زباں فہمی نمبر 185 اردو کا بروشسکی سے تعلق
بروشسکی پاکستان کی ایسی انوکھی زبان ہے جس کا مستندرسم الخط اردو نسخ بھی ہے اور رومن بھی
آغاز میں اپنی لکھی ہوئی یہ بات مکرر عرض کرتاہوں کہ بروشسکی پاکستان کی ایسی انوکھی زبان ہے جس کا مستندرسم الخط اردو نسخ بھی ہے اور رومن بھی،یہ الگ بات ہے کہ ہماری(یعنی شاہ مکھی) پنجابی اردو نستعلیق/نسخ کے ساتھ، زبردستی رومن میں بھی لکھی جارہی ہے اور سرحد کے اُس پار، گورمکھی(گُرمکھی) ایک الگ رسم الخط ہے، مگر رومن والا معاملہ تو اردو کے ساتھ بھی ہورہاہے اور خدانہ کرے کہیں اگلی نسل اردو رسم الخط سے بالکل ہی ناآشنا نہ رہ جائے۔
زبردستی "رومنانے"[Romanize]کا معاملہ ہماری سندھی، بلوچی، پشتو، براہوئی، بنگلہ اور گجراتی سمیت متعدد مقامی زبانوں کے ساتھ، انٹرنیٹ پر ہورہا ہے، (یہ "رومنانا" ابھی ابھی 'نازل' ہواہے،بر وَزنِ 'اردُوانا')خواہ اسے ان تمام زبانوں کے اہل زبان کی سہل پسندی کہیں یا مجبوری، مگر غلط تو غلط ہی ہے۔بہرحال آمدم برسر مطلب! جہاں اردو کا رشتہ ناتہ دنیا کی ہر اہم (چھوٹی بڑی، معروف غیرمعروف) زبان اور بولی سے ہے، بروشسکی سے بھی ہے۔
یہ زبان دنیا کی درجن بھر "تنہا" [Isolated]زبانوں میں شامل ہے جن کا باقاعدہ تعلق کسی بھی گروہ الّسنہ (زبانوں کے گروہ)سے ثابت یا طے نہیں ہوسکا۔ایسی زبانوں میں باسک [Basque] اور فِینش یعنی Finnishبھی شامل ہیں۔چیچن مجاہدین کا دعویٰ بہت مشہور ہواتھا کہ ہماری زبان دنیا کی کسی زبان سے متعلق نہیں، یکہ وتنہا ہے،مگر یہ ایک جذباتی نعرہ تھا،کیونکہ وہ داغستانی زبان بولتے ہیں اور جیسا کہ ماقبل لکھ چکاہوں اس زبان کا معاملہ ایسا نہیں کہ کسی بھی گروہ میں شامل نہ ہو۔
میرا بروشسکی سے تعلق کچھ یوں استوار ہوا کہ اس کے سب سے بڑے پرچارک، اولین باقاعدہ شاعر،محقق اور ادیب،("بابائے بروشسکی")علامہ نصیر الدین ہنزئی (ان کے املاء کے مطابق ہونزائی) سے ماضی میں ملاقاتیں رہیں اور اردوسے مشترکا ت پر مواد حاصل کرنے کی کوشش میں کچھ کتب کا تبادلہ ہوا، مگر براہ راست موضوع سے متعلق مواد کے حصول میں دشواری کا سامنا ہی رہا، تاوقتیکہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کی مہربانی سے یہ مسئلہ حل ہوگیا۔
علامہ صاحب اپنے فرقے یا برادری (آغاخانی) کے داعی تھے، ان کی اردو نثرونظم میں بھی اس کا بہت زیادہ پرچار تھا۔انھوں نے مجھے اپنا بعض کلام اردو کے ادبی جرائد میں اشاعت کے لیے بھی دیا تھا۔اس بابت آگے چل کر مزید بات کروں گا۔میں نے علامہ کی کتب کے ہدیے سے قبل، انھیں وَخی یا واخی بولی سے متعلق، Sabine Felmyکی کتاب The Voice of the Nightingaleخرید کر تحفے کے طور پر پیش کی اور انھیں نذرکرنے سے پہلے اُس میں شامل ایک مضمون کی عکسی نقل تیار کی جس کا ترجمہ مابعد، سہ ماہی تسطیر (بابت جولائی تا ستمبر 1999ء)میں شایع کروایا اور پھر اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے 'ہم رِکاب' [The Fellow Rider]، شمارہ دوم بابت اکتوبر تا دسمبر 2019ء میں بطور قند مکرر پیش کیا۔
بروشسکی کا نام شاید بہت سے اردوگو یا اردوداں ح ضرات کے لیے قدرے نامانوس ہو، اس لیے کچھ بنیادی تعارف پیش خدمت ہے۔یہ زبان اپنی اصل کے لحاظ سے تو قدیم ہے، مگر اسے بولی سے باقاعدہ زبان کی شکل اور درجہ ملے ہوئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔اس بناء پر اُسے زبانو ں کی صف میں نسبتاً کم عمر ہی سمجھاجاتاہے۔یہ ضرور ہے کہ اس میں تحقیق کاسلسلہ زور شور سے جاری ہے۔
بروشسکی، پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت، ہنزہ(ہونزہ)، نگر اور یاسین کی وادیوں میں اور مقبوضہ کشمیرمیں (نیز تلاش معاش میں کراچی میں)بسنے والے 'بروشو' کی زبان ہے جو بجائے خود کوئی ایک جدا نسل یا قوم نہیں، بلکہ کئی اقوام مثلاً تاتار، مغل، ہُن، قرغیز (کرغز)، بدخشانی، بَلتی (بلتستانی) اور وَخی (واخان کے باشندے)کا مجموعہ ہیں۔ایک مقامی تحقیق کے مطابق، یہ لوگ ہوانگ ہُو، چین کے قدیم قبیلے ہُن یا ہُون کی شاخ ہیں۔محولہ بالا وادیوں میں بروشسکی کے لہجوں کا فرق بھی بہت واضح ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس"نوزائیدہ" زبان نے اپنے سے کہیں زیادہ پرانی زبانوں شِنا (شینا)، کھوار اور وَخی (درحقیقت بولی)پر، وسعت ِمکانی کے لحاظ سے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب یہ علاقہ ہنزہ کے حکمرانوں کے زیر اثر تھا تو اُن کی درباری بولی بروشسکی ہی تھی۔اسی سبب سے ایک دورمیں اس پورے علاقے کو "بروشال" بھی کہاجاتا تھا۔
یہاں ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ اردو کا بروشسکی سے تعلق واشتراک بھی صدیوں پر محیط عمل ہے جسے محض لسانی قیاسات کی بناء پر سرسری ہی سمجھا گیا ہے۔ایک تو بات سامنے کی ہے کہ ہنزہ کا بھی دیگر ہمسایہ پہاڑی علاقوں کی طرح، وادی جموں وکشمیر وملحق علاقہ جات (بشمول مقبوضہ وادی) سے قریبی دیرینہ تعلق، اظہر مِن الشمس ہے جو کسی بھی پہلو سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،خاص طور پر،ریاست ہنزہ و نَگر کے حکمراں،مِیرگھرانے کے عہد میں یہاں سے کشمیر جانے والے بروشو اور کشمیر سے اشیائے ضرورت کی بکثرت یہاں نقل وحمل کا معاملہ، واضح طور پر لسانی اشتراک کی نشان دہی کرتا ہے۔
دوسری بات یہاں بھی دیگر علاقوں کاطرح، فارسی کا چلن رہا تو ہماری قومی زبان نے بھی رشتہ استوار کیا۔تیسری جہت یہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں بڑی تعدادمیں بروشو کراچی آکر بس گئے اور اُن کی اپنے علاقوں سے کراچی آمدورَفت سے بھی اردو اور انگریزی سے بروشسکی کے ربط ضبط کا سلسلہ بہت زیادہ بڑھا۔یہاں موجود بروشو نوجوان اپنی زبان اور ثقافت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں،مگر کسی غیر مذہب /غیر زبان والوں سے ارتباط سے شعوری گریز کرتے ہیں۔
ہمارے قارئین کو یقینااس بات کا انتظا ر ہوگا کہ اردو کے حروف تہجی کے مقابل، بروشسکی کے حروف تہجی پیش کروں تو لیجئے صاحب یہاں حاضر کرتا ہوں:
اردو بروشسکی
ا اِی ء
اے۔اء۔E
ا'وٖ۔ہ
ب ب، بی، B
پ پ، پی۔P
ت ت، تے
تھ، تھے
ٹ ٹ، ٹی، ٹے
ٹھ، ٹھے
ث ............
ج ج، جے
چ چ، چے
چھ، چھے
ح ح،حے، ہے
خ خ، خے
د د
ڈ ڈ، ڈی
ذ .............
ر .............
ڑ .............
ز ز، ض، ظ، ز، زے
ژ ژ، ژے
آر۔ر۔رے
ڑ۔ڑے
تس۔تسے
تسھ۔تسھے
س س، ص، ث، ثے
ش ش۔شے
ص .............
ض .............
ط .............
ظ .............
ع .............
غ .............
ف ف، فے
ق ق، قے
ک ک، کے
کھ،کھے
غ۔غے
گ .............
ل ل۔لے
م م۔مے
ن ن۔نے
ں۔اُوں نحنہ
نگ۔نگے۔گث
و و۔وے
ی ی۔یا۔وائی۔یے
ے .............
بنیادی اور قدیم اردو حروف تہجی سینتیس (37) کے مقابلے میں، بروشسکی کے حروف (ترتیب وتلفظ کے فرق سے)، اکیاون (51) ہیں۔ (یہاں میں قصداً وہ بحث نہیں دُہرانا چاہتا کہ مرکب حروف یا اصوات کو ملا کر اُردو کے حروف تہجی بھی 54،56یا 58ہوگئے ہیں۔اس بابت 'زباں فہمی' کے دوشمارے آن لائن ملاحظہ فرمائیں)۔
علامہ نصیر الدین ہنزئی کے عنایت کردہ تحائف میں شامل بروشسکی قاعدے کی مدد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو زبانوں میں متعدد الفاظ مشترک یا مماثل ہیں۔اردو کے لفظ 'ڈر' کو بروشسکی میں کہتے ہیں، 'اَر'، چُپ کو چُپ ہی کہتے ہیں، پانی کو "چِل" (Chil)کہتے ہیں جو انگریزی لفظ Chillیعنی ٹھنڈک سے مماثل ہے، جگہ یا مقام کے لیے بروشسکی میں لفظ 'دِش' بعینہ ٖ ہندی لفظ دِشا یعنی سَمت معلوم ہوتا ہے۔
نیولے کو "نو'ل"(Nool)، بھنورکو "پھِیری" (Pheeri)(گویا اردو کا مرکب لفظ 'چَک پھیری' بھی متبدل شکل میں موجودہے)، کھجور کو "خُرما" کہتے ہیں (جوعین عربی لفظ ہے) تو اُردو کی سڑک، وہاں بھی سڑک ہی ہے، جبکہ چاند کو 'سوم' /سومو[Som (o)] کہاجاتا ہے جو ہندی لفظ سُوم ہی ہے،(جس سے ارد و میں سوموار یعنی پیر کا دن بنا)، نیز اُسے بروشسکی میں "چندُرا"[Chandura]کہتے ہیں، بہ اختلاف ِ تلفظ یہ سنسکرت، ہندی اور بنگلہ میں موجودہے اور اردومیں بھی مستعمل ہے،اس کی شکل چندر ہے جیسے کرشن چندر اور یہی لفظ چندا اور پھر چندا ماما بنا۔سِیٹی (Whistle)کو بروشسکی میں سُوِیتو[Swiito]کہتے ہیں۔
اردو گو طبقے کو فارسی لفظ 'گُرگ" بمعنی بھیڑیا سے آشنائی ہے، (گرگ آمد، گرگ آمدیعنی بھیڑیا آیا،بھیڑیا آیا بجائے شیر آیا، شیرآیا کی فارسی حکایت اور پھر گرگِ باراں دیدہ کی خالص فارسی ترکیب یا کیجئے)،یہی لفظ بروشسکی میں گیا تو "اُرک" [Urk]ہوگیا، کیونکہ بروشسکی میں فارسی سمیت متعدد زبانوں کے الفاظ کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں، انگریزی الفاظ کی تو بُہتات ہے۔مُونچھ کو مُچھ کہاجاتا ہے،(جو پنجاب کی زبانوں میں بھی ہے)، شیر [Tiger]کو شِیر کہاجاتا ہے، جبکہ ببر شیر کو "شِیرِ بَبُر"[Sheer-e-Babur]یعنی صحیح ترکی تلفظ کے ساتھ۔ایک حیرت انگیز نام چنڈول [Sky lark]نامی پرندے کا ہے، " ٹِیرو"۔
اونٹ کو بروشسکی میں اُٹ کہتے ہیں جو سندھی(اور غالباً سرائیکی) لفظ 'اُٹھ' سے بہت مماثل ہے، کینگرو [Kangaroo]کو Kanguruکنگُرُو۔سرطان یعنی کیکڑا [Crab]وہی ہے اردو والا (جسے سرطان یا کینسر کی علامت سمجھا جاتا ہے)،بِچھو کو اِس زبان میں فارسی کی تقلید میں،بجاطور پر 'ہشت پا صدفہ' کہاجاتا ہے،مگر اُردو والے کم کم واقف ہوں گے۔بروشسکی میں مگر مچھ کو مَگا مَچھ کہتے ہیں، جبکہ مینڈک [Toad]کو حیرت انگیز طور پر "گورکُن" کہاجاتا ہے، جھےِنگا [Prawn]، جھینگا ہی ہے، Salamanderکو سَمُندَر کہتے ہیں، بِیر بہوٹی کو "خانمو جُوکو" یعنی گھریلو جونک کہتے ہیں جو ہمارے لیے تعجب خیز ہے، اس لیے کہ جونک اور بےِربہوٹی میں بڑا فرق ہے۔
یہاں لوگ کنکھجورے کو فارسی کی تقلید میں ہزا رپا (ہزاروں پاؤں والا) اور ایک دوسرے نام کلتاش سے یاد کرتے ہیں۔ مور کو طاؤس اور مَیور[Mayur]کہتے ہیں،شترمرغ وہی ہے، کوئل کو کُو ےَل، مَینا کو مِینا، بلبل کو بلبل اور عندلیب، ہُدہُد کو ہُد ہُد اور پُو پُو کہتے ہیں جو اِنگریزی کے Hoopoeسے مشتق لگتا ہے، توتے /طوطے کو فارسی کی طرح طُوطی کہاجاتا ہے۔یہ فہرست اس سے کہیں زیاد ہ طویل ہے، مگر بندہ بوجوہ اختصار سے کام لے رہا ہے۔قارئین کرام بھی کچھ کدو کاوش فرمائیں۔خاکسارنے بے شمار انگریزی الفاظ کی نقل سے گریز کیا، مگر ان کا ذکر بھی بہرحال آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائے گا۔ خاکسار نے ماضی میں بروشسکی کی کہاوتوں اور پہیلیوں کی تحقیق پر مبنی انگریزی کتاب سے جو تراجم کیے، اُن میں کچھ آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔اردو اور بروشسکی میں ایسی کئی کہاوتیں مشترک ہیں:
ا)۔انگورکھٹے ہیں
ب)۔"شیر آیا، شیرآیا"/"بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا"
ج)۔ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی
بروشسکی کے اولین شاعر علامہ نصیر ہنزئی کا نمونہ کلام (اردو)بھی دیکھیے:
جس طرف بھی میری نگاہ گئی
عشق کا خیمہ و عَلَم دیکھا
٭
سایہ ئ عشق ہے، نصیر ؔ نہیں
دل میں جب اُس نے وہ صنم دیکھا
٭
میں جہاں بھی رہ چکا، دن بھر کتابوں میں رہا
بس میرا گھرہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب
٭
زوالِ عہد ِجوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا
کہ فکروعقل ِکُہن سال،شباب سے بہتر
٭
تیری اُلفت بھی کیا اکسیر ہے
جس سے ہم کُندن ہوئے اور شادکام
علامہ نصیر کی اردو، فارسی اور بروشسکی میں کتب کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے، جبکہ اُن کی کتب کا انگریزی، فرینچ اور جرمن میں ترجمہ ہوچکا ہے۔کینیڈا کی میک گِل یونیورسٹی سے اشتراک کے نتیجے میں اُن کی وہ کتاب منظر عام پر آئی تھی جس میں اُن کی زبان کی کہاوتیں اور پہیلیاں جمع کی گئی تھیں۔
مآخذ
ا)۔گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ;مع تقابلی لغت اَز ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017ء
ب)۔اردو اوربروشسکی کا لسانی وادبی اشتراک اَز ڈاکٹر شہناز نبی ہنزئی،(مضمون) مشمولہ "پاکستانی زبانیں: مشترک لسانی وادبی ورثہ،مرتبہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، عبداللہ جان عابد;شعبہ پاکستانی زبانیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔اسلام آباد
ج)۔اولین بروشسکی اردو لغت، جلد اوّل:مدیراور پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شہناز نبی ہنزئی، زیراہتمام بروشسکی اکیڈمی،زیر سرپرستی علامہ نصیر الدین ہنزئی، ناشر: بروشسکی اکیڈمی، طابع: شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی: 2006ء
د)۔.........................ایضاً......................................جلد دُوَم: 2009ء
ہ)۔ دیوان ِ نصیری (اردو)ازپروفیسر ڈاکٹر علامہ نصیرہنزئی،ناشردانش گاہ خانہ حکمت پاکستان، انٹرنیشنل پبلشنگ ہاؤس، گلگت: 2004ء
و)۔ Burusho Birkis: Allamah Nasiruddin Nasir Hunzai
ز)۔Pak-Canada Academic Cooperation by Farman Ali, Financial Post, dated 6th November 1995
زبردستی "رومنانے"[Romanize]کا معاملہ ہماری سندھی، بلوچی، پشتو، براہوئی، بنگلہ اور گجراتی سمیت متعدد مقامی زبانوں کے ساتھ، انٹرنیٹ پر ہورہا ہے، (یہ "رومنانا" ابھی ابھی 'نازل' ہواہے،بر وَزنِ 'اردُوانا')خواہ اسے ان تمام زبانوں کے اہل زبان کی سہل پسندی کہیں یا مجبوری، مگر غلط تو غلط ہی ہے۔بہرحال آمدم برسر مطلب! جہاں اردو کا رشتہ ناتہ دنیا کی ہر اہم (چھوٹی بڑی، معروف غیرمعروف) زبان اور بولی سے ہے، بروشسکی سے بھی ہے۔
یہ زبان دنیا کی درجن بھر "تنہا" [Isolated]زبانوں میں شامل ہے جن کا باقاعدہ تعلق کسی بھی گروہ الّسنہ (زبانوں کے گروہ)سے ثابت یا طے نہیں ہوسکا۔ایسی زبانوں میں باسک [Basque] اور فِینش یعنی Finnishبھی شامل ہیں۔چیچن مجاہدین کا دعویٰ بہت مشہور ہواتھا کہ ہماری زبان دنیا کی کسی زبان سے متعلق نہیں، یکہ وتنہا ہے،مگر یہ ایک جذباتی نعرہ تھا،کیونکہ وہ داغستانی زبان بولتے ہیں اور جیسا کہ ماقبل لکھ چکاہوں اس زبان کا معاملہ ایسا نہیں کہ کسی بھی گروہ میں شامل نہ ہو۔
میرا بروشسکی سے تعلق کچھ یوں استوار ہوا کہ اس کے سب سے بڑے پرچارک، اولین باقاعدہ شاعر،محقق اور ادیب،("بابائے بروشسکی")علامہ نصیر الدین ہنزئی (ان کے املاء کے مطابق ہونزائی) سے ماضی میں ملاقاتیں رہیں اور اردوسے مشترکا ت پر مواد حاصل کرنے کی کوشش میں کچھ کتب کا تبادلہ ہوا، مگر براہ راست موضوع سے متعلق مواد کے حصول میں دشواری کا سامنا ہی رہا، تاوقتیکہ گزشتہ دنوں انٹرنیٹ کی مہربانی سے یہ مسئلہ حل ہوگیا۔
علامہ صاحب اپنے فرقے یا برادری (آغاخانی) کے داعی تھے، ان کی اردو نثرونظم میں بھی اس کا بہت زیادہ پرچار تھا۔انھوں نے مجھے اپنا بعض کلام اردو کے ادبی جرائد میں اشاعت کے لیے بھی دیا تھا۔اس بابت آگے چل کر مزید بات کروں گا۔میں نے علامہ کی کتب کے ہدیے سے قبل، انھیں وَخی یا واخی بولی سے متعلق، Sabine Felmyکی کتاب The Voice of the Nightingaleخرید کر تحفے کے طور پر پیش کی اور انھیں نذرکرنے سے پہلے اُس میں شامل ایک مضمون کی عکسی نقل تیار کی جس کا ترجمہ مابعد، سہ ماہی تسطیر (بابت جولائی تا ستمبر 1999ء)میں شایع کروایا اور پھر اپنے کثیر لسانی ادبی جریدے 'ہم رِکاب' [The Fellow Rider]، شمارہ دوم بابت اکتوبر تا دسمبر 2019ء میں بطور قند مکرر پیش کیا۔
بروشسکی کا نام شاید بہت سے اردوگو یا اردوداں ح ضرات کے لیے قدرے نامانوس ہو، اس لیے کچھ بنیادی تعارف پیش خدمت ہے۔یہ زبان اپنی اصل کے لحاظ سے تو قدیم ہے، مگر اسے بولی سے باقاعدہ زبان کی شکل اور درجہ ملے ہوئے ابھی بہت تھوڑا عرصہ ہوا ہے۔اس بناء پر اُسے زبانو ں کی صف میں نسبتاً کم عمر ہی سمجھاجاتاہے۔یہ ضرور ہے کہ اس میں تحقیق کاسلسلہ زور شور سے جاری ہے۔
بروشسکی، پاکستان کے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت، ہنزہ(ہونزہ)، نگر اور یاسین کی وادیوں میں اور مقبوضہ کشمیرمیں (نیز تلاش معاش میں کراچی میں)بسنے والے 'بروشو' کی زبان ہے جو بجائے خود کوئی ایک جدا نسل یا قوم نہیں، بلکہ کئی اقوام مثلاً تاتار، مغل، ہُن، قرغیز (کرغز)، بدخشانی، بَلتی (بلتستانی) اور وَخی (واخان کے باشندے)کا مجموعہ ہیں۔ایک مقامی تحقیق کے مطابق، یہ لوگ ہوانگ ہُو، چین کے قدیم قبیلے ہُن یا ہُون کی شاخ ہیں۔محولہ بالا وادیوں میں بروشسکی کے لہجوں کا فرق بھی بہت واضح ہے۔یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ اس"نوزائیدہ" زبان نے اپنے سے کہیں زیادہ پرانی زبانوں شِنا (شینا)، کھوار اور وَخی (درحقیقت بولی)پر، وسعت ِمکانی کے لحاظ سے غلبہ حاصل کرلیا ہے۔ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جب یہ علاقہ ہنزہ کے حکمرانوں کے زیر اثر تھا تو اُن کی درباری بولی بروشسکی ہی تھی۔اسی سبب سے ایک دورمیں اس پورے علاقے کو "بروشال" بھی کہاجاتا تھا۔
یہاں ہمیں یادرکھنا چاہیے کہ اردو کا بروشسکی سے تعلق واشتراک بھی صدیوں پر محیط عمل ہے جسے محض لسانی قیاسات کی بناء پر سرسری ہی سمجھا گیا ہے۔ایک تو بات سامنے کی ہے کہ ہنزہ کا بھی دیگر ہمسایہ پہاڑی علاقوں کی طرح، وادی جموں وکشمیر وملحق علاقہ جات (بشمول مقبوضہ وادی) سے قریبی دیرینہ تعلق، اظہر مِن الشمس ہے جو کسی بھی پہلو سے نظرانداز نہیں کیا جاسکتا،خاص طور پر،ریاست ہنزہ و نَگر کے حکمراں،مِیرگھرانے کے عہد میں یہاں سے کشمیر جانے والے بروشو اور کشمیر سے اشیائے ضرورت کی بکثرت یہاں نقل وحمل کا معاملہ، واضح طور پر لسانی اشتراک کی نشان دہی کرتا ہے۔
دوسری بات یہاں بھی دیگر علاقوں کاطرح، فارسی کا چلن رہا تو ہماری قومی زبان نے بھی رشتہ استوار کیا۔تیسری جہت یہ ہے کہ گزشتہ چند عشروں میں بڑی تعدادمیں بروشو کراچی آکر بس گئے اور اُن کی اپنے علاقوں سے کراچی آمدورَفت سے بھی اردو اور انگریزی سے بروشسکی کے ربط ضبط کا سلسلہ بہت زیادہ بڑھا۔یہاں موجود بروشو نوجوان اپنی زبان اور ثقافت کے فروغ کے لیے سرگرم عمل ہیں،مگر کسی غیر مذہب /غیر زبان والوں سے ارتباط سے شعوری گریز کرتے ہیں۔
ہمارے قارئین کو یقینااس بات کا انتظا ر ہوگا کہ اردو کے حروف تہجی کے مقابل، بروشسکی کے حروف تہجی پیش کروں تو لیجئے صاحب یہاں حاضر کرتا ہوں:
اردو بروشسکی
ا اِی ء
اے۔اء۔E
ا'وٖ۔ہ
ب ب، بی، B
پ پ، پی۔P
ت ت، تے
تھ، تھے
ٹ ٹ، ٹی، ٹے
ٹھ، ٹھے
ث ............
ج ج، جے
چ چ، چے
چھ، چھے
ح ح،حے، ہے
خ خ، خے
د د
ڈ ڈ، ڈی
ذ .............
ر .............
ڑ .............
ز ز، ض، ظ، ز، زے
ژ ژ، ژے
آر۔ر۔رے
ڑ۔ڑے
تس۔تسے
تسھ۔تسھے
س س، ص، ث، ثے
ش ش۔شے
ص .............
ض .............
ط .............
ظ .............
ع .............
غ .............
ف ف، فے
ق ق، قے
ک ک، کے
کھ،کھے
غ۔غے
گ .............
ل ل۔لے
م م۔مے
ن ن۔نے
ں۔اُوں نحنہ
نگ۔نگے۔گث
و و۔وے
ی ی۔یا۔وائی۔یے
ے .............
بنیادی اور قدیم اردو حروف تہجی سینتیس (37) کے مقابلے میں، بروشسکی کے حروف (ترتیب وتلفظ کے فرق سے)، اکیاون (51) ہیں۔ (یہاں میں قصداً وہ بحث نہیں دُہرانا چاہتا کہ مرکب حروف یا اصوات کو ملا کر اُردو کے حروف تہجی بھی 54،56یا 58ہوگئے ہیں۔اس بابت 'زباں فہمی' کے دوشمارے آن لائن ملاحظہ فرمائیں)۔
علامہ نصیر الدین ہنزئی کے عنایت کردہ تحائف میں شامل بروشسکی قاعدے کی مدد سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو زبانوں میں متعدد الفاظ مشترک یا مماثل ہیں۔اردو کے لفظ 'ڈر' کو بروشسکی میں کہتے ہیں، 'اَر'، چُپ کو چُپ ہی کہتے ہیں، پانی کو "چِل" (Chil)کہتے ہیں جو انگریزی لفظ Chillیعنی ٹھنڈک سے مماثل ہے، جگہ یا مقام کے لیے بروشسکی میں لفظ 'دِش' بعینہ ٖ ہندی لفظ دِشا یعنی سَمت معلوم ہوتا ہے۔
نیولے کو "نو'ل"(Nool)، بھنورکو "پھِیری" (Pheeri)(گویا اردو کا مرکب لفظ 'چَک پھیری' بھی متبدل شکل میں موجودہے)، کھجور کو "خُرما" کہتے ہیں (جوعین عربی لفظ ہے) تو اُردو کی سڑک، وہاں بھی سڑک ہی ہے، جبکہ چاند کو 'سوم' /سومو[Som (o)] کہاجاتا ہے جو ہندی لفظ سُوم ہی ہے،(جس سے ارد و میں سوموار یعنی پیر کا دن بنا)، نیز اُسے بروشسکی میں "چندُرا"[Chandura]کہتے ہیں، بہ اختلاف ِ تلفظ یہ سنسکرت، ہندی اور بنگلہ میں موجودہے اور اردومیں بھی مستعمل ہے،اس کی شکل چندر ہے جیسے کرشن چندر اور یہی لفظ چندا اور پھر چندا ماما بنا۔سِیٹی (Whistle)کو بروشسکی میں سُوِیتو[Swiito]کہتے ہیں۔
اردو گو طبقے کو فارسی لفظ 'گُرگ" بمعنی بھیڑیا سے آشنائی ہے، (گرگ آمد، گرگ آمدیعنی بھیڑیا آیا،بھیڑیا آیا بجائے شیر آیا، شیرآیا کی فارسی حکایت اور پھر گرگِ باراں دیدہ کی خالص فارسی ترکیب یا کیجئے)،یہی لفظ بروشسکی میں گیا تو "اُرک" [Urk]ہوگیا، کیونکہ بروشسکی میں فارسی سمیت متعدد زبانوں کے الفاظ کسی نہ کسی شکل میں شامل ہیں، انگریزی الفاظ کی تو بُہتات ہے۔مُونچھ کو مُچھ کہاجاتا ہے،(جو پنجاب کی زبانوں میں بھی ہے)، شیر [Tiger]کو شِیر کہاجاتا ہے، جبکہ ببر شیر کو "شِیرِ بَبُر"[Sheer-e-Babur]یعنی صحیح ترکی تلفظ کے ساتھ۔ایک حیرت انگیز نام چنڈول [Sky lark]نامی پرندے کا ہے، " ٹِیرو"۔
اونٹ کو بروشسکی میں اُٹ کہتے ہیں جو سندھی(اور غالباً سرائیکی) لفظ 'اُٹھ' سے بہت مماثل ہے، کینگرو [Kangaroo]کو Kanguruکنگُرُو۔سرطان یعنی کیکڑا [Crab]وہی ہے اردو والا (جسے سرطان یا کینسر کی علامت سمجھا جاتا ہے)،بِچھو کو اِس زبان میں فارسی کی تقلید میں،بجاطور پر 'ہشت پا صدفہ' کہاجاتا ہے،مگر اُردو والے کم کم واقف ہوں گے۔بروشسکی میں مگر مچھ کو مَگا مَچھ کہتے ہیں، جبکہ مینڈک [Toad]کو حیرت انگیز طور پر "گورکُن" کہاجاتا ہے، جھےِنگا [Prawn]، جھینگا ہی ہے، Salamanderکو سَمُندَر کہتے ہیں، بِیر بہوٹی کو "خانمو جُوکو" یعنی گھریلو جونک کہتے ہیں جو ہمارے لیے تعجب خیز ہے، اس لیے کہ جونک اور بےِربہوٹی میں بڑا فرق ہے۔
یہاں لوگ کنکھجورے کو فارسی کی تقلید میں ہزا رپا (ہزاروں پاؤں والا) اور ایک دوسرے نام کلتاش سے یاد کرتے ہیں۔ مور کو طاؤس اور مَیور[Mayur]کہتے ہیں،شترمرغ وہی ہے، کوئل کو کُو ےَل، مَینا کو مِینا، بلبل کو بلبل اور عندلیب، ہُدہُد کو ہُد ہُد اور پُو پُو کہتے ہیں جو اِنگریزی کے Hoopoeسے مشتق لگتا ہے، توتے /طوطے کو فارسی کی طرح طُوطی کہاجاتا ہے۔یہ فہرست اس سے کہیں زیاد ہ طویل ہے، مگر بندہ بوجوہ اختصار سے کام لے رہا ہے۔قارئین کرام بھی کچھ کدو کاوش فرمائیں۔خاکسارنے بے شمار انگریزی الفاظ کی نقل سے گریز کیا، مگر ان کا ذکر بھی بہرحال آپ کو انٹرنیٹ پر مل جائے گا۔ خاکسار نے ماضی میں بروشسکی کی کہاوتوں اور پہیلیوں کی تحقیق پر مبنی انگریزی کتاب سے جو تراجم کیے، اُن میں کچھ آج بھی ذہن میں تازہ ہیں۔اردو اور بروشسکی میں ایسی کئی کہاوتیں مشترک ہیں:
ا)۔انگورکھٹے ہیں
ب)۔"شیر آیا، شیرآیا"/"بھیڑیا آیا، بھیڑیا آیا"
ج)۔ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی
بروشسکی کے اولین شاعر علامہ نصیر ہنزئی کا نمونہ کلام (اردو)بھی دیکھیے:
جس طرف بھی میری نگاہ گئی
عشق کا خیمہ و عَلَم دیکھا
٭
سایہ ئ عشق ہے، نصیر ؔ نہیں
دل میں جب اُس نے وہ صنم دیکھا
٭
میں جہاں بھی رہ چکا، دن بھر کتابوں میں رہا
بس میرا گھرہے کتاب اور میرا دفتر ہے کتاب
٭
زوالِ عہد ِجوانی سے مجھ کو غم نہ ہوا
کہ فکروعقل ِکُہن سال،شباب سے بہتر
٭
تیری اُلفت بھی کیا اکسیر ہے
جس سے ہم کُندن ہوئے اور شادکام
علامہ نصیر کی اردو، فارسی اور بروشسکی میں کتب کی تعداد ڈیڑھ سو سے زائد ہے، جبکہ اُن کی کتب کا انگریزی، فرینچ اور جرمن میں ترجمہ ہوچکا ہے۔کینیڈا کی میک گِل یونیورسٹی سے اشتراک کے نتیجے میں اُن کی وہ کتاب منظر عام پر آئی تھی جس میں اُن کی زبان کی کہاوتیں اور پہیلیاں جمع کی گئی تھیں۔
مآخذ
ا)۔گلگت بلتستان کی زبانوں کا جائزہ;مع تقابلی لغت اَز ڈاکٹر عظمیٰ سلیم، اکادمی ادبیات پاکستان، اسلام آباد: 2017ء
ب)۔اردو اوربروشسکی کا لسانی وادبی اشتراک اَز ڈاکٹر شہناز نبی ہنزئی،(مضمون) مشمولہ "پاکستانی زبانیں: مشترک لسانی وادبی ورثہ،مرتبہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید، عبداللہ جان عابد;شعبہ پاکستانی زبانیں، علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی۔اسلام آباد
ج)۔اولین بروشسکی اردو لغت، جلد اوّل:مدیراور پراجیکٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر شہناز نبی ہنزئی، زیراہتمام بروشسکی اکیڈمی،زیر سرپرستی علامہ نصیر الدین ہنزئی، ناشر: بروشسکی اکیڈمی، طابع: شعبہ تصنیف وتالیف وترجمہ، جامعہ کراچی: 2006ء
د)۔.........................ایضاً......................................جلد دُوَم: 2009ء
ہ)۔ دیوان ِ نصیری (اردو)ازپروفیسر ڈاکٹر علامہ نصیرہنزئی،ناشردانش گاہ خانہ حکمت پاکستان، انٹرنیشنل پبلشنگ ہاؤس، گلگت: 2004ء
و)۔ Burusho Birkis: Allamah Nasiruddin Nasir Hunzai
ز)۔Pak-Canada Academic Cooperation by Farman Ali, Financial Post, dated 6th November 1995