ایم کیو ایم کا سندھ حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ
پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوبارہ سیاسی اتحادی بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ...
KEARNY, NJ, US:
سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بالآخر سندھ حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی ہو سکتی ہے بلکہ ''پولٹیکل اسٹیٹس کو'' برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ایم کیو ایم کی شمولیت سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگی لیکن اس کے لیے سیاسی چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا۔ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کو ڈرامائی انداز میں اسلام آباد سے کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔ یہ سندھ حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ سندھ سے سینیٹ کی دو نشستیں بھی خالی ہوچکی ہیں۔ ایک نشست پیپلز پارٹی کے سینیٹر سید فیصل رضا عابدی کے استعفیٰ سے خالی ہوئی ہے جبکہ دوسری نشست ایم کیو ایم کے سینیٹر سید مصطفی کمال کے مستعفٰی ہونے پر خالی ہوئی ہے۔ ان دونوں استعفوں کے پس پردہ بھی بڑی کہانیاں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کیا جائے لیکن اس کوشش میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ماضی کی طرح ہر حال میں اس حوالے سے کسی مجبوری کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوبارہ سیاسی اتحادی بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنماء اور سابق وفاقی مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر ایک حلقہ ایسا بھی ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ان کے خیال میں اس سے پیپلز پارٹی کی ان علاقوں میں سیاسی پوزیشن خراب ہوگی، جہاں پیپلز پارٹی کا زیادہ ووٹ بینک ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کو بلاول ہاؤس میں عشائیہ دیا تھا۔ اس موقع پر بھی ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ عشائیہ میں شریک بعض لوگوں کے مطابق متعدد ارکان سندھ اسمبلی نے یہ رائے دی تھی کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل نہ کیا جائے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے اندر بھی اس معاملے پر پائے جانے والے اختلاف رائے کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں ۔ ان خبروں کے مطابق ایم کیو ایم کے ایک حلقے کی یہ خواہش ہے کہ سندھ حکومت میں شمولیت کی بجائے وفاقی حکومت میں شمولیت کی جائے۔ اس حلقے کی وجہ سے ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت میں تاخیر ہوگئی۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ کو تبدیل کرنے کے علاوہ ایم کیو ایم کے حوالے سے دیگر معاملات پر بھی اپنا رویہ تبدیل کرسکتی ہے۔ اس حلقے کی رائے کو ایم کیو ایم کی قیادت نے یکسر مسترد نہیں کیا ہے اور اس کے لئے مختلف آپشنز اب بھی کھلے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت سے کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعت نے ٹارگیٹڈ آپریشن کی مخالفت نہیں کی ہے اور آپریشن کے لیے کسی قسم کی سیاسی رکاوٹیں پید انہیں کی ہیں ۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن پر بعض تحفظات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کو متنازع بنانے کی بھی کوشش نہیں کی ہے۔ لہذا ایم کیو ایم کے سندھ حکومت میں شامل ہونے سے ٹارگیٹڈ آپریشن پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے اغواء اور بعض کارکنوں کی لاشیں ملنے پر مختلف فورمز پر احتجاج کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایم کیو ایم نے آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ البتہ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں رینجرز ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے متعدد مرتبہ یہ شکایت کی ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی ہوتی ہے۔ گزشتہ 7 ماہ سے جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود دہشت گردی جاری ہے اور روزانہ کراچی میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے۔
لوگوں میں یہ تاثر مضبوط ہو گیا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا ہے اور وہ ناکام ہو گیا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کے بعد بھی یہی صورت حال جاری رہی اور دہشت گردی نہ رک سکی تو سارا الزام انہی دو سیاسی جماعتوں کے سر تھوپ دیا جائے گا۔ دوسری طرف سندھ اسمبلی میں اپوزیشن برائے نام رہ جائے گی ۔ یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی سندھ حکومت میں شامل ہونے کے لیے اپنی مرکزی قیادت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی اور حکومت سیاسی طور پر بہت مضبوط ہو جائے گی۔ اس کے بعد بھی سندھ حکومت اگر گڈ گورننس نہ دے سکی اور عوام کو کچھ ڈلیور نہ کرسکی تو اس سے نہ صرف دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کے بعد سندھ حکومت ایک آزمائش سے دوچار ہو گئی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اگر پرویز مشرف ملک سے فرار ہوئے تو اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہو گی ۔ ان کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بیرون ملک جانے سے روکنا سندھ حکومت کا نہیں بلکہ وفاقی اداروں کا کام ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی بات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ڈرامے کا ڈراپ سین کب ہوتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل رضا عابدی اور ایم کیو ایم کے سینیٹر مصطفی کمال کے استعفوں سے دونوں سیاسی جماعتوں کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی جارہی ہیں ، ان پر دونوں جماعتوں کی خاموشی ان کہانیوں میں مزید رنگ بھر رہی ہے۔
سندھ کی دوسری بڑی سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) نے بالآخر سندھ حکومت میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس سے نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کے سیاسی منظرنامے میں تبدیلی ہو سکتی ہے بلکہ ''پولٹیکل اسٹیٹس کو'' برقرار رکھنا بھی مشکل ہو جائے گا۔ سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ایم کیو ایم کی شمولیت سے پہلے سے زیادہ مضبوط ہوگی لیکن اس کے لیے سیاسی چیلنجز میں اضافہ ہو جائے گا۔ سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کو ڈرامائی انداز میں اسلام آباد سے کراچی منتقل کردیا گیا ہے۔ یہ سندھ حکومت کے لیے ایک نیا چیلنج ہے۔ سندھ سے سینیٹ کی دو نشستیں بھی خالی ہوچکی ہیں۔ ایک نشست پیپلز پارٹی کے سینیٹر سید فیصل رضا عابدی کے استعفیٰ سے خالی ہوئی ہے جبکہ دوسری نشست ایم کیو ایم کے سینیٹر سید مصطفی کمال کے مستعفٰی ہونے پر خالی ہوئی ہے۔ ان دونوں استعفوں کے پس پردہ بھی بڑی کہانیاں ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت کی مسلسل یہ کوشش رہی ہے کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل کیا جائے لیکن اس کوشش میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے کبھی یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ ماضی کی طرح ہر حال میں اس حوالے سے کسی مجبوری کا شکار ہے۔ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کو دوبارہ سیاسی اتحادی بنانے کے لیے پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے علاوہ پیپلز پارٹی کے رہنماء اور سابق وفاقی مشیر برائے پیٹرولیم و قدرتی وسائل ڈاکٹر عاصم حسین کا کردار بھی بہت اہم ہے۔ پیپلز پارٹی کے اندر ایک حلقہ ایسا بھی ہے، جو یہ چاہتا ہے کہ ایم کیو ایم کو حکومت میں شامل نہ کیا جائے کیونکہ ان کے خیال میں اس سے پیپلز پارٹی کی ان علاقوں میں سیاسی پوزیشن خراب ہوگی، جہاں پیپلز پارٹی کا زیادہ ووٹ بینک ہے ۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے سرپرست اعلیٰ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ہفتے پیپلز پارٹی کے ارکان سندھ اسمبلی کو بلاول ہاؤس میں عشائیہ دیا تھا۔ اس موقع پر بھی ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت کا معاملہ زیر بحث آیا تھا۔ عشائیہ میں شریک بعض لوگوں کے مطابق متعدد ارکان سندھ اسمبلی نے یہ رائے دی تھی کہ ایم کیو ایم کو سندھ حکومت میں شامل نہ کیا جائے۔ دوسری طرف ایم کیو ایم کے اندر بھی اس معاملے پر پائے جانے والے اختلاف رائے کی خبریں بھی منظر عام پر آئیں ۔ ان خبروں کے مطابق ایم کیو ایم کے ایک حلقے کی یہ خواہش ہے کہ سندھ حکومت میں شمولیت کی بجائے وفاقی حکومت میں شمولیت کی جائے۔ اس حلقے کی وجہ سے ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت میں تاخیر ہوگئی۔ کیونکہ مسلم لیگ (ن) ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے گورنر سندھ کو تبدیل کرنے کے علاوہ ایم کیو ایم کے حوالے سے دیگر معاملات پر بھی اپنا رویہ تبدیل کرسکتی ہے۔ اس حلقے کی رائے کو ایم کیو ایم کی قیادت نے یکسر مسترد نہیں کیا ہے اور اس کے لئے مختلف آپشنز اب بھی کھلے ہیں۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایم کیو ایم کی سندھ حکومت میں شمولیت سے کراچی میں جاری ٹارگیٹڈ آپریشن پر کیا اثرات مرتب ہوں گے ؟ خوش آئند بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سمیت کسی بھی سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعت نے ٹارگیٹڈ آپریشن کی مخالفت نہیں کی ہے اور آپریشن کے لیے کسی قسم کی سیاسی رکاوٹیں پید انہیں کی ہیں ۔ پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن پر بعض تحفظات کے باوجود سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کو متنازع بنانے کی بھی کوشش نہیں کی ہے۔ لہذا ایم کیو ایم کے سندھ حکومت میں شامل ہونے سے ٹارگیٹڈ آپریشن پر کوئی اثرات مرتب نہیں ہوں گے۔ یہ اور بات ہے کہ ایم کیو ایم نے اپنے کارکنوں کے اغواء اور بعض کارکنوں کی لاشیں ملنے پر مختلف فورمز پر احتجاج کیا ہے لیکن یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ایم کیو ایم نے آپریشن کی مخالفت کی ہے۔ البتہ امن و امان سے متعلق اعلیٰ سطح کے اجلاسوں میں رینجرز ، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام نے متعدد مرتبہ یہ شکایت کی ہے کہ دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کی سیاسی پشت پناہی ہوتی ہے۔ گزشتہ 7 ماہ سے جاری ٹارگیٹڈ آپریشن کے باوجود دہشت گردی جاری ہے اور روزانہ کراچی میں بے گناہ لوگوں کا خون بہایا جاتا ہے۔
لوگوں میں یہ تاثر مضبوط ہو گیا ہے کہ ٹارگیٹڈ آپریشن اپنے مطلوبہ مقاصد حاصل نہیں کر سکا ہے اور وہ ناکام ہو گیا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی حکومت میں شمولیت کے بعد بھی یہی صورت حال جاری رہی اور دہشت گردی نہ رک سکی تو سارا الزام انہی دو سیاسی جماعتوں کے سر تھوپ دیا جائے گا۔ دوسری طرف سندھ اسمبلی میں اپوزیشن برائے نام رہ جائے گی ۔ یہ بھی توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ارکان بھی سندھ حکومت میں شامل ہونے کے لیے اپنی مرکزی قیادت پر دباؤ ڈال سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو سندھ اسمبلی میں اپوزیشن مزید کمزور ہو جائے گی اور حکومت سیاسی طور پر بہت مضبوط ہو جائے گی۔ اس کے بعد بھی سندھ حکومت اگر گڈ گورننس نہ دے سکی اور عوام کو کچھ ڈلیور نہ کرسکی تو اس سے نہ صرف دو بڑی سیاسی جماعتوں کی سیاسی ساکھ متاثر ہوگی۔
سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کی اسلام آباد سے کراچی منتقلی کے بعد سندھ حکومت ایک آزمائش سے دوچار ہو گئی ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ اگر پرویز مشرف ملک سے فرار ہوئے تو اس کی ذمہ داری سندھ حکومت پر عائد ہو گی ۔ ان کی یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کیونکہ بیرون ملک جانے سے روکنا سندھ حکومت کا نہیں بلکہ وفاقی اداروں کا کام ہے ۔ وفاقی وزیر اطلاعات کی بات سے یہ محسوس ہوتا ہے کہ سارا ملبہ سندھ حکومت پر ڈالنے کی کوشش کی جائے گی۔ دیکھنا یہ ہے کہ پرویز مشرف کے ڈرامے کا ڈراپ سین کب ہوتا ہے لیکن پیپلز پارٹی کے سینیٹر فیصل رضا عابدی اور ایم کیو ایم کے سینیٹر مصطفی کمال کے استعفوں سے دونوں سیاسی جماعتوں کے بارے میں جو کہانیاں بیان کی جارہی ہیں ، ان پر دونوں جماعتوں کی خاموشی ان کہانیوں میں مزید رنگ بھر رہی ہے۔