پختونخوا اﷲ کے حوالے …
پختونخوا میں اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو بہ صوبے اور اس کے عوام کے مفاد میں نہیں
مرکز میں محاذ آرائی، انتشار یا کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان صوبوں کا ہوتا ہے۔ اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ ساز جب جب مصروف ہو جاتے ہیں خیبر پختونخوا کے حالات چاہے وہ سلامتی کے ہوں یا معاشی خراب ہو جاتے ہیں۔ پختونخوا میں اس وقت ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہے۔
الیکشن کے التواء کا بہانہ خراب امن و امان کی صورتحال کو قرار دیا گیا تھا لیکن امن کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی سامنے نظر نہیں آ رہی۔ خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
ہماری فوج اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہا۔ اس نئی شروع ہونے والی لڑائی میں تحریک طالبان پاکستان بھی ایک بدلی ہوئی حکمت عملی کے تحت صرف اور صرف امن و امان سے منسلک اداروں اور اس کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ باقاعدہ حملوں سے قبل سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں بشمول سول انٹیلی جنس اور پولیس کے اہلکاروں و افسروں کو باقاعدگی کے ساتھ ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔
ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ حملوں کا سلسلہ جو پچھلے سال شروع ہوا تھا اب اس میں تیزی آ گئی ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی ایک جھڑپ میں ہمارے 6فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن اس تمام صورتحال سے صرف نظر کرتے ہوئے اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو پختونخوا کے امن سے زیادہ پنجاب کے انتخابات میں دلچسپی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے جس میں خیبر پختونخوا پر پنجاب کے انتخابات کو فوقیت دی گئی اور پختونخوا کے انتخابات کو جلد کرانے کے بجائے ایک نامعلوم التواء میں ڈال دیا۔ جب ہائی کورٹ میں کیس تھا تو سپریم کورٹ نے سوموٹو لے لیا اور وہاں سے پھر ہائی کورٹ واپس معاملہ آ گیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کو خیبر پختون خوا کے امن و امان اور معاشی صورتحال کی کوئی فکر نہیں اور اس بات کی فکر بھی لاحق نہیں ہوئی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ عید پر صوبے کے تمام سرکاری ملازمین بشمول پولیس کو پیشگی تنخواہ نہیں دی گئی کیونکہ مالی حالات خراب تھے۔
تنخواہ لیٹ ہونے کا سلسلہ جو پی ٹی آئی کی حکومت کے آخری دنوں میں شروع ہوا تھا اب تشویشناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ خیبر پختون خوا کے ملازمین کو تنخواہیں 3 مئی کے بعد ملیں اور پنشن کی ادائیگی تو تنخواہوں کے دو دن بعد کی گئی۔ پی ٹی آئی فلیگ منصوبہ صحت انصاف کارڈ پچھلے 3ماہ میں تین بار بند ہو چکا ہے کیونکہ انشورنس کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس منصوبے کی خامیاں اب سامنے آ رہی ہیں اور جس طرح کے مالی حالات صوبے کے چل رہے ہیں اس میں خدشہ ہے کہ صحت کارڈ استعمال کرنے والوں پر نظرثانی کی جائے کیونکہ صوبے کے تمام رہائشیوں کو یہ سہولت دینا شاید حکومت کے بس میں نہ رہے۔ یہ مسئلہ نگران حکومت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے اور آیندہ کی حکومت کو بھی صحت انصاف کارڈ کے عوض ادائیگی پریشان کرے گی۔
امن و امان، خراب معاشی صورتحال سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے یہ ایک بری خبر ہو گی اور اس کا ری ایکشن بھی شاید آئے۔ ادھر ہماری نگران حکومت خود کو مستقل تو سمجھتی ہے لیکن کام نہیں کر رہی ہے۔وزراء الزام لگاتے ہیں بیورو کریسی ان کو پوچھتی نہیں اور بیورو کریسی نگران وزراء کو اتنا بااختیار اور اہل نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے ملحقہ محکمہ جات کے ملازمین ہڑتال پر ہیں کیونکہ محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹریٹ کے لیے نئے ڈی جی کی تعیناتی پر ملازمین خوش نہیں۔
محکمہ اطلاعات کے ساتھ ملحقہ محکمہ جات کے ملازمین نے اظہار یکجتہی کے طور پر احتجاج شروع کر دیا ہے۔نئے مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاری محکمہ خزانہ کے ساتھ ساتھ تمام محکمے باہم مل کر کرتے ہیں ملحقہ محکمہ جات کا اس میں اہم کردار ہے۔
یہ ڈائریکٹریٹس صوبے میں اپنے تمام ملازمین، تنصیبات اور منصوبوں کے لیے ممکنہ خرچ کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ بجٹ تجاویز نیچے سے ہوتے ہوئے کابینہ اور پھر اسمبلی تک پہنچتی ہیں۔ مالی حالت پہلے ہی سے خراب ہے ایسے میں ہڑتال بجٹ کی بروقت تیاری کو مزید مشکل بنا دے گی۔ ایکسپریس کے سینئر رپورٹر شاہد حمید کے مطابق نگران حکومت نے موجودہ مالی سال کے بجٹ کو ہی 4 ماہ توسیع دینے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ یہ عبوری بجٹ صرف چار ماہ تک محدود رہے گا اس کے بعد نئی حکومت اپنے لیے بجٹ تیار کرے گی۔
اس سے قبل 2018 میں بھی نگران وزیراعلیٰ جسٹس دوست محمد خان 8 ماہ کے لیے عبوری بجٹ بحیثیت نگران وزیراعلیٰ دے چکے ہیں۔ بجٹ میں توسیع کا مطلب کہ سرکاری ملازمین کے لیے اس میں کوئی اچھی خبر نہیں۔ مرکز سے ایسی اطلاعات ہیں کہ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے لیکن پختونخوا کے سرکاری ملازمین کی بدقسمتی ہے کہ صوبے کے پاس پینشن کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تو وہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کہاں سے رقم لائے گی۔
پہلے ہی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں تخفیف کی گئی ہے نگران حکومت کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ آج کل صوبے میں آٹے کی قلت ہے اور آٹے کی قیمت میں روزانہ 5 سے 10 روپے کلو اضافہ ہو رہا ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن نے پنجاب سے آٹے اور گندم کی ترسیل پر پابندی کا شکوہ کیا ہے جس کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوتے ہوتے اب 171 روپے کلو ہو گیا اور روٹی کی قیمت 40 روپے تک پہنچ گئی ہے اور وہ بھی 120 گرام کی سنگل روٹی۔ صوبائی حکومت آٹے کی قلت سے کچھ اس طرح بے پرواہ ہے جیسے یہ کام کسی اور صوبے میں ہو رہا ہے۔ ابھی تک صوبائی حکومت کو اتنا دل گردہ نہیں ملا کہ وہ مرکز سے صرف آٹے کی ترسیل پر ہی بات کرسکے۔
اللہ بھلا کرے الیکشن کمیشن کا جو حکومت کی ہر تقرری اور تعیناتی پر آمنا صدقنا کہہ دیتی ہے۔ دھڑا دھڑ مرضی کے تبادلے ہو رہے۔ پابندی کے باوجود بھرتیاں بھی کی جا رہی ہیں اور اب تو کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ اصل میں نگران حکومت میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ لوگوں کو وزیر بنانا شاید ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ ہمارے وزیراعلیٰ کو اٹھانا پڑے گا۔
لگتا ہے کہ معاملات صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں اور وہ بے بس ہے ورنہ ایسے کیسے ممکن ہے کہ اتنے وسیع تجربہ کا حامل بیورو کریٹ انتظامی معاملات سے ایسے پہلو تہی کرے۔ اس وقت صوبے میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرح اقتدار کے بھی کئی مراکز ہیں۔ گورنر ہاؤس میں غلام علی ج ہیں تو کابینہ میں پارٹیوں کے قائدین کے چہیتے جنھیں زیادہ تر لوگ اے ٹی ایم بھی کہتے ہیں۔
وزیر کالاحقہ اور نیلی بتی لگانے کے بعد خوش ہیں محکمے میں کیا ہو رہا ہے کسی کو خبر نہیں نہ ہی کوئی اس طرف دھیان دے رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نگران حکومت ایک محدود مدت حکومت کے لیے قائم ہوئی ہے لیکن روزمرہ کے کام اور صوبے کے حقوق پر بات بھی ضروری ہے۔
پچھلے کئی ماہ سے صوبے میں گیس کی قلت ہے روزانہ گھنٹوں گھنٹوں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود گیس کی سپلائی مستقل بھی نہیں۔ صوبے میں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کاروبار بھی مشکل ہو گیا ہے جس طرح کے حالات چل رہے ہیں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ صوبے میں بے روزگاری بھی بڑھ جائے گی۔
شہروں کے چوکوں اور گلی کوچوں میں مانگنے والوں کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے اور اب تو بچے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان مانگنے والوں میں نظر آتی ہے۔ پختونخوا کے برعکس پنجاب میں نگران حکومت مستحکم بھی ہے اور کام بھی کر رہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی نے لاہور کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے لیکن صوبے کے معاملات پھر بھی چل رہے ہیں۔
پختونخوا میں اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو بہ صوبے اور اس کے عوام کے مفاد میں نہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف اس حوالے سے بالکل خاموش ہے اور یہی حال باقی جماعتوں کا بھی ہے سب نے پختونخوا کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔
الیکشن کے التواء کا بہانہ خراب امن و امان کی صورتحال کو قرار دیا گیا تھا لیکن امن کی صورتحال بہتر بنانے کے لیے کوئی جامع حکمت عملی سامنے نظر نہیں آ رہی۔ خیبر پختونخوا کے طول و عرض میں دہشت گردی کے واقعات تسلسل کے ساتھ جاری ہیں۔
ہماری فوج اور پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے جوان شہید ہوتے جا رہے ہیں۔ قربانیوں کا ایک سلسلہ ہے جو ختم ہی نہیں ہو رہا۔ اس نئی شروع ہونے والی لڑائی میں تحریک طالبان پاکستان بھی ایک بدلی ہوئی حکمت عملی کے تحت صرف اور صرف امن و امان سے منسلک اداروں اور اس کے اہلکاروں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ باقاعدہ حملوں سے قبل سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں بشمول سول انٹیلی جنس اور پولیس کے اہلکاروں و افسروں کو باقاعدگی کے ساتھ ٹارگٹ کرکے شہید کیا گیا۔
ٹارگٹ کلنگ کے ساتھ ساتھ باقاعدہ حملوں کا سلسلہ جو پچھلے سال شروع ہوا تھا اب اس میں تیزی آ گئی ہے۔ ابھی دو روز قبل ہی ایک جھڑپ میں ہمارے 6فوجی شہید ہو چکے ہیں۔ لیکن اس تمام صورتحال سے صرف نظر کرتے ہوئے اسلام آباد میں بیٹھے فیصلہ سازوں کو پختونخوا کے امن سے زیادہ پنجاب کے انتخابات میں دلچسپی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے جس میں خیبر پختونخوا پر پنجاب کے انتخابات کو فوقیت دی گئی اور پختونخوا کے انتخابات کو جلد کرانے کے بجائے ایک نامعلوم التواء میں ڈال دیا۔ جب ہائی کورٹ میں کیس تھا تو سپریم کورٹ نے سوموٹو لے لیا اور وہاں سے پھر ہائی کورٹ واپس معاملہ آ گیا ہے۔
وفاقی اور صوبائی حکومت کو خیبر پختون خوا کے امن و امان اور معاشی صورتحال کی کوئی فکر نہیں اور اس بات کی فکر بھی لاحق نہیں ہوئی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ عید پر صوبے کے تمام سرکاری ملازمین بشمول پولیس کو پیشگی تنخواہ نہیں دی گئی کیونکہ مالی حالات خراب تھے۔
تنخواہ لیٹ ہونے کا سلسلہ جو پی ٹی آئی کی حکومت کے آخری دنوں میں شروع ہوا تھا اب تشویشناک صورتحال اختیار کر رہا ہے۔ خیبر پختون خوا کے ملازمین کو تنخواہیں 3 مئی کے بعد ملیں اور پنشن کی ادائیگی تو تنخواہوں کے دو دن بعد کی گئی۔ پی ٹی آئی فلیگ منصوبہ صحت انصاف کارڈ پچھلے 3ماہ میں تین بار بند ہو چکا ہے کیونکہ انشورنس کمپنیوں کو ادائیگی نہیں کی گئی۔
اس منصوبے کی خامیاں اب سامنے آ رہی ہیں اور جس طرح کے مالی حالات صوبے کے چل رہے ہیں اس میں خدشہ ہے کہ صحت کارڈ استعمال کرنے والوں پر نظرثانی کی جائے کیونکہ صوبے کے تمام رہائشیوں کو یہ سہولت دینا شاید حکومت کے بس میں نہ رہے۔ یہ مسئلہ نگران حکومت کے لیے بھی تشویش کا باعث ہے اور آیندہ کی حکومت کو بھی صحت انصاف کارڈ کے عوض ادائیگی پریشان کرے گی۔
امن و امان، خراب معاشی صورتحال سے متاثرہ خیبر پختونخوا کے عوام کے لیے یہ ایک بری خبر ہو گی اور اس کا ری ایکشن بھی شاید آئے۔ ادھر ہماری نگران حکومت خود کو مستقل تو سمجھتی ہے لیکن کام نہیں کر رہی ہے۔وزراء الزام لگاتے ہیں بیورو کریسی ان کو پوچھتی نہیں اور بیورو کریسی نگران وزراء کو اتنا بااختیار اور اہل نہیں سمجھتی۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے ایک ہفتے سے ملحقہ محکمہ جات کے ملازمین ہڑتال پر ہیں کیونکہ محکمہ اطلاعات کے ڈائریکٹریٹ کے لیے نئے ڈی جی کی تعیناتی پر ملازمین خوش نہیں۔
محکمہ اطلاعات کے ساتھ ملحقہ محکمہ جات کے ملازمین نے اظہار یکجتہی کے طور پر احتجاج شروع کر دیا ہے۔نئے مالی سال کے لیے بجٹ کی تیاری محکمہ خزانہ کے ساتھ ساتھ تمام محکمے باہم مل کر کرتے ہیں ملحقہ محکمہ جات کا اس میں اہم کردار ہے۔
یہ ڈائریکٹریٹس صوبے میں اپنے تمام ملازمین، تنصیبات اور منصوبوں کے لیے ممکنہ خرچ کی تیاری کرتے ہیں۔ یہ بجٹ تجاویز نیچے سے ہوتے ہوئے کابینہ اور پھر اسمبلی تک پہنچتی ہیں۔ مالی حالت پہلے ہی سے خراب ہے ایسے میں ہڑتال بجٹ کی بروقت تیاری کو مزید مشکل بنا دے گی۔ ایکسپریس کے سینئر رپورٹر شاہد حمید کے مطابق نگران حکومت نے موجودہ مالی سال کے بجٹ کو ہی 4 ماہ توسیع دینے کی تجویز پر غور کر رہی ہے۔ یہ عبوری بجٹ صرف چار ماہ تک محدود رہے گا اس کے بعد نئی حکومت اپنے لیے بجٹ تیار کرے گی۔
اس سے قبل 2018 میں بھی نگران وزیراعلیٰ جسٹس دوست محمد خان 8 ماہ کے لیے عبوری بجٹ بحیثیت نگران وزیراعلیٰ دے چکے ہیں۔ بجٹ میں توسیع کا مطلب کہ سرکاری ملازمین کے لیے اس میں کوئی اچھی خبر نہیں۔ مرکز سے ایسی اطلاعات ہیں کہ مہنگائی کے تناسب سے ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے لیکن پختونخوا کے سرکاری ملازمین کی بدقسمتی ہے کہ صوبے کے پاس پینشن کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تو وہ ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کے لیے کہاں سے رقم لائے گی۔
پہلے ہی سالانہ ترقیاتی پروگرام میں تخفیف کی گئی ہے نگران حکومت کی مشکلات یہیں ختم نہیں ہوتیں۔ آج کل صوبے میں آٹے کی قلت ہے اور آٹے کی قیمت میں روزانہ 5 سے 10 روپے کلو اضافہ ہو رہا ہے۔
فلور ملز ایسوسی ایشن نے پنجاب سے آٹے اور گندم کی ترسیل پر پابندی کا شکوہ کیا ہے جس کی وجہ سے آٹے کی قیمت میں اضافہ ہوتے ہوتے اب 171 روپے کلو ہو گیا اور روٹی کی قیمت 40 روپے تک پہنچ گئی ہے اور وہ بھی 120 گرام کی سنگل روٹی۔ صوبائی حکومت آٹے کی قلت سے کچھ اس طرح بے پرواہ ہے جیسے یہ کام کسی اور صوبے میں ہو رہا ہے۔ ابھی تک صوبائی حکومت کو اتنا دل گردہ نہیں ملا کہ وہ مرکز سے صرف آٹے کی ترسیل پر ہی بات کرسکے۔
اللہ بھلا کرے الیکشن کمیشن کا جو حکومت کی ہر تقرری اور تعیناتی پر آمنا صدقنا کہہ دیتی ہے۔ دھڑا دھڑ مرضی کے تبادلے ہو رہے۔ پابندی کے باوجود بھرتیاں بھی کی جا رہی ہیں اور اب تو کرپشن کے الزامات بھی عائد کیے جا رہے ہیں۔ اصل میں نگران حکومت میں سیاسی جماعتوں کے نامزد کردہ لوگوں کو وزیر بنانا شاید ایک بہت بڑی غلطی تھی جس کا خمیازہ ہمارے وزیراعلیٰ کو اٹھانا پڑے گا۔
لگتا ہے کہ معاملات صوبائی حکومت کے کنٹرول میں نہیں اور وہ بے بس ہے ورنہ ایسے کیسے ممکن ہے کہ اتنے وسیع تجربہ کا حامل بیورو کریٹ انتظامی معاملات سے ایسے پہلو تہی کرے۔ اس وقت صوبے میں پی ڈی ایم کی جماعتوں کی طرح اقتدار کے بھی کئی مراکز ہیں۔ گورنر ہاؤس میں غلام علی ج ہیں تو کابینہ میں پارٹیوں کے قائدین کے چہیتے جنھیں زیادہ تر لوگ اے ٹی ایم بھی کہتے ہیں۔
وزیر کالاحقہ اور نیلی بتی لگانے کے بعد خوش ہیں محکمے میں کیا ہو رہا ہے کسی کو خبر نہیں نہ ہی کوئی اس طرف دھیان دے رہا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ نگران حکومت ایک محدود مدت حکومت کے لیے قائم ہوئی ہے لیکن روزمرہ کے کام اور صوبے کے حقوق پر بات بھی ضروری ہے۔
پچھلے کئی ماہ سے صوبے میں گیس کی قلت ہے روزانہ گھنٹوں گھنٹوں گیس کی لوڈ شیڈنگ ہو رہی ہے گیس اور بجلی کی قیمتیں بھی آسمانوں کو چھو رہی ہیں لیکن اس کے باوجود گیس کی سپلائی مستقل بھی نہیں۔ صوبے میں گیس اور بجلی کی لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے کاروبار بھی مشکل ہو گیا ہے جس طرح کے حالات چل رہے ہیں تو اس بات کا خدشہ ہے کہ صوبے میں بے روزگاری بھی بڑھ جائے گی۔
شہروں کے چوکوں اور گلی کوچوں میں مانگنے والوں کی تعداد مستقل بڑھ رہی ہے اور اب تو بچے اور خواتین کی ایک بڑی تعداد بھی ان مانگنے والوں میں نظر آتی ہے۔ پختونخوا کے برعکس پنجاب میں نگران حکومت مستحکم بھی ہے اور کام بھی کر رہی ہے حالانکہ پی ٹی آئی نے لاہور کو اپنا مرکز بنا رکھا ہے لیکن صوبے کے معاملات پھر بھی چل رہے ہیں۔
پختونخوا میں اگر حالات ایسے ہی چلتے رہے تو بہ صوبے اور اس کے عوام کے مفاد میں نہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ صوبے کی سب سے بڑی سیاسی جماعت تحریک انصاف اس حوالے سے بالکل خاموش ہے اور یہی حال باقی جماعتوں کا بھی ہے سب نے پختونخوا کو اللہ کے حوالے کر دیا ہے۔