کارل مارکس‘ آج بھی صحیح ہے
سرمایہ داری نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے دنیا کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے
غریبوں اور محنت کشوں کو ایک عالم گیر طبقہ قرار دینے والے والے اور سوشلسٹ سیاسی ورکرز کے استاد اور عوام کے سچے ہمدرد کارل مارکس 5مئی 1818کو پیدا ہوئے اور 14مارچ 1883کو جہان فانی سے کوچ کر گئے لیکن اس مختصر زندگی میں انھوں نے سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادیں ہلا دیں۔
ریاست کے کردار، قوانین، کاروباری اور زرعی اجارہ داریوں کے نظام کی مبادیات کا گہرا مطالیہ کیا اور اس کے مدمقابل معاشی مساوات پر مبنی نظام پیش کیا اور مزدور طبقے کی حکومت قائم کرنے کا عملی خاکہ پیش کیا۔ ان کی سالگرہ پر ان کے چند فرمودات کا ذکر کرتے ہیں۔
امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ خیالات کے حامل رہنما برنی سینڈرز 'نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ''گزشتہ تین دہائیوں سے بہت سے امریکیوں کو 'ان کی کمپنیوں کے مالکان 'نہایت سستے داموں بیچ رہے ہیں'یہ امریکی 'نہایت کم اجرت پرسارا دن کام کرتے ہیں'پھر ان سے یہ کام بھی چھین لیے جاتے ہیں۔
وہ اپنے کارخانے بند ہوتے دیکھتے ہیں'اپنی ملازمتوں کو چین اور میکسیکو جاتا ہوا دیکھتے ہیں'وہاں یہی کام نہایت کم اجرتوں پر 'وہاں کے لوگ بخوشی سے کرتے ہیں'ان کارخانوں کے مالک 'دوسرے ملکوں میں کاروبار کرکے 'تین سو گنا زیادہ منافع کماتے ہیں۔ ان امریکیوں کے رہائشی ٹاؤن جو کبھی آباد اور مصروف ہوا کرتے تھے 'اب ویران ہوچکے ہیں۔
ان کے بازاروں کے خوشنما اسٹورز پر اب تختے لگے ہوئے ہیں 'ان لوگوں کے نوجوان بچے اب ان چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں نہیں رہتے 'وہ بڑے شہروں میں ملازمت کی تلاش میں 'ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اس تباہی کے ذمے دار' کارپوریٹ سرمایہ دار' دھڑادھڑ 'دولت کما کر اسے آف شور بینکوں میں جمع کرا رہے ہیں' یہ چالاک لوگ اپنے ملک کی منڈی میں مال بھی بیچتے ہیں'اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے 'ان کے برعکس ایک عام محنت کش امریکی 'نہ تو اپنے بچوں کو اچھے کالج میں بجھوا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ہیلتھ انشورنس کا خرچ برداشت کر سکتا ہیں 'ان میں سے کئی اپنے گھروں کی مارٹ گیج اور کرایہ بھی ادا نہیں کر سکتے ''۔یہ ہے امریکا کا حال جو سرمایہ داری نظام کا مرکز اور لیڈر ہے 'یہ امریکا کا نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام کا بحران ہے۔
چند سال قبل 'نیویارک شہر میںتھنک ٹینک ''Left Forum'' میں اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے ایک سیمینار منعقد ہوا 'اس سیمینار میں کرائسٹ ہیجز ' رچرڈ وولف اور گیل ڈائنز جیسے ماہرین اقتصادیات اور دانشوروں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کارل مارکس کے نظریات سے یہ ثابت کیا کہ' انھوں نے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ سرمایہ داری نظام کو ایک دن ختم ہونا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لازمی طور پر آئے گا' کارل مارکس نے''بورژوا طریقہ پیداوار ''کی مخصوص حرکیات کو بے نقاب کیا 'انھوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ ''سرمایہ داری نظام اپنے اندر ہی اپنی تباہی کے بیج پیدا کرتا ہے ''۔
وہ جانتا تھا کہ رائج نظریات 'جیسے نیو لبر ل ازم صرف ریاستی بالادست اور اقتصادی بالادست طبقے کے مفادات کے لیے بنائے گئے تھے کیونکہ''وہ طبقہ جس کے قبضے میں ذرایع پیداوار ہوں 'ان کا ذہنی پیداوار کے ذرایع پر بھی قبضہ ہوتا ہے ''رائج الوقت نظریات صرف بالادست طبقے کے باہمی تعلقات کا اظہار ہوتے ہیں۔
ان تعلقات کا اظہار جن کے ذریعے ایک طبقہ حکمران اور دوسرا محکوم بنتا ہے''۔کارل مارکس کو سرمایہ داری نظام کی 'ایجادات اور نئی چیزوں کو اپنے آپ میں ضم کرنے کی صلاحیت کاعلم تھا لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سرمایہ داری کا پھیلاؤ ایک مستقل عمل نہیں ہے'جیسا کہ سرمایہ داری نظام کا انجام اور عالمی ترقی کا سہانا خواب چکنا چور ہو تا ہوا ہم دیکھ رہے ہیں ۔اس لیے کارل مارکس کو بلا شبہ سرمایہ داری نظام کا سب بڑا اور مستقبل بین ناقد قرار دیا جا سکتا ہے۔
"The Contribution to the Critique of Political Economy'' کے دیباچے میں مارکس لکھتا ہے ''اس وقت تک کوئی نظام ختم نہیں ہوتاجب تک اس کی تمام پیداواری قوتیں اپنی آخری گنجائش کی حد تک ترقی نہ کرلیں' نئی اور زیادہ ترقی یافتہ پیداواری تعلقات پر مبنی نظام اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا'جب تک پرانے نظام کے پیٹ میں اس کے لیے درکار مادی شرائط پوری نہ ہوجائیں'اس لیے انسان صرف وہ کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے جس کو وہ کر سکتا ہے 'یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ کوئی کام اس وقت کیا جا سکتا ہے۔
جب کہ اس کی تکمیل کے لیے تمام ضروری شرائط پوری ہوں یا پوری ہونے والی ہوں'اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے''۔دیگر الفاظ میں سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلزم کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک سرمایہ داری اپنی تمام پیداواری صلاحیتیں ختم نہ کرلے اور اس میں مزید ترقی کی گنجائش ختم نہ ہو جائے 'اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ قریب ہے 'دنیا کو سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس کے لیے مارکس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
مارکس نے لکھا کہ ''سرمایہ داری کے آخری مراحل میں وہ تمام واقعات اور نشانیاں رونما ہوں گے جن سے ہم سب واقف ہیں'اس نظام میں پھیلاؤ کی صلاحیت ختم ہو جائے گی اور منافع کی بلند شرح برقرار نہیں رہے گی' سرمایہ داری نظام کو جن قوتوں سے تقویت ملتی ہے'انھی کو وہ ختم کرنا شروع کردے گا' بچت اور سادگی کے نام پر یہ غریبوں اور محنت کشوں کے مراعات چھینے گا۔
ان کو مزید قرضوں اور غربت کے دلدل میں ڈبوئے گا' ریاست کی عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جائے گی' بے روزگاری بڑھ جائے گی 'پیداواری اور پیشہ ورانہ دونوں پوزیشنیں بدل جائیں گی 'روزگار ان ملکوں کو شفٹ ہو جائے گا جہاں سستا مزدور دستیاب ہو'صنعتوں کا زیادہ انحصار مشینی پیداوار پر ہوجائے گا'یہ اقتصادی حملہ صرف محنت کشوں پر نہیں ہوگا بلکہ یہ حملہ سرمایہ داری نظام کے سب سے بڑے محافظ طبقے یعنی مڈل کلاس پر بھی ہوگا۔
اس مرحلے پر ذاتی قرضے بڑھ جائیں گے 'کیونکہ آمدنی کم ہوجائے گی یا رک جائے گی 'سرمایہ داری کی آخری منزل میں سیاست اقتصادی مفادات کے تابع ہو جائے گی 'اس سے سیاسی پارٹیاں اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ جائیں گی اور عالمی سرمایہ داری کی تابع اور ان کے مفادات اور ہدایات کے مطابق کام کرے گی ۔آج سرمایہ داری نظام نے اپنی تمام قدریں ختم کردی ہیں'آزادی' جمہوریت'انصاف'سیکولرزم' تجارت میں مقابلہ اور قومی آزادی جیسے نعروں اور اصولوں پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
غریب اور پسماندہ ملکوں کی آزادی اور قومی خود مختاری کو جس طرح روندا جا رہا ہے 'اس کی مثالیں ویت نام 'عراق ' شام ، افغانستان اور لاطینی امریکا کے ممالک ہیں'جمہوریت کا جنازہ تو ہم پاکستانی کئی دفعہ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے ہیں'کیونکہ ہر فوجی اورسیاسی آمریت کی حمایت سرمایہ دار ممالک کرتے رہے ہیں۔
سرمایہ داری نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے دنیا کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے 'تجارت میں منصفانہ مقابلے کو ختم کرکے اجارہ داریاں قائم کر دیں ہیں' مارکس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری' جب خاتمے کے قریب پہنچے گی تو ان تمام قدروں اور بنیادوں کو ختم کردے گی جن پر اس کا ڈھانچہ ایستادہ ہے۔
ریاست کے کردار، قوانین، کاروباری اور زرعی اجارہ داریوں کے نظام کی مبادیات کا گہرا مطالیہ کیا اور اس کے مدمقابل معاشی مساوات پر مبنی نظام پیش کیا اور مزدور طبقے کی حکومت قائم کرنے کا عملی خاکہ پیش کیا۔ ان کی سالگرہ پر ان کے چند فرمودات کا ذکر کرتے ہیں۔
امریکا کی ڈیموکریٹک پارٹی کے سوشلسٹ خیالات کے حامل رہنما برنی سینڈرز 'نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ''گزشتہ تین دہائیوں سے بہت سے امریکیوں کو 'ان کی کمپنیوں کے مالکان 'نہایت سستے داموں بیچ رہے ہیں'یہ امریکی 'نہایت کم اجرت پرسارا دن کام کرتے ہیں'پھر ان سے یہ کام بھی چھین لیے جاتے ہیں۔
وہ اپنے کارخانے بند ہوتے دیکھتے ہیں'اپنی ملازمتوں کو چین اور میکسیکو جاتا ہوا دیکھتے ہیں'وہاں یہی کام نہایت کم اجرتوں پر 'وہاں کے لوگ بخوشی سے کرتے ہیں'ان کارخانوں کے مالک 'دوسرے ملکوں میں کاروبار کرکے 'تین سو گنا زیادہ منافع کماتے ہیں۔ ان امریکیوں کے رہائشی ٹاؤن جو کبھی آباد اور مصروف ہوا کرتے تھے 'اب ویران ہوچکے ہیں۔
ان کے بازاروں کے خوشنما اسٹورز پر اب تختے لگے ہوئے ہیں 'ان لوگوں کے نوجوان بچے اب ان چھوٹے شہروں اور دیہاتوں میں نہیں رہتے 'وہ بڑے شہروں میں ملازمت کی تلاش میں 'ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔
اس تباہی کے ذمے دار' کارپوریٹ سرمایہ دار' دھڑادھڑ 'دولت کما کر اسے آف شور بینکوں میں جمع کرا رہے ہیں' یہ چالاک لوگ اپنے ملک کی منڈی میں مال بھی بیچتے ہیں'اور ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے 'ان کے برعکس ایک عام محنت کش امریکی 'نہ تو اپنے بچوں کو اچھے کالج میں بجھوا سکتے ہیں اور نہ ہی اپنی ہیلتھ انشورنس کا خرچ برداشت کر سکتا ہیں 'ان میں سے کئی اپنے گھروں کی مارٹ گیج اور کرایہ بھی ادا نہیں کر سکتے ''۔یہ ہے امریکا کا حال جو سرمایہ داری نظام کا مرکز اور لیڈر ہے 'یہ امریکا کا نہیں بلکہ سرمایہ داری نظام کا بحران ہے۔
چند سال قبل 'نیویارک شہر میںتھنک ٹینک ''Left Forum'' میں اس سوال کا جائزہ لینے کے لیے ایک سیمینار منعقد ہوا 'اس سیمینار میں کرائسٹ ہیجز ' رچرڈ وولف اور گیل ڈائنز جیسے ماہرین اقتصادیات اور دانشوروں نے اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے کارل مارکس کے نظریات سے یہ ثابت کیا کہ' انھوں نے یہ پیشنگوئی کی تھی کہ سرمایہ داری نظام کو ایک دن ختم ہونا ہے اور اس کی جگہ نیا نظام لازمی طور پر آئے گا' کارل مارکس نے''بورژوا طریقہ پیداوار ''کی مخصوص حرکیات کو بے نقاب کیا 'انھوں نے اندازہ لگالیا تھا کہ ''سرمایہ داری نظام اپنے اندر ہی اپنی تباہی کے بیج پیدا کرتا ہے ''۔
وہ جانتا تھا کہ رائج نظریات 'جیسے نیو لبر ل ازم صرف ریاستی بالادست اور اقتصادی بالادست طبقے کے مفادات کے لیے بنائے گئے تھے کیونکہ''وہ طبقہ جس کے قبضے میں ذرایع پیداوار ہوں 'ان کا ذہنی پیداوار کے ذرایع پر بھی قبضہ ہوتا ہے ''رائج الوقت نظریات صرف بالادست طبقے کے باہمی تعلقات کا اظہار ہوتے ہیں۔
ان تعلقات کا اظہار جن کے ذریعے ایک طبقہ حکمران اور دوسرا محکوم بنتا ہے''۔کارل مارکس کو سرمایہ داری نظام کی 'ایجادات اور نئی چیزوں کو اپنے آپ میں ضم کرنے کی صلاحیت کاعلم تھا لیکن وہ یہ بھی جانتا تھا کہ سرمایہ داری کا پھیلاؤ ایک مستقل عمل نہیں ہے'جیسا کہ سرمایہ داری نظام کا انجام اور عالمی ترقی کا سہانا خواب چکنا چور ہو تا ہوا ہم دیکھ رہے ہیں ۔اس لیے کارل مارکس کو بلا شبہ سرمایہ داری نظام کا سب بڑا اور مستقبل بین ناقد قرار دیا جا سکتا ہے۔
"The Contribution to the Critique of Political Economy'' کے دیباچے میں مارکس لکھتا ہے ''اس وقت تک کوئی نظام ختم نہیں ہوتاجب تک اس کی تمام پیداواری قوتیں اپنی آخری گنجائش کی حد تک ترقی نہ کرلیں' نئی اور زیادہ ترقی یافتہ پیداواری تعلقات پر مبنی نظام اس وقت تک پیدا نہیں ہوتا'جب تک پرانے نظام کے پیٹ میں اس کے لیے درکار مادی شرائط پوری نہ ہوجائیں'اس لیے انسان صرف وہ کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے جس کو وہ کر سکتا ہے 'یہ ہمارا عام مشاہدہ ہے کہ کوئی کام اس وقت کیا جا سکتا ہے۔
جب کہ اس کی تکمیل کے لیے تمام ضروری شرائط پوری ہوں یا پوری ہونے والی ہوں'اسی لیے تو کہتے ہیں کہ ''ضرورت ایجاد کی ماں ہوتی ہے''۔دیگر الفاظ میں سرمایہ داری کا خاتمہ اور سوشلزم کا قیام اس وقت تک ممکن نہیں ہوگا جب تک سرمایہ داری اپنی تمام پیداواری صلاحیتیں ختم نہ کرلے اور اس میں مزید ترقی کی گنجائش ختم نہ ہو جائے 'اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ سرمایہ داری کا خاتمہ قریب ہے 'دنیا کو سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے لیے تیار رہنا ہوگا اور اس کے لیے مارکس کا مطالعہ کرنا ضروری ہے۔
مارکس نے لکھا کہ ''سرمایہ داری کے آخری مراحل میں وہ تمام واقعات اور نشانیاں رونما ہوں گے جن سے ہم سب واقف ہیں'اس نظام میں پھیلاؤ کی صلاحیت ختم ہو جائے گی اور منافع کی بلند شرح برقرار نہیں رہے گی' سرمایہ داری نظام کو جن قوتوں سے تقویت ملتی ہے'انھی کو وہ ختم کرنا شروع کردے گا' بچت اور سادگی کے نام پر یہ غریبوں اور محنت کشوں کے مراعات چھینے گا۔
ان کو مزید قرضوں اور غربت کے دلدل میں ڈبوئے گا' ریاست کی عوامی مسائل حل کرنے کی صلاحیت کم سے کم ہوتی جائے گی' بے روزگاری بڑھ جائے گی 'پیداواری اور پیشہ ورانہ دونوں پوزیشنیں بدل جائیں گی 'روزگار ان ملکوں کو شفٹ ہو جائے گا جہاں سستا مزدور دستیاب ہو'صنعتوں کا زیادہ انحصار مشینی پیداوار پر ہوجائے گا'یہ اقتصادی حملہ صرف محنت کشوں پر نہیں ہوگا بلکہ یہ حملہ سرمایہ داری نظام کے سب سے بڑے محافظ طبقے یعنی مڈل کلاس پر بھی ہوگا۔
اس مرحلے پر ذاتی قرضے بڑھ جائیں گے 'کیونکہ آمدنی کم ہوجائے گی یا رک جائے گی 'سرمایہ داری کی آخری منزل میں سیاست اقتصادی مفادات کے تابع ہو جائے گی 'اس سے سیاسی پارٹیاں اپنے اصلی مقاصد سے ہٹ جائیں گی اور عالمی سرمایہ داری کی تابع اور ان کے مفادات اور ہدایات کے مطابق کام کرے گی ۔آج سرمایہ داری نظام نے اپنی تمام قدریں ختم کردی ہیں'آزادی' جمہوریت'انصاف'سیکولرزم' تجارت میں مقابلہ اور قومی آزادی جیسے نعروں اور اصولوں پر سرمایہ داری کی بنیاد رکھی گئی تھی۔
غریب اور پسماندہ ملکوں کی آزادی اور قومی خود مختاری کو جس طرح روندا جا رہا ہے 'اس کی مثالیں ویت نام 'عراق ' شام ، افغانستان اور لاطینی امریکا کے ممالک ہیں'جمہوریت کا جنازہ تو ہم پاکستانی کئی دفعہ اپنے کندھوں پر اٹھا چکے ہیں'کیونکہ ہر فوجی اورسیاسی آمریت کی حمایت سرمایہ دار ممالک کرتے رہے ہیں۔
سرمایہ داری نے مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرکے دنیا کو عذاب میں مبتلا کردیا ہے 'تجارت میں منصفانہ مقابلے کو ختم کرکے اجارہ داریاں قائم کر دیں ہیں' مارکس نے بالکل ٹھیک کہا تھا کہ سرمایہ داری' جب خاتمے کے قریب پہنچے گی تو ان تمام قدروں اور بنیادوں کو ختم کردے گی جن پر اس کا ڈھانچہ ایستادہ ہے۔