نوجوان طبقہ ووٹرز اور قومی سیاست

نئی نسل کے لوگ بڑے پرجوش ہوکر قومی سیاست کا حصہ بنے ہیں

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان کی سیاست میں نوجوان طبقہ کی اہمیت اوران کی سیاسی عمل میں بطور ووٹر شمولیت خاص توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ سیاست میں نوجوانوں کی آمد نئے سیاسی رجحانات کو جنم دینے کا سبب بنتا ہے۔

ایک ایسی ریاست جہاں نوجوانوں کی تعداد پہلے ہی بہت زیادہ ہو وہاں نوجوانوں کی سیاسی عمل میں شمولیت کو اچھی نظر سے دیکھا جانا چاہیے۔ نوجوان سیاست اورریاستی امورپر کھل کر بات بھی کرتے ہیں اور اپنی قیادت کو بہت سے معاملات میں چیلنج بھی کرتے ہیں۔ ان کے سامنے سوشل یا ڈیجیٹل میڈیا کی نئی طاقت بھی ہے اور اسی طاقت کی بنیاد پر ہم نوجوان نسل کی آوازوں کو قومی سیاست میںسن بھی رہے ہیں اور دیکھ بھی رہے ہیں۔

پاکستان میں نوجوان ووٹرز کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے ۔اب کوئی بھی سیاسی جماعت نوجوان ووٹرز کو نظر انداز نہیں کرسکتی ۔ اس وقت ہر جماعت کی کوشش ہے کہ نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرسکیں۔ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق 18سے 35سال کے نوجوانوں کی عمر کے ووٹرز کی تعداد میں 90لاکھ سے زائد ووٹرز کا عملی طور پر اضافہ ہوا ہے۔

یہ اضافہ ظاہر کرتا ہے کہ نوجوان نسل او ریہ نئے ووٹرزسیاسی محاذ پر ایک اہم سیاسی قوت کے طور پر تبدیل ہوگئے ہیں جو آیندہ انتخابات میں پولنگ بوتھ پر آنے کے لیے اگر قائل ہوتے ہیں تو یہ حیران کن طو رپر انتخابات کے نتائج پر نہ صرف اثرانداز ہوسکتے ہیں بلکہ حیرا ن کن نتائج کی مدد سے سیاسی جماعتوں کی جیت یا ہار میں بنیادی فرق پیدا کرسکتے ہیں ۔الیکشن کمیشن کے مطابق 28مارچ تک نوجوان ووٹرز کی تعداد 55.74ملین تھی۔یہ عمر گروپ کل رجسٹرڈ ووٹرز کا 44.36فیصد ہے ، جو 125.6ملین سے زیادہ ہے ۔

یہ اعداد وشمار سیاسی جماعتوں کے لیے نئے چیلنجز کی طرف متوجہ کرتے ہیں کہ ان کی سیاسی ترجیحات میں نوجوان طبقہ کہاں کھڑا ہے۔ اس وقت کوئی شک نہیں کہ تحریک انصاف اور عمران خان نوجوانوں میں سب سے زیادہ مقبولیت بھی رکھتے ہیں اور سب سے زیادہ وہ سرگرم بھی نظر آتے ہیں۔

حالیہ عمران خان کی مزاحمت میں ہمیں ایک بڑا کردار نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا نظر آیا ہے ۔اسی بنیاد پر مسلم لیگ ن ہو یا پیپلزپارٹی ان کی توجہ کا مرکز بھی نوجوان ہیں ۔سیاسی جماعتیں جذباتی نعروں کی بنیاد پر نوجوانوں کو اپنے قریب تو لاتی ہیں لیکن جیسے ہی وہ اقتدار کے کھیل کا حصہ بنتی ہیں تو ان کی نوجوانوں کی ترقی کے مقابلے میں ترجیحات ہی بدل جاتی ہیں۔ اس وقت بھی پاکستان کا نوجوان سب سے زیادہ ہمیں مسائل کا شکار نظر آتا ہے۔


ایک طرف تعلیمی معیار کی گراوٹ، ٹیکنیکل تعلیم و تربیت کی کمی ، بے روزگاری کا بڑھتا ہوا طوفان ، معاشی بدحالی ، نئی نسل کاتیزی سے ملک چھوڑنے کے رجحان میں اضافہ ،منشیات کا بڑھتا ہوا استعمال ، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے رجحانات ، روزگار میں عدم تسلسل اور عدم سیکیورٹی کا احساس، تعلیم اور صحت کے معاملات کی نج کاری کے نام پر چلنے والی لوٹ مارجیسے مسائل سرفہرست ہیں جو خود ایک بڑے سنگین خطرات کی نشاندہی کرتا ہے۔

عمران خان سمیت دیگر جماعتوں کو یہ بنیادی بات سمجھنی ہوگی کہ اگر ان کی سیاسی اور معاشی ترجیحات میں نوجوانوں کو بنیادی اہمیت او رترجیح نہیں دی گئی تو اس کے نتیجہ میں نئی نسل میں سوائے انتشار ، بدامنی اور انتہا پسندی جیسے رجحانات ہی دیکھنے کو ملیں گے۔ گورننس کے نظام کی جو خرابیاں ہیں اس سے زیادہ نوجوانوں میں مسائل پیدا ہورہے ہیں ان کو نہ تو بنیادی حقوق مل رہے ہیں او رنہ ہی ان کو سیاسی ، سماجی اور معاشی انصاف مل رہا ہے۔

نئی نسل کے لوگ بڑے پرجوش ہوکر قومی سیاست کا حصہ بنے ہیں او ران کی مختلف جماعتوں میں شمولیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ قومی سیاست اور جمہوریت کا حصہ بن کر اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں ۔لیکن ہمارا سیاسی نظام اور سیاسی جماعتوں کا داخلی نظام عملی طور پر ایک کارپوریٹ ماڈل میں تبدیل ہوچکا ہے۔

ایسے ماڈل میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیں جن کے پاس بے تحاشہ دولت ہوتی ہے اور باقی لوگ یا نوجوانوں کے پاس اپنی جماعتوں یا قیادت کی حمایت میں زندہ باد اور مردہ باد کے نعروں کے سوا کچھ نہیں بچتا۔نوجوانوں کی موثر شمولیت اور زیادہ نمایندگی یانئے سیاسی امکانات میں ایک کلیدی کردار '' خود مختار اور مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام '' سے بھی جڑا ہوتا ہے مگر ہماری سیاسی قیادتوں یا جماعتوں کی ترجیحات میں مقامی حکومتوں کا نظام بہت پیچھے ہے۔

یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ہمیں نئی نسل کا رش یا بڑی تعداد میں نوجوانوں کے نمبرز تو ںنظر آتے ہیں مگر ان کے خیالات سنیں تو ان میں اسی سیاسی نظام کے بارے میں مایوسی بھی غالب نظر آتی ہے وہ برملا اپنی اپنی سیاسی قیادتوں کے فیصلوں کو تنقید کا نشانہ بھی بناتے ہیں۔ان کے بقول ہمیں سیاسی نظام یا جماعتوں میں زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی او رجب سیاسی جماعت یا قیاد ت پر برا وقت آتا ہے تو ہم سے مزاحمت کے نام پر بہت سی امیدیں باندھی جاتی ہیں۔مگر اس کے برعکس اقتدار میں جو لوگ ان کے قریب ہوتے ہیںوہ مزاحمت میں غائب ہوتے ہیں۔

اس لیے سیاسی جماعتوںاور ان کی قیادت کو نوجوان طبقہ کے بارے میں اپنے تضادات سے باہر نکلنا ہوگا او رمحض ان کے لے جذباتی سطح کی سیاست اورنعروں سے باہر نکل کر کچھ بڑا عملی بنیادوں پر سوچنا ہوگا۔ نوجوانوں کے مسائل غیر معمولی ہیں او ران کے لیے اقدامات بھی قومی سطح پر غیر معمولی نوعیت کے ہی ہونے چاہیے۔ لیکن اگر ایسا نہیں کیاجاتااور روائتی انداز میں ہی نوجوانوں کو سیاسی محاذ پر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے نوجوان طبقہ جو بڑی پرجوشیت سے سیاسی عمل کا حصہ بنا ہے وہی سیاسی عمل سے لاتعلق بھی ہوسکتا ہے ۔
Load Next Story