شہری محروم ٹینکروں کے لیے پانی دستیاب کیوں
غیر قانونی ہائیڈرنٹس کن کی سرپرستی میں چل رہے ہیں اس کی سندھ حکومت کو کوئی فکر نہیں
روزنامہ ایکسپریس کے مطابق واٹر بورڈ میں کروڑوں روپے کی رقم وصولی میں کمی پر ریونیو افسر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔
تبادلے پر محکمہ ریونیو میں چلنے والے مالی سسٹم میں کھلبلی مچ گئی مگر واٹر بورڈ کے سینئر افسران نے مذکورہ افسر کے تبادلے کو خوش آیند قرار دیا ہے جن کی ناقص کارکردگی سے واٹر بورڈ کی آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت پر شہریوں کا احتجاج معمول بنا ہوا ہے جب کہ واٹر بورڈ نے گزشتہ سال کی شدید بارشوں پر کہا تھا کہ تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کرلیا گیا ہے جس سے شہر میں پانی کی قلت نہیں ہوگی اور شہریوں کو پانی ملے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور شہر میں شہری پانی کے لیے رمضان اور عید پر ترستے رہے جب کہ ٹینکروں کے لیے پانی دستیاب رہا اور خود راقم کو دستگیر سوسائٹی جو سخی حسن ہائیڈرنٹ سے تقریباً تین کلو میٹر دور ہے۔
عید کے بعد پانی کی ضرورت کے لیے ایک چھوٹا واٹر ٹینکر پانچ ہزار روپے میں خرید کر پانی حاصل کرنا پڑا جو بڑی مشکل سے ملا جب کہ وہاں پانی سے بھرے بے شمار واٹر ٹینکر موجود تھے اور منہ مانگے نرخوں پر ٹینکروں کی کھلے عام فروخت جاری تھی۔
ایکسپریس کی خبر کے مطابق نیا ناظم آباد کے قریب پانی کی قریبی لائن سے لیے گئے دو غیر قانونی کنکشن واٹر بورڈ کے چوری روکنے والے سیل نے بہ مشکل یہ کارروائی کی جہاں 66 انچ کی پانی کی لائن کو چھلنی کر کے طاقت ور واٹر مافیا منگھو پیر میں سالوں سے غیر قانونی طور پر پانی چوری کر کے روزانہ لاکھوں گیلن پانی 86 سے زائد غیر قانونی لائنوں کے ذریعے غیر قانونی ہائیڈرنٹس، ماربل فیکٹریوں، برف کارخانوں و دیگر فیکٹریوں کو فروخت کر رہا تھا۔
منقطع کیے گئے کنکشن چار چار انچ قطر کے تھے اور اتنی بڑی مقدار میں پانی چوری کا کاروبار کرنے والے واٹر مافیا کے خلاف صرف پانی چوری کا مقدمہ درج کرایا جاسکا ہے جب کہ اس کے خلاف پہلے بھی مقدمہ درج تھا۔
ذرایع کے مطابق پانی کی چوری کا یہ مذموم کاروبار منظم طور پر علاقہ پولیس اور واٹر بورڈ کے متعلقہ عملے کی ملی بھگت سے چل رہا تھا اور پہلے مقدمے کے باوجود ملزم کھلے عام پانی چوری کرکے فروخت کر رہا تھا جس سے روزانہ لاکھوں روپے کا پانی چوری کا نقصان اس واٹر بورڈ کو ہو رہا تھا جس کا ریونیو عملہ بھی اس چوری میں ملوث ہے جس کی توجہ پانی نہ ملے مگر شہریوں سے ماہانہ واٹر بلوں کی وصولی پر ہے اور پانی کئی کئی روز تک نہ ملنے سے پریشان شہری ہزاروں روپے میں پانی ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں۔
بڑے اداروں سے واٹر بلوں کی وصولی کا ذمے دار واٹر بورڈ کا ریونیو عملہ اور پانی کی فراہمی کے ذمے دار واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران واٹر بورڈ کی آمدنی بڑھانے کے بجائے ذاتی آمدنی بڑھانے اور واٹر بورڈ کو مالی نقصان پہنچانے میں سالوں سے مصروف ہیں اور کراچی کو ملنے والا پانی شہریوں کو قانونی طور فراہم کرنے کے بجائے شہر میں ٹینکروں اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلوا کر روزانہ ہزاروں ٹینکر کھلے عام پانی فروخت کر رہے ہیں۔ شہر میں واٹر مافیا کے کارندے بااثر سیاسی شخصیات اور واٹر بورڈ کے افسروں کی سرپرستی میں روزانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں جس سے واٹر بورڈ کی آمدن کم ہو رہی ہے۔
کراچی کے تین کروڑ سے زائد شہریوں کو فراہمی و نکاسی آب کی فراہمی کا بڑا ادارہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سندھ کی حکومت کے ماتحت ہے جب تک واٹر بورڈ بلدیہ عظمیٰ یا سٹی حکومت کراچی کے ماتحت تھا شہر میں پانی کی اتنی شدید قلت تھی نہ واٹر بورڈ کی آمدنی کم ہو رہی تھی مگر جب سے کے ڈبلیو ایس بی کا اندھی کمائی کا ادارہ سندھ کے محکمہ بلدیات کے کنٹرول میں آیا ہے واٹر بورڈ میں تقرر و تبادلے لاکھوں روپے کی رشوت وصولی پر ہوتے ہیں۔
جس سے واٹر بورڈ میں کرپشن اور اقربا پروری، پانی کی چوری، ٹھیکوں میں بدعنوانیاں، سیاسی رہنماؤں کے مقرر کرائے جانے والے افسران، بعض ارکان اسمبلی اور واٹر بورڈ کے معاملات چلانے والے محکمہ بلدیات کے افسران نے اس کو صرف اپنی ذاتی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور بورڈ کو تباہ کرنے اور ذاتی کمائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، واٹر بورڈ کے سربراہوں کا تقرر ان کی صلاحیت پر نہیں سیاسی وابستگی پر ہونے سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور بورڈ میں کیا ہو رہا ہے۔
شہریوں کے بجائے واٹر ٹینکروں کو کہاں سے پانی مل رہا ہے اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کن کی سرپرستی میں چل رہے ہیں اس کی سندھ حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ افسروں سے پمپنگ اسٹیشنوں پر تعینات وال مینوں نے جو پانی کھولنے بند کرنے پر متعین ہیں کرپشن اور من مانیوں کا بازار گرم رکھا ہے۔
شہریوں کو ملنے نہ ملے ان کے اثاثے تیزی سے بڑھتے ہیں ان کے شاہانہ اخراجات کوئی دیکھنے والا نہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک شعبہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور دوسرا شعبہ گندے پانی کی نکاسی کا ذمے دار ہے دونوں شعبوں کے الگ الگ ڈی ایم ڈی اور چیف انجینئرز ہیں۔
پورے شہر میں نکاسی آب کا سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے شہر میں سیوریج لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گٹر ابلنا معمول بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے بچی کچھی سڑکیں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں گندے پانی کے جمع ہونے کی تصاویر روز ہی شایع ہوتی ہیں جن میں اہم شاہراہیں بھی شامل ہیں۔ شہر کے بازار ہوں یا مارکیٹیں اور اندرونی گلیاں گندے پانی سے زیر آب رہتے ہیں۔
سیوریج بورڈ کا افسروں اور کنڈی مینوں کی ناقص کارکردگی کے باعث زیر آب علاقوں کی تصاویر میڈیا میں آتی رہتی ہیں اور پانی نہ ملنے پر احتجاج بھی ہوتا رہتا ہے۔ فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں ٹوٹنے سے پانی زمین میں جا رہا ہے جس سے علاقائی عمارتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
واٹر بورڈ کے مطابق لائنیں بہت پرانی ہو چکیں اور نئی لائنوں کے لیے اربوں روپے چاہئیں جس کے ملنے کی کوئی امید نہیں حکومت کے افسروں کو ذاتی کمائی کی فکر رہتی ہے شہریوں کی پریشانی کا کوئی احساس نہیں۔ عدلیہ سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے حکومت کو فکر نہیں کہ کسی سے پوچھے کہ شہریوں کے لیے پانی نہیں تو ٹینکروں کو صاف پانی کیوں مل رہا ہے اور واٹر ٹینکر مہنگے داموں کیوں فروخت ہو رہے ہیں؟
تبادلے پر محکمہ ریونیو میں چلنے والے مالی سسٹم میں کھلبلی مچ گئی مگر واٹر بورڈ کے سینئر افسران نے مذکورہ افسر کے تبادلے کو خوش آیند قرار دیا ہے جن کی ناقص کارکردگی سے واٹر بورڈ کی آمدنی میں کروڑوں روپے کی کمی واقع ہو چکی ہے۔
علاوہ ازیں شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی شدید قلت پر شہریوں کا احتجاج معمول بنا ہوا ہے جب کہ واٹر بورڈ نے گزشتہ سال کی شدید بارشوں پر کہا تھا کہ تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کرلیا گیا ہے جس سے شہر میں پانی کی قلت نہیں ہوگی اور شہریوں کو پانی ملے گا مگر ایسا نہیں ہوا اور شہر میں شہری پانی کے لیے رمضان اور عید پر ترستے رہے جب کہ ٹینکروں کے لیے پانی دستیاب رہا اور خود راقم کو دستگیر سوسائٹی جو سخی حسن ہائیڈرنٹ سے تقریباً تین کلو میٹر دور ہے۔
عید کے بعد پانی کی ضرورت کے لیے ایک چھوٹا واٹر ٹینکر پانچ ہزار روپے میں خرید کر پانی حاصل کرنا پڑا جو بڑی مشکل سے ملا جب کہ وہاں پانی سے بھرے بے شمار واٹر ٹینکر موجود تھے اور منہ مانگے نرخوں پر ٹینکروں کی کھلے عام فروخت جاری تھی۔
ایکسپریس کی خبر کے مطابق نیا ناظم آباد کے قریب پانی کی قریبی لائن سے لیے گئے دو غیر قانونی کنکشن واٹر بورڈ کے چوری روکنے والے سیل نے بہ مشکل یہ کارروائی کی جہاں 66 انچ کی پانی کی لائن کو چھلنی کر کے طاقت ور واٹر مافیا منگھو پیر میں سالوں سے غیر قانونی طور پر پانی چوری کر کے روزانہ لاکھوں گیلن پانی 86 سے زائد غیر قانونی لائنوں کے ذریعے غیر قانونی ہائیڈرنٹس، ماربل فیکٹریوں، برف کارخانوں و دیگر فیکٹریوں کو فروخت کر رہا تھا۔
منقطع کیے گئے کنکشن چار چار انچ قطر کے تھے اور اتنی بڑی مقدار میں پانی چوری کا کاروبار کرنے والے واٹر مافیا کے خلاف صرف پانی چوری کا مقدمہ درج کرایا جاسکا ہے جب کہ اس کے خلاف پہلے بھی مقدمہ درج تھا۔
ذرایع کے مطابق پانی کی چوری کا یہ مذموم کاروبار منظم طور پر علاقہ پولیس اور واٹر بورڈ کے متعلقہ عملے کی ملی بھگت سے چل رہا تھا اور پہلے مقدمے کے باوجود ملزم کھلے عام پانی چوری کرکے فروخت کر رہا تھا جس سے روزانہ لاکھوں روپے کا پانی چوری کا نقصان اس واٹر بورڈ کو ہو رہا تھا جس کا ریونیو عملہ بھی اس چوری میں ملوث ہے جس کی توجہ پانی نہ ملے مگر شہریوں سے ماہانہ واٹر بلوں کی وصولی پر ہے اور پانی کئی کئی روز تک نہ ملنے سے پریشان شہری ہزاروں روپے میں پانی ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں۔
بڑے اداروں سے واٹر بلوں کی وصولی کا ذمے دار واٹر بورڈ کا ریونیو عملہ اور پانی کی فراہمی کے ذمے دار واٹر بورڈ کے کرپٹ افسران واٹر بورڈ کی آمدنی بڑھانے کے بجائے ذاتی آمدنی بڑھانے اور واٹر بورڈ کو مالی نقصان پہنچانے میں سالوں سے مصروف ہیں اور کراچی کو ملنے والا پانی شہریوں کو قانونی طور فراہم کرنے کے بجائے شہر میں ٹینکروں اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس چلوا کر روزانہ ہزاروں ٹینکر کھلے عام پانی فروخت کر رہے ہیں۔ شہر میں واٹر مافیا کے کارندے بااثر سیاسی شخصیات اور واٹر بورڈ کے افسروں کی سرپرستی میں روزانہ کروڑوں روپے کما رہے ہیں جس سے واٹر بورڈ کی آمدن کم ہو رہی ہے۔
کراچی کے تین کروڑ سے زائد شہریوں کو فراہمی و نکاسی آب کی فراہمی کا بڑا ادارہ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ سندھ کی حکومت کے ماتحت ہے جب تک واٹر بورڈ بلدیہ عظمیٰ یا سٹی حکومت کراچی کے ماتحت تھا شہر میں پانی کی اتنی شدید قلت تھی نہ واٹر بورڈ کی آمدنی کم ہو رہی تھی مگر جب سے کے ڈبلیو ایس بی کا اندھی کمائی کا ادارہ سندھ کے محکمہ بلدیات کے کنٹرول میں آیا ہے واٹر بورڈ میں تقرر و تبادلے لاکھوں روپے کی رشوت وصولی پر ہوتے ہیں۔
جس سے واٹر بورڈ میں کرپشن اور اقربا پروری، پانی کی چوری، ٹھیکوں میں بدعنوانیاں، سیاسی رہنماؤں کے مقرر کرائے جانے والے افسران، بعض ارکان اسمبلی اور واٹر بورڈ کے معاملات چلانے والے محکمہ بلدیات کے افسران نے اس کو صرف اپنی ذاتی کمائی کا ذریعہ بنا رکھا ہے اور بورڈ کو تباہ کرنے اور ذاتی کمائی کے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں، واٹر بورڈ کے سربراہوں کا تقرر ان کی صلاحیت پر نہیں سیاسی وابستگی پر ہونے سے وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتے ہیں اور بورڈ میں کیا ہو رہا ہے۔
شہریوں کے بجائے واٹر ٹینکروں کو کہاں سے پانی مل رہا ہے اور غیر قانونی ہائیڈرنٹس کن کی سرپرستی میں چل رہے ہیں اس کی سندھ حکومت کو کوئی فکر نہیں۔ افسروں سے پمپنگ اسٹیشنوں پر تعینات وال مینوں نے جو پانی کھولنے بند کرنے پر متعین ہیں کرپشن اور من مانیوں کا بازار گرم رکھا ہے۔
شہریوں کو ملنے نہ ملے ان کے اثاثے تیزی سے بڑھتے ہیں ان کے شاہانہ اخراجات کوئی دیکھنے والا نہیں۔ واٹر اینڈ سیوریج بورڈ دو حصوں میں تقسیم ہے ایک شعبہ شہریوں کو پینے کا صاف پانی فراہم کرنے اور دوسرا شعبہ گندے پانی کی نکاسی کا ذمے دار ہے دونوں شعبوں کے الگ الگ ڈی ایم ڈی اور چیف انجینئرز ہیں۔
پورے شہر میں نکاسی آب کا سسٹم ناکارہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے شہر میں سیوریج لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار اور گٹر ابلنا معمول بنا ہوا ہے جس کی وجہ سے بچی کچھی سڑکیں بھی تباہ ہو رہی ہیں۔ روزنامہ ایکسپریس میں گندے پانی کے جمع ہونے کی تصاویر روز ہی شایع ہوتی ہیں جن میں اہم شاہراہیں بھی شامل ہیں۔ شہر کے بازار ہوں یا مارکیٹیں اور اندرونی گلیاں گندے پانی سے زیر آب رہتے ہیں۔
سیوریج بورڈ کا افسروں اور کنڈی مینوں کی ناقص کارکردگی کے باعث زیر آب علاقوں کی تصاویر میڈیا میں آتی رہتی ہیں اور پانی نہ ملنے پر احتجاج بھی ہوتا رہتا ہے۔ فراہمی و نکاسی آب کی لائنیں ٹوٹنے سے پانی زمین میں جا رہا ہے جس سے علاقائی عمارتوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
واٹر بورڈ کے مطابق لائنیں بہت پرانی ہو چکیں اور نئی لائنوں کے لیے اربوں روپے چاہئیں جس کے ملنے کی کوئی امید نہیں حکومت کے افسروں کو ذاتی کمائی کی فکر رہتی ہے شہریوں کی پریشانی کا کوئی احساس نہیں۔ عدلیہ سیاسی معاملات میں الجھی ہوئی ہے حکومت کو فکر نہیں کہ کسی سے پوچھے کہ شہریوں کے لیے پانی نہیں تو ٹینکروں کو صاف پانی کیوں مل رہا ہے اور واٹر ٹینکر مہنگے داموں کیوں فروخت ہو رہے ہیں؟