بیلٹ والے اور بلٹ والے

صداقت کے لیے اپنے دل میں مرنے کی تڑپ رکھنے والے کے لیے پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنے کی شرط۔۔۔

03332257239@hotmail.com

جنرل جہانگیر کرامت کی سولہ منٹ کی تقریر 16برسوں بعد بھی نواز شریف کا پیچھا نہیں چھوڑ رہی۔ نیول ہیڈ کوارٹر میں کی گئی آرمی چیف کی تقریر حکومت کو پسند نہ آئی۔ جنرل کرامت سے استعفیٰ طلب کیا گیا اور پرویز مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا کرامت کے مسئلے کو حکمت سے ٹالا جا سکتا تھا؟ وہ سپہ سالار جس کی مدت ملازمت دو تین ماہ رہ گئی ہو اس سے استعفیٰ طلب نہ کیا جاتا۔ یہ غلط فیصلہ اب تک جان کو اٹکا ہوا ہے۔

جب مشرف سے کارگل کے مسئلے پر اختلاف ہوا تو انھیں دورہ سری لنکا سے واپسی کے موقعے پر رخصت کرنے کے پروگرام کا کیا مطلب تھا؟ دوسرے آرمی چیف کو دو سال کی قلیل مدت میں جبری رخصت کیا جا رہا تھا۔ کورکمانڈرز فیصلہ کر چکے تھے کہ اب چیف کی غیر معیاری انداز سے رخصتی کی کوشش کو حکومت کی رخصتی بنا دیا جائے گا۔ پھر وہی ہوا جو تاریخ کے صفحات پر درج ہے۔ اگر جہانگیر کرامت سے استعفیٰ لیے بغیر نئے آرمی چیف کا تقرر کر دیا جاتا تو 12 اکتوبر 1999 کا واقعہ پیش نہ آتا۔ نواز شریف کی آرمی چیف سے چپقلش کی تاریخ نئی صدی میں ان کے لیے سوہان روح بنی ہوئی ہے۔

صداقت کے لیے اپنے دل میں مرنے کی تڑپ رکھنے والے کے لیے پہلے اپنے پیکر خاکی میں جان پیدا کرنے کی شرط علامہ اقبالؔ ایک صدی قبل عاید کر چکے ہیں۔ نواز شریف سن 90ء میں پہلی مرتبہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے۔ اس وقت آرمی چیف جنرل اسلم بیگ تھے۔ گلف وار کے مسئلے پر میاں و بیگ صاحبان ایک صفحے پر نہ تھے۔ جنرل کے صدام کی حمایت کے بیانات نواز حکومت کو پریشان کیے ہوئے تھے۔ دنیا بھر کے حکمران صدام کو حملہ آور اور مسلمان رعایا انھیں ہیرو سمجھتی تھی۔ حکومتیں عراقی صدرکو کویت سے قبضہ خالی کرنے کا مطالبہ کر رہی تھیں۔ جنرل بیگ نے مقبول لائن اختیار کر کے نواز شریف کو مسئلے سے دوچار کیا۔ جنرل آصف نواز دوسرے آرمی چیف تھے جن سے نواز شریف کی ان بن رہی۔ 92میں آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کی جانب موڑ کر حکومت کو دوراہے پر لا کھڑا کیا تھا۔

جب اچانک آصف نواز وفات پا گئے تو الزام کا دھواں نواز حکومت کی جانب رکھا گیا۔ تھا تو کچھ نہیں لیکن یہ ثابت ہوتا ہے کہ میاں نواز اور آصف نواز میں کس قدر تناؤ تھا۔ تیسرے آرمی چیف جنرل عبدالوحید تھے جن سے نواز شریف کو واسطہ پیش آیا۔ انھیں صدر غلام اسحق خان نے اپنی مرضی و اختیار کے تحت سپہ سالار بنایا تھا۔ حکومت کے سربراہ کا ووٹ جنرل فرخ کے لیے تھا لیکن آٹھویں ترمیم کے اختیار کو استعمال کر کے صدر اسحق نے اپنی مرضی نافذ کی۔ جب 93 میں صدر اور وزیر اعظم کی کشمکش شروع ہوئی تو جنرل وحید نے دونوں سے استعفیٰ طلب کر کے رخصت کیا۔ اسلم سے آصف اور وحید کاکڑ سے مشرف تک 5 آرمی چیفس سے نواز شریف کے تعلقات کی تاریخ خوشگوار دکھائی نہیں دے رہے اسی لیے نئی صدی میں جنرل کیانی کی ریٹائرمنٹ پر نئے سپہ سالار کی تقرری کے لیے نواز حکومت کا رویہ انتہائی محتاط تھا۔ غور کیا جائے تو نواز شریف اتنے قصوروار دکھائی نہیں دیتے۔

پاکستان میں بیلٹ اور بلٹ کی کشمکش صرف نواز شریف کی ذات تک محدود نہیں کی جا سکتی۔ قائد اعظم نے جب انگریز کمانڈر ان چیف کو کشمیر میں پیش قدمی کا حکم دیا تو اس نے انکار کر دیا۔ پاکستان و بھارت کے فوجی کمانڈر لندن میں اپنی فوج کے سربراہ کے ماتحت تھے۔ ایک ہی کمان کے افسر کا اپنی ہی کمان کے دوسرے افسر سے جنگ کرنا ''نامناسب'' قرار دے کر حکم عدولی کی گئی۔ لیاقت حکومت کے خاتمے کے لیے جنرل اکبر کی پنڈی سازش تاریخ کا حصہ ہے۔ ایوب خان کا 54 سے اقتدار میں آنے کی پلاننگ کرنے کا اعتراف ''جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی'' میں درج ہے۔ جنرل موسیٰ کے بعد یحییٰ خان کی خواہش اقتدار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ جب ایوب کے خلاف تحریک چل رہی تھی تو انھوں نے اقتدار چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ ان کے سویلین دوستوں نے استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دیا تو ہم جانتے ہیں کہ فیلڈ مارشل کا کیا جواب تھا۔ انھوں نے کہا کہ ''اگر کمانڈر ان چیف نو کہہ دے تو اس کا مطلب نو ہوتا ہے۔''


71 کی المناکی نے جنرل گل حسن اور ایئر مارشل رحیم کو مجبورکیا کہ وہ ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار سونپ دیں۔ صرف چند مہینوں بعد ہی بھٹو اور مصطفیٰ کھر نے کمانڈر ان چیف اور ایئر چیف سے استعفیٰ طلب کر لیا۔ اب آرمی چیف جنرل ٹکا خان تھے۔ تین سالہ آئینی مدت پوری ہونے کے بعد یہ عہدہ جنرل محمد ضیا الحق کو سونپا گیا۔ انتخابی دھاندلیوں اور احتجاجی تحریک نے مارشل لا کا جواز پیدا کیا۔ بیلٹ کی لاج نہ رکھی گئی تو وہ بلٹ کے پاؤں تلے کچلا گیا۔ ووٹ کی حرمت برقرار ہو تو کسی کے قدم اس کے تقدس کو مجروح نہیں کر سکتے۔

بارہ برسوں تک اقتدار کے قریب رہنے والے ضیا الحق کو ایوان صدر سے قدموں سے نکالنے کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ ایسے راستے پھر ایمبولینس پر ہی طے ہوتے ہیں۔ بیلٹ کے ذریعے اقتدار سے واپسی کے راستے بند کر دیے جائیں تو پھر بلٹ اپنا راستہ نکالتی ہے۔ یوں کہانی ایک بار پھر اسلم بیگ تک آ پہنچی۔ وہ جنرل بیگ جن کی خلیج کی جنگ کے مسئلے پر نواز شریف سے کشمکش کی ابتدا ہوئی تھی۔ یہ ہے پاکستان میں بیلٹ والوں اور بلٹ والوں کی جنگ کی کہانی۔

بیلٹ کی ہی برتری ہونی چاہیے۔ احکامات ووٹ لینے والوں کے ہی مانے جانے چاہئیں۔ دنیا بھر میں عزت و ترقی ان ہی حکومتوں کو ملتی ہے جو جمہوری راستوں سے برسر اقتدار آتی ہوں۔ اس بات کو وردی والے بھی مانتے ہیں۔ سویلین احکامات کی برتری سے بلٹ والوں کو بھی انکار نہیں۔ اصل مسئلہ کیا ہے؟ اگر بیلٹ سے منتخب نمایندوں کی کرسی کسی شک و شبے سے بالاتر نہ ہو تو پھر کوئی ان پر بالادستی نہیں پا سکتا۔ اگر برسر اقتدار آنے کے لیے سیاسی پارٹیوں نے طاقت کا استعمال کیا ہوتو؟ پھر ان کو بھی طاقت والوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اگر کوئی سیاسی پارٹی دھونس، دھاندلی، جبر اور پیسے کی طاقت سے برسر اقتدار آئی ہو تو وہ اپنے اقتدار کا جواز کھو بیٹھتی ہے۔

پچاس کے عشرے میں آئین سازی کی سنجیدہ کوششیں نہ ہونے کے سبب پنڈی سازش کو حوصلہ ملا۔ مقبول عوامی رہنماؤں کو بڑی سے بڑی طاقت چیلنج نہیں کر سکتی اگر عوام اس لیڈر کے ساتھ ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ کوشش کو بغاوت قرار دیا اور وہ انقلاب کا روپ نہ دھار سکی۔ ایوب اس وقت برسر اقتدار آئے جب ملک کے دونوں حصوں میں کوئی بھی مقبول رہنما نہ تھا۔ ایوب خان کی غیر مقبولیت نے یحییٰ کے حوصلوں کو توانائی بخشی۔ انتخابی دھاندلیوں نے جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانے کا موقع دیا۔ مشرف کی آمد بھی غیر مقبول اور غیر قانونی فیصلوں کا نتیجہ قرار پائی۔

پاکستان ایک بار پھر تاریخ کے دوراہے پر کھڑا ہے۔ مورخ کسی بھی جمہوری حکومت کی خامی پر طاقت کے استعمال کو جائز نہیں سمجھے گا۔ بیلٹ اور بلٹ کی کشمکش اچھے نتائج نہ دے گی۔ پنکچر لگانے کے الزامات منتخب حکومت کی اخلاقی حیثیت کو مجروح کر رہے ہیں۔ جنرلوں کو یقینا جمہوری حکومتوں کے اشارہ ابرو کو سمجھنا چاہیے۔ سیاستدانوں کو اپنی ووٹ کے ذریعے بننے والی حکومت کی حیثیت پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ بیلٹ والے اگر چاہتے ہیں کہ برتری ان کی ہو تو ووٹ کے تقدس کے مجروح ہونے کی شکایت کو دور ہونا چاہیے۔ دوسری شرط کہ حکمرانوں کی معاشی اصلاحات کا پھل ہر گھر تک جاتا نظر آنا چاہیے۔ اگر یہ دوکام ہو جائیں تو وردی والے ہر بات مانیں گے شیروانی والوں کی۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ بیلٹ والے کا کوئی اشارہ بلٹ والا نہ سمجھے۔ یوں پھر ایک ہی صفحے پر ہوں گے بیلٹ والے اور بلٹ والے۔
Load Next Story