برہمن جوڑے کو مسلم بہو کی تلاش

اس کالم میں دو مثالیں ایک ایسی ہندوستانی روایت کو درشا رہی ہیں جن کی آج شدید ضرورت ہے


ندیم صدیقی May 07, 2023

مسلمان جہاں جہاں ہیں وہاں وہاں اُن کے یتیم خانے بھی ہیں اور مسلمانوں کے اکابر کے قائم کردہ ایسے دیگر ادارے بھی جو اپنے دیار کے مسلمانوں کی شان ہی نہیں اُن کی علم دوستی اور قومی درد مندی کا ناقابل تردید ثبوت بنے ہوئے ہیں۔

سرسید کی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے لے کر ممبئی میں بدر الدین طیب جی کے ' انجمن اسلام ' جیسے تعلیمی ادارے ملت کی تعلیمی خدمت کر رہے ہیں۔

آخر الذکر '' انجمن'' ممبئی کا وہ تعلیمی ادارہ ہے جس کے مختلف اسکولوں میں ایک لاکھ سے زائد مسلم بچے ، بچیاں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہورہی ہیں، اس کی قدامت اور اہمیت کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ اس ادارے میں ہندوستانی فلم کے مثالی ایکٹر جنھیں شہنشاہِ جذبات کہا جاتا تھا یعنی دلیپ کمار اور ہندوستانی کرکٹ کے اپنے دور کے اسٹار سلیم درانی اور ایک ممتاز ہندوستانی سیاست داں اور مہاراشٹر کے اوّل مسلم وزیر اعلیٰ عبد الرحمان انتولے جیسے کئی مشاہیر بھی اسی درس گاہ کے طالب علم رہے ہیں۔

دلیپ کمار اور ' انجمن اسلام ' کے نام پر کچھ باتیں ذہن میں تازہ ہو رہی ہیں۔ انجمن اسلام ہائی اسکول کے ایک پرنسپل خلیفہ ضیا الدین کا تصور بھی اُبھرا۔ خلیفہ مرحوم اپنے دور میں اس درسگاہ کے تعلیمی وقار کے بنیاد گزاروں میں نہایت نمایاں کردار کے حامل رہے ہیں۔

جب خلیفہ ضیا الدین کے اعزاز میں ایک جلسہ تہنیت منعقد ہوا تو دلیپ کمار نے اس جلسے میں جس طرح شرکت کی وہ بھی دلیپ کمار کے فلمی نہیں اخلاقی کردار کا ایک تاریخی واقعہ ہے، اپنے زمانے میں جس جلسے یا تقریب میں دلیپ کمار شرکت کرتے تھے وہ جلسہ اس کے منتظمین کے لیے قابلِ فخر بن جاتا تھا، مگر خلیفہ ضیا الدین کے اعزازی جلسے میں دلیپ کمار کی شرکت نے خود اُن کی سعادت مندی کو ''کردارحسن یوسف '' کے وقار میں بدل دیا۔

اس تہنیتی جلسے میں دلیپ کمار شریک نہیں ہوئے تھے بلکہ اُس '' یوسف خان '' نے شرکت کی تھی جو خلیفہ ضیا الدین کا شاگرد رہ چکا تھا اور اُن کی یہ شرکت تمام شرکائے جلسہ کے لیے ایک غیر متوقع منظر تھی۔

خلیفہ ضیا الدین '' انجمن اسلام '' کے پرنسپل اور فٹ بال ایسوسی ایشن کے صدر بھی رہے، عمر کے آخری دنوں میں وہ چلنے پھِرنے سے معذور ہو گئے تھے اور وھیل چیئر ہی اُن کے کہیں آنے جانے کا واحد ذریعہ تھی، انجمن اسلام کے مذکورہ جلسہ گاہ (ہال) کا جب پردہ اُٹھا تو خالی اسٹیج پر آہستہ آہستہ ایک وھیل چیئر نمودار ہوئی جس پر خلیفہ ضیا الدین بیٹھے ہوئے تھے اور اس وھیل چیئر کو پیچھے سے دھکیلتے ہوئے دلیپ کمار اسٹیج کے درمیان میں سامنے لائے، روایت ہے کہ اس جلسے میں ممبئی کے عمائدین جن میں سابق طلبائے انجمن اسلام کثیر تعداد میں حاضر تھے اُن سب نے اپنے استاد کا اپنی اپنی نشستوں سے اُٹھ کر، ایستادہ ہو کر خیر مقدم کیا۔

گزشتہ جمعے 28 اپریل کو ' انجمن اسلام ' نے عید ملن کا اہتمام کیا تھا ، اس تقریب میں بھی ممبئی کے عمائدین اور انجمن کے سابق طلبہ کی خاصی تعداد شریک تھی۔ جلسہ عید ملن میں شہر کے نا مسلم عمائدین نے بھی حاضرین سے خطاب کر کے قومی یکجہتی کے فروغ کی باتیں کیں۔

اس وقت ہندوستان کے عوام میں نفرت کی لہر نے ملکی فضا کو مسموم کر رکھا ہے ایسے میں اس طرح کی تقریبات اور اس میں نا مسلم حضرات کی آمد تیرگی میں ایک کرن سہی مگر ہے یہ ایک روشن عمل۔ مسلم خطیبوں میں اکثر نے جس طرح باتیں کیں اُس سے اچھا تھا کہ وہ لوگ اسٹیج کے شو مَین ہی رہتے تو بہتر تھا مگر کیا کِیا جائے کہ فی زمانہ ہم مسلمانوں میں '' جلوہ گری '' ایک عارضے کی طرح عام ہوگئی ہے، بہرحال اس جلسے میں صدرِ انجمن ڈاکٹر ظہیر قاضی نے باتوں باتوں میں انجمن اسلام کے یتیم خانہ نسواں کا ایک غیر معمولی ذکر کیا جس نے اکثر حاضرین کے دل پر ایک دستک دی، یہ اور بات کہ یہ دستک کتنوں کے لیے اہم تھی یا نہیں؟ یہ ایک سوال کی طرح ہمارے ذہن میں باقی ہے جس کا ذکر اس کالم کے آخر میں ہم کریں گے۔

ڈاکٹر ظہیر قاضی نے بتایا کہ ایک دن ہمارے دفتر میں ایک برہمن جوڑا آیا اور اُس نے اپنی آمد کا مقصد بتایا کہ وہ ہمارے نسواں یتیم خانے کی کسی لڑکی کو اپنی بہو بنانا چاہتے ہیں، اس برہمن جوڑے کی خاتون ایک اسکول کی پرنسپل تھیں اور اُن کے شوہر بھی تعلیم یافتہ شخص تھے۔ بہر حال ڈاکٹر ظہیر قاضی نے اُن سے کہا'' شاید آپ کو پتہ نہیں کہ ہمارے یتیم خانے میں مسلم لڑکیاں ہیں'' تو اُنھیں جواب ملا کہ '' ہمارا بیٹا بھی مسلم ہے جس کا نام عبد اللہ ہے۔''

پتہ چلا کہ اس برہمن جوڑے نے ایک مسلم یتیم لڑکے کو گود لے رکھا تھا اور اس جوڑے نے انجمن کے یتیم خانے کی ایک لڑکی کو پسند کیا اور اسے اپنی بہو بنایا جس دن یتیم لڑکی لڑکے کا نکاح تھا اُس دن اُس برہمن جوڑے نے مسلم رسم و رواج ہی نہیں اپنایا بلکہ مسلم لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ اس وقت ہندوستان میں جو مسموم فضا بنی ہوئی ہے اُس میں یہ واقعہ عجب ہی نہیں، مثالی اہمیت کا حامل بھی ہے۔

ایک واقعہ اور یہاں درج ہوا چاہتا ہے کہ ایک بار ہند کی کوئل لتا منگیشکر نے لکھنو کی ایک سرکاری تقریب میں شرکت کے بعد سرکاری کارندوں سے لکھنو سے قریب ٹائون بارہ بنکی جانے کی فرمائش کی، فوراً سرکاری افسروں اور کاروں کا ایک قافلہ انھیں لے کر بارہ بنکی پہنچا اور لتا منگیشکر سے پوچھا گیا کہ یہاں آپ کس سے ملنا چاہتی ہیں؟ تو انھوں نے کہا :

''بارہ بنکی کے خمار سے۔''

اور جب بغیر پیشگی اطلاع کے لتا جیسی شخصیت اُردو کے غریب شاعر کے گھر پہنچیں تو لتا نے ہندوستانی پر مپرا ہی نہیں بلکہ ہندوی سعادت مندی کا ایسا مظاہرہ کیا کہ اُس وقت وہاں موجود تمام حاضرین حیران رہ گئے۔ لتا نے خمار بارہ بنکوی کے سامنے اپنے سَر کو خم کیا اور نہایت عقیدت سے اُن کے چرنوں کو چھو کر اپنا ہاتھ سَر پر رکھا۔

اس کالم میں دو مثالیں ایک ایسی ہندوستانی روایت کو درشا رہی ہیں جن کی آج شدید ضرورت ہے مگر ہمارے واقعتاً مسلم والدین بھی کیا مسلم یتیم لڑکیوں کو اپنی بہو بنانے کی نیکی کو اپنے عمل سے عام کریں گے یا نیکی کی صرف زبانی تبلیغ کرتے رہیں گے؟اس میں کوئی شک نہیں ہر قوم میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں' مسلمانوں کی اعلیٰ روایات اور کردار آج بھی پوری دنیا کے لیے مشعل راہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں