مالی بحران تھر کول پراجیکٹ کا تیسرا مرحلہ تعطل کا شکار

درآمد کنندگان کی ایل سیز کھولنے میں دشواریوں سے اہم نوعیت کے قومی منصوبے بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے

درآمد کنندگان کی ایل سیز کھولنے میں دشواریوں سے اہم نوعیت کے قومی منصوبے بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے (فوٹو فائل)

ملک میں جاری مالی بحران و ڈالر کی قلت کے باعث درآمد کنندگان کی ایل سیز کھولنے میں دشواریوں سے اہم نوعیت کے قومی منصوبے بھی متاثر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔

موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی ملک بھر میں بجلی کے صارفین کو طویل دورانیہ کی لوڈ شیڈنگ اور بجلی کے حصول میں دیگر پریشانیوں کا سامنا ہے۔

مہنگائی کی وجہ سے عام طبقہ کی قوت خرید میں کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے بجلی کے نرخ میں کمی اشد ضروری ہے آنے والے موسم گرما میں بجلی کی طلب میں اضافہ متوقع ہے جس سے بجلی کی پیداوار کے سستے اور قابل بھروسہ ذخائر پر انحصار کی ضرورت بھی پہلے سے زیادہ بڑھ چکی ہے۔


یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم کی تھر کول مائنز کو ریلوے لائن سے مارچ 2023 تک منسلک کرنے کی ہدایات

مالی سال 2021-22 میں تھر کے کوئلے سے بجلی کی فی یونٹ پیداواری لاگت 7سے 9روپے فی کلو واٹ رہی۔ اس کے برعکس درآمدی کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کی فی یونٹ لاگت 35روپے فی کلو واٹ تک ریکارڈ کی گئی۔

اس طرح تھر کے کوئلے نے پاکستان میں توانائی کی طلب کو کفایت بخش طریقے سے پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا تھر بلاک ٹو میں کوئلے کی کان کی پیداوار 3.8ملین ٹن سالانہ سے بڑھ کر 7.6ملین ٹن سالانہ تک پہنچ گئی۔
Load Next Story