پاک امریکا تعلقات …باہمی مفاد کا خیال رکھا جائے
گراسمین سے ملاقات کے موقعے پر صدر زرداری نے اسلام مخالف فلم پر گہری تشویش ظاہرکرتے ہوئے اس کی مذمت کی
امریکا کے پاکستان اور افغانستان کے لیے خصوصی نمایندے مارک گراسمین نے ہفتے کو صدر آصف علی زرداری اور وزیراعظم راجہ پرویز اشرف سے الگ الگ ملاقات میں دوطرفہ تعلقات' دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔
اس موقع پر امریکی ایلچی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ صدر آصف علی زرداری نے ڈرون حملوں کو غیر موثر اورغیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے اور اس کے متبادل پر بات چیت کی۔
پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان میںسوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا اور پاکستان میں باہمی تعلقات مضبوط ہوئے مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا نے دوستانہ ہاتھ کھینچ لیا اور دونوں ممالک میں پہلے سی گرمجوشی باقی نہ رہی۔ امریکا نے افغانستان کو بھی بھلا دیا۔امریکا اس وقت پاکستان کا ساتھ دیتا اور افغانستان کو تنہا نہ چھوڑتا تو آج اس خطے کے حالات مختلف ہوتے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی تو اس کی آنکھوں میں پھر محبت در آئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہاں تک کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا لیا۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی کیسے بنا، یہ الگ کہانی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ امریکا نے ابتدا میں پاکستان کو امداد بھی دی لیکن پھر بتدریج صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔
افغانستان پر امریکا نے قبضہ کر لیا اور پھر اس کی آنکھوں میں محبت کی جگہ نفرت اور چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے غصہ اور تنائو آنا شروع ہوگیا۔ اس نے دہشت گردی کی آڑ لے کر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کر دیے۔ پاکستان کے بارہا مطالبے کے باوجود امریکا نے ڈرون حملے بند نہیں کیے۔ اس سے جب بھی یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو جواباً اس نے ان حملوں میں تیزی لا کر یہ عندیہ دیا کہ وہ پاکستان کے مطالبے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ۔
اب پھر مارک گراسمین سے ملاقات میں صدر زرداری نے ڈرون حملے بند کرنے کا بجا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ حملے غیر موثر ہیں اور ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ، ان کا کوئی متبادل لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈرون حملوں میں مطلوب افراد بھی مارے گئے ہیں لیکن اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ان حملوں میں متعدد بے گناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں میں امریکا کے خلاف نفرت کو بڑھاوا ملنے سے دہشت گردی کے واقعات کو مہمیز ملتی ہے۔ امریکا اور پاکستان کا مشترکہ مقصد دہشت گردی کو ختم کرنا ہے جس کے لیے دونوں ممالک کوشاں ہیں۔ پاکستان نے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں اور وہ اب بھی عالمی برادری سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔
پاکستان نے اس جنگ کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ امریکا یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ دنیا بھر میں ملکوں کے درمیان تعلقات باہمی مفادات اور احترام پر استوار ہوتے ہیں۔ اگر امریکا ان عالمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنے کے بجائے باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے تودونوں ممالک کے تعلقات میں کبھی تنائو کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ یہ تنائو اور کشیدگی اسی وقت جنم لیتی ہے جب امریکا سپر طاقت ہونے کے زعم میں عالمی قوانین کو روندتے ہوئے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی شروع کر دیتا اور اس پر بے جا دبائو بڑھا دیتا ہے۔سلالہ پوسٹ پر حملہ امریکا کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ پیغام دینے کے لیے کیا گیا کہ امریکا پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔اس حملے کے بعد پاکستان نے راست اقدام کرتے ہوئے نیٹو سپلائی بند کر دی۔
آخر کار امریکا کو معذرت کرنا پڑی ،اس کے بعد نیٹو سپلائی بحال ہوئی ۔ صدر زرداری نے بجا کہا کہ القاعدہ اور دہشت گردوں کو شکست دینا پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے اور یہ تب ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جب احترام کی بنیاد پر باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ اس خطے میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک قدم آگے بڑھاتے ہوئے حقیقی معنوں میں باہمی مفاد پر مبنی تعلقات بحال کریں۔ اس وقت پاکستان کو افغانستان کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا بھی سامنا ہے۔ امریکا دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ان حملوں کا سدباب کرے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
یہ امریکا ہی ہے جو اپنے مفادات میں انتہائی حد تک طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ صدر سے ملاقات میں امریکی ایلچی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ تو اٹھایا ہے مگر اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دوسرے ممالک کے قوانین کا احترام کرنا بھی اس پر لازم ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیس عدالت میں ہے۔ امریکا کو پاکستانی عدالت کا فیصلہ آنے تک اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے گراسمین سے ملاقات کے موقع پر صائب مطالبہ کیا کہ امریکا توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد دے اور بھاشا ڈیم کی تعمیر میں اس کی شمولیت کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
امریکا نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 200 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے باعث اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور پاکستان کو تنہا اس بحران پر قابو پانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ امریکا اس موقع پر پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں معاونت کر کے باہمی تعلقات کی فضا کو خوشگوار بنا سکتا ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان میں نہ صرف امن و امان کے مسئلے کو جنم دیا ہے بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے بھی خطرے کی علامت بن گئی ہے۔ پاکستان اور امریکا مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کریں تو نہ صرف دہشت گردی پر قابو پانے میں آسانی رہے گی بلکہ پورے خطے کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئے گی۔
امریکا میں بننے والی متنازعہ فلم نے بھی مسلم برادری میں امریکا کے خلاف نفرت کے الائو کو مزید بھڑکایا ہے۔ گراسمین سے ملاقات کے موقعے پر صدر زرداری نے اسلام مخالف فلم پر گہری تشویش ظاہرکرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ صدر نے صائب کہا کہ اس قسم کی حرکات سے رواداری تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ صدر زرداری نے امریکا کو واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ کسی ایسے مذموم مقصد کی حمایت اور پشت پناہی نہ کرے جس سے امریکا اور مسلم دنیا کے درمیان باہمی تعلقات کو نقصان پہنچے اور پر تشدد کارروائیوں کو ہوا ملے۔ صدر زرداری نے اب گیند امریکی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ امریکا دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ڈرون حملوں کا سلسلہ بندکرے ، افغانستان سے ہونے والی سرحدی خلاف ورزیوں پر قابو پائے اور پاکستان کے خدشات اور تحفظات کو دور کرے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی فضا پھر سے اعتماد کی خوشبو سے مہک سکتی ہے۔
اس موقع پر امریکی ایلچی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ بھی اٹھایا۔ صدر آصف علی زرداری نے ڈرون حملوں کو غیر موثر اورغیر ضروری قرار دیتے ہوئے اسے بند کرنے اور اس کے متبادل پر بات چیت کی۔
پاکستان اور امریکا کے باہمی تعلقات اتار چڑھائو کا شکار رہے ہیں۔ افغانستان میںسوویت یونین کے خلاف جنگ میں امریکا اور پاکستان میں باہمی تعلقات مضبوط ہوئے مگر سوویت یونین کی تحلیل کے بعد امریکا نے دوستانہ ہاتھ کھینچ لیا اور دونوں ممالک میں پہلے سی گرمجوشی باقی نہ رہی۔ امریکا نے افغانستان کو بھی بھلا دیا۔امریکا اس وقت پاکستان کا ساتھ دیتا اور افغانستان کو تنہا نہ چھوڑتا تو آج اس خطے کے حالات مختلف ہوتے۔
نائن الیون کے بعد امریکا کو پاکستان کی ضرورت آن پڑی تو اس کی آنکھوں میں پھر محبت در آئی اور چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ یہاں تک کہ اس نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کو اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنا لیا۔پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکا کا اتحادی کیسے بنا، یہ الگ کہانی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ امریکا نے ابتدا میں پاکستان کو امداد بھی دی لیکن پھر بتدریج صورتحال تبدیل ہوتی گئی۔
افغانستان پر امریکا نے قبضہ کر لیا اور پھر اس کی آنکھوں میں محبت کی جگہ نفرت اور چہرے پر مسکراہٹ کے بجائے غصہ اور تنائو آنا شروع ہوگیا۔ اس نے دہشت گردی کی آڑ لے کر پاکستان کے سرحدی علاقوں میں ڈرون حملے شروع کر دیے۔ پاکستان کے بارہا مطالبے کے باوجود امریکا نے ڈرون حملے بند نہیں کیے۔ اس سے جب بھی یہ حملے بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو جواباً اس نے ان حملوں میں تیزی لا کر یہ عندیہ دیا کہ وہ پاکستان کے مطالبے کو اہمیت دینے کو تیار نہیں ۔
اب پھر مارک گراسمین سے ملاقات میں صدر زرداری نے ڈرون حملے بند کرنے کا بجا مطالبہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ یہ حملے غیر موثر ہیں اور ان سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے ، ان کا کوئی متبادل لائحہ عمل اختیار کیا جائے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ ڈرون حملوں میں مطلوب افراد بھی مارے گئے ہیں لیکن اس سچائی سے بھی انکار ممکن نہیں ہے کہ ان حملوں میں متعدد بے گناہ افراد بھی مارے جاتے ہیں جس سے وہاں کے لوگوں میں امریکا کے خلاف نفرت کو بڑھاوا ملنے سے دہشت گردی کے واقعات کو مہمیز ملتی ہے۔ امریکا اور پاکستان کا مشترکہ مقصد دہشت گردی کو ختم کرنا ہے جس کے لیے دونوں ممالک کوشاں ہیں۔ پاکستان نے اب تک دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بڑی قربانیاں دی ہیں اور وہ اب بھی عالمی برادری سے مکمل تعاون کر رہا ہے۔
پاکستان نے اس جنگ کی بھاری قیمت بھی ادا کی ہے۔ امریکا یہ بات بخوبی جانتا ہے کہ دنیا بھر میں ملکوں کے درمیان تعلقات باہمی مفادات اور احترام پر استوار ہوتے ہیں۔ اگر امریکا ان عالمی قوانین کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان کو ڈکٹیٹ کرنے کے بجائے باہمی احترام کو ملحوظ خاطر رکھے تودونوں ممالک کے تعلقات میں کبھی تنائو کی کیفیت پیدا نہ ہو۔ یہ تنائو اور کشیدگی اسی وقت جنم لیتی ہے جب امریکا سپر طاقت ہونے کے زعم میں عالمی قوانین کو روندتے ہوئے پاکستان کی سرحدی خلاف ورزی شروع کر دیتا اور اس پر بے جا دبائو بڑھا دیتا ہے۔سلالہ پوسٹ پر حملہ امریکا کی غلطی نہیں تھی بلکہ یہ پیغام دینے کے لیے کیا گیا کہ امریکا پاکستان کو دبائو میں لانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔اس حملے کے بعد پاکستان نے راست اقدام کرتے ہوئے نیٹو سپلائی بند کر دی۔
آخر کار امریکا کو معذرت کرنا پڑی ،اس کے بعد نیٹو سپلائی بحال ہوئی ۔ صدر زرداری نے بجا کہا کہ القاعدہ اور دہشت گردوں کو شکست دینا پاکستان اور امریکا کا مشترکہ مقصد ہے اور یہ تب ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے جب احترام کی بنیاد پر باہمی تعاون کو فروغ دیا جائے۔ اس خطے میں امن و استحکام کے لیے دونوں ممالک قدم آگے بڑھاتے ہوئے حقیقی معنوں میں باہمی مفاد پر مبنی تعلقات بحال کریں۔ اس وقت پاکستان کو افغانستان کی جانب سے سرحدی خلاف ورزی کا بھی سامنا ہے۔ امریکا دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ان حملوں کا سدباب کرے۔ پاکستان نے ہمیشہ امریکا کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے۔
یہ امریکا ہی ہے جو اپنے مفادات میں انتہائی حد تک طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ صدر سے ملاقات میں امریکی ایلچی نے ڈاکٹر شکیل آفریدی کا معاملہ تو اٹھایا ہے مگر اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دوسرے ممالک کے قوانین کا احترام کرنا بھی اس پر لازم ہے۔ ڈاکٹر شکیل آفریدی کا کیس عدالت میں ہے۔ امریکا کو پاکستانی عدالت کا فیصلہ آنے تک اس معاملے میں مداخلت نہیں کرنا چاہیے۔ پاکستان کو اس وقت توانائی کے بحران کا سامنا ہے۔ وزیراعظم نے گراسمین سے ملاقات کے موقع پر صائب مطالبہ کیا کہ امریکا توانائی کے بحران پر قابو پانے میں مدد دے اور بھاشا ڈیم کی تعمیر میں اس کی شمولیت کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
امریکا نے بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے 200 ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔ امریکا بخوبی ادراک رکھتا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران کے باعث اس کی معیشت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے اور پاکستان کو تنہا اس بحران پر قابو پانے میں دشواریوں کا سامنا ہے۔ امریکا اس موقع پر پاکستان کو توانائی کے بحران سے نکالنے میں معاونت کر کے باہمی تعلقات کی فضا کو خوشگوار بنا سکتا ہے۔ دہشت گردی نے پاکستان میں نہ صرف امن و امان کے مسئلے کو جنم دیا ہے بلکہ یہ پاکستانی معیشت کے لیے بھی خطرے کی علامت بن گئی ہے۔ پاکستان اور امریکا مشترکہ مفادات کے لیے مل کر کام کریں تو نہ صرف دہشت گردی پر قابو پانے میں آسانی رہے گی بلکہ پورے خطے کے معاشی حالات میں بھی بہتری آئے گی۔
امریکا میں بننے والی متنازعہ فلم نے بھی مسلم برادری میں امریکا کے خلاف نفرت کے الائو کو مزید بھڑکایا ہے۔ گراسمین سے ملاقات کے موقعے پر صدر زرداری نے اسلام مخالف فلم پر گہری تشویش ظاہرکرتے ہوئے اس کی مذمت کی۔ صدر نے صائب کہا کہ اس قسم کی حرکات سے رواداری تیزی سے ختم ہو رہی ہے۔ صدر زرداری نے امریکا کو واضح عندیہ دیا ہے کہ وہ کسی ایسے مذموم مقصد کی حمایت اور پشت پناہی نہ کرے جس سے امریکا اور مسلم دنیا کے درمیان باہمی تعلقات کو نقصان پہنچے اور پر تشدد کارروائیوں کو ہوا ملے۔ صدر زرداری نے اب گیند امریکی کورٹ میں پھینک دی ہے۔ امریکا دو طرفہ تعلقات میں بہتری کے لیے ڈرون حملوں کا سلسلہ بندکرے ، افغانستان سے ہونے والی سرحدی خلاف ورزیوں پر قابو پائے اور پاکستان کے خدشات اور تحفظات کو دور کرے تو دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی فضا پھر سے اعتماد کی خوشبو سے مہک سکتی ہے۔