میئر کراچی کے لیے 179 ووٹ کی سادہ اکثریت کسی جماعت کے پاس نہیں
پیپلز پارٹی نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے کراچی کی سب سے بڑی، جماعت اسلامی دوسری اور تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت ہے
بلدیاتی انتخابات کا براہ راست مرحلہ مکمل ہونے کے بعد اب مخصوص نشستوں پر انتخاب ہوگا ۔
اس طرح بلدیہ عظمی کراچی کے ایوان کے اراکین کی تعداد 246 براہ راست اور 6 کیٹگری کی 121 مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخاب کے بعد 367 تک پہنچ جائے گی۔
ایوان میں 1 فیصد خواجہ سرا (2 خواجہ سرا)، 1 فیصد خصوصی افراد (2 خصوصی افرد)، 33 فیصد خواتین (81 خواتین)، 5 فیصد نوجوان (12 نوجوان)، 5 فیصد مزدور یا کسان (12 افراد) اور 5 فیصد اقلیت (12 افراد) کی نشستیں مخصوص ہیں۔
پیپلز پارٹی نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے کراچی کی سب سے بڑی، جماعت اسلامی دوسری اور تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت ہے مگر میئر کراچی کے لیے 179 ووٹ کی سادہ اکثریت کسی کے بعد بھی نہیں ہے، یعنی کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں بابائے شہر کی کرسی حاصل نہیں کرسکتی۔
پیپلز پارٹی کو جے یو آئی اور نون لیگ کے اتحاد کے بعد بھی کم از کم 22 نشستیں درکار ہونگی جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اتحاد کرکے باآسانی میئر کا امیدوار لاسکتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں میئر کراچی کے لیے پیپلز پارٹی کے امکانات روشن ہیں مگر اس کے لیے جوڑ توڑ کرنا ہوگا۔ اس وقت تک حاصل ہونے والی پارٹی پوزیشن کے مطابق پیپلز پارٹی کو اکثریت کی بنیاد پر 32 خواتین، 5 نوجوان، 5 مزدور، 5 اقلیت اور، 1 معذور اور 1 خواجہ سرا کی نشستیں ملیں گی جس کے بعد سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 144 ہونے کا امکان ہے۔
جماعت اسلامی کو 28، نوجوان کی 4، مزدور کی 4، اقلیت کی 4 جبکہ معذور اور خواجہ سرا کی 1،1 نشستیں ملیں گی۔ اس طرح جماعت اسلامی کے نمائندوں کی تعداد 127 تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کے ایوان میں تیسری بڑی اکثریت رکھنے والی تحریک انصاف کو 20 مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ہے جس کے بعد ان کے اراکین کی تعدد 63 ہوجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی تعداد 7 جیتی ہوئی نشستوں اور 2 خواتین کی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 9 ہوجائے گی۔ جے یو آئی کو 3 نشستوں کی بنیاد پر 1 مخصص نشست ملے گی۔ اس طرح کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں میئر نہیں لاسکتی۔
اس طرح بلدیہ عظمی کراچی کے ایوان کے اراکین کی تعداد 246 براہ راست اور 6 کیٹگری کی 121 مخصوص نشستوں پر بالواسطہ انتخاب کے بعد 367 تک پہنچ جائے گی۔
ایوان میں 1 فیصد خواجہ سرا (2 خواجہ سرا)، 1 فیصد خصوصی افراد (2 خصوصی افرد)، 33 فیصد خواتین (81 خواتین)، 5 فیصد نوجوان (12 نوجوان)، 5 فیصد مزدور یا کسان (12 افراد) اور 5 فیصد اقلیت (12 افراد) کی نشستیں مخصوص ہیں۔
پیپلز پارٹی نشستوں کی تعداد کے اعتبار سے کراچی کی سب سے بڑی، جماعت اسلامی دوسری اور تحریک انصاف تیسری بڑی جماعت ہے مگر میئر کراچی کے لیے 179 ووٹ کی سادہ اکثریت کسی کے بعد بھی نہیں ہے، یعنی کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں بابائے شہر کی کرسی حاصل نہیں کرسکتی۔
پیپلز پارٹی کو جے یو آئی اور نون لیگ کے اتحاد کے بعد بھی کم از کم 22 نشستیں درکار ہونگی جبکہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف اتحاد کرکے باآسانی میئر کا امیدوار لاسکتے ہیں۔
سیاسی ماہرین کہتے ہیں میئر کراچی کے لیے پیپلز پارٹی کے امکانات روشن ہیں مگر اس کے لیے جوڑ توڑ کرنا ہوگا۔ اس وقت تک حاصل ہونے والی پارٹی پوزیشن کے مطابق پیپلز پارٹی کو اکثریت کی بنیاد پر 32 خواتین، 5 نوجوان، 5 مزدور، 5 اقلیت اور، 1 معذور اور 1 خواجہ سرا کی نشستیں ملیں گی جس کے بعد سٹی کونسل میں پیپلز پارٹی کے اراکین کی تعداد 144 ہونے کا امکان ہے۔
جماعت اسلامی کو 28، نوجوان کی 4، مزدور کی 4، اقلیت کی 4 جبکہ معذور اور خواجہ سرا کی 1،1 نشستیں ملیں گی۔ اس طرح جماعت اسلامی کے نمائندوں کی تعداد 127 تک پہنچ جانے کی توقع ہے۔
بلدیہ عظمی کراچی کے ایوان میں تیسری بڑی اکثریت رکھنے والی تحریک انصاف کو 20 مخصوص نشستیں ملنے کا امکان ہے جس کے بعد ان کے اراکین کی تعدد 63 ہوجائے گی۔ مسلم لیگ (ن) کے امیدواروں کی تعداد 7 جیتی ہوئی نشستوں اور 2 خواتین کی مخصوص نشستیں ملنے کے بعد 9 ہوجائے گی۔ جے یو آئی کو 3 نشستوں کی بنیاد پر 1 مخصص نشست ملے گی۔ اس طرح کوئی بھی پارٹی تنہا حیثیت میں میئر نہیں لاسکتی۔