والدین کی سنگین غفلت
ہمارے ہاں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں والدین میں سے صرف ایک یعنی ماں یا باپ حیات ہوتا ہے ۔۔۔۔
لاہور:
حبیب جالبؔ مرحوم کا نام کون ہے جو اس ملک میں ادب و احترام کے ساتھ نہ لیتا ہو گا۔ باوجود نظریاتی اختلاف کے مخالفین بھی ان کی جد و جہد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے متعلق ایک خبر چند روز قبل نظر سے گزری تو دل کو بڑا رنج و ملال ہوا۔ ایسے عظیم لوگوں کی خبر کو اگر مرچ مصالحے لگا کر پیش کرینگے تو اس سے آزادی اظہار کے نام پر دھبہ ہی آئیگا لہٰذا ہم سب کو کم از کم بڑے لوگوں کا احترام کرتے ہوئے ان کی خبر کو یوں تختہ مشق نہیں بنانا چاہیے۔
بہر کیف یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی اہم ہے کہ جب والدین دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو اولاد آپس میں دست و گریباں ہو جاتی ہے۔ حبیب جالبؔ مرحوم کی مذکورہ بالا خبر سے قطع نظر آج ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات بہت زیادہ مشاہدے میں آ رہے ہیں کہ جب سرپرست اس دنیا سے رخصت ہو جائے اور صرف ان کی اولاد ہی اس دنیا میں حیات ہوں تو ان کے درمیان جائیداد اور مال و دولت کی تقسیم دوریاں پیدا کر دیتی ہے اور ایک ہی گھرانے میں بچپن گزارنے والے ایک دوسرے کے رقیب اور بعض اوقات جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور ان وجوہات کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کا جواب آج کے والدین کو ضرور سوچنا چاہیے۔ ورنہ مستقبل قریب میں کوئی بعید نہیں کہ ان کی اولاد بھی والدین کے رخصت ہوتے ہی آپس میں دست و گریبان ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض والدین اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی اولاد والدین کی موجودگی میں آپس میں بہت میل جول اور محبت کے ساتھ رہتی ہیں لیکن والدین کے انتقال کے بعد ہی اولاد ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بھی ہو جاتی ہیں یا کم از کم ان کے درمیان نفرتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ خونی رشتے آپس میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ ان معاملات کی ایک بڑی وجہ وہ جائیداد یا ترکہ ہوتا ہے جو والدین کے انتقال کے بعد اولاد ملکی قوانین یا شرعی قوانین کے بجائے اپنے مفاد کے نقطہ نظر سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں جس اولاد کو شرعی لحاظ سے تقسیم میں فائدہ نظر آتا ہے وہ شرعی اعتبار سے تقسیم چاہتی ہے اور جس کو ماں یا باپ کی وصیت میں فائدہ نظر آتا ہے وہ ان کی نصیحت کو سامنے رکھنے کا اصرار کرتی ہے اور یوں ایک ہی گھرانے کے لوگ آپس میں تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔
اس ضمن میں ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ہی زندگی میں تمام جائیداد اور مال و اسباب کی تقسیم کر لیں اور اس کی وصیت بھی تمام لوگوں کو بلا کر سامنے کر دیں تا کہ کل کو جب وہ اس دنیا میں نہ ہوں تو ان کی سگی اولاد مال کی محبت میں رشتوں کی محبت کو نفرتوں میں تبدیل نہ کریں۔
راقم کا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ بہت سے والدین شرعی اعتبار سے اپنی اولاد میں مال و دولت کی تقسیم کرنے کے بجائے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کرتے ہیں یا اگر کوئی ایک اولاد کہنا نہ مانے تو اس کو نہایت معمولی حصہ دیکر کنارے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں والدین کی زندگی میں تو ضرور اولادیں اس عمل پر قدرے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں یا والدین کے احترام میں خاموش ہو جاتی ہیں مگر والدین کے فوت ہوتے ہی اولاد آپ ناحق لینے کے لیے آ کھڑی ہوتی ہیں اور حصہ نہ ملنے پر پنجہ آزمائی کرتی ہیں یا پھر عدالت سے رجوع کرتی ہیں اس طرح ایسے گھرانے جن کی تعریفیں زمانے بھر میں ہوتی ہے کہ وہ نہایت سعادت مند اولاد کے حامل ہیں۔ والدین کی وفات کے بعد زمانے بھر میں عبرت کا نشان بنتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں والدین میں سے صرف ایک یعنی ماں یا باپ حیات ہوتا ہے اور اس قدر بزرگ اور بیمار ہوتا ہے کہ نہ معلوم کب اور کہاں سانسیں پوری ہو جائیں مگر اس کے باوجود ان کی جانب سے جو بھی جائیداد یا مال و اسباب ہوتا ہے اس کی تقسیم اولاد میں نہیں کی جاتی اور کوشش کی جاتی ہے کہ سب کچھ ایک ہی ہاتھ میں رہے یا کسی پسندیدہ اولاد کو اس کا فائدہ پہنچتا رہے مگر جب آخری سرپرست کا انتقال ہوتا ہے تو اس پسندیدہ اولاد سے دیگر بہن بھائی اپنا حصہ لینے کے لیے عدالت پہنچ جاتے ہیں یوں اس پسندیدہ اولاد کو وہ بھی ملنا مشکل ہو جاتا ہے جو والدین اس کو اپنے ہاتھ سے اپنی زندگی میں تقسیم کر کے فائدہ پہنچا سکتے تھے۔
بات بالکل سیدھی سی ہے کہ اگر والدین اپنی ہی زندگی میں تمام اولاد کے درمیان جائیداد اور مال تقسیم کر دیں تو اس طرح نہ صرف اولاد کل کو آپس میں دست و گریباں ہونے یا عدالتوں میں رسوا ہونے سے بھی بچ سکتی ہیں اور اپنی من پسند اولاد کو جس نے گھر بنانے میں یا ماں باپ کی خدمت کرنے میں زیادہ محنت کی ہو اس کو زیادہ فائدہ بھی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم میں سے اکثر گھرانوں میں والدین اپنی آخری سانس تک کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔
وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم اپنی ہی زندگی میں یہ تقسیم کر دیں تو کوئی اولاد آپس میں رنجش نہ رکھے اور اگر ناراض بھی ہو جائے تو والدین اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھا کر اس کو منا لیں، نہ جانے کیوں ہم وصال کی حقیقت اور ترکہ کی تقسیم کو سانس کے آخری لمحے تک قبول نہیں کرتے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ان کی اولاد اس دنیا کی محبت میں، مال و متاع کی محبت میں آپس میں دست و گریباں ہو جائے گی، سگے بہن بھائی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنا پسند نہیں کرینگے۔میری تمام ایسے والدین سے گزارش ہے جو اس مقام پر پہنچ چکے ہوں کے ترکہ کی تقسیم بہتر انداز میں بہتر سلیقے سے کر سکتے ہوں اپنی زندگی ہی میں کر دیں ورنہ کل وہ نہ ہوئے تو ان کی اولاد آپس میں دست و گریباں ہو سکتی ہیں جو شاید ان کی روحوں کے لیے بھی باعث تکلیف ہوں۔ یہ والدین کی ایک سنگین غفلت ہوتی ہے آیے غور کریں۔
حبیب جالبؔ مرحوم کا نام کون ہے جو اس ملک میں ادب و احترام کے ساتھ نہ لیتا ہو گا۔ باوجود نظریاتی اختلاف کے مخالفین بھی ان کی جد و جہد کو تسلیم کرتے ہیں۔ ان کے متعلق ایک خبر چند روز قبل نظر سے گزری تو دل کو بڑا رنج و ملال ہوا۔ ایسے عظیم لوگوں کی خبر کو اگر مرچ مصالحے لگا کر پیش کرینگے تو اس سے آزادی اظہار کے نام پر دھبہ ہی آئیگا لہٰذا ہم سب کو کم از کم بڑے لوگوں کا احترام کرتے ہوئے ان کی خبر کو یوں تختہ مشق نہیں بنانا چاہیے۔
بہر کیف یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ایک اہم مسئلہ یہ بھی اہم ہے کہ جب والدین دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں تو اولاد آپس میں دست و گریباں ہو جاتی ہے۔ حبیب جالبؔ مرحوم کی مذکورہ بالا خبر سے قطع نظر آج ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات بہت زیادہ مشاہدے میں آ رہے ہیں کہ جب سرپرست اس دنیا سے رخصت ہو جائے اور صرف ان کی اولاد ہی اس دنیا میں حیات ہوں تو ان کے درمیان جائیداد اور مال و دولت کی تقسیم دوریاں پیدا کر دیتی ہے اور ایک ہی گھرانے میں بچپن گزارنے والے ایک دوسرے کے رقیب اور بعض اوقات جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور ان وجوہات کو کس طرح ختم کیا جا سکتا ہے؟ یہ ایک انتہائی اہم سوال ہے جس کا جواب آج کے والدین کو ضرور سوچنا چاہیے۔ ورنہ مستقبل قریب میں کوئی بعید نہیں کہ ان کی اولاد بھی والدین کے رخصت ہوتے ہی آپس میں دست و گریبان ہو جائے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض والدین اپنے بچوں کی تربیت اس طرح کرتے ہیں کہ ان کی اولاد والدین کی موجودگی میں آپس میں بہت میل جول اور محبت کے ساتھ رہتی ہیں لیکن والدین کے انتقال کے بعد ہی اولاد ایک دوسرے کے خون کی پیاسی بھی ہو جاتی ہیں یا کم از کم ان کے درمیان نفرتیں اس قدر بڑھ جاتی ہیں کہ خونی رشتے آپس میں ایک دوسرے کی شکل دیکھنا پسند نہیں کرتی۔ ان معاملات کی ایک بڑی وجہ وہ جائیداد یا ترکہ ہوتا ہے جو والدین کے انتقال کے بعد اولاد ملکی قوانین یا شرعی قوانین کے بجائے اپنے مفاد کے نقطہ نظر سے حاصل کرنا چاہتی ہے۔ اس سلسلے میں جس اولاد کو شرعی لحاظ سے تقسیم میں فائدہ نظر آتا ہے وہ شرعی اعتبار سے تقسیم چاہتی ہے اور جس کو ماں یا باپ کی وصیت میں فائدہ نظر آتا ہے وہ ان کی نصیحت کو سامنے رکھنے کا اصرار کرتی ہے اور یوں ایک ہی گھرانے کے لوگ آپس میں تعلقات خراب کر لیتے ہیں۔
اس ضمن میں ہمارے ایک دوست کا کہنا ہے کہ والدین کو چاہیے کہ وہ اپنی ہی زندگی میں تمام جائیداد اور مال و اسباب کی تقسیم کر لیں اور اس کی وصیت بھی تمام لوگوں کو بلا کر سامنے کر دیں تا کہ کل کو جب وہ اس دنیا میں نہ ہوں تو ان کی سگی اولاد مال کی محبت میں رشتوں کی محبت کو نفرتوں میں تبدیل نہ کریں۔
راقم کا بھی یہی مشاہدہ ہے کہ بہت سے والدین شرعی اعتبار سے اپنی اولاد میں مال و دولت کی تقسیم کرنے کے بجائے پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کرتے ہیں یا اگر کوئی ایک اولاد کہنا نہ مانے تو اس کو نہایت معمولی حصہ دیکر کنارے لگانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یوں والدین کی زندگی میں تو ضرور اولادیں اس عمل پر قدرے خاموشی اختیار کر لیتی ہیں یا والدین کے احترام میں خاموش ہو جاتی ہیں مگر والدین کے فوت ہوتے ہی اولاد آپ ناحق لینے کے لیے آ کھڑی ہوتی ہیں اور حصہ نہ ملنے پر پنجہ آزمائی کرتی ہیں یا پھر عدالت سے رجوع کرتی ہیں اس طرح ایسے گھرانے جن کی تعریفیں زمانے بھر میں ہوتی ہے کہ وہ نہایت سعادت مند اولاد کے حامل ہیں۔ والدین کی وفات کے بعد زمانے بھر میں عبرت کا نشان بنتے ہیں۔
ہمارے ہاں بعض گھرانے ایسے بھی ہیں جہاں والدین میں سے صرف ایک یعنی ماں یا باپ حیات ہوتا ہے اور اس قدر بزرگ اور بیمار ہوتا ہے کہ نہ معلوم کب اور کہاں سانسیں پوری ہو جائیں مگر اس کے باوجود ان کی جانب سے جو بھی جائیداد یا مال و اسباب ہوتا ہے اس کی تقسیم اولاد میں نہیں کی جاتی اور کوشش کی جاتی ہے کہ سب کچھ ایک ہی ہاتھ میں رہے یا کسی پسندیدہ اولاد کو اس کا فائدہ پہنچتا رہے مگر جب آخری سرپرست کا انتقال ہوتا ہے تو اس پسندیدہ اولاد سے دیگر بہن بھائی اپنا حصہ لینے کے لیے عدالت پہنچ جاتے ہیں یوں اس پسندیدہ اولاد کو وہ بھی ملنا مشکل ہو جاتا ہے جو والدین اس کو اپنے ہاتھ سے اپنی زندگی میں تقسیم کر کے فائدہ پہنچا سکتے تھے۔
بات بالکل سیدھی سی ہے کہ اگر والدین اپنی ہی زندگی میں تمام اولاد کے درمیان جائیداد اور مال تقسیم کر دیں تو اس طرح نہ صرف اولاد کل کو آپس میں دست و گریباں ہونے یا عدالتوں میں رسوا ہونے سے بھی بچ سکتی ہیں اور اپنی من پسند اولاد کو جس نے گھر بنانے میں یا ماں باپ کی خدمت کرنے میں زیادہ محنت کی ہو اس کو زیادہ فائدہ بھی پہنچایا جا سکتا ہے لیکن نہ جانے کیوں ہم میں سے اکثر گھرانوں میں والدین اپنی آخری سانس تک کوئی فیصلہ نہیں کرتے۔
وہ یہ نہیں سوچتے کہ اگر ہم اپنی ہی زندگی میں یہ تقسیم کر دیں تو کوئی اولاد آپس میں رنجش نہ رکھے اور اگر ناراض بھی ہو جائے تو والدین اپنی بزرگی کا فائدہ اٹھا کر اس کو منا لیں، نہ جانے کیوں ہم وصال کی حقیقت اور ترکہ کی تقسیم کو سانس کے آخری لمحے تک قبول نہیں کرتے اور یہ بھول جاتے ہیں کہ اس کے نتیجے میں ان کی اولاد اس دنیا کی محبت میں، مال و متاع کی محبت میں آپس میں دست و گریباں ہو جائے گی، سگے بہن بھائی ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنا پسند نہیں کرینگے۔میری تمام ایسے والدین سے گزارش ہے جو اس مقام پر پہنچ چکے ہوں کے ترکہ کی تقسیم بہتر انداز میں بہتر سلیقے سے کر سکتے ہوں اپنی زندگی ہی میں کر دیں ورنہ کل وہ نہ ہوئے تو ان کی اولاد آپس میں دست و گریباں ہو سکتی ہیں جو شاید ان کی روحوں کے لیے بھی باعث تکلیف ہوں۔ یہ والدین کی ایک سنگین غفلت ہوتی ہے آیے غور کریں۔