سیاسی محاذ آرائی

عدلیہ اگر حکومت کو گھر بھیج دیتی ہے، تو اس میں حکومت کا شاید کوئی اتنا بڑا نقصان بھی نہیں ہوگا

mnoorani08@hotmail.com

ایک طرف اعلیٰ عدلیہ اپنے تین رکنی بینچ کے فیصلوں پر عملدرآمد کے لیے حکومت، الیکشن کمیشن اور اسٹیٹ بینک کو حکم دے رہی ہے تو دوسری طرف تمام متعلقہ ادارے گو مگو کی کیفیت کا شکار ہیں۔

حکومت اور پارلیمنٹ یک زباں اور یک جان ہو کر عدلیہ کے اس حکم کو ماننے کو تیار نہیں۔ PTI اور حکومت کے درمیان اس سلسلے میں ہونے والے مذاکرات بھی حسب توقع نا کام ہوچکے ہیں۔

14 مئی تو الیکشن کروانا اب کسی بھی طرح ممکن نہیں رہے۔ جو صورتحال 22 کروڑ لوگوں کو واضح طور پر دکھائی دے رہی ہے وہ حکومت مخالف سیاستدانوں کو نجانے کیوں دکھائی نہیں دے رہی۔ وہ شاید 14 مئی کی تاریخ گزر جانے کے انتظار میں ہیں۔

خان صاحب کی مجبوری ہے کہ انھیں جن بیساکھیوں کا سہارا اب تک نصیب تھا، وہ بیساکھیاں اب اپنے عہدوں پر باقی نہیں رہی ہیں۔ اس لیے اُن کا ہر حربہ ناکامی و نامرادی سے دوچار ہے۔ اپنی حکومت جانے کے بعد سے وہ احتجاجی سیاست کے بل بوتے پر نومبر 2022 سے سرگرم اور پرجوش رہے لیکن اب وہ سرگرمی اور ولولہ باقی نہ رہا۔ انھیں احساس ہوچکا ہے کہ وہ اگر ہنگامہ آرائی، توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کی سیاست کریں گے تو پھر انھیں سزا سے کوئی بچانے والا بھی نہ ہوگا۔

وہ گزشتہ ایک برس سے تقریبا ہر حربہ آزما چکے ہیں، جلسے ، جلوس ، لانگ مارچ اور اپنی صوبائی حکومتوں کی قربانی سمیت شاید ہی کوئی اور حربہ باقی رہا ہو۔ انھیں اب صرف عدلیہ سے کچھ اُمیدیں وابستہ ہیں۔ حکومتی اتحاد کی اس بات میں وزن بھی ضرور موجود ہے کہ خان صاحب کی مرضی سے یہ ملک اب نہیں چلے گا۔

وہ اپنی صوبائی حکومتوں کو توڑ کریہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اس طرح وہ حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں گے کہ وہ بھی قومی اسمبلی اور باقی تمام صوبائی اسمبلیاں توڑ کر عام انتخابات کروا دے لیکن ایسا ممکن نہ ہوا اور وہ آج اپنی صوبائی حکومتوں سے ہاتھ دھوکر کف افسوس ہی ملتے دکھائی دے رہے ہیں۔


دیکھا جائے تو ذہانت اور قابلیت کا پرچار کرنے والے ہمارے اس لیڈر کا ہر حربہ اور ہر فیصلہ غلط اور غیر منطقی ہی ثابت ہوگیا۔ قومی اسمبلی میں ووٹ آف نو کانفیڈنس سے سیاسی طور پر نمٹنے کے بجائے سائفر اور غیر ملکی سازش کا ڈھنڈورا پیٹنا اور پھر اسے واپس لے لینا۔ قومی اسمبلی کو زبردستی توڑکر یہ سمجھ لینا کہ انھوں نے کوئی زبردست اسٹروک کھیلا ہے ۔ پھر پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفیٰ اور سڑکوں پر سال بھر تک رلنے کے بعد واپس پارلیمنٹ میں جانے کی خواہش کسی بھی ذہین اور فتین سیاستدان کے شایان شان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔

یہ تمام فیصلے سیاسی عدم بلوغت اور نا سمجھی کی علامت ثابت ہوئے، وہ اگر اب بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ سارے ملک میں اُن سے اچھا اور سمجھدار لیڈر کوئی بھی نہیں ہے تو انھیں اب یہ خوش فہمی دور کر لینی چاہیے۔ انھیں آصف علی زرداری سے سیاست سیکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان میں ابھی تک زرداری صاحب کی سوچ تک کوئی بھی پہنچ نہیں پایا ہے۔ اُن کی خوبی ہے کہ وہ حال کی اور آج کی سوچ تک محدود نہیں رہتے۔ اُن کی سوچ اگلے دس پندرہ سالوں پر محیط ہوتی ہے۔ بلاول بھٹو کو وزیر خارجہ بنوانا دراصل انھیں اس ملک کا اگلا وزیراعظم بنانے کی منصوبہ بندی کے نشاندہی کرتا ہے۔

وہ اپنے اِن خیالات کو کسی سے چھپا کے بھی نہیں رکھتے ہیں۔ وہ کھلے عام اب یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ اگلا دور پاکستان پیپلز پارٹی کا ہوگا اور جب وہ یہ کہتے ہیں تو پھر وزیر اعظم کون ہوگا یہ سمجھنا کسی کے لیے بھی مشکل نہیں ہے۔

عمران خان اگر اب بھی یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ زرداری صاحب کے ہوتے ہوئے اگلے دور میں دوبارہ وزیراعظم کے منصب پر فائز ہو پائیں گے ، تو شاید وہ کسی خام خیالی میں جی رہے ہیں۔ اپنے فیصلوں پر من و عن عمل درآمد کے لیے جن قوتوں کے سہارے کی ضرورت ہے وہ اب نیوٹرل ہوچکے ہیں اور کسی ایسے سیاسی معاملے میں پڑنے کے لیے راضی بھی نہیں ہیں، جن سے اُن پر کوئی حرف آئے۔

ویسے بھی عدلیہ حکومت کو قبل از وقت عام انتخابات پر مجبور نہیں کرسکتی ہے اور نہ وہ پنجاب میں اب آئین و دستور کے مطابق نوے دنوں میں الیکشن کروا سکتی ہے۔ مقررہ نوے دن تو کب کے گذر چکے۔ آئین کی بظاہر خلاف ورزی تو ہوچکی ہے۔

مناسب فیصلے کیا ہونگے، حکومتی اتحاد اس کے لیے پہلے سے تیار ہے۔ عدلیہ اگر حکومت کو گھر بھیج دیتی ہے ، تو اس میں حکومت کا شاید کوئی اتنا بڑا نقصان بھی نہیں ہوگا ، بلکہ یہ بات تو اس کے لیے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم ثابت نہ ہوگی، جو نقصان اسے پچھلے برس خان صاحب کی قبل از وقت معزولی سے اُٹھانا پڑا تھا اس کا کچھ نہ کچھ ازالہ عدلیہ کے ایسے فیصلے سے ممکن ہوجائے گا ، اور ویسے بھی دوچار مہینے قبل کسی حکومت کا معزول کیا جانا حکمراں پارٹی کے لیے کبھی بھی ضرر رساں نہیںہوتا بلکہ اُسے تو عوامی ہمدردی حاصل کرنے کا مفت میں ایک سنہری موقعہ مل جاتاہے۔
Load Next Story