مردم شناسی
عمران خان نے اپنے محسنوں کو دور کر کے خوشامدیوں کو گلے لگایا
سابق وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ میرے دور حکومت کے سال مشکل میں گزرے۔ مرشد بشریٰ بی بی نہ ہوتیں تو معلوم نہیں کیا ہوتا۔ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے ہمیں لال بتی کے پیچھے لگایا جب ہم نے سوچ سمجھ کر اسمبلیاں توڑیں تو سب بھاگ گئے۔
عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے 28 نومبر سے پہلے دیا تھا یا بعد میں؟ کیونکہ اسمبلیاں ان کی ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ ماہ بعد اس سال جنوری میں توڑی گئیں اور عمران خان نے جنرل باجوہ کے جاتے ہی ان پر تنقید اور الزام تراشی شروع کردی تھی ۔
سابق وزیر اعظم نے گزشتہ سال موجودہ حکومت کے آتے ہی اسے امریکی سازش اور امپورٹڈ قرار دیا تھا اور تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی ایک سائفر لہرایا تھا اور کسی کو دکھائے بغیر جیب میں رکھ لیا تھا اور اپنی برطرفی کے بعد تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا ذمے دار امریکا کے بعد موجودہ سپریم کورٹ کو قرار دیا تھا جس نے رات گئے مداخلت کرکے ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور تحریک عدم اعتماد پر فیصلے کا حکم دیا تھا جو کامیاب ہوئی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اگر چاہتے تو ان کے خلاف تحریک پیش ہی نہ ہوتی مگر اس مشکل وقت میں انھوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا جب کہ وہ حکومت کی ہر مشکل بجٹ اور قانون سازی میں ان کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے۔
اپنی برطرفی کے بعد عمران خان سپریم کورٹ سے بھی خفا تھے مگر جنرل باجوہ کا نام نہیں لیتے تھے اور چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ موجودہ حکومت کے ان اتحادیوں کو عمران خان کی حکومت واپس لانے کے لیے آمادہ کریں ۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی خبروں پر عمران خان نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن باتیں نہ کرے بلکہ جلد تحریک پیش کرے تاکہ وہ اسے ناکام بنوا سکیں۔
عمران خان کا دعویٰ تھا کہ عسکری قیادت اور حکومت ایک پیج پر اور جنرل باجوہ جمہوریت پسند اور ان کے ساتھ ہیں۔ انھیں سو فیصد یقین تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو جنرل باجوہ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے ہٹائے جانے سے قبل ایک سال پہلے پتا چل گیا تھا مگر انھیں یقین تھا کہ جنرل باجوہ ان کی حکومت کے ساتھ رہیں گے۔
عمران خان کو یقین تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے 2023 میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے 2028 تک تو آسانی سے وزیر اعظم رہ سکیں گے اور 2023 سے قبل ہی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے سزائیں دلا کر قید کرا کر الیکشن سے باہر کرا دیں گے۔
عمران خان کو توقع نہیں تھی کہ ان کی خواہش پوری نہیں ہونے دی جائے گی۔ عمران خان کو نیوٹرل ہونے کا فیصلہ ناگوار گزرا ۔عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ عقل کل ہیں۔ یورپ اور دنیا کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ملکی سیاست میں خود کو سب سے بڑا سچا اور ایماندار سمجھتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ وہ سب سے زیادہ مردم شناس ہیں اور سیاست میں ان سے بہتر کوئی اور ہے ہی نہیں باقی سب سیاستدان چور ڈاکو ہیں اور صرف وہی ملک و قوم کے حقیقی خیر خواہ اور ملک کو ترقی دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے خود کو دنیائے اسلام کا سب سے برتر لیڈر بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا اور اپنی غلط خارجہ پالیسی سے ملک کو دنیا میں تنہا اور معاشی طور پر تباہ اور ملک کو غیر ملکی قرضے لے کر اتنا مقروض کردیا جتنا سابق حکمرانوں نے 70 سالوں میں نہیں کیا تھا۔ وہ قرضے کہاں لگے کچھ پتا نہیں۔
عمران خان مردم شناس ہوتے تو انھیں پتا ہوتا کہ کون سب سے بڑا ڈاکو اور کون نفیس ہے۔ انھیں لوگوں کی پہچان ہوتی تو چپڑاسی قرار دیے گئے خوشامدی سیاستدانوں سے دور رہتے مگر سیاسی مفاد اور اقتدار کی ہوس نے انھیں یو ٹرن ماسٹر بنا دیا ۔
جس کو اپنے ملک کے حقائق سے آگاہی نہیں تھی وہ دوسرے ملکوں کی غلط سرحدوں کا دنیا کو بتانے لگا، جس کو ملک کے موسموں تک کا پتا نہیں تھا وہ خوشامدیوں میں ایسا گھرا کہ اس کے حقیقی مخلص سیاسی رہنما انھیں چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔ عمران خان مردم شناس ہوتے تو پاکستان سے مخلص ملکوں کو ناراض نہ کرتے۔ انھوں نے جھوٹوں کا ریکارڈ قائم کیا اپنے ہر اعلان سے یو ٹرن لیا اور قوم سے کیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔
عمران خان نے اپنے محسنوں کو دور کر کے خوشامدیوں کو گلے لگایا۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے قریبی ساتھی ان سے کیوں دور ہونے پر مجبور ہوئے۔ عمران خان کی خودسری، ضد اور غیر جمہوری فیصلوں اور لوگوں کو نہ سمجھنے کی روش نے ان کے لیے مسائل پیدا کیے ۔
عمران خان نے یہ نہیں بتایا کہ انھیں اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ جنرل(ر) قمر جاوید باجوہ نے 28 نومبر سے پہلے دیا تھا یا بعد میں؟ کیونکہ اسمبلیاں ان کی ریٹائرمنٹ کے ڈیڑھ ماہ بعد اس سال جنوری میں توڑی گئیں اور عمران خان نے جنرل باجوہ کے جاتے ہی ان پر تنقید اور الزام تراشی شروع کردی تھی ۔
سابق وزیر اعظم نے گزشتہ سال موجودہ حکومت کے آتے ہی اسے امریکی سازش اور امپورٹڈ قرار دیا تھا اور تحریک عدم اعتماد پیش ہوتے ہی ایک سائفر لہرایا تھا اور کسی کو دکھائے بغیر جیب میں رکھ لیا تھا اور اپنی برطرفی کے بعد تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کا ذمے دار امریکا کے بعد موجودہ سپریم کورٹ کو قرار دیا تھا جس نے رات گئے مداخلت کرکے ڈپٹی اسپیکر اور صدر مملکت کے فیصلوں کو غیر آئینی قرار دیا تھا اور تحریک عدم اعتماد پر فیصلے کا حکم دیا تھا جو کامیاب ہوئی۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ جنرل باجوہ اگر چاہتے تو ان کے خلاف تحریک پیش ہی نہ ہوتی مگر اس مشکل وقت میں انھوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تھا جب کہ وہ حکومت کی ہر مشکل بجٹ اور قانون سازی میں ان کی بھرپور مدد کیا کرتے تھے۔
اپنی برطرفی کے بعد عمران خان سپریم کورٹ سے بھی خفا تھے مگر جنرل باجوہ کا نام نہیں لیتے تھے اور چاہتے تھے کہ جنرل باجوہ موجودہ حکومت کے ان اتحادیوں کو عمران خان کی حکومت واپس لانے کے لیے آمادہ کریں ۔ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی خبروں پر عمران خان نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اپوزیشن باتیں نہ کرے بلکہ جلد تحریک پیش کرے تاکہ وہ اسے ناکام بنوا سکیں۔
عمران خان کا دعویٰ تھا کہ عسکری قیادت اور حکومت ایک پیج پر اور جنرل باجوہ جمہوریت پسند اور ان کے ساتھ ہیں۔ انھیں سو فیصد یقین تھا کہ تحریک عدم اعتماد پیش نہیں ہوگی اور اگر ہوئی بھی تو جنرل باجوہ اسے کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ عمران خان کا کہنا ہے کہ انھیں اپنے ہٹائے جانے سے قبل ایک سال پہلے پتا چل گیا تھا مگر انھیں یقین تھا کہ جنرل باجوہ ان کی حکومت کے ساتھ رہیں گے۔
عمران خان کو یقین تھا کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے 2023 میں دو تہائی اکثریت حاصل کرکے 2028 تک تو آسانی سے وزیر اعظم رہ سکیں گے اور 2023 سے قبل ہی عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کو نیب کے ذریعے سزائیں دلا کر قید کرا کر الیکشن سے باہر کرا دیں گے۔
عمران خان کو توقع نہیں تھی کہ ان کی خواہش پوری نہیں ہونے دی جائے گی۔ عمران خان کو نیوٹرل ہونے کا فیصلہ ناگوار گزرا ۔عمران خان کا دعویٰ ہے کہ وہ عقل کل ہیں۔ یورپ اور دنیا کو سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ وہ ملکی سیاست میں خود کو سب سے بڑا سچا اور ایماندار سمجھتے تھے۔
ان کا خیال تھا کہ وہ سب سے زیادہ مردم شناس ہیں اور سیاست میں ان سے بہتر کوئی اور ہے ہی نہیں باقی سب سیاستدان چور ڈاکو ہیں اور صرف وہی ملک و قوم کے حقیقی خیر خواہ اور ملک کو ترقی دلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
انھوں نے مسلم ملکوں کے حکمرانوں سے خود کو دنیائے اسلام کا سب سے برتر لیڈر بننے کا خواب دیکھنا شروع کردیا اور اپنی غلط خارجہ پالیسی سے ملک کو دنیا میں تنہا اور معاشی طور پر تباہ اور ملک کو غیر ملکی قرضے لے کر اتنا مقروض کردیا جتنا سابق حکمرانوں نے 70 سالوں میں نہیں کیا تھا۔ وہ قرضے کہاں لگے کچھ پتا نہیں۔
عمران خان مردم شناس ہوتے تو انھیں پتا ہوتا کہ کون سب سے بڑا ڈاکو اور کون نفیس ہے۔ انھیں لوگوں کی پہچان ہوتی تو چپڑاسی قرار دیے گئے خوشامدی سیاستدانوں سے دور رہتے مگر سیاسی مفاد اور اقتدار کی ہوس نے انھیں یو ٹرن ماسٹر بنا دیا ۔
جس کو اپنے ملک کے حقائق سے آگاہی نہیں تھی وہ دوسرے ملکوں کی غلط سرحدوں کا دنیا کو بتانے لگا، جس کو ملک کے موسموں تک کا پتا نہیں تھا وہ خوشامدیوں میں ایسا گھرا کہ اس کے حقیقی مخلص سیاسی رہنما انھیں چھوڑ کر علیحدہ ہوگئے۔ عمران خان مردم شناس ہوتے تو پاکستان سے مخلص ملکوں کو ناراض نہ کرتے۔ انھوں نے جھوٹوں کا ریکارڈ قائم کیا اپنے ہر اعلان سے یو ٹرن لیا اور قوم سے کیا کوئی وعدہ پورا نہیں کیا۔
عمران خان نے اپنے محسنوں کو دور کر کے خوشامدیوں کو گلے لگایا۔ انھوں نے کبھی نہیں سوچا کہ ان کے قریبی ساتھی ان سے کیوں دور ہونے پر مجبور ہوئے۔ عمران خان کی خودسری، ضد اور غیر جمہوری فیصلوں اور لوگوں کو نہ سمجھنے کی روش نے ان کے لیے مسائل پیدا کیے ۔