چین ابھرتی عالمی طاقت سی پیک اور پاکستان
درحقیقت چین نے مروجہ عالمی طاقتوں جارحیت پسندانہ طریقے کے بجائے شراکت کی بنیاد رکھی ہے
پاکستان اور چین نے باہمی دیرینہ دوستانہ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے، علاقائی امن و سلامتی اور سی پیک کی ترقی کے لیے مل کر کام کرنے کا عزم کا اعادہ کیا ہے۔
گزشتہ روز پاک و چین ، وزرائے خارجہ کے چوتھے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے چینی ہم منصب چن کانگ نے کہا کہ پاکستان اور چین معاشی ترقی اور خوشحال کے ساتھ ساتھ خطے خاص طور پر افغانستان میں استحکام کے لیے مل کر کوشش کریں گے، پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں۔
پاک چین دوستی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہیاور شہد سے میٹھی ہے۔ بہرحال پاک چین دوستی اور تعلقات کے اثرات اور مضمرات علاقائی اور عالمی ہیں۔ آج چین عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے، چینی مصنوعات نے عالمی منڈی پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔
پاکستان کا دوسرا ہمسایہ تھارت بھی معاشی طاقت کا روپ دھار رہا ہے، یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی حیران کن ترقی کررہا ہے لیکن پاکستان معاشی میدان میں اچھی کارکردگی دکھاتا رہا اور ایک وقت میں پاکستان جنوبی ایشیااور مشرقی ایشا کا سب سے خوشحال ملک تھا۔
یہاں تک کہ چین بھی خوشحالی میں پاکستان سے بہت پیچھے تھا لیکن آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ، چین عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے ، بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا روپ دھار چکا ہے جب کہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے ۔
جنوبی ایشیا میں سری لنکااور نیپال اور افغاستان ہی ایسے ملک ہیں،جنھیں پاکستان سے پیچھے کہا جاسکتا ہے۔آج پاکستان کی سیاست و معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے چینی وزیر خارجہ کو کہنا پڑا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں، حالانکہ چین کے اعلیٰ عہدیدار دوست ممالک کی سیاست پر کم ہی کوئی کمنٹ کرتے ہیں، بہرحال چینی وزیر خارجہ کا بیان معنی خیز ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ چین کی حکومت پاکستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست و حکومت کے اسٹیک ہولڈرز کو صورتحال کا ادراک کرنا ہوگا کیونکہ سیاسی بے چینی اور محاذ آرائی بڑھتی ہے تو سب سے پہلے ہمسایہ پریشان ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے پاک چین تجارتی راہداری کو ازسر نو شروع کر دیا ہے ، کاشغر تا گوادر دنیا کی جدید اور بہترین ریلوے لائن کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ چین کی قیادت افغانستان میں بھی قیام امن کی کوششوں کا حصہ ہے۔
چین کا ڈرامائی عروج ، چین روس شراکت داری ، امریکا، مغربی یورپ اور چین کے درمیان تجارتی سرد جنگ کا آغاز ، بھارت کا ممکنہ اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھرنا، وسطیٰ ایشیا اور خلیج فارس اور مڈل ایسٹ میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و سیاسی رسائی جیسے معاملات اور پیش رفت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی دیگر پیش رفتیں بھی لائق توجہ ہیں جو عالمی سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیں گی۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کوان تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ چین پاکستان کی غیر مشروط حمایت اور امداد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے نیز اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں چین اور پاکستان کا موقف ایک ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو پاکستان نے چاہا چین نے وہی کچھ کیا۔ کشمیر کے معاملے میں چین نے امریکا ، اسرائیل، برطانیہ ، بھارت اور روس کے موقف کی ہمیشہ مخالفت کی اور عالمی طاقتوں اور اداروں کی یک طرفہ مرضی کو رد کیا۔
اس حقیقت سے انکار بھی ناممکن ہے کہ چین نے پاکستان کے دفاع اور سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے میں دامے درمے سخنے ساتھ دیا۔ پاک چین تعلقات کی بنیاد تجارتی اور دفاعی ہے جب کہ پاکستان کی معیشت اور سلامتی یک جان ہے، اگر فقط معیشت پر توجہ دی جائے تو سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اگر فقط سلامتی پر توجہ کی جائے تو معیشت مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے چین کی ترقی کا راز یکسوئی ہے پاکستان کی ابتری اور بدحالی کا سبب سیاسی عدم استحکام ہے۔
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ شکوک و شبہات اور بداعتمادی کی ہے جب کہ پاک چین دوستی کی تاریخ اعتماد اور بھروسہ پر استوار ہے، چین نے پاکستان کو کبھی دھوکا نہیں دیا، چین نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی اور سائنسی میدان میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔
امریکا اور مغربی طاقتیں عالمی تجارت اور سیاست پر پورا کنٹرول رکھتی ہیں،یہ اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، بین الاقوامی امن و سلامتی یا عالمی اقتصادی نظام سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ ان کی رضامندی یا منظوری کے بغیر نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن اب چین عالمی امور میں بھی اپنا کردار بڑھا رہا ہے ، اِس پس منظر میں یو کرین پر روسی حملہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
عالمی امور میں روس کا کردار محدود ہوتا جارہا ہے، امریکا نے نیٹو کو مضبوط کیا ہے، سویڈن اور فن لینڈ کی اتحاد میں شمولیت اس کی مثال ہے۔ یورپ اپنی یونین کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا رہا ہے اور وہ امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کو بھی بڑھایا ہے۔ ادھر مغرب اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ماسکو اور بیجنگ کو اسٹرٹیجک طور پر ایک دوسرے کے قریب کیا ہے جیسا کہ صدور پیوتن اور شی جن پنگ نے کئی مواقع پر اس کی تصدیق کی ہے۔
چین کے ساتھ امریکا کی طویل تجارتی جنگ ، عالمی سطح پر کورونا وبا کے اثرات تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں اور یہ اثرات اور جاری روس یوکرین تنازعہ کے باوجود ، چین نے اپنی معاشی ترقی کی باگ ڈور پر مضبوط گرفت نہیں کھوئی۔ امریکا کے ساتھ پانچ سال کی معاشی جنگ کے بعد بھی چین معاشی بحالی کے لیے زیادہ پرعزم دکھائی دے رہا ہے اور اگرچہ عالمی منظر نامہ پیچیدہ و غیر متوقع ہے جس میں اشیا ء کی گھریلو طلب کم ہے لیکن ایک لچکدار معاشی بحالی کے لیے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
چین کی رواں برس کی پہلی سہ ماہی کی متاثر کن کارکردگی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اِس کی معیشت بقیہ تین سہ ماہیوں میں بھی قابل ذکر ترقی حاصل کرے گی جب کہ دنیا کی بڑی معیشتیں مشکلات سے نبرد آزما ہیں۔
چین نے اپنی طاقت کا اظہار بریکس (BRICS)، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی ترقیاتی منصوبوں سے کیا ہے۔بریکس اتحاد برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ پر مشتمل ہے ۔ یہ اتحاد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا متبادل ہے۔
بریکس کا قیام جون 2006 میں عمل آیا جب کہ ساؤتھ افریقہ نے 24 دسمبر 2010 میں اس اتحادی شمولیت اختیار کی۔ بریکس نے ممبر ممالک کی ترقی کے لیے 2050 کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ سی پیک پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کی بنیاد 22 مئی 2013 کو رکھی گئی تھی۔ پاک چین راہداری منصوبے کا بنیادی مقصد تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک مربوط انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ دنیا کا جدید ترین اور بڑا منصوبہ ہے، جس میں ابتدائی طور پر 60 ممالک کو شامل کیا گیا، اگر ون بیلٹ ون روڈ میں شامل ممالک کی فہرست دیکھیں تو زیادہ تعداد غریب ممالک کی ہے۔ آپ تصور کریں کہ 2049 تک چین کی سرمایہ کاری سے مذکورہ ممالک کے حالات کس قدر بہتر ہو سکتے ہیں۔
چین کے ان منصوبوں سے چین کو بے تحاشہ فائدہ ہوگا جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوجائے گی۔ اگر صرف پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کا پاکستان کی معیشت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو منصوبے کی تکمیل اور تجارتی سرگرمیوں کے شروع ہونے پر ملکی معیشت تیز رفتار ترقی کرے گی۔
بجلی و گیس کے بحرانوں سے نجات ملے گی اور غربت، بے روزگار، مہنگائی اور بدامنی کا بتدریج خاتمہ ممکن ہوگا اور پاکستان غربت کی دلدل سے نکل آئے گا۔ یہ محض خواب نہیں ہے بلکہ چین کے منصوبوں کی پیشگی حقیقت ہے۔ ایتھوپیا جیسے ممالک بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہیں۔
درحقیقت چین نے مروجہ عالمی طاقتوں جارحیت پسندانہ طریقے کے بجائے شراکت کی بنیاد رکھی ہے۔ جو دنیا کی تاریخ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔ 2050 کے بعد کی دنیا امریکی سامراج کے پنجوں سے آزاد ہو کر نئی معاشی آزادیوں کے ساتھ انسانی زندگی کی تمام تر سہولیات کے ساتھ زمین پر جلوہ افروز ہوگی جس میں ایٹمی اسلحہ سمیت آگ اور بارود کے ڈھیر جمع کرنا وحشت اور درندگی تصور کیا جائے گا۔ انسانوں کو امان ہی امان حاصل ہوگی۔ چین کے 2050 کے بعد کی دنیا کا تصور ایک حقیقی گلوبل ولیج کی تخلیق ہے۔
گزشتہ روز پاک و چین ، وزرائے خارجہ کے چوتھے اسٹرٹیجک ڈائیلاگ کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری اور ان کے چینی ہم منصب چن کانگ نے کہا کہ پاکستان اور چین معاشی ترقی اور خوشحال کے ساتھ ساتھ خطے خاص طور پر افغانستان میں استحکام کے لیے مل کر کوشش کریں گے، پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں۔
پاک چین دوستی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ہمالہ سے بلند اور سمندر سے گہری ہیاور شہد سے میٹھی ہے۔ بہرحال پاک چین دوستی اور تعلقات کے اثرات اور مضمرات علاقائی اور عالمی ہیں۔ آج چین عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے، چینی مصنوعات نے عالمی منڈی پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی ہے۔
پاکستان کا دوسرا ہمسایہ تھارت بھی معاشی طاقت کا روپ دھار رہا ہے، یہاں تک کہ بنگلہ دیش بھی حیران کن ترقی کررہا ہے لیکن پاکستان معاشی میدان میں اچھی کارکردگی دکھاتا رہا اور ایک وقت میں پاکستان جنوبی ایشیااور مشرقی ایشا کا سب سے خوشحال ملک تھا۔
یہاں تک کہ چین بھی خوشحالی میں پاکستان سے بہت پیچھے تھا لیکن آج صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ، چین عالمی معاشی طاقت بن چکا ہے ، بھارت دنیا کی پانچویں بڑی معیشت کا روپ دھار چکا ہے جب کہ بنگلہ دیش جنوبی ایشیا میں بھارت کے بعد دوسری بڑی معیشت بن چکا ہے ۔
جنوبی ایشیا میں سری لنکااور نیپال اور افغاستان ہی ایسے ملک ہیں،جنھیں پاکستان سے پیچھے کہا جاسکتا ہے۔آج پاکستان کی سیاست و معیشت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے، جس کی وجہ سے چینی وزیر خارجہ کو کہنا پڑا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں، حالانکہ چین کے اعلیٰ عہدیدار دوست ممالک کی سیاست پر کم ہی کوئی کمنٹ کرتے ہیں، بہرحال چینی وزیر خارجہ کا بیان معنی خیز ہے اور ظاہر کرتا ہے کہ چین کی حکومت پاکستان میں سیاسی اتار چڑھاؤ پر گہری نظر رکھتی ہے ۔
پاکستان کی سیاست و حکومت کے اسٹیک ہولڈرز کو صورتحال کا ادراک کرنا ہوگا کیونکہ سیاسی بے چینی اور محاذ آرائی بڑھتی ہے تو سب سے پہلے ہمسایہ پریشان ہوتا ہے۔ سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔
موجودہ حکومت نے پاک چین تجارتی راہداری کو ازسر نو شروع کر دیا ہے ، کاشغر تا گوادر دنیا کی جدید اور بہترین ریلوے لائن کا معاہدہ بھی کر لیا ہے۔ چین کی قیادت افغانستان میں بھی قیام امن کی کوششوں کا حصہ ہے۔
چین کا ڈرامائی عروج ، چین روس شراکت داری ، امریکا، مغربی یورپ اور چین کے درمیان تجارتی سرد جنگ کا آغاز ، بھارت کا ممکنہ اقتصادی طاقت کے طور پر اُبھرنا، وسطیٰ ایشیا اور خلیج فارس اور مڈل ایسٹ میں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی و سیاسی رسائی جیسے معاملات اور پیش رفت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
مشرق وسطیٰ میں رونما ہونے والی دیگر پیش رفتیں بھی لائق توجہ ہیں جو عالمی سیاسی منظر نامے کو یکسر تبدیل کر دیں گی۔ پاکستان کے پالیسی سازوں کوان تبدیلیوں کے ساتھ چلنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنے کی ضرورت ہے۔
یہ امر خوش آیند ہے کہ چین پاکستان کی غیر مشروط حمایت اور امداد کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے نیز اقوام متحدہ اور دیگر عالمی اداروں میں چین اور پاکستان کا موقف ایک ہوتا ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے جو پاکستان نے چاہا چین نے وہی کچھ کیا۔ کشمیر کے معاملے میں چین نے امریکا ، اسرائیل، برطانیہ ، بھارت اور روس کے موقف کی ہمیشہ مخالفت کی اور عالمی طاقتوں اور اداروں کی یک طرفہ مرضی کو رد کیا۔
اس حقیقت سے انکار بھی ناممکن ہے کہ چین نے پاکستان کے دفاع اور سلامتی کو ناقابل تسخیر بنانے میں دامے درمے سخنے ساتھ دیا۔ پاک چین تعلقات کی بنیاد تجارتی اور دفاعی ہے جب کہ پاکستان کی معیشت اور سلامتی یک جان ہے، اگر فقط معیشت پر توجہ دی جائے تو سلامتی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور اگر فقط سلامتی پر توجہ کی جائے تو معیشت مسائل سے دوچار ہو جاتی ہے چین کی ترقی کا راز یکسوئی ہے پاکستان کی ابتری اور بدحالی کا سبب سیاسی عدم استحکام ہے۔
پاک امریکا تعلقات کی تاریخ شکوک و شبہات اور بداعتمادی کی ہے جب کہ پاک چین دوستی کی تاریخ اعتماد اور بھروسہ پر استوار ہے، چین نے پاکستان کو کبھی دھوکا نہیں دیا، چین نے پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رکھی اور سائنسی میدان میں بھی پاکستان کے ساتھ تعاون کررہا ہے۔
امریکا اور مغربی طاقتیں عالمی تجارت اور سیاست پر پورا کنٹرول رکھتی ہیں،یہ اقوام متحدہ اور ورلڈ بینک جیسے عالمی اداروں میں اہم کردار ادا کرتی ہیں، بین الاقوامی امن و سلامتی یا عالمی اقتصادی نظام سے متعلق کوئی بڑا فیصلہ ان کی رضامندی یا منظوری کے بغیر نہیں لیا جا سکتا۔ لیکن اب چین عالمی امور میں بھی اپنا کردار بڑھا رہا ہے ، اِس پس منظر میں یو کرین پر روسی حملہ خاص اہمیت کا حامل ہے۔
عالمی امور میں روس کا کردار محدود ہوتا جارہا ہے، امریکا نے نیٹو کو مضبوط کیا ہے، سویڈن اور فن لینڈ کی اتحاد میں شمولیت اس کی مثال ہے۔ یورپ اپنی یونین کو زیادہ سے زیادہ مضبوط بنا رہا ہے اور وہ امریکا کے ساتھ اسٹرٹیجک تعاون کو بھی بڑھایا ہے۔ ادھر مغرب اور روس کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی نے ماسکو اور بیجنگ کو اسٹرٹیجک طور پر ایک دوسرے کے قریب کیا ہے جیسا کہ صدور پیوتن اور شی جن پنگ نے کئی مواقع پر اس کی تصدیق کی ہے۔
چین کے ساتھ امریکا کی طویل تجارتی جنگ ، عالمی سطح پر کورونا وبا کے اثرات تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری ہیں اور یہ اثرات اور جاری روس یوکرین تنازعہ کے باوجود ، چین نے اپنی معاشی ترقی کی باگ ڈور پر مضبوط گرفت نہیں کھوئی۔ امریکا کے ساتھ پانچ سال کی معاشی جنگ کے بعد بھی چین معاشی بحالی کے لیے زیادہ پرعزم دکھائی دے رہا ہے اور اگرچہ عالمی منظر نامہ پیچیدہ و غیر متوقع ہے جس میں اشیا ء کی گھریلو طلب کم ہے لیکن ایک لچکدار معاشی بحالی کے لیے بنیاد رکھ دی گئی ہے۔
چین کی رواں برس کی پہلی سہ ماہی کی متاثر کن کارکردگی اس بات کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اِس کی معیشت بقیہ تین سہ ماہیوں میں بھی قابل ذکر ترقی حاصل کرے گی جب کہ دنیا کی بڑی معیشتیں مشکلات سے نبرد آزما ہیں۔
چین نے اپنی طاقت کا اظہار بریکس (BRICS)، سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی ترقیاتی منصوبوں سے کیا ہے۔بریکس اتحاد برازیل، روس، انڈیا، چین اور ساؤتھ افریقہ پر مشتمل ہے ۔ یہ اتحاد ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کا متبادل ہے۔
بریکس کا قیام جون 2006 میں عمل آیا جب کہ ساؤتھ افریقہ نے 24 دسمبر 2010 میں اس اتحادی شمولیت اختیار کی۔ بریکس نے ممبر ممالک کی ترقی کے لیے 2050 کا ہدف مقرر کر رکھا ہے۔ سی پیک پاکستان چائنا اقتصادی راہداری کی بنیاد 22 مئی 2013 کو رکھی گئی تھی۔ پاک چین راہداری منصوبے کا بنیادی مقصد تجارتی سرگرمیوں کے لیے ایک مربوط انفرا اسٹرکچر کی تعمیر ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ دنیا کا جدید ترین اور بڑا منصوبہ ہے، جس میں ابتدائی طور پر 60 ممالک کو شامل کیا گیا، اگر ون بیلٹ ون روڈ میں شامل ممالک کی فہرست دیکھیں تو زیادہ تعداد غریب ممالک کی ہے۔ آپ تصور کریں کہ 2049 تک چین کی سرمایہ کاری سے مذکورہ ممالک کے حالات کس قدر بہتر ہو سکتے ہیں۔
چین کے ان منصوبوں سے چین کو بے تحاشہ فائدہ ہوگا جب کہ ترقی پذیر ممالک میں بھی جدید انفرااسٹرکچر کی تعمیر ہوجائے گی۔ اگر صرف پاکستان میں سی پیک کے منصوبے کا پاکستان کی معیشت کے حوالے سے جائزہ لیا جائے تو منصوبے کی تکمیل اور تجارتی سرگرمیوں کے شروع ہونے پر ملکی معیشت تیز رفتار ترقی کرے گی۔
بجلی و گیس کے بحرانوں سے نجات ملے گی اور غربت، بے روزگار، مہنگائی اور بدامنی کا بتدریج خاتمہ ممکن ہوگا اور پاکستان غربت کی دلدل سے نکل آئے گا۔ یہ محض خواب نہیں ہے بلکہ چین کے منصوبوں کی پیشگی حقیقت ہے۔ ایتھوپیا جیسے ممالک بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے میں شامل ہیں۔
درحقیقت چین نے مروجہ عالمی طاقتوں جارحیت پسندانہ طریقے کے بجائے شراکت کی بنیاد رکھی ہے۔ جو دنیا کی تاریخ میں ایک نئی روایت کا آغاز ہے۔ 2050 کے بعد کی دنیا امریکی سامراج کے پنجوں سے آزاد ہو کر نئی معاشی آزادیوں کے ساتھ انسانی زندگی کی تمام تر سہولیات کے ساتھ زمین پر جلوہ افروز ہوگی جس میں ایٹمی اسلحہ سمیت آگ اور بارود کے ڈھیر جمع کرنا وحشت اور درندگی تصور کیا جائے گا۔ انسانوں کو امان ہی امان حاصل ہوگی۔ چین کے 2050 کے بعد کی دنیا کا تصور ایک حقیقی گلوبل ولیج کی تخلیق ہے۔