پاک افغان تعلقات درپیش چیلنجز

افغانستان جنوبی اور وسطیٰ ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی، تجارتی اور ٹرانزٹ روٹ ہے

افغانستان جنوبی اور وسطیٰ ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی، تجارتی اور ٹرانزٹ روٹ ہے (فوٹو: فائل)

افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا ہے کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی دونوں سے گزارش ہے کہ بیٹھ کر بات کریں، ان خیالات کا اظہار انھوں نے اسلام آباد میں خطاب کرتے ہوئے کیا ہے۔

ان کا مزید کہا کہ افغانستان میں طالبان نے کبھی نہیں کہا کہ خواتین کی تعلیم غیر اسلامی ہے یا اس پر پابندی ہے۔ انھوں نے مزید کہا کہ خطے میں معاشی خوشحالی اور رابطہ کاری کے لیے پاکستانی کوششوں کو سراہتے ہیں۔

دوسری جانب اقوام متحدہ نے طالبان حکومت پر زور دیا ہے کہ افغانستان میں کوڑے مارنے اور سنگسار کرنے کی سزاؤں کا سلسلہ بند کریں۔

افغانستان جنوبی اور وسطیٰ ایشیا کے درمیان اہم جغرافیائی، تجارتی اور ٹرانزٹ روٹ ہے، وہ اربوں ڈالر کے غیر استعمال شدہ معدنی وسائل کا مالک ہے ، لیکن دہائیوں پر محیط خانہ جنگی اور غیرملکی طاقتوں کی یلغار نے افغانستان کو ایک تباہ حال ملک میں تبدیل کردیا ہے۔

چین اور پاکستانی حکام کہہ چکے ہیں کہ وہ طالبان کی زیر قیادت افغانستان کو سی پیک کے بنیادی ڈھانچے کے منصوبے میں خوش آمدید کہیں گے جو بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا حصہ ہے۔

افغانستان سے امریکی انخلاء اور طالبان کی کامیابی کی وجوہات کچھ بھی ہو مگر پاکستان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔

افغانستان میں جب سے طالبان برسراقتدار آئے ہیں، وہ اقوام عالم میں اپنے آپ کو تاحال قابل قبول نہیں بنا سکے، جس کی وجہ سے افغانستان معاشی اور کاروباری جکڑ بندیوں کا شکار ہے، مگر پاکستان نے ترقی یافتہ ممالک کو افغان عوام کی امداد پر آمادہ کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا جب کہ پاکستان بذات خود شدید معاشی مسائل اور مشکلات سے دوچار ہے۔

افغانستان کی طالبان حکومت کو پاکستان نے حد درجہ رعایتیں فراہم کیں تاکہ وہاں انسان المیے سے بچا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ دوطرفہ تجارت میں افغانستان کا پلڑا بھاری رہا ہے، اب دوطرفہ تجارت میں توازن پیدا ہو رہا ہے۔

انسانی ہمدردی اور تاجروں کو درپیش مشکلات کی وجہ سے پاکستان نے اشیاء خورونوش سمیت تعمیراتی سامان کی سولہ اشیاء کو مقامی کرنسی میں تجارت کی اجازت دے دی ہے جس سے تاجروں نے قدرے سکھ کا سانس لیا ہے، لیکن اس کے باوجود پاک افغان تجارت کا مستقبل طالبان کی پالیسیوں اور عالمی برادری کے ساتھ کیے گئے وعدوں کی تکمیل پر منحصر ہے۔

امریکا اورنیٹو افواج کے انخلا کے بعد اگست 2021 میں طالبان نے کابل میں اقتدار سنبھال لیا تھا لیکن تاحال کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو باقاعدہ تسلیم نہیں کیا ہے۔

تجارت اور کاروبار کے حوالے سے عالمی پابندیاں بھی عائد ہے۔ پاکستان نے نہ صرف افغان عوام کے لیے اپنے دروازے کھولے ہیں بلکہ افغان وزراء اور متعدد اعلیٰ عہدیداروں کے پاکستان دورے کو بھی خوش آمدید کہا ہے۔ پاکستان اپنے بہترین دوست چین کی مدد سے افغانستان کو بحران سے نکالنے میں نمایاں کردار ادا کر رہا ہے لیکن افغان وزیر خارجہ کا اسلام آباد میں بیٹھ کر یہ کہنا کہ حکومت پاکستان ، تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کرے ، درست نہیں لگتا ہے۔

اس کے بجائے وہ یہ کہتے کہ ہم پاکستان کے تحفظات کو دور کریں گے، افغانستان میں موجود ایسے عناصر یا تنظیم جو ہماری سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں۔


ان کے خلاف سخت ایکشن کریں گے لیکن انھوں نے یہ نہیں کہا بلکہ مذاکرات کا مشورہ دے دیا، سوچنے والی بات یہ ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ افغانستان کی طالبان حکومت رشیددوستم یا شمالی اتحاد کے ساتھ مذاکرات کرے تو اس پر طالبان کا موقف کیا ہوگا؟ آخر افغان حکومت کیوں پاکستانی حکومت کو مجبور کرنا چاہ رہی ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرے۔

اس سوال کا سادہ سا جواب ہے ، کیونکہ ٹی ٹی پی کو افغانستان کی سرپرستی اور مدد حاصل ہے۔ بجائے دوحہ معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے طالبان حکومت ٹی ٹی پی کے خلاف ٹھوس کارروائی کرتی، طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کی پاکستان کے خلاف پشت پناہی شروع کر رکھی ہے۔ ٹی ٹی پی مستقل طور پر افغانستان کے اندر سے پاکستان کی مسلح افواج،سیکوریٹی فورسز اور بے گناہ شہریوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔

پاکستان کو شمال مغربی بارڈر سے سنگین چیلنجز درپیش ہو سکتے ہیں۔ چاہے وہ بھارت کی افغانستان میں دوبارہ انٹری سے پیدا ہونے والے سیاسی و سفارتی چیلنجز ہوں یا ٹی ٹی پی اور داعش کی صورت میں دہشت گردی کے چیلنجز یا پھر طالبان حکومت کی ناکامی کی صورت پیدا ہونے والا انسانی المیہ ہو، ہمیں ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر قومی مشاورت سے اٹھانا ہوگا۔

پاکستان کے سیکیورٹی اداروں، سیاسی جماعتوں کی قیادت ، سرکاری مشینری کو بہت محتاط ہونا پڑے گا ۔ پاکستان کے پالیسی سازوںکو شمال مغرب میں ستر اسی سال پرانے پالیسی کو تبدیل کرنا ہوگا کیونکہ وہ پالیسی سرمایہ داری نظام اور سوشلسٹ نظام کے درمیان سرد جنگ کے تناظر میں تھی،اب سرد جنگ کا دور ختم ہوچکا ہے ۔

تزویراتی گہرائی اور افغان طالبان ہمارے دوست کے نظریے نے پاکستان کو افغانستان کے بارے میں کوئی واضح پالیسی بنانے نہیں دی۔ اس تصور نے پاکستان کے اندر ایسے مائنڈ سیٹ کو پروان چڑھایا کو جو طالبان کے ساتھ ہم آہنگ ہے ۔ افغان طالبان حکومت کو عالمی سطح پر تاحال تسلیم نہیں کیا گیا ہے، پاکستان نے سفارتی سطح پر بہت زیادہ کوششیں اس ضمن میں کی ہیں لیکن افغانستان عالمی برادری میں تنہائی کا شکار ہے۔

طالبان حکومت کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماضی کے برعکس اکیسویں صدی کی دنیا اظہار رائے پر پابندیوں، انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، خواتین کی تعلیم اور روزگار پر پابندیوں کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔

عالمی سطح پر قبولیت اور سفارتی تنہائی کے خاتمے کے لیے طالبان حکومت کو سیاسی اور سماجی پابندیوں میں نرمی برتتے ہوئے بالغ نظری کے ساتھ دنیا کے ساتھ چلنا ہوگا۔ ہم اس حقیقت سے بھی نظریں نہیں چرا سکتے کہ دونوں ممالک تہذیب ، ثقافت، زبان ، رسم و رواج اور مذہب کے اتنے رشتوں میں جڑے ہوئے ہیں کہ حکمران چاہتے ہوئے بھی دونوں ممالک کے عوام کو ایک دوسرے سے جدا نہیں کر سکتے۔

نہ صرف یہ کہ اب ان افغان مہاجرین کی تیسری نسل پاکستان میں جوان ہو رہی ہے ، خواہ ان کی قانونی حیثیت کچھ بھی کیوں نہ ہو۔

ان کا اوڑھنا بچھونا پاکستان ہے، ان کا جینا مرنا پاکستان میں ہے۔پاکستان میں پشاور، کوئٹہ، مہمند خیبر پارا چنار، میر انشاہ اور چمن افغان عوام کے سب سے بڑے کاروباری مراکز تھے، جب کہ افغانستان میں کابل جلال آباد کونڑ اور قندھار پاکستانیوں سے بھرے رہتے۔ اس آزادانہ کاروباری اور معاشی سرگرمیوں سے دونوں ممالک کو فائدہ کم تھا یا زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اس سے دونوں ممالک کے لاکھوں لوگ براہ راست اور کروڑوں لوگ بالواسطہ مستفید ہو رہے تھے۔ جس میں تاجروں کے علاوہ، دیہاڑی دار مزدور، ڈرائیور، کنڈیکٹر، گاڑی مالکان، ہوٹل مالکان منشی اور ہزاروں چھوٹے بڑے دکاندار شامل تھے۔

افغانستان کئی دہائیوں تک عالمی مصنوعات کی بڑی منڈی اور ٹیکس فری زون رہا ہے یہاں سے یہ ٹیکس فری سستی مصنوعات کوئٹہ اور پشاور کے راستے ملک کے باقی حصوں تک بآسانی پہنچائی جاتی تھی۔ نائن الیون کے بعد افغانستان میں امریکا سمیت نیٹو فوجوں کی موجودگی نے اس کاروبار اور آزادانہ آمدورفت کو نقصان پہنچایا، لیکن اس کے باوجود سامان کی ترسیل کا سلسلہ ختم نہیں تھا۔

بد قسمتی سے سولہ دسمبر دو ہزار چودہ کو آرمی پبلک اسکول کا سانحہ رونما ہوا، دہشت گردی کے اس بڑے واقعے میں کم و بیش ڈیڑھ سو معصوم طلبا لقمہ اجل بنے۔ سرحد پار سے منصوبہ بندی کرنے والے اس واقعہ کے نتیجے میں پاکستان نے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کے لیے پاک افغان بارڈر کو سیل کرنے کے لیے اس پر باڑ لگانے کا منصوبہ بنایا اس منصوبہ پر کثیر اخراجات کے باوجود یہ باڑ مکمل طور پر غیر قانونی آمدورفت کو روکنے میں ناکام رہی۔

اگر افغان طالبان، خواتین سمیت انسانی حقوق کے احترام کی پاسداری میں کامیاب ہوتے ہیں، وہ اپنی سرزمین کسی بھی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے سے بچا سکتے ہیں تو مستقبل قریب میں عالمی برادری کی جانب سے ان کی حکومت کو تسلیم کرنے اور ان کے ساتھ کاروبار اور تعلقات کو وسعت دینے کا مرحلہ آ سکتا ہے جو پاکستان کے ساتھ مزید تجارت کے فروغ کا سبب بنے گا، اگر خدانخواستہ طالبان عالمی برادری کے تحفظات کو دور کرنے میں ناکام رہے۔ تو پاکستان تمام تر خواہش اور کوشش کے باوجود دو طرفہ تجارت کو برقرار نہیں رکھ سکے گا۔ اور یہی نکتہ پاکستان اور افغانستان دونوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔
Load Next Story