ہر فن مولا اور ہفت زبان اداکار ساقی
فلم ’’دلہن ایک رات کی‘‘ کی شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئن یاسمین خان کا ساقی کے ساتھ محبت کا آغاز ہوا تھا
ہماری فلمی دنیا میں بہت کم ایسے آرٹسٹ منظر عام پر آئے ہیں جو ہفت زبان بھی رہے ہوں اور جنھوں نے ہر طرح کے کردار ادا کیے ہوں ورنہ زیادہ تر آرٹسٹوں پر تو ایک چھاپ لگ جاتی تھی کہ وہ فلاں ٹائپ کے کردار ہی ادا کرسکتا ہے مگر اداکار ساقی ایک ایسے اداکار تھے جنھوں نے اپنی فلمی زندگی میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق شخص کا کردار بڑی خوش اسلوبی سے ادا کیا ہے۔
انھوں نے ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ پاکستان کی ہر علاقائی زبان بڑی آسانی سے بول سکتے ہیں جب کہ ان کی مادری زبان بلوچی تھی لیکن وہ سندھی، سرائیکی، پشتو، پھوٹھوہاری، گجراتی، میمنی، مار واڑی، کاٹھیاواڑی، فارسی، اردو اور انگریزی بھی بڑی فراوانی سے بولتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا کی ضرورت بنے رہے۔
وہ ہر ہدایت کار کی گڈبک میں رہے، کئی سو فلموں میں کام کیا اور جس کردار کی ادائیگی کرتے تھے وہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہوتا تھا۔ لاہور میں میری بے تکلفی جن تین آرٹسٹوں سے رہی ان میں اداکار ندیم (نذیر بیگ میرا کالج فیلو)، اداکار قوی اور اداکار ساقی تھے جو انتہائی مخلص اور دوست نواز تھے۔
اداکار ساقی کی شخصیت میں بے شمار اداکار چھپے ہوئے تھے۔ میں ساقی صاحب کو ساقی بھائی کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور وہ مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ انھیں جب میں نے بتایا کہ میں فلمی صحافی کے ساتھ فلمی نغمہ نگار بھی بننا چاہتا ہوں تو انھوں نے مجھے ٹپ دیتے ہوئے کہا '' تم کبھی حوصلہ نہ ہارنا اور کبھی کسی کی بات کو دل پر نہ لینا، برداشت کرلینا اور کوشش کرنا کہ تم موسیقاروں سے اپنے تعلقات پیدا کرنے میں ان کے ساتھ گھل مل جاؤ، بس تم ایک دن اپنے مقصد میں ضرور کامیاب رہو گے'' اور میں نے ساقی بھائی کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ایور نیو فلم اسٹوڈیو کے وسط میں ایک فوارہ چوک بھی تھا، جہاں چبوترے پر شام کے وقت فنکاروں کی آمد و رفت رہتی تھی۔
شاعر، موسیقار، ہدایت کار، فلم ساز یہاں اکثر گپ شپ کرتے نظر آتے تھے۔ کبھی کوئی شاعر اپنا نیا مکھڑا کسی موسیقار کو سناتا ہوا نظر آتا تھا تو کبھی کوئی رائٹر اپنی کوئی کہانی کسی ہدایت کار کے گوش گزار کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا اور کبھی کبھی یہاں محمد علی کی گرج دار آواز بھی سنائی دیتی '' کیسے ہو چندا، کام ٹھیک چل رہا ہے؟'' وحید مراد، مصطفیٰ قریشی کی مسکراہٹیں اور سلطان راہی کے قہقہے بھی کبھی کبھی یہاں سنائی دیتے تھے۔
مصنف رشید ساجد، اقبال رضوی، اداکار قوی اور ساقی بھائی کے لطیفوں کا بھی کبھی کبھی یہاں بازار گرم رہتا تھا ان کے پاس لطیفوں کا ایک خزانہ تھا جسے وہ یہاں اکثر دوستوں کے درمیان بانٹتے رہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ ہر قوم کے لطیفے بڑے ہی خوب صورت انداز میں سناتے تھے۔ اداکار ساقی دوستوں کے حلقوں میں داستان گو بھی مشہور تھے۔
فلموں کی شوٹنگ کے دوران مختلف فلورز پر ان کے ساتھ اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، کبھی وہ ولن کے روپ میں نظر آتے، کبھی وہ مزاحیہ کردار کرتے نظر آتے، کبھی چوہدری، کبھی جاگیردار، کبھی ڈاکو، کبھی چور اور نانا، دادا کا روپ دھارے ہوئے ملتے تھے۔ جب کبھی موڈ میں ہوتے تو اقبال کی شاعری اور غالب کے اشعار بھی بڑی روانی سے سناتے تھے۔ انھیں ہر فن مولا اور ہفت زبان اداکار کا خطاب دیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ موڈ میں ہوتے تو لاہور میں مشہور انگریزی فلم '' بھوانی جنکشن '' کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بیان کرتے تھے۔
اس فلم میں بھی ساقی صاحب نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ ابتدائی ایک دو فلموں میں اداکار ساقی بطور ہیرو بھی آئے تھے۔ اداکار ساقی کا ایک مشہور بلوچ قبیلے سے تعلق تھا۔ ان کے ایک چھوٹے بھائی کریم بلوچ بھی پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے جنرل منیجر تھے۔ وہ بھی آرٹسٹ تھے اور آرٹسٹوں کو انھوں نے اپنے دور میں کراچی میں آگے بڑھنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ ساقی صاحب نے ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔
کراچی کی کئی سندھی فلموں میں کام کیا۔ پھر اردو فلموں کے ساتھ ساتھ بہت سی پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی اپنی کردار نگاری کے جھنڈے گاڑے تھے۔ پشتو کی کئی کامیاب فلموں میں ساقی کی کردار نگاری کو پسند کیا گیا تھا۔ 1955 سے 1959 تک کا دور اداکار ساقی کی جدوجہد کا دور تھا اس دوران بطور معاون اداکار ساقی نے بہت سی فلموں میں کام کیا جن میں بھولے خان، شہرت، پاسبان، راز، نیا دور، واہ رے زمانے اور سوسائٹی وغیرہ شامل تھیں۔
مگر شہرت کا آغاز ہدایت کار خلیل قیصر کی فلم ناگن سے ہوا تھا جس میں ساقی نے بطور ہیرو ایک سپیرے کا کردار بڑی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا تھا، فلم کی ہیروئن نیلو تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اداکار فلموں کے معروف ترین اداکاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ پشتو کی کامیاب ترین فلم '' دلہن ایک رات کی'' اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ یہ اداکار ساقی کی دوسری پشتو فلم تھی جب کہ پہلی پشتو فلم یوسف خان، شیر بانو کے ساتھ کراچی کی تھی۔
فلم ''دلہن ایک رات کی'' کی شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئن یاسمین خان کا ساقی کے ساتھ محبت کا آغاز ہوا تھا اور پھر فلم کی ریلیز کے بعد دونوں نے شادی کر لی تھی جب کہ ساقی کی پہلے سے ایک خاندانی بیوی تھی۔ یاسمین خان کے ساتھ شادی کامیاب نہ ہو سکی تھی اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔ ساقی نے سندھی فلم سسی پنوں میں بھی ہیرو کا کردار کیا تھا، پھر کراچی کی فلم لکھ پتی میں بھی نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو کا کردار کیا تھا۔ 1960 کی فلم سہیلی میں ایک گیت فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
یہ دنیا گول ہے
ہر کوئی ڈانوا ڈول ہے
یہ گیت اداکار ساقی، لہری اور مزاحیہ اداکار فیضی پر فلمایا گیا تھا۔فلم شہید میں طالش کے ساتھ ساقی کے کردار کو بھی فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا جب کہ فلم '' لاکھوں میں ایک'' میں جس میں شمیم آرا کے ساتھ اعجاز، مصطفیٰ قریشی اور ساقی نے بھی کام کیا تھا اور ساقی نے ایک پٹھان کا کردار ادا کیا تھا جسے بڑا سراہا گیا تھا۔
ساقی بھائی کبھی کبھی مجھے مذاق میں ہمدم کے بجائے '' مائی ڈیئر ڈم ڈم '' کہہ کر پکارتے تھے اور پھر کہتے بھی تھے ہمدم میاں! میرا یہ مذاق تمہیں برا تو نہیں لگتا؟ میں بھی ہنس کر کہتا تھا آپ ہمدم کہیں یا ڈم ڈم، اس میں بھی شاعری کی ردیف شامل ہے تو وہ بھی میری بات سن کر زبردست قہقہہ لگاتے تھے۔ ان کے قہقہوں کی بازگشت دور تک جاتی تھی۔میری ساقی صاحب کے ساتھ آخری ملاقات کراچی ٹیلی وژن کے جنرل منیجر اور ان کے چھوٹے بھائی کریم بلوچ صاحب کے آفس میں ہوئی تھی۔
میں کریم بلوچ سے ملنے گیا تھا تو ساقی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر فوراً بولے '' ہیلو ڈم ڈم ! کیسے ہو، لاہور سے کب آئے ؟'' اور پھر باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا تھا۔ جب میں کریم بلوچ کے دفتر سے جانے لگا تو کریم بلوچ صاحب نے بھی بڑے پیار سے کہا '' ڈیئر ڈم ڈم ! آتے جاتے رہنا'' اور پھر کمرے میں تینوں کے قہقہوں کی کافی گونج سنائی دی تھی۔ اداکار ساقی انتہائی مہذب ، ملنسار اور سب سے محبت کرنیوالی شخصیت تھے۔
فلمی دنیا میں ایسے لوگ میں نے کم ہی دیکھے ہیں ورنہ زیادہ تر بناوٹی، خوشامدی، مطلب پرست اور بے حس لوگوں کو ہی میں نے فلمی دنیا میں قدم قدم پر رنگ بدلتے دیکھا ہے اور بڑے قریب سے محسوس کیا ہے۔ آج عبداللطیف بلوچ، ساقی اور کریم بلوچ دونوں بھائی اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی محبتیں، ان کی یادیں اور باتیں احساس میں خوشبو کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔
انھوں نے ایک ملاقات کے دوران بتایا تھا کہ پاکستان کی ہر علاقائی زبان بڑی آسانی سے بول سکتے ہیں جب کہ ان کی مادری زبان بلوچی تھی لیکن وہ سندھی، سرائیکی، پشتو، پھوٹھوہاری، گجراتی، میمنی، مار واڑی، کاٹھیاواڑی، فارسی، اردو اور انگریزی بھی بڑی فراوانی سے بولتے تھے۔ وہ ایک طویل عرصے تک فلمی دنیا کی ضرورت بنے رہے۔
وہ ہر ہدایت کار کی گڈبک میں رہے، کئی سو فلموں میں کام کیا اور جس کردار کی ادائیگی کرتے تھے وہ انگوٹھی میں نگینے کی طرح فٹ ہوتا تھا۔ لاہور میں میری بے تکلفی جن تین آرٹسٹوں سے رہی ان میں اداکار ندیم (نذیر بیگ میرا کالج فیلو)، اداکار قوی اور اداکار ساقی تھے جو انتہائی مخلص اور دوست نواز تھے۔
اداکار ساقی کی شخصیت میں بے شمار اداکار چھپے ہوئے تھے۔ میں ساقی صاحب کو ساقی بھائی کہہ کر مخاطب کرتا تھا اور وہ مجھے چھوٹے بھائیوں کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ انھیں جب میں نے بتایا کہ میں فلمی صحافی کے ساتھ فلمی نغمہ نگار بھی بننا چاہتا ہوں تو انھوں نے مجھے ٹپ دیتے ہوئے کہا '' تم کبھی حوصلہ نہ ہارنا اور کبھی کسی کی بات کو دل پر نہ لینا، برداشت کرلینا اور کوشش کرنا کہ تم موسیقاروں سے اپنے تعلقات پیدا کرنے میں ان کے ساتھ گھل مل جاؤ، بس تم ایک دن اپنے مقصد میں ضرور کامیاب رہو گے'' اور میں نے ساقی بھائی کی باتوں کو گرہ میں باندھ لیا تھا۔ ایور نیو فلم اسٹوڈیو کے وسط میں ایک فوارہ چوک بھی تھا، جہاں چبوترے پر شام کے وقت فنکاروں کی آمد و رفت رہتی تھی۔
شاعر، موسیقار، ہدایت کار، فلم ساز یہاں اکثر گپ شپ کرتے نظر آتے تھے۔ کبھی کوئی شاعر اپنا نیا مکھڑا کسی موسیقار کو سناتا ہوا نظر آتا تھا تو کبھی کوئی رائٹر اپنی کوئی کہانی کسی ہدایت کار کے گوش گزار کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا اور کبھی کبھی یہاں محمد علی کی گرج دار آواز بھی سنائی دیتی '' کیسے ہو چندا، کام ٹھیک چل رہا ہے؟'' وحید مراد، مصطفیٰ قریشی کی مسکراہٹیں اور سلطان راہی کے قہقہے بھی کبھی کبھی یہاں سنائی دیتے تھے۔
مصنف رشید ساجد، اقبال رضوی، اداکار قوی اور ساقی بھائی کے لطیفوں کا بھی کبھی کبھی یہاں بازار گرم رہتا تھا ان کے پاس لطیفوں کا ایک خزانہ تھا جسے وہ یہاں اکثر دوستوں کے درمیان بانٹتے رہتے تھے۔ دلچسپ بات یہ کہ وہ ہر قوم کے لطیفے بڑے ہی خوب صورت انداز میں سناتے تھے۔ اداکار ساقی دوستوں کے حلقوں میں داستان گو بھی مشہور تھے۔
فلموں کی شوٹنگ کے دوران مختلف فلورز پر ان کے ساتھ اکثر ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں، کبھی وہ ولن کے روپ میں نظر آتے، کبھی وہ مزاحیہ کردار کرتے نظر آتے، کبھی چوہدری، کبھی جاگیردار، کبھی ڈاکو، کبھی چور اور نانا، دادا کا روپ دھارے ہوئے ملتے تھے۔ جب کبھی موڈ میں ہوتے تو اقبال کی شاعری اور غالب کے اشعار بھی بڑی روانی سے سناتے تھے۔ انھیں ہر فن مولا اور ہفت زبان اداکار کا خطاب دیا گیا تھا۔ کبھی کبھی وہ موڈ میں ہوتے تو لاہور میں مشہور انگریزی فلم '' بھوانی جنکشن '' کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بیان کرتے تھے۔
اس فلم میں بھی ساقی صاحب نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ ابتدائی ایک دو فلموں میں اداکار ساقی بطور ہیرو بھی آئے تھے۔ اداکار ساقی کا ایک مشہور بلوچ قبیلے سے تعلق تھا۔ ان کے ایک چھوٹے بھائی کریم بلوچ بھی پاکستان ٹیلی وژن کراچی کے جنرل منیجر تھے۔ وہ بھی آرٹسٹ تھے اور آرٹسٹوں کو انھوں نے اپنے دور میں کراچی میں آگے بڑھنے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ ساقی صاحب نے ٹیلی وژن کے ڈراموں میں بھی کام کیا تھا۔
کراچی کی کئی سندھی فلموں میں کام کیا۔ پھر اردو فلموں کے ساتھ ساتھ بہت سی پنجابی اور پشتو فلموں میں بھی اپنی کردار نگاری کے جھنڈے گاڑے تھے۔ پشتو کی کئی کامیاب فلموں میں ساقی کی کردار نگاری کو پسند کیا گیا تھا۔ 1955 سے 1959 تک کا دور اداکار ساقی کی جدوجہد کا دور تھا اس دوران بطور معاون اداکار ساقی نے بہت سی فلموں میں کام کیا جن میں بھولے خان، شہرت، پاسبان، راز، نیا دور، واہ رے زمانے اور سوسائٹی وغیرہ شامل تھیں۔
مگر شہرت کا آغاز ہدایت کار خلیل قیصر کی فلم ناگن سے ہوا تھا جس میں ساقی نے بطور ہیرو ایک سپیرے کا کردار بڑی خوبصورتی کے ساتھ ادا کیا تھا، فلم کی ہیروئن نیلو تھی۔ پھر آہستہ آہستہ اداکار فلموں کے معروف ترین اداکاروں کی صف میں شامل ہوگئے تھے۔ پشتو کی کامیاب ترین فلم '' دلہن ایک رات کی'' اپنے وقت کی کامیاب ترین فلم تھی۔ یہ اداکار ساقی کی دوسری پشتو فلم تھی جب کہ پہلی پشتو فلم یوسف خان، شیر بانو کے ساتھ کراچی کی تھی۔
فلم ''دلہن ایک رات کی'' کی شوٹنگ کے دوران فلم کی ہیروئن یاسمین خان کا ساقی کے ساتھ محبت کا آغاز ہوا تھا اور پھر فلم کی ریلیز کے بعد دونوں نے شادی کر لی تھی جب کہ ساقی کی پہلے سے ایک خاندانی بیوی تھی۔ یاسمین خان کے ساتھ شادی کامیاب نہ ہو سکی تھی اور ایک بیٹی کی پیدائش کے بعد دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی تھی۔ ساقی نے سندھی فلم سسی پنوں میں بھی ہیرو کا کردار کیا تھا، پھر کراچی کی فلم لکھ پتی میں بھی نگہت سلطانہ کے ساتھ ہیرو کا کردار کیا تھا۔ 1960 کی فلم سہیلی میں ایک گیت فلمایا گیا تھا جس کے بول تھے:
یہ دنیا گول ہے
ہر کوئی ڈانوا ڈول ہے
یہ گیت اداکار ساقی، لہری اور مزاحیہ اداکار فیضی پر فلمایا گیا تھا۔فلم شہید میں طالش کے ساتھ ساقی کے کردار کو بھی فلم بینوں نے بڑا پسند کیا تھا جب کہ فلم '' لاکھوں میں ایک'' میں جس میں شمیم آرا کے ساتھ اعجاز، مصطفیٰ قریشی اور ساقی نے بھی کام کیا تھا اور ساقی نے ایک پٹھان کا کردار ادا کیا تھا جسے بڑا سراہا گیا تھا۔
ساقی بھائی کبھی کبھی مجھے مذاق میں ہمدم کے بجائے '' مائی ڈیئر ڈم ڈم '' کہہ کر پکارتے تھے اور پھر کہتے بھی تھے ہمدم میاں! میرا یہ مذاق تمہیں برا تو نہیں لگتا؟ میں بھی ہنس کر کہتا تھا آپ ہمدم کہیں یا ڈم ڈم، اس میں بھی شاعری کی ردیف شامل ہے تو وہ بھی میری بات سن کر زبردست قہقہہ لگاتے تھے۔ ان کے قہقہوں کی بازگشت دور تک جاتی تھی۔میری ساقی صاحب کے ساتھ آخری ملاقات کراچی ٹیلی وژن کے جنرل منیجر اور ان کے چھوٹے بھائی کریم بلوچ صاحب کے آفس میں ہوئی تھی۔
میں کریم بلوچ سے ملنے گیا تھا تو ساقی صاحب بھی وہاں موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر فوراً بولے '' ہیلو ڈم ڈم ! کیسے ہو، لاہور سے کب آئے ؟'' اور پھر باتوں کا سلسلہ چھڑ گیا تھا۔ جب میں کریم بلوچ کے دفتر سے جانے لگا تو کریم بلوچ صاحب نے بھی بڑے پیار سے کہا '' ڈیئر ڈم ڈم ! آتے جاتے رہنا'' اور پھر کمرے میں تینوں کے قہقہوں کی کافی گونج سنائی دی تھی۔ اداکار ساقی انتہائی مہذب ، ملنسار اور سب سے محبت کرنیوالی شخصیت تھے۔
فلمی دنیا میں ایسے لوگ میں نے کم ہی دیکھے ہیں ورنہ زیادہ تر بناوٹی، خوشامدی، مطلب پرست اور بے حس لوگوں کو ہی میں نے فلمی دنیا میں قدم قدم پر رنگ بدلتے دیکھا ہے اور بڑے قریب سے محسوس کیا ہے۔ آج عبداللطیف بلوچ، ساقی اور کریم بلوچ دونوں بھائی اس دنیا میں نہیں ہیں، مگر ان کی محبتیں، ان کی یادیں اور باتیں احساس میں خوشبو کی طرح بکھری ہوئی ہیں۔