عالمی صحافتی رینکنگ میں پاکستان

کارکن صحافیوں کے مقابلے میں مالکان اخبارات و ٹی وی چینلز کا معاملہ مختلف ہے


[email protected]

اداروں کے بیچ ہونے والی کشمکش نے پیچیدگی اختیار کی، اس کے بعد وہ ایک نیا موڑ مڑ گئی جس بعد صورت حال کوئی دھماکا خیز شکل بھی اختیار کر سکتی ہے اور ہم خوش قسمت ہوئے تو اعتدال کا راستہ اختیار کر کے اس ملک کی ترقی اور خوش حالی کی منزل کو قریب بھی کر سکتی ہے۔

امید و بیم کی یہ کیفیت قوم کے اعصاب کا امتحان لے رہی ہے۔ اسی تشنجی کیفیت میں ایک حیران کن واقعہ رونما ہو گیا ہے، ایک ایسا واقعہ جو کسی بہتر ابتدا بنیاد ہی نہیں بن سکتا بلکہ بنیاد بن چکا ہے۔

پاکستانی قوم کے لیے یہ خوش خبری کیا ہے، اس کی اہمیت سمجھ میں نہیں آ سکتی اگر 2018 تا 2022 کے حالات پر ایک طائرانہ نگاہ نہ ڈالی جائے لیکن اس سے پہلے ایک جملہ جو پاکستان میں صحافت کی صورت حال کو سمجھنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ جملہ تھا:'

صحافت ایک آئینہ ہے، اس میں اپنی صورت اچھی دکھائی نہ دے تو بھنا کر اسے توڑنے کی بجائے اپنی شکل اچھی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے'۔

یہ جملہ ستر کی دہائی کے پاکستان کے صحافتی منظر نامے کو بیان کرتا ہے، اس زمانے کی صحافت پر کیا بیتی تھی؟ چند اخبارات کے ڈیکلریشن منسوخ کر دیے گئے، کچھ صحافیوں کو گرفتار کر لیا گیا جب کچھ صحافیوں کو گرفتار کر لیا جاتا تو ان کے ساتھی اور جانشین مشن کو جاری رکھتے۔ اگر اخبارات و جرائد کے ڈیکلریشن منسوخ کیے جاتے تو انھیں متبادل ڈیکلریشن مل جاتے یا ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہم خیال صحافی اپنے ڈیکلریشن ان کی خدمت میں پیش کر دیتے، اس طرح اختلاف کی آواز کسی نہ کسی طرح بلند ہوتی رہتی۔ بعد کے برسوں میں صورت حال بدل گئی۔ اختلاف ناقابل معافی جرم قرار پایا اور کچھ اس قسم کے واقعات رونما ہونے لگے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

تقدیم و تاخیر پر معذرت ، اس وقت فوری پر مطیع اللہ جان کا واقعہ یاد آرہا ہے۔ یہ درست ہے کہ مطیع اللہ ہمیشہ حاضر جوابی سے کام لیتے ہیں اور ایسا چھبتا ہوا سوال کرتے ہیں کہ مخاطب تلملا کر رہ جاتا ہے لیکن کیا یہ جرم ایسا سنگین ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کو اسکول سے پک کرنے آئیں تو واپس اپنی گاڑی تک نہ پہنچ سکیں؟ انھیں کسی ایسی جگہ پہنچا دیا جائے کہ ان کے ہم کار اور ساتھی یہ ڈر محسوس کریں کہ کہیں اس جوان رعنا کا انجام بھی سلیم شہزاد جیسا نہ ہو۔ اسلام آباد کے صحافیوں کو اگر یہ خوف نہ آ لیتا اور وہ چشم زدن میں اکٹھے ہو کر صدائے احتجاج بلند نہ کرتے تو خدا جانے کیا ہو جاتا۔

اسد علی طور دھان پان سا لڑکا ہے۔ اس کا جرم کیا تھا، صرف اتنا کہ میدان صحافت میں اس نے قدم رکھا تو اس سرگرمی کو اس نے دل کے قریب پایا اور اپنے دل ہی کی بات اپنے سننے اور دیکھنے والوں تک پہنچانے لگا۔ اخبار اور ٹیلی ویژن کی صحافت کے بارے میں جتنی بدگمانی بھی کر لی جائے، اس میں احتیاط کی کچھ ایسی چھلنیاں اب بھی لگی ہوئی ہیں کہ بعض اوقات کچھ ایسی خبریں بھی جگہ پانے میں کامیاب نہیں ہو پاتیں جن میں کوئی خرابی بھی نہیں ہوتی اور نہ میرٹ ان کا راستہ روکتا ہے، اس کے باوجود وہ دن کی روشنی نہیں دیکھ پاتیں۔ ایک معاملہ خبر کی شناخت کا بھی ہوتا ہے، خبر سامنے ہوتی ہے اور سہل انگار خبر نگار کی نگاہ میں نہیں آ پاتی۔ اسد علی طور کا جرم یہ تھا کہ کم عمر اور کم تجربہ رکھنے کے باوجود ایسی خبریں دیکھ لیتا تھا اور اپنے یو ٹیوب چینل کے ذریعے لوگوں تک پہنچا دیتا تھا۔

خیر، حامد میر اور ابصار عالم کا تو معاملہ ہی دوسرا تھا، یہ کھیلے کھائے لوگ تھے۔ ہمارے یہاں کھیلے کھائے لوگ کان کا نمک بن جاتے ہیں اور بلاوجہ بیلنے میں ہاتھ دینے کے بجائے اپنے گوشہ عافیت میں بیٹھ کر مزے کرتے ہیں۔ ان دونوں کا قصور یہی تھا کہ انھوں نے گوشہ عافیت میں بیٹھ کر نادانوں کو نصیحت کرنے کے بجائے خود نادان بننا پسند کیا اور اس کی سزا بھگتی۔ کبھی طویل بے روزگاری کی صورت میں، کبھی گولیوں کی باڑھ برداشت کر کے اور کبھی اپنی اولاد کے دکھ جھیل کر۔

کارکن صحافیوں کے مقابلے میں مالکان اخبارات و ٹی وی چینلز کا معاملہ مختلف ہے، ان کے مفادات اور لڑائی کے موضوعات بھی بعضے بالکل مختلف ہوتے ہیں لیکن 2018 سے 2022 کے عرصے میں محسوس ہوتا تھا کہ یہ تفریق بھی ختم ہوئی اور اختلاف رائے ان کا بھی جرم بن گیا۔ میر شکیل الرحمان کی نظر بندی کو اس کے علاوہ اگر کوئی مختلف عنوان دیا جاسکتا ہو تو بتائیے۔

بدترین آمریتوں اور مارشل لا کے ادوار میں بھی اس قسم کی صورت حال ناقابل برداشت ہوتی ہے لیکن اگر کسی بھی طرح سے منتخب کی گئی حکومت کے دور میں ایسا ہو تو صورت حال مختلف ہو جاتی ہے اور شہری آزادیوں کے نقیب ایسے ادوار کو تاریک دور قرار دیتے ہیں۔

صحافتی آزادیوں کے اعتبار سے عمران خان کا دور حکومت کیسا تھا اسے جاننے کے لیے ایک تبصرہ ہی کافی ہے۔ آزاد عالمی پریس نے اس دور کے بارے میں پاکستانی حکومت کو صحافت کے لیے ' پریڈیٹر انتظامیہ' کا خطاب دیا تھا جس سے عالمی سطح پر قوم کی سبکی ہوئی۔ صحافیوں کی عالمی تنظیم رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی عالمی رینکنگ اس پر مستزاد تھی۔

اس تنظیم کی عالمی رینکنگ کے مطابق عمران خان کے چار سال پر مشتمل دور حکومت میں صحافتی آزادیوں پر قدغن کے ضمن میں پاکستان اٹھارہ درجے نیچے گیا۔ ان اٹھارہ میں سے بارہ درجے عمران حکومت کے آخری برس کا اسکور تھا۔ گویا یہ ڈریکولائی صورت حال تھی۔ کمزور جمہوری معاشروں میں عموما ہوتا یہی ہے کہ صورت حال بد سے بد تر ہوتی ہے لیکن پاکستان نے اس بار مختلف کر دکھایا ہے۔ رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی اس سال کی عالمی رینکنگ میں پاکستان سات درجے بہتر ہوا ہے۔ یہ کرشمہ کیسے رونما ہوا؟ وفاقی وزیر اطلاعات کا خیال ہے کہ صرف اختلاف رائے برداشت کرنے کی وجہ سے۔

کسی حکومت کے ترجمان کو یہی کہنا چاہیے لیکن اگر صرف ان ہی صحافیوں کے اعداد و شمار کو سامنے رکھ لیا جائے جنھیں عمران خان کے دور میں اختلاف رائے کی وجہ سے روزگار سے ہاتھ دھونے پڑے تو مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں رہتی۔ اس بار یوم آزادی صحافت مناتے ہوئے ہم لوگوں نے روایتی طور پر حکومت کے خوب لتے لیے ہیں، اس میں ہرج کی بھی کوئی بات نہیں کہ تنقید اور دباؤ بھی ضروری ہوتا ہے لیکن رپورٹرز ود آوٹ بارڈرز کی رینکنگ پر بات کر لی جاتی تو تصویر کا دوسرا رخ بھی سامنے آ جاتا۔

اب اگر جی چاہے تو اس عالمی رینکنگ میں بہتری پر تھوڑا خوش ہو جائیں اور تھوڑی داد اختلاف رائے برداشت کرنے والوں کوبھی دے ڈالیں تو کیا برا ہے لیکن اگر ایسا نہ بھی کریں تو کوئی بات نہیں مریم اورنگ زیب بھلی مانس سی خاتون ہیں، طرح دے جائیں گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں