اخبار دنیا کا آئینہ ہیں

آزادیٔ تحریر کے اصولوں پر اصرار کیا جاتا ہے اورصحافی تنظیمیں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے حملوں کے خلاف جلسے کرتی ہیں

zahedahina@gmail.com

ہر سال کی طرح امسال بھی پریس کی آزادی کا عالمی دن منایا گیا۔ اس دن کو عالمی سطح پر منانے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کہ حکومتوں کی جانب سے پریس پر بدترین پابندیاں عائد کرنے کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ اس وقت سے جاری ہے جب سے دنیا میں اخبارات اور رسائل شایع ہونا شروع ہوئے تھے۔ دنیا کا سب سے پہلا ہفت روزہ اخبار 1605 میں جرمنی سے شایع ہوا تھا۔ اس کے بعد سے اخبارات کی اشاعت کا ایک طویل سلسلہ شروع ہوگیا۔


اٹلی کے شہر منٹووا سے 1664 میں ایک اخبار شایع ہوا جس کا نام گزٹ ڈی منٹووا ہے۔ یہ دنیا کا مسلسل شایع ہونے والا قدیم ترین اخبار ہے جو اب بھی اسی نام سے شایع ہورہا ہے۔ پریس کی آزادی عموماً اس وقت تک برداشت کی جاتی ہے جب تک وہ ریاست پر بالادستی رکھنے والی طاقتوں کے نظریات کے تابع رہتی ہیں۔

ٹیکنالوجی کی ترقی سے خبریں اور معلومات کے پھیلائو میں زبردست اضافہ ہوا اور آبادی کے بڑے حصے تک اخبارات، رسائل اور جرائد کی رسائی ہونے لگی جس سے خوفزدہ ہوکر حکومتوں نے اخبارات کو بند کرنے، صحافیوں کو گرفتار اور قتل کرنے کا بھیانک عمل شروع کردیا۔

آمرانہ حکومتوں میں پریس کی آزادی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بیسویں صدی کی آخری دہائیوں تک دنیا کے زیادہ تر ملکوں پر آمرانہ اور فاشسٹ حکومتوں کی بالادستی ختم ہونے لگی اور آج یعنی 2023 میں دنیا کے صرف چند ملکوں کے علاوہ ہر ملک میں جمہوری نظام کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ جدید ترین ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی وجہ سے حکومتوں کے لیے اب خبروں اور معلومات کو روکنا کافی مشکل ہوتا جارہا ہے۔

تاہم حکومتوں نے پریس کی آزادی کو محدود کرنے کے نئے طریقے ایجاد کرنے شروع کردیے ہیں۔ صحافت سے وابستہ ہماری نوجوان نسل کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ پریس کی آزادی کی راہ میں کیا رکاوٹیں حائل رہی ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی 3؍ مئی گزری ہے۔ یہ وہ دن ہے جب ساری دنیا میں اقوام متحدہ کی طرف سے پریس کی آزادی کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس روز دنیا بھر کے صحافی، آزادیٔ صحافت کا جشن مناتے ہیں۔

آزادیٔ تحریر کے اصولوں پر اصرار کیا جاتا ہے اور صحافی تنظیمیں میڈیا کی آزادی پر ہونے والے حملوں کے خلاف جلسے کرتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں۔ ان صحافیوں کو نذرانہ عقیدت پیش کرتی ہیں جنھوں نے سچ کی تلاش میں اپنی جان دے دی۔ دنیا کے اکابرین اس موقع پر بیانات جاری کرتے ہیں۔

آزادیٔ صحافت کی اہمیت کا اندازہ مدبرین اور مفکرین کو اٹھارہویں اور انیسویں صدی سے ہوگیا تھا اور انھوں نے آزادیٔ اظہار کی حمایت میں آواز بلند کرنی شروع کردی تھی۔ اس کی ایک مثال بہائی رہنما کا وہ بیان ہے جو انھوں نے آج سے لگ بھگ ڈیڑھ صدی پہلے دیا تھا۔ وہ ایران سے تعلق رکھنے والے ایک مذہبی رہنما تھے اور آزادیٔ اظہار کے دور رس نتائج سے آگاہ تھے۔

انھوں نے کہا تھا کہ رپورٹر دو طرح کے ہوتے ہیں۔ اچھے اور برے رپورٹر۔ وہ جو سچ کے آئینے میں حقائق کو دیکھتے ہیں، وہ سورج کی طرح ہیں جس سے ساری دنیا روشن ہوجاتی ہے۔ وہ اخبارات کو ساری دنیا کا آئینہ کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اخبارات کے آئینے میں تمام دنیا کے ملکوں اور انسانوں کے اعمال دیکھے جاسکتے ہیں۔

اقوام متحدہ نے 3؍ مئی 1993 کو آزادیٔ اظہار کے عالمی دن کے طور پر نامزد کیا تھا۔ اس نامزدگی میں بڑا ہاتھ براعظم افریقہ کے نڈر اور بے باک صحافیوں کی طرف سے ونڈہوک ڈیکلریشن کا اعلان تھا۔ یہ وہ ڈیکلریشن تھا جس نے عالمی صحافت کی تاریخ میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کرلی اور صحافیوں کی گرفتاریوں، ان پر تشدد اور ان کے ''لاپتہ'' ہونے کے نہایت اہم معاملات پر ساری دنیا میں احتجاج ہونے لگا۔


افریقی صحافیوں نے ای میل الرٹ سسٹم کا آغاز کیا تاکہ صرف افریقہ ہی نہیں ساری دنیا کے صحافیوں اور عوام کو صحافیوں پر گزرنے والی داستان ستم سے آگاہ کیا جاسکے۔ افریقی صحافیوں کی ایک بڑی تعداد راہ کو پُرخار دیکھ کر ایک طرف ہوگئی لیکن کچھ لوگوں نے ہمت نہیں ہاری۔ ان کا کہنا تھا کہ جب ہم جمہوریت اور جمہوری رویوں کی بات کرتے ہیں تو وہ آزاد، کثیر المشرب اور خود مختار پریس کے بغیر قائم نہیں ہوسکتی اور نہ اپنے اپنے ملکوں میں پائیدار اور ہموار بنیادوں پر شرف انسانیت اور لکھے ہوئے لفظوں کی توقیر کا سفر آگے بڑھ سکتا ہے۔

یہ بھی افریقی صحافی تھے جنھوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی پر زور ڈالا کہ وہ آنے والے دنوںمیں عالمی سطح پر کوئی یک دن آزادیٔ تحریر کے حوالے سے مخصوص کرے۔ اسی کے بعد ہی 3 مئی 1993 کو آزایٔ تحریر کے حوالے سے یاد کیا جانے لگا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ 1991 میں لمبیا کے شہر ونڈہوک میں ہونے والی پانچ روزہ کانفرنس کے بطن سے آزادیٔ تحریر اور آزادیٔ صحافت کا دن طلوع ہوا۔

یہ کانفرنس افریقی صحافیوں کے مسائل و معاملات کا احاطہ کرنے کے لیے منعقد کی گئی تھی لیکن اس کے مقاصد اتنے عظیم اور انسانی بنیادیں رکھتے تھے کہ صرف ایک برس بعد 1992میں صحافیوں اور لکھنے والوں کی ایک کانفرنس کرغزستان کے شہر الماتا میں منعقد ہوئی جس نے ونڈہوک کانفرنس کے تمام اغراض و مقاصد کی حمایت کی اور یہ حمایت ان صحافیوں کے بہت کام آئی جو مطلق العنان آمروں یا جمہوریت کا مکھوٹا چڑھا کر سامنے آنے والے فاشسٹ حکمرانوں کے خلاف آواز بلند کرتے تھے۔

ان میں سے اکثر ''لاپتہ'' ہوجاتے تھے یا ان کی تشدد زدہ لاشیںکوڑے کے ڈھیر پر پھینک دی جاتی تھیں۔ ونڈہوک، الماتا، سان تیاگو اور یمن کے شہر صنعا میں ہونے والی کانفرنسوں نے ان ملکوں کے صحافیوں کو کم سے کم اخلاقی حمایت بخشی جن کا اس سے پہلے کوئی وارث نہ تھا۔

اقوام متحدہ کے موجودہ سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے خبریں دینے والوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کے مظاہرے پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ صحافیوں کے خلاف غلط اطلاعات کا پھیلائو، نفرت پرمبنی اظہار اور جان لیوا حملے دنیا بھرمیں آزادیٔ صحافت کے لیے خطرہ ہیں۔ انھوںنے یہ بات آزادیٔ صحافت کے عالمی دن پر اپنے پیغام میں کہی ہے جو 1993 میں منظور کی جانے والی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی قرارداد کی مطابقت سے ہر سال 3 مئی کو منایا جاتا ہے۔

انتونیو گوتریس نے کہا ہے کہ آزادیٔ صحافت جمہوریت اور انصاف کی بنیاد ہے۔ یہ ہم سب کو ان حقائق سے روشناس کراتی ہے جن کی ہمیں اپنی آراء تشکیل دینے اور سچائی کا اظہار کرنے کے لیے ضروری ہوتی ہے۔ تاہم دنیا کے ہر کونے میں آزادیٔ صحافت حملوں کی زد میں ہے۔

صحافیوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی ڈائریکٹر جنرل آڈرے آزولے کا کہنا تھا کہ 2022 اس پیشے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے لیے مہلک ترین سال تھا۔ گزشتہ برس دنیا بھر میں 86 صحافیوں کو ہلاک کیا گیا اور ایسے بیشتر واقعات جنگ زدہ علاقوں سے باہر پیش آئے۔ ان میں زیادہ تر صحافیو ںکو اس وقت ہلاک کیا گیا جب وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ موجود تھے۔ مزید سیکڑوں صحافی حملوں کا نشانہ بنے یا انھیں قید میں ڈالا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو جس سطح کی کھلی چھوٹ حاصل ہے، اس سے ایک خوفناک پیغام جاتا ہے کیونکہ صحافیو ںکی سلامتی محض صحافیوں یا بین الاقوامی تنظیموں کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ بحیثیت مجموعی پورے معاشرے کا مسئلہ ہے۔ آڈریہ آزولے نے کہا کہ یہ مسائل ایسے وقت میں پیش آرہے ہیں جب صحافیوں کی پہلے سے کہیں زیادہ ضرورت ہے کیونکہ ڈیجیٹل دور میں اطلاعات کا پورا منظرنامہ تبدیل کیا گیا ہے، اگرچہ انٹرنیٹ نے اطلاعات اور اظہار کے نئے ذرایع پیدا کیے ہیں تاہم اس کی بدولت غلط اطلاعات اور سازشی نظریات پھیلانے والوں کو بھی سازگار حالات میسر آئے ہیں۔

آڈرے آزولے کا کہنا ہے کہ ہم ایک نئے دوراہے پرکھڑے ہیں۔ ہمارا موجودہ راستہ ہمیں آگاہی پر مبنی عوامی مباحث سے دور لے جارہا ہے۔ یہ مشترکہ حقیقت کے بنیادی نظریے سے ہی دور ہے جس پراس کا انحصار ہے۔ یہ راستہ ہمیں مزید تقسیم کی جانب لے جارہا ہے۔

امید کی جانی چاہیے کہ اگلے سال جب یہ عالمی دن منایا جارہا ہوگا تو دنیا کی صحافت زیادہ آزاد اور صحافی آج سے زیادہ محفوظ ہوں گے۔
Load Next Story