہ اور رواں صدی میں اردو میں عہد بہ عہد فکری و فنی تغیر و تبدل کا جائزہ بھی لیا ہے۔
ناقدین و مبصرین کے مقالے بھی افسانے کے طالب علموں کے لیے افسانے کی تاریخ، ارتقا اور عصری حسیت سے آگاہ کرتے ہیں اور 1947 سے آج تک لکھے جانے والے افسانوں اور مصنفین کے فن اور تخلیقی جواہر کی رونمائی استفادے کا باعث بنتی ہے۔
اسی تناظر میں مقالہ نگاروں نے مقالے تحریر کیے ہیں، پہلا مقالہ ڈاکٹر فرزانہ کوکب کا ہے ان کے مقالے کا عنوان ''اردو افسانہ روایت و انسلاک'' (ابتدا سے 1947) مقالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 1947 تک کون کون سے اہم افسانہ نگار منظر عام پر آئے نیز انھوں نے گزشتہ صدی کے تخلیق کاروں کے افسانہ نگاروں کا جائزہ بھی لیا ہے اور پہلا افسانہ نگار علامہ راشد الخیری کو ٹھہرایا ہے۔
ایک دوسرے طبقہ فکر کے محققین علامہ راشد الخیری کے افسانے کو خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں، وہ اسے ایک اصلاحی تحریر قرار دیتے ہیں اور منشی پریم چند کو حقیقت پسندی کے حوالے سے اردو کا پہلا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ اردو افسانہ 1947 سے 2000 تک کے افسانوی سفر کا جائزہ ڈاکٹر شبیر رانا نے لیا ہے اور 2000 تک کے افسانہ نگاروں کے نام گنوائے ہیں، جن میں آغا بابر الطاف فاطمہ، انتظار حسین، اسد محمد خان، آصف فرخی، ڈاکٹر حسرت کاسکنجوی کے ساتھ دوسرے کئی افسانہ نگاروں کے نام شامل ہیں۔
پس نو آبادیاتی دور سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگاروں کی اہمیت اور ان کے فن کو خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے، ایم خالد فیاض نے اپنے مضمون 2001 سے 2022 تک کے افسانوں کا خوبصورتی کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے آج کے دور کے سب سے بڑے افسانہ نگار اسد محمد خان کا تعارف ان کے افسانوی فن کے حوالے سے موثر انداز میں کیا ہے۔
ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں اور ناولوں کی اہمیت مسلمہ ہے، بلاشبہ وہ ایک بڑے تخلیق کار ہیں، ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر حسن منظر نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں غیر ملکی لوکیل کو بے حد دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا ایک افسانہ '' برطانوی قبریں'' ایک شاہکار افسانہ ہے۔ مبین مرزا ایک بہترین افسانہ نگار اور ناقد ہیں وہ بڑی گہرائی سے افسانوں کا جائزہ لیتے ہیں، ''معاشرتی اقدار اور افسانے میں عصریت'' اس موضوع کے تحت انھوں نے بھرپور مقالہ لکھا ہے۔
''گوہر نایاب'' کے باب میں ان قلم کاروں کی تحریروں کا جائزہ لیا گیا ہے جو حقیقی معنوں میں کندن جیسے مضامین کے خالق مانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے ''پریم چند اور اردو افسانے کا رہبر'' کے عنوان سے بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے ان کا تعارف اور کتابوں کی تفصیل، اشاعت اور افسانوں کی خصوصیت کو نمایاں کیا ہے۔
پرچے کی وقعت اس لحاظ سے بھی نمایاں ہے کہ اس میں حسن منظر، اسد محمد خان اور طاہرہ اقبال کے انٹرویوز شامل ہیں۔ تازہ افسانوں کے ساتھ عالمی 14 افسانے '' زیست '' کی زینت ہیں، اس کے علاوہ '' لازوال افسانہ '' کے خانے میں 6 افسانے مزید منہ کا ذائقہ بدلنے اور ممالک غیر کے معاشرتی حالات تہذیب و تمدن کے عکاس ہیں۔
صفحہ نمبر 592 (اردو افسانے کی صورت حال) پر مذاکرہ بہت سے افسانوں کے حوالے سے معلومات کے در وا کرتا ہے اس ضمن میں انصار احمد شیخ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ '' اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ماقبل و مابعد تقسیم متعدد افسانہ نگاروں کے یکے بعد دیگرے معرکہ آرا افسانے منظر عام پر آئے یوں صنف افسانہ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، ماضی بعید کے مقابلے میں آج کی دنیا یعنی موجودہ صدی انتہائی ہنگامہ خیز، مملو، نوع بہ نو بدلاؤ اور مسائل سے پر ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، اصغر ندیم سید، ذکیہ مشہدی، خالد فتح محمد، ایم خالد فیاض نے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے اور افسانے کے مختلف پہلوؤں، ہیئت، موضوعاتی تنوع اور اپنے عہد کا اجتماعی اور انفرادی جائزہ دلائل کے ساتھ لیا ہے۔
''زیست'' میں افسانہ نگاروں کی ایک کہکشاں جگ مگ کرتی نظر آ رہی ہے سب کا ذکر کرنا اس مختصر سے کالم میں ممکن نہیں ہے البتہ چند نام جن کے افسانوں کا تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے، فہرست کا پہلا افسانہ ہند و پاک کے ممتاز افسانہ و ناول نگار حسن منظر کا ہے عنوان ہے ''داخلے کا دن''۔ یہ افسانہ دہشت گردی اور اغوا جیسے گھناؤنے جرائم پر لکھا گیا ہے لیکن کمال مہارت سے ڈاکٹر صاحب نے اس خوبصورتی اور فنی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ پورا افسانہ پڑھ لیجیے لیکن اختتامی سطور میں دو الفاظ تلخ حقیقت کو واضح کردیتے ہیں کہ وہ ہیں ڈولی کے منہ سے ادا ہونے والے لفظ '' شیم، شیم '' ان لفظوں میں کہانی کی روح موجود ہے۔
جو قاری کے اندر حلول کر جاتی ہے، دوسرا افسانہ معروف شاعر و افسانہ نگار اجمل اعجاز کا ہے، بہت دل پذیر افسانہ ہے ایک قلم کار کو کتابوں سے عشق آخری دم تک رہتا ہے اور اپنے وقت آخر ٹوٹے دل کے ساتھ اپنے قدر دانوں اور کتاب کے شیدائیوں کو اپنی تمام عمر کی کمائی یوں پیش کردیتا ہے جیسے کوئی اپنی جان نچھاور کردے، زیب اذکار حسین منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانے اپنے تمام ہم عصر قلم کاروں سے اس وجہ سے مختلف ہیں کہ ان افسانوں میں داخلی اور خارجی طور پر انفرادیت اور تجریدیت کے کئی رنگ نظر آتے ہیں اور ہر سطر غور و فکر کے در وا کرتی ہے۔
''نظروں سے گرا ہوا وجود'' جوکہ افسانہ نمبر میں شامل ہے ایک خوبصورت اور معنویت کی پرتوں سے مرصع ہے۔ راقم کا افسانہ ''باذل اور شازمین'' جوکہ کشمیر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ شہناز پروین کا افسانہ '' تریاق '' معاشرے کے بدبودار ڈھانچے کا عکاس ہے شہناز کا افسانہ بننے کا ڈھنگ متاثرکن ہے تحیر کی کیفیت سے قاری کو کئی بار گزرنا پڑتا ہے۔ نجیب عمر نے 2011 کی بیسٹ سیلر کتاب سے متاثر ہو کر کہانیاں لکھی ہیں مصنف کا نام Bronie Ware ہے۔
ڈاکٹر شکیل احمد خان کا افسانہ زن، زر اور زمین کے گرد گھومتا ہے۔ روایاتی موضوع سے ہٹ کر ہے انھوں نے عمدہ طریقے سے انجام تک پہنچایا ہے۔ جمیل احمد عدیل، علی تنہا، مسرت افزا روحی، شاکر انور، محمد طارق علی اور شموئل احمد، سرور غزالی، انور ظہیر رہبر، سلمیٰ صنم، عطا الرحمان خاکی کے افسانوں نے سماجی حقیقتوں سے دبیز پردہ فنی باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چاک کیا ہے، میں ڈاکٹر انصار شیخ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے روز و شب کی محنت کی بدولت ایک بہترین اور شان دار پرچہ ترتیب دیا ہے اس گرانی کے دور میں رسائل و جرائد کی اشاعت آسان کام نہیں ہے اس اہم کام کے لیے دامے، درمے اور سخنے قلم کاروں اور قاری کا تعاون ازحد ضروری ہے۔
ان کی محنت شاقہ جس کی مدت دو سال بتائی جاتی ہے کے نتیجے میں 600 صفحات پر مضامین و مقالات، افسانہ اور عالمی افسانوں پر پھیلا ہوا ہے، اس کی جدت اور ندرت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا، وقیع تحریروں سے مرصع کتابی سلسلہ '' زیست '' اور ڈاکٹر انصار شیخ لازم و ملزوم بن گئے ہیں جہاں ڈاکٹر انصار شیخ کا نام آتا ہے اس کے ساتھ ہی '' زیست '' کا ذکر کرنا کوئی نہیں بھولتا ہے نیز یہ کہ اس پرچے کے سرپرست ڈاکٹر سید یونس حسنی اور معاون مدیرہ تزئین راز زیدی ہیں۔
پرچے کی ابتدا حمد و نعت سے ہوتی ہے اور انصار شیخ نے اپنے مضمون '' اظہاریہ '' میں لکھا ہے کہ کتابی سلسلہ زیست کا سترہواں شمارہ افسانہ نمبر پیش خدمت ہے ان کی تحریر سے پتا چلتا ہے کہ ''زیست'' 4 کے منٹو صدی نمبر کے بعد خاص نمبر نکالنے کی یہ دوسری کوشش ہے ان کا یہ کہنا درست ہے کہ '' زیست '' کے 15 شماروں کی یکسانیت نے طبیعت میں بے زاری پیدا کردی تھی، دوم یہ کہ گزشتہ برسوں میں تواتر کے ساتھ ناول نمبروں کا اجرا تھا، ان نمبروں کی اشاعت نے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ناول کے سامنے افسانے کا چراغ گل ہو گیا ہے یا پھر کچھ عرصے کے لیے معدوم ہو گیا ہے، اس کے علاوہ گزشتہ اور رواں صدی میں اردو میں عہد بہ عہد فکری و فنی تغیر و تبدل کا جائزہ بھی لیا ہے۔
ناقدین و مبصرین کے مقالے بھی افسانے کے طالب علموں کے لیے افسانے کی تاریخ، ارتقا اور عصری حسیت سے آگاہ کرتے ہیں اور 1947 سے آج تک لکھے جانے والے افسانوں اور مصنفین کے فن اور تخلیقی جواہر کی رونمائی استفادے کا باعث بنتی ہے۔
اسی تناظر میں مقالہ نگاروں نے مقالے تحریر کیے ہیں، پہلا مقالہ ڈاکٹر فرزانہ کوکب کا ہے ان کے مقالے کا عنوان ''اردو افسانہ روایت و انسلاک'' (ابتدا سے 1947) مقالے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ 1947 تک کون کون سے اہم افسانہ نگار منظر عام پر آئے نیز انھوں نے گزشتہ صدی کے تخلیق کاروں کے افسانہ نگاروں کا جائزہ بھی لیا ہے اور پہلا افسانہ نگار علامہ راشد الخیری کو ٹھہرایا ہے۔
ایک دوسرے طبقہ فکر کے محققین علامہ راشد الخیری کے افسانے کو خاص اہمیت دینے کو تیار نہیں، وہ اسے ایک اصلاحی تحریر قرار دیتے ہیں اور منشی پریم چند کو حقیقت پسندی کے حوالے سے اردو کا پہلا افسانہ نگار مانتے ہیں۔ اردو افسانہ 1947 سے 2000 تک کے افسانوی سفر کا جائزہ ڈاکٹر شبیر رانا نے لیا ہے اور 2000 تک کے افسانہ نگاروں کے نام گنوائے ہیں، جن میں آغا بابر الطاف فاطمہ، انتظار حسین، اسد محمد خان، آصف فرخی، ڈاکٹر حسرت کاسکنجوی کے ساتھ دوسرے کئی افسانہ نگاروں کے نام شامل ہیں۔
پس نو آبادیاتی دور سے تعلق رکھنے والے افسانہ نگاروں کی اہمیت اور ان کے فن کو خوبصورتی کے ساتھ اجاگر کیا ہے، ایم خالد فیاض نے اپنے مضمون 2001 سے 2022 تک کے افسانوں کا خوبصورتی کے ساتھ جائزہ پیش کیا ہے۔ انھوں نے آج کے دور کے سب سے بڑے افسانہ نگار اسد محمد خان کا تعارف ان کے افسانوی فن کے حوالے سے موثر انداز میں کیا ہے۔
ڈاکٹر حسن منظر کے افسانوں اور ناولوں کی اہمیت مسلمہ ہے، بلاشبہ وہ ایک بڑے تخلیق کار ہیں، ان کی انفرادیت یہ بھی ہے کہ ڈاکٹر حسن منظر نے اپنے افسانوں اور ناولوں میں غیر ملکی لوکیل کو بے حد دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس ضمن میں ان کا ایک افسانہ '' برطانوی قبریں'' ایک شاہکار افسانہ ہے۔ مبین مرزا ایک بہترین افسانہ نگار اور ناقد ہیں وہ بڑی گہرائی سے افسانوں کا جائزہ لیتے ہیں، ''معاشرتی اقدار اور افسانے میں عصریت'' اس موضوع کے تحت انھوں نے بھرپور مقالہ لکھا ہے۔
''گوہر نایاب'' کے باب میں ان قلم کاروں کی تحریروں کا جائزہ لیا گیا ہے جو حقیقی معنوں میں کندن جیسے مضامین کے خالق مانے جاتے ہیں۔ ڈاکٹر سید احمد قادری نے ''پریم چند اور اردو افسانے کا رہبر'' کے عنوان سے بھرپور مضمون قلم بند کیا ہے ان کا تعارف اور کتابوں کی تفصیل، اشاعت اور افسانوں کی خصوصیت کو نمایاں کیا ہے۔
پرچے کی وقعت اس لحاظ سے بھی نمایاں ہے کہ اس میں حسن منظر، اسد محمد خان اور طاہرہ اقبال کے انٹرویوز شامل ہیں۔ تازہ افسانوں کے ساتھ عالمی 14 افسانے '' زیست '' کی زینت ہیں، اس کے علاوہ '' لازوال افسانہ '' کے خانے میں 6 افسانے مزید منہ کا ذائقہ بدلنے اور ممالک غیر کے معاشرتی حالات تہذیب و تمدن کے عکاس ہیں۔
صفحہ نمبر 592 (اردو افسانے کی صورت حال) پر مذاکرہ بہت سے افسانوں کے حوالے سے معلومات کے در وا کرتا ہے اس ضمن میں انصار احمد شیخ نے اپنی رائے کا اظہار کیا ہے کہ '' اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں ماقبل و مابعد تقسیم متعدد افسانہ نگاروں کے یکے بعد دیگرے معرکہ آرا افسانے منظر عام پر آئے یوں صنف افسانہ کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی، ماضی بعید کے مقابلے میں آج کی دنیا یعنی موجودہ صدی انتہائی ہنگامہ خیز، مملو، نوع بہ نو بدلاؤ اور مسائل سے پر ہے۔
اس حوالے سے ڈاکٹر انوار احمد، ڈاکٹر مرزا حامد بیگ، اصغر ندیم سید، ذکیہ مشہدی، خالد فتح محمد، ایم خالد فیاض نے اہم نکات پر روشنی ڈالی ہے اور افسانے کے مختلف پہلوؤں، ہیئت، موضوعاتی تنوع اور اپنے عہد کا اجتماعی اور انفرادی جائزہ دلائل کے ساتھ لیا ہے۔
''زیست'' میں افسانہ نگاروں کی ایک کہکشاں جگ مگ کرتی نظر آ رہی ہے سب کا ذکر کرنا اس مختصر سے کالم میں ممکن نہیں ہے البتہ چند نام جن کے افسانوں کا تذکرہ ہی کیا جاسکتا ہے، فہرست کا پہلا افسانہ ہند و پاک کے ممتاز افسانہ و ناول نگار حسن منظر کا ہے عنوان ہے ''داخلے کا دن''۔ یہ افسانہ دہشت گردی اور اغوا جیسے گھناؤنے جرائم پر لکھا گیا ہے لیکن کمال مہارت سے ڈاکٹر صاحب نے اس خوبصورتی اور فنی تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لکھا ہے کہ پورا افسانہ پڑھ لیجیے لیکن اختتامی سطور میں دو الفاظ تلخ حقیقت کو واضح کردیتے ہیں کہ وہ ہیں ڈولی کے منہ سے ادا ہونے والے لفظ '' شیم، شیم '' ان لفظوں میں کہانی کی روح موجود ہے۔
جو قاری کے اندر حلول کر جاتی ہے، دوسرا افسانہ معروف شاعر و افسانہ نگار اجمل اعجاز کا ہے، بہت دل پذیر افسانہ ہے ایک قلم کار کو کتابوں سے عشق آخری دم تک رہتا ہے اور اپنے وقت آخر ٹوٹے دل کے ساتھ اپنے قدر دانوں اور کتاب کے شیدائیوں کو اپنی تمام عمر کی کمائی یوں پیش کردیتا ہے جیسے کوئی اپنی جان نچھاور کردے، زیب اذکار حسین منجھے ہوئے افسانہ نگار ہیں، ان کے افسانے اپنے تمام ہم عصر قلم کاروں سے اس وجہ سے مختلف ہیں کہ ان افسانوں میں داخلی اور خارجی طور پر انفرادیت اور تجریدیت کے کئی رنگ نظر آتے ہیں اور ہر سطر غور و فکر کے در وا کرتی ہے۔
''نظروں سے گرا ہوا وجود'' جوکہ افسانہ نمبر میں شامل ہے ایک خوبصورت اور معنویت کی پرتوں سے مرصع ہے۔ راقم کا افسانہ ''باذل اور شازمین'' جوکہ کشمیر کے پس منظر میں لکھا گیا ہے۔ شہناز پروین کا افسانہ '' تریاق '' معاشرے کے بدبودار ڈھانچے کا عکاس ہے شہناز کا افسانہ بننے کا ڈھنگ متاثرکن ہے تحیر کی کیفیت سے قاری کو کئی بار گزرنا پڑتا ہے۔ نجیب عمر نے 2011 کی بیسٹ سیلر کتاب سے متاثر ہو کر کہانیاں لکھی ہیں مصنف کا نام Bronie Ware ہے۔
ڈاکٹر شکیل احمد خان کا افسانہ زن، زر اور زمین کے گرد گھومتا ہے۔ روایاتی موضوع سے ہٹ کر ہے انھوں نے عمدہ طریقے سے انجام تک پہنچایا ہے۔ جمیل احمد عدیل، علی تنہا، مسرت افزا روحی، شاکر انور، محمد طارق علی اور شموئل احمد، سرور غزالی، انور ظہیر رہبر، سلمیٰ صنم، عطا الرحمان خاکی کے افسانوں نے سماجی حقیقتوں سے دبیز پردہ فنی باریکیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے چاک کیا ہے، میں ڈاکٹر انصار شیخ کو دل کی گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرتی ہوں کہ انھوں نے روز و شب کی محنت کی بدولت ایک بہترین اور شان دار پرچہ ترتیب دیا ہے اس گرانی کے دور میں رسائل و جرائد کی اشاعت آسان کام نہیں ہے اس اہم کام کے لیے دامے، درمے اور سخنے قلم کاروں اور قاری کا تعاون ازحد ضروری ہے۔