لٹیرے محافظ اور محافظ لٹیرے
لٹیرا کون ہے اور محافظ کون ہے ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ وہی اصل تے وڈا محافظ ہے۔ ۔۔
مملکت ناپرسان کی بغل میں ایک چھوٹی سی ریاست اور واقع ہے جسے ''بھان متی کا کنبہ'' کہتے ہیں اس کی کہانی یوں ہے کہ ''بھان متی'' نامی ایک شخص کو بادشاہت کا بڑا شوق تھا لیکن دنیا میں کوئی ایک بھی ایسا ملک نہیں تھا جہاں بادشاہت کی پوسٹ خالی ہو چنانچہ اس نے کہیں سے اینٹ کہیں سے روڑا جمع کر کے بھان متی کا کنبہ جوڑا، بھان متی اس کام میں اتنا تھک چکا تھا کہ چند ہی مہینوں بعد چٹ پٹ ہو گیا لیکن کنبہ بدستور رہا اور اس میں دستور رہا کہ لٹیرے آتے محافظ بنتے اور پھر دوسرے لٹیرے آ کر خود محافظ اور اگلے والے لٹیرے + محافظوں کو بھی لٹیرے بنا دیتے اس زمانے میں غالبؔ نام کے ایک شاعر نے ایک شعر بھی کہا تھا
میکدہ ہے یہ نہیں دیر و حرم اے ساقی
کتنے کافر جو یہاں آئے مسلمان گئے
بھان متی کے عوام نے بھی یہ دستور قبول کر لیا تھا اور لٹیروں اور محافظوں کی یہ فیکٹری اس طرح چالو رہی لیکن گزشتہ چند سال سے کچھ عناصر اس دستور کی خلاف ورزی کرنے لگے، لٹیروں سے محافظ بن کر جم جمانے کی کوشش کرتے ہیں اور نئے آنے والے لٹیروں کو محافظ کی باری دینے میں لیت و لعل کر رہے ہیں، ان کا نظریہ ہے کہ وہ زمانے گئے جب نئے لٹیرے آتے تھے اب تو ہم چند خاندان مستقل طور پر ''ٹو ان ون'' یعنی لٹیرے + محافظ بن چکے ہیں اور تو اور ان کے باقاعدہ خاندان بھی بن گئے ہیں جن میں پیدائشی شہزادے اور شہزادیاں جنم لیتی ہیں اور جو پیدائش سے پہلے ہی حکمران اور ولی عہد ڈیکلئیر ہو جاتے ہیں۔
اس آئینی اور قانونی مسئلے پر آج کل ریاست بھان متی میں بڑے لے دے ہو رہی ہے اور اتنا شور شرابا مچا ہے کہ یہ پتہ ہی نہیں چل رہا ہے کہ لٹیرا کون ہے اور محافظ کون ہے ہر ایک کو دعویٰ ہے کہ وہی اصل تے وڈا محافظ ہے اور باقی سب لٹیرے ہیں، چونکہ یہ مسئلہ آئینی اور قانونی ہے اس لیے اس پر چرچا کرنے کے لیے چینل ''ہیاں سے ہواں تک'' نے ایک خصوصی ''چونچ بہ چونچ'' کا انتظام کیا ہوا ہے مہمان خصوصی کے طور پر ہم نے مملکت ناپرسان کی مشہور قانونی چونچ جناب ''امن دین شرزادہ'' کو بلوایا ہے جناب شر زادہ ایک مانا ہوا شرزادہ ہے جو امن کے پیٹ سے ''شر'' اور شر کے پیٹ سے امن نکالنے والا مشہور گائناکالوجسٹ ہے، بڑی مشکل سے راضی ہوئے ہیں وہ بھی ایک لاکھ روپے ''فی قدم'' اور چار لاکھ روپے فی لفظ کے معاوضے پر ۔۔۔ آپ مشہور و معروف پروڈکٹ ''نظریہ ضرورت'' کے موجد بھی ہیں، باقی دو چونچیں تو ہماری اپنی گھریلو چونچیں ہیں کچھ ٹوٹی پھوٹی ضرور ہیں لیکن لڑتی خوب ہیں
اینکر : ہاں تو جناب شر صاحب
شر : شر زادہ نام ہے میرا، امن دین شر زادہ
اینکر : چلیے جو کچھ بھی ہے گولی ماریے، اور یہ بتایے کہ مملکت ناپرسان کے بغل بچے بھان متی میں یہ کیا امن و شر ہو رہا ہے
شر : وہ تو سب کو معلوم ہے اور سب کو خبر ہو گئی ہے کہ لٹیروں اور محافظوں کے درمیان پھڈا پڑ گیا ہے لٹیرے کہتے ہیں کہ ہم محافظ ہیں اور محافظ کہتے ہیں کہ تم لٹیرے ہو
اینکر : آپ بتائیں آپ کو تو پتہ ہے کہ کون لٹیرا اور کون محافظ ہے کیوں کہ لٹیروں کو محافظ اور محافظوں کو لٹیرا ثابت کرنے میں آپ کو یدطولیٰ حاصل ہے
چشم : یدطولیٰ کیا یہ تو اس فن کا دیا کھاتے ہیں
علامہ : کاش ہم بھی یہ ہنر سیکھ چکے ہوتے
اینکر : آپ چپ رہیے، یہ تو قسمت کی بات ہے یہ رتبہ بلند ملا جس کو ۔۔۔۔ مل گیا
شر : ایک راز کی بات بتاؤں، دونوں ایک ہی ہوتے ہیں ' ابتداء میں جب انسانی معاشرہ تشکیل پا رہا تھا تو لٹیرے ہی آ کر شہروں کو لوٹتے تھے پھر انھوں نے سوچا گائے کو کاٹ کر کھانے سے بہتر ہے کہ اسے ''دوھو'' کر کے کھایا جائے
چشم : علامہ صاحب یہ تو بالکل آپ کا نظریہ ہے آپ بھی تو اپنے تعویزات کھا رہے ہیں
علامہ : میں یہ دوسری آنکھ بھی پھوڑ دوں گا، کانا من الکافرین
اینکر : دیکھو پروگرام کو چلنے دو، ہاں شر صاحب آپ جاری رکھئے
شر : یہ سوچ کر لٹیرے لوگوں نے اپنا ٹائٹل بدل کر محافظ رکھ لیا اور وہی لوٹ مار والی تلوار لہرا کر کہا کہ ہم تمہاری دوسرے لٹیروں سے حفاظت کریں گے اس لیے آج سے ہم تمہارے محافظ ہیں
اینکر : اچھا تو یہ بات ہے
شر : بے چارے سیدھے سادے شہری یہ سوچ ہی نہ پائے کہ دوسرے لٹیرے آ کر ان کا لوٹیں گے کیا کیوں کہ سب کچھ تو محافظ لوٹ لیتے ہیں
اینکر : نادان تھے بے چارے
شر : نہیں اتنے نادان بھی نہیں تھے
اینکر : وہ کیسے؟
شر : وہ یوں کہ لوگ آہستہ آہستہ کر کے ان محافظوں کے چنگل سے بھاگ کر اصلی لٹیروں کے ہاں پناہ لینے لگے
چشم : مطلب یہ کہ بارش سے بھاگ کر پرنالے کے نیچے بیٹھ جاتے
علامہ : غلیظ پرنالے سے بھاگ کر بارش کے نیچے کھڑے ہو جاتے
اینکر : یہ بات صحیح ہے کیوں کہ محافظ پرنالے ہو گئے تھے
چشم : ہاتھ ملایئے علامہ صاحب زندگی میں آج آپ نے پہلی مرتبہ عقل کی بات کی ہے بلکہ پہلی مرتبہ آپ نے ''پیٹ'' کے دماغ سے سوچا ہے۔
چشم : میں احتجاج کرتا ہوں خاص طور پر علامہ کی طرف سے ۔۔۔ وہ صرف جوتے نہیں بلکہ اور بھی بہت کچھ اڑا لیتے ہیں
علامہ : اور تم ۔۔۔ تم تو
اینکر : بس بس ۔۔۔ مہربانی کر کے ہمیں اصل موضوع پر بات کرنے دیں، ہاں تو جناب شر صاحب
شر : ہم کہاں تھے
اینکر : جب لٹیرے محافظ بن گئے
شر : ہاں جب لٹیرے محافظ بن گئے جب رضیہ غنڈوں میں پھنس گئی
چشم : جب شیلا جوان ہوئی
علامہ : اور جب چکنی چنبیلی پوا چڑھا کے آئی
شر : ارے علامہ آپ تو بڑے دل چسپ علامہ ہیں فلموں بھی دیکھتے ہیں اور گانے بھی سنتے ہیں
علامہ : کسی بری نیت سے نہیں بلکہ عبرت پکڑنے اور نصحیت حاصل کرنے کے لیے
چشم : جی ہاں علامہ کا مقصد مدعا صرف نصیحت اور سبق حاصل کرنے کا ہوتا ہے، فلم دیکھتے ہوئے آپ مسلسل تسبیح پھیر پھیر کر توبہ توبہ توبہ کرتے رہتے ہیں
علامہ : توبہ توبہ کرنا تو ضروری ہے نا ۔۔۔ آدمی برا کام کرے تو کم از کم توبہ تو بنتا ہے
اینکر : توبے کو چھوڑیئے اصل موضوع کو پکڑیئے ۔۔۔ یہ بتایئے جناب شر صاحب ۔۔۔ اب موجودہ تنازعہ کس بات پر ہے
شر : تنازعہ یہ پیدا ہوا ہے کہ ملک میں کچھ نئے اور اصلی لٹیرے پیدا ہونے لگے ہیں
اینکر : اور وہ نئے لٹیرے محافظ و مالک دونوں کو نشانہ بناتے ہیں
شر : جی ہاں ۔۔۔ اور بڑے خوف ناک لٹیرے ہیں وہ گھر بعد میں لوٹتے ہیں محافظوں کو پہلے نشانہ بناتے ہیں
اینکر : اچھا
شر : محافظ بے چارے تو اتنا عرصہ مفت کھا کر موٹے ہو چکے ہیں ان کے ہاتھ بھی نہ خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے ۔۔۔ والے ہو گئے ہیں
اینکر : یہ تو بڑی پرابلم ہو گئی ہے اب ان لٹیروں کو روکے کون اور گھر کو بچائے گا کون
شر : گھر تو بچ جائے گا کیوں کہ مالک ابھی زندہ ہیں لیکن مسئلہ محافظوں کا ہے
اینکر : وہ کیسے؟
شر : وہ ایسے کہ مالک پر نہ صرف اپنا گھر بچانے کی ذمے داری آن پڑی ہے بلکہ ان محافظوں کو بھی بچانا ہے جو بہت زیادہ موٹا ہونے کی وجہ سے اپنی حفاظت بھی نہیں کر سکتے
اینکر : گویا گھر کا مالک دہرے عذاب میں گرفتار ہے
شر : یقیناً اور وہ حیران ہے کہ گھر کو بچائے یا محافظوں کو ۔۔۔ کیوں کہ محافظ بھی گھر کے اندر پناہ گزین ہیں۔