صحافت اور طاقت کا کھیل
صحافت حقائق کی بنیاد پر کی جاتی ہے افواہوں پر نہیں، ادارے عوام کی فلاح کیلئے دی گئی معلومات سے معتبر ہوتے ہیں
www.facebook.com/syedtalathussain.official
twitter.com/talathussain12
ہو سکتا ہے آپ کو یہ سن کر حیرانی ہو مگر حقیقت یہی ہے کہ اس وقت پورے ملک میں اداروں کے درمیا ن لڑائی اور ذرایع ابلاغ کے مختلف دھڑوں میں بٹ جانے کی وجہ بہت چھوٹی سی ہے ۔ یقینا خود کو نمبر ون ثابت کرنے کی دوڑ اور اربوں روپے کی انڈسٹری ایک محرک ہو سکتا ہے ۔ مگر حامد میر کے واقعہ کو خوفناک نتائج والے تنازعے میں بدلنے کی بنیاد ان قاعدوں اور ضابطوں کی نا فرمانی ہے جو با عزت پیشے کے طور پر منوانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ میں نے پچھلے تین دن سے اس تمام واقعے پر کیے جانے والے تجزیئے، فراہم کی جانے والی معلومات دست گریباں ہوئے مخالف اداروں کے ایک دوسرے پر حملے سب کچھ کو قریب سے دیکھا ہے۔ مجھے یہ کہنا پڑے گا کہ میں نے پچھلے تین دنوں میں جتنے مختلف اخبار پڑھے اور جتنا بغور ٹی وی اسکرین کا جائزہ لیا اس سے پہلے بہت کم ایسا کر پایا۔
ریاست کے اداروں پر حامد میر کے بھائی کی طرف سے الزام کا معاملہ تھا تو سنجیدہ مگر اس کو بھائی کے جذبات اور بدترین خدشات کے پیش نظر اس وقتی جھٹکے کو برداشت کیا جا سکتا تھا۔ اگرچہ پاکستان میں ایسے مظلوموں کی کمی نہیں ہے جو اپنے پیاروں کے درد کو بیان کرنے کے لیے ہر گلی کے کونے میں فریاد لیے بات کرنے کے لیے ترستے رہتے ہیں۔ مگر ان پر ذرایع ابلاغ کے دروازے بند ہی رہتے ہیں۔ چونکہ یہ معاملہ ایک نامور صحافی اور اس کی جان پر ایک بدترین حملے کا تھا ۔ لہذا ان کے بھائی کی طرف سے قتل کی سازش کے تمام پہلوئوں کو سامنے لانے کی کوشش کو سمجھا جا سکتا ہے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ اس وقت اپنے بھائی کے بارے میں بدترین خبر کی توقع کرتے ہوئے بروقت انداز سے دل کے پھپھولے پھوڑنے کا اہتمام کیا گیا ہو، لہذا مسئلہ عامر میر کے الزامات کا نہیں تھا۔
اس کی جڑ اس مہم جو یانہ نشریات میں سے پیدا ہوئی جس کو چوبیس گھنٹے اس انداز سے چلایا گیا کہ جیسے یہ جذباتی الزام تراشی ناقابل تردید حقائق میں تبدیل ہو گئی ہو۔ اور اب معاملہ صرف سامنے موجود مجرم کو پکڑنے کا رہ گیا ہو۔ اگلے دن کے اخبار اور اس تمام نشریات کا مواد صرف ایک شخص کے سنجیدہ الزامات تک ہی محدود نہیں رکھا گیا۔ ماضی کے قصے، فوج اور سویلین اداروں کے تعلقات، ایجنسیوں کو لگام ڈالنے کی بحث، قانون کی حکمرانی، حکومت کے خلاف سازشیں اور وہ تمام زہریلے زاویے جو شاید اپنے تئیں قابل توجہ ہوں اکھٹے کر کے اس حملے کی صورت میں تبدیل کر دیا گیا۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے اس ملک میں فوج اور انٹیلی جنس ادارے تمام قوم کے خلاف بدترین سازشوں میں ملوث ہوں اور انھوں نے قتل و غارت گری کا ایک ایسا منصوبہ بنایا ہوا ہو جس میں سے پہلے صحافیوں اور نا پسندیدہ سیاستدانوں کو رستے سے ہٹانے کی کارروائی کا ہدف طے ہو چکا ہو۔
میں نے ایک دو نہیں آدھی درجن کے قریب بین الاقوامی نشریاتی اور اشاعتی اداروں کے لیے کام کیا ہے۔ یہ ان ممالک میں بنیاد کرتے ہیں جن سے مستعار لی ہوئی اصطلاحیں جیسے آزادی اظہار رائے بے لاگ تبصرے وغیرہ ہم استعمال کر کے خود کو مشہور بناتے ہیں۔ ان اداروں کے لیے کام کرتے ہوئے مجھے تین ایسے امریکی صحافیوں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا جو مشکل ترین حالات میں بہترین کام کر کے بین الاقوامی ایوارڈ حاصل کر چکے تھے۔ اس کے علاوہ غیر ایوارڈ یافتہ وہ بہترین صحافی جن سے میں نے سیکھا ان کی تعداد درجنوں میں ہے ۔ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان جید اور مستند صحافیوں کو اصول اور قاعدے کا کتنا خیال ہوتاہے۔ بہترین معلومات بہترین وجوہات کے باوجود سخت ترین جانچ پڑتال کے بعد لکھنے کی عادت ان کے لیے خدائی حکم کے برابر تھی۔
کوئی خبر اس وقت تک خبر نہیں سمجھی جاتی تھی جب تک اس کی تصدیق نہ ہو جائے۔ آسمان پھاڑنے والے الزام بھی ان سے نکلنے والے نتائج کے پیرائے میں پرکھنے کے بعد قابل استعمال سمجھا جاتا تھا۔ افواج اور انٹیلی جنس اداروں سے متعلق معلومات، غیر اشاعت شدہ تحقیقی اسٹوریز کی صورت میں بعض اوقات ان اداروں کے نمایندگان کے سامنے رکھ دیے جاتے تھے تا کہ کم از کم ان کا جواب ان کا حصہ بن سکے۔ ابو الغریب کی جیل میں ہونے والے مظالم کی تصویر کو سامنے لانے سے پہلے اداروں نے پینٹاگان، وزارت دفاع وغیرہ سے بات چیت کے طویل دور کیے اس کے بعد ان کو نشر کیا گیا۔ گار ڈئین اخبار جس نے وکی لیکس کو چھاپ کر ایک نہیں درجنوں حکومتوں کے لیے درد سر بنا دیا۔ ان معلومات کو جانچ اور پرکھ کے عمل سے گزارے بغیر سامنے نہیں لایا گیا۔
ابھی بھی اس ادارے کے پاس بیش قیمت معلومات کا ایسا خزانہ ہے جو اس نے اپنے ادارتی پالیسی کے تحت سامنے نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ جوزف اسنوڈن کیس تو آپ کے سامنے ہے جس میں امریکی نظام کو ہلا دینے والا شخص اور اس پر رپورٹنگ کرنے والے آزادی صحافت کے حلقوں میں مشہور و معروف بھی ہیں اور قانون کو مطلوب بھی ہیں۔ کوئی صحافتی ادارہ ان قانونی کارروائیوں کو اپنی ریاست کے خلاف اپنے اداروں کی سازش قرار نہیں دے رہا۔ کسی نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر یا وزارت دفاع اور پینٹاگان کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کیا۔ انھی ممالک میں پولیس کے ہاتھوں بے گناہ شہریوں کی غلطی سے مارے جانے والے واقعات پہ وا ویلا بھی مچتا ہے اور احتساب کی گونج بھی سنائی دیتی ہے۔ ملزمان کو سزا بھی ہوتی ہے مگر کہیں سے یہ سرگوشی بھی کان نہیں پڑتی کہ شخصی حقوق پر یہ حملے کسی گھنائونی سازش کا حصہ ہیں۔
ہر کوئی اپنی حد پہچانتا ہے۔ مسئلہ کو اس کے حقائق تک محدود کیا جاتا ہے نا کہ اس کو اپنی خواہشات کے حصول کی بازی میں ایک مہرہ کی شکل دے دی جائے۔ صحافت حقائق کی بنیاد پر کیجاتی ہے افواہوں پر نہیں۔ ادارے عوام کی فلاح کے لیے دی گئی معلومات اور ان سے متعلق تجزیوں سے دی گئی ہدایات سے معتبر ہوتے ہیں' فریادوں اور واویلوں سے نہیں۔ یہ وہ آفاقی اصول ہیں جس سے کسی کو انحراف نہیں کرنا چاہیے۔ حامد میر کے تنازعے میں ایک نہیں درجنوں صحافتی اصولوں کے بخیے ادھیڑ دیے گئے۔
وہ کچھ لکھا، سنا اور کہا گیا جو کسی عام مگر پیشہ ورانہ طور پر چلائے جانے والے ادارے کے لیے باعث خفت ہوتا۔ یہ طریقہ کار بھی جوں کا توں جاری ہے۔ الزامات کو معلومات میں بدل دیا گیا ہے ۔ ناقابل اشاعت قابل اشاعت ہے۔ اول فول تجزیہ بن گیا۔ اور بے پرکی ہانکنے والے آزادی صحافت کے علمبردار بن بیٹھے ہیں۔ غدر مچا ہوا ہے۔جہاں صحافت اور خرافات میں فرق نہیں رکھا جائے گا تو نتیجہ وہی ہو گا جو ہمارے سامنے ہے۔ اگر آپ کسی کو قاتل کہیں گے تو وہ آپ کو کم از کم غدار تو کہے گا۔ جب صحافت کے نام پر طاقت کا کھیل کھیلا جائے گا تو پھر اسی کھیل کے اصول لاگو ہوں گے۔ اور وہ اصول ایک ہی ہے، طاقت کے کھیل میں کوئی اصول نہیں ۔