پروفیسر ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے مختلف پودوں کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں تحقیق کی۔۔۔

drtayyabsinghanvi100@gmail.com

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی ہندوستان کے اس علمی و ادبی شہر میں پیدا ہوئے جس کو اہل پاک و ہند لکھنو کے نام سے جانتے ہیں، آپ شہر لکھنو میں 19 اکتوبر 1897 کو پیدا ہوئے۔

لکھنو کے علمی خانوادے اور تعلیمی اداروں نے آپ کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو مکمل طور سے نکھارا ابتدائی تعلیم لکھنو ہی میں حاصل کی۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے کم عمری ہی میں 1919میں گریجویشن کی سند کو کامیابی سے حاصل کیا۔

علی گڑھ کالج کے اساتذہ نے ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کے اندر چھپے ہوئے اس گوہر نایاب اور ذہنی و علمی قابلیت و صلاحیت کو دیکھ لیا تھا۔ لہٰذا انھوں نے آپ کی تعلیم پر خصوصی توجہ دی، اس کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے دل جمعی، لگن، محنت و مشقت سے خود کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا۔ 1921 کا سال آپ کی زندگی کا وہ انمول اور حسین سال تھا جب آپ نے حصول علم اور اعلیٰ تعلیم کے لیے گوروں کی سرزمین لندن کا سفر اختیار کیا۔

یورپ کی دنیا کے جامعات سے آپ نے دل کھول کر اپنی علمی و ذہنی آبیاری فرمائی اور پھر آپ جرمنی کے شہر فرینکفرٹ جا پہنچے جہاں جولیس وان برائون نامی ایک استاد اپنے شاگردوں کی علمی تشنگی اور ذہنی آبیاری میں ہمہ تن مصروف تھا آپ کی ملاقات اسی یورپی استاد سے ہوئی جس کے زیر نگرانی آپ نے ڈاکٹر آف فلاسفی (ڈی فل) کی اعلیٰ ترین سند حاصل کی۔

آپ 1927تک یورپ کے مختلف ممالک میں اپنی علمی و تحقیقی تشنگی کو دور کرنے میں رات دن مصروف رہے، یورپ کے ممالک سے تعلیم کے مدارج کو کامیابی سے طے کرنے کے بعد آپ 1928 میں ہندوستان واپس تشریف لے آئے اور اپنی زندگی کو مشہور زمانہ حکیم اجمل خاں کے ساتھ منسلک کیا اس زمانے میں حکیم اجمل خاں طیبہ کالج دہلی کے سرپرست اعلیٰ تھے۔ آپ نے طیبہ کالج میں ڈرگ ریسرچ انسٹیٹیوٹ سے خود کو منسلک کیا اور دس سال تک بحیثیت ڈائریکٹر اس ادارے کے فروغ اور انسانی فلاح و بہبود کے ضمن میں اپنی خدمات کا دائرہ کار بڑھاتے رہے۔

ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے مختلف پودوں کو دوا کے طور پر استعمال کرنے کے سلسلے میں تحقیق کی۔ آپ کی تیار کردہ دوا ''اجملین'' کو پوری دنیا میں پذیرائی اور شہرت ملی۔ 1940 میں آپ کی قابلیت اور خدمات کونسل آف سائنٹیفک انڈسٹریل ریسرچ (CSIR) نے حاصل کر لیں۔ یہ ادارہ ہندوستان میں دوسری جنگ عظیم (1945-1939) کے دوران قائم ہوا۔ تھا آپ وقت کے ساتھ ساتھ ترقی کے زینے طے کرتے رہے اور تحقیقی جستجو میں رات دن مصروف ہوتے چلے گئے۔ 1947 کے ابتدائی ماہ میں آپ کو نیشنل کیمیکل لیبارٹری انڈیا کا ڈائریکٹر مقرر کیا گیا۔

14 اگست 1947 کو مسلمانان ہند کی امیدوں کا مرکز ارض پاکستان معرض وجود میں آیا۔ آپ کے بھائی چوہدری خلیق الزمان (1973-1889) جو تحریک پاکستان کے ہر اول دستے میں قائد اعظم اور ان کے رفقا کار کے ساتھ ساتھ تھے اور جنھوں نے 1940 کے قرارداد لاہور کو سب سے پہلے تائید کا شرف بخشا تھا ان کے ہمراہ دیگر خاندانوں کی طرح ہجرت کر کے سرزمین پاکستان پر قدم رکھا، نوزائیدہ مملکت پاکستان نے آپ کی علمی صلاحیت و قابلیت اور آپ کی پیشہ ورانہ خدمات کے طفیل آپ کی خدمات سے مکمل طور پر استفادہ کرنے کا پروگرام بنایا اور آپ کو پاکستان کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (PCSIR) کی بنیاد رکھنے کا شرف حاصل ہوا۔

پاکستان میں شعبہ علم کیمیا اور سائنس کی ترقی و فروغ کے لیے آپ نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا استعمال کیا اور اپنی خدمات کا دائرہ کار رات دن منہمک کرکے کرتے رہے۔ 1961 میں جب سائنس کی ترقی اور اس کے اہداف و مقاصد کا تعین کیا گیا اور پاکستان نیشنل سائنس کونسل کے قیام عمل میں آیا تو ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی کو اس ادارے کا پہلا چیئرمین ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ جو آپ کی صلاحیتوں اور قابلیتوں کا متقاضی تھا۔ اس ادارے میں اپنی خدمات اور تحقیق کے اہداف کو کامیابی سے ہمکنار کرتے ہوئے جب آپ ملازمت سے سبکدوش ہوئے تو اس کے بعد پاکستان کی سب سے بڑی جامعہ ''جامعہ کراچی'' نے آپ کی خدمات سے استفادہ کا پروگرام بنایا اور آپ کی خدمات اس طرح جامعہ کراچی سے منسلک ہو گئیں۔

جامعہ کراچی سے منسلک ہو کر آپ نے ''شعبہ علم کیمیا'' میں بحیثیت کیمسٹری کا پروفیسر ریسرچ ڈائریکٹر کے منصب کو سنبھالا۔ آپ جامعہ کراچی میں ایک اعلیٰ تحقیقی ادارہ قائم کرنے کے خواہش مند تھے۔ آپ نے اس نیک مقصد کے لیے اپنی کوشش سے حسین ابراہیم جمال (HEJ) کی بنیاد 50 لاکھ روپے کے عطیہ سے رکھی جس کو آج پاکستان میں علم کیمیا کے طالب علم اور سائنسدان ایچ ای جے ریسرچ انسٹیٹیوٹ آف کیمسٹری کے نام سے جانتے ہیں۔ جو نہ صرف پاکستان میں بلکہ عالم اسلام میں ایک بلند تحقیقی ادارے کے طور پر اپنا ایک بلند مقام بنانے میں کامیاب ہو چکا ہے۔

آپ کی شعبہ کیمیا سے تحقیقی دلچسپیوں اور کاوشوں کو دیکھتے ہوئے جرمنی کی حکومت نے 48 لاکھ جرمن مارکس اس منصوبے کو فراہم کیے جو نہ صرف آپ کی ذہانت و لیاقت بلکہ ایمان داری و فرض شناسی کا انعام تھا کہ آپ کے قائم کیے ہوئے ادارے کو بیرون ملک نے اتنی بڑی خطیر رقم امداد کے طور پر شعبہ کیمیا کی ترقی کے لیے فراہم کی۔ آپ کی سائنسی اور علمی خدمات کے تناظر میں ملکی اور غیر ملکی ہر طرف سے آپ کو متعدد اعزازات اور انعامات سے نوازا گیا۔

سوویت یونین نے آپ کی سائنسی میدان میں ترقی اور کامیابی کے پیش نظر آپ کو پہلا طلائی تمغہ عطا کیا جب کہ جرمنی کی فرینکفرٹ یونیورسٹی نے آپ کو اعزازی طور پر ''ڈاکٹر آف سائنس'' کی ڈگری عطا کی اس کے علاوہ آپ ہندوستان اور پاکستان کی اکیڈمی آف سائنسز کے دو سال کے لیے ممبر منتخب ہوئے اس کے علاوہ آپ کو اس بات کا بھی شرف و اعزاز حاصل رہا کہ اسلامک اکیڈمی آف سائنسز سعودی عرب کے بانی فیلو تھے جو کہ مسلم دنیا میں آپ کی علمی قابلیت اور تحقیقی خدمات کا منہ بولتا ثبوت ہے۔


ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے پاکستان اور پاکستان سے باہر متعدد سائنسی و کیمیائی کانفرنس میں پاکستان کی نمایندگی کی۔ اس سلسلے میں آپ کو کئی ایک اعلیٰ ترین اعزازات حاصل ہوئے جن میں چند ایک خاص کا تذکرہ حسب ذیل ہے ۔

(1) ممبر آف آرڈر آف برٹش ایمپائر ... 1964

(2) تمغہ پاکستان ... 1958

(3) صدارتی تمغہ حسن کارکردگی ... 1966

(4) ستارہ امتیاز ... 1962

(5) ہلال امتیاز ... 1989

اس کے علاوہ اسلامی ملک نے آپ کی سائنسی خدمات کے پیش نظر آپ کو کویت فائونڈیشن نے 1981میں اسلامک میڈیسن آرگنائزیشن کا اعزاز عطا کیا۔ اس کے علاوہ تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز کا خصوصی انعام اور 1987 میں ہمدرد فائونڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید (1998-1920) کی طرف سے مدینۃ الحکمت کی طرف سے مختلف کونسلوں اور کمیٹیوں کا رکن بھی نامزد کیا گیا۔ ڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی نے اپنے 100 سالہ زندگی میں علم کیمیا کے شعبے میں 300 سے زائد علمی و تحقیقی مقالے قلم بند کیے اس کے علاوہ آپ نے 50 سے زائد ادویات کے فارمولے کو اپنے نام کا حصہ بنایا۔

کہا جاتا ہے کہ آپ نے 1920 کے عشرے میں علم کیمیا کے میدان سے اپنے جس سفر کا آغاز کیا تھا وہ عمر بھر اسی کی ترقی اور کامیابی کے لیے رات دن محنت و جستجو کرتے رہے آپ کے بے شمار طالب علم شعبہ کیمیا میں اپنی ذہانت و قابلیت کا مظاہرہ وطن عزیز میں اور دیار غیر میں کرنے میں مصروف ہیں آپ کا لگایا ہوا ایک پودا آج ارض پاکستان میں جس کو ہم سب ڈاکٹر عطاء الرحمن کے نام سے جانتے ہیں جنھوں نے پاکستان اور پاکستان سے باہر علم کیمیا اور اپنے استاد کے نام کے ساتھ ساتھ وطن عزیز کا نام بھی روشن کیا ایک طویل عمر پانے کے بعد آخر کار آپ 14 اپریل 1997 کو کراچی میں وفات پا گئے۔

شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

آئے عشاق گئے وعدہ فردا لے کر

اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
Load Next Story