ریڈ لائن کراس ہوگئی
اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی ٹولے نے یوں دھڑلے سے حملے کیے ہوں
نیب نے رینجرز کی مدد سے سابق وزیراعظم عمران خان کو احاطہ عدالت سے گرفتار کرلیا۔ عمران خان وہیل چیئر پر احاطہ عدالت میں گئے تھے لیکن جب نیب نے انہیں گرفتار کرکے ڈالے میں ڈالا تو انہیں دونوں پیروں پر چلاتے ہوئے گاڑی میں لے جایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہ افسانہ بھی ختم ہوا کہ عمران خان کی گرفتاری نہیں ہوسکتی۔ اس سے ثابت ہوا کہ جب گرفتاری کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو پھر گرفتاری ہوجاتی ہے۔
نیب نے عمران خان کو القادر یونیورسٹی کی زمین وغیرہ کی بے ضابطگی کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔ اس کیس میں انگلیاں بشریٰ بی بی پر بھی اٹھتی ہیں۔ یہ کیس کیا ہے؟ اس کالم میں اس کی تفصیل ممکن نہیں، لہذا فی الوقت ہم عمران خان کی گرفتاری کے معاملے کو فوکس کرتے ہیں۔
9 مئی کی دوپہر کو میں کینٹ کے علاقے میں موجود تھا کہ ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک صحافی کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی خبر آئی۔ سچ پوچھیے تو مجھے یہی لگا تھا کہ اب احتجاج ہوگا تو زمان پارک، لبرٹی اور پریس کلب وغیرہ پر ہوگا، اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ میں بیگم اور بچوں کے ساتھ شیخ زید اسپتال کی طرف کام سے نکل گیا۔ اس کے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد مجھے میرے بھائی کی کال آئی کہ شہر کے حالات خراب ہوگئے ہیں، جہاں ہو، وہیں رہو۔ اب اگر نکلو گے تو شرپسندوں میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ مجھے کینٹ میں داخل ہونا ہے، اس کے بعد گھر ساتھ ہی ہے۔ کینٹ میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ بھائی نے بتایا کہ مظاہرین کینٹ میں داخل ہوگئے ہیں اور کور کمانڈر لاہور کے گھر کا گھیراؤ جاری ہے۔
یہ میرے لیے چونکا دینے والی خبر تھی۔ میں نے اپنا کام ادھورا چھوڑا، فوراً بیگم بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کےلیے نکل گیا۔ میرا روٹ فیروز پور روڈ سے والٹن، والٹن سے پیکجز مال کے ساتھ سے ڈیفنس، وہاں سے غازی روڈ سے ہوتا ہوا گھر پہنچنا تھا۔ راستے میں گلبرگ جانے والے تمام راستے بند تھے، نہر کی جانب بھی بندش تھی۔ اچھرہ کی جانب سے ٹولیاں غالباً گلبرگ کی جانب جارہی تھی۔ ماڈل ٹاؤن سے ایک قافلہ گلبرگ کی جانب جاتا ہوا نظر آیا۔ والٹن پر ٹولیوں کی صورت میں احتجاج ہورہا تھا۔ مجھے اللہ نے صحیح سلامت گھر پہنچا دیا۔
مجھے یاد ہے کہ جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا تو ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ اس وقت میرا ایک دوست میرے گھر ملنے آیا ہوا تھا۔ اُس وقت ہم نے اپنے دوست کو چار گھنٹے کے بعد بمشکل اس کے گھر صحیح سلامت پہنچایا تھا۔ میں نے اُن چار گھنٹوں میں تب لاہور کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُس وقت ایک عالمی لیڈر کا قتل ہوا تھا۔ لوگوں میں غم و غصہ تھا۔ اُس نازک وقت پر سابق صدر آصف زرداری نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگایا تھا۔ اسٹبلشمنٹ آج بھی اس وجہ سے زرداری کی قدر کرتی ہے۔ اُس وقت کوئی اور نعرہ پاکستان کی وحدت کو ختم کرسکتا تھا۔ لیکن سیاسی انسان ہمیشہ وقت اور حالات کو دیکھ کر چلتا ہے۔ زرداری پر آج بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے آسانی کی کمک بھی پہنچ جاتی ہے۔ نجی محافل میں بھی یار دوست اس کی مٹی پلید ضرور کرتے ہیں لیکن ایک جگہ پر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کھپے کا نعرہ ہمارا دل جیت گیا تھا۔ یہ سیاسی بصیرت کی بات ہوتی ہے۔
عمران خان کوئی فرشتہ نہیں۔ عمران خان ایک کھلنڈرانہ طبعیت کا مالک جارح مزاج سیاسی شخصیت ہے۔ اس کے دامن پر بھی بہت سے چھینٹے ہیں۔ عمران خان اپنے بہت سے گناہوں کا اعتراف اپنی زبان سے بہت سے انٹرویوز میں کرچکا ہے۔ اس میں جوا بازی بھی شامل ہے، جو کہ پاکستان کے قانون کے حساب سے جرم ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ موصوف حکومت میں تھے تو کیا گل کھلائے جارہے تھے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ کیا وہ قانون سے بالاتر ہے؟ کیا اس کا کہا ہوا پتھر پر لکیر ہے؟ عمران خان بھی دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح ہے۔ اگر انہوں نے الزامات پر جیلیں بھگتی ہیں تواس کو استثنیٰ کیوں حاصل ہو؟
یہاں یہ بات بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ کیس تو نیب کا تھا، گرفتار بھی نیب کے حکم نامے کی وجہ سے ہوا تو حملہ فوجی اثاثوں پر کیوں کیا گیا؟ یہ اصل میں اُس بیانیے کا نتیجہ ہے جو عمران خان نے ایک سال میں بنایا تھا۔ اس بیانیے سے اپنے فالورز میں نفرت بھری گئی۔ جب عدم اعتماد کی وجہ سے حکومت سے نکالے گئے تو یہی بیانیہ بنایا تھا کہ امریکا کے حکم پر فوج نے مجھے بے دخل کیا ہے۔ اس کے بعد امریکا سے صلح کرلی لیکن فوج کی جانب اپنی توپوں کا رخ بدستور قائم رکھا اور حتیٰ کہ چند روز پہلے فوج کو پریس ریلیز جاری کرنی پڑی کہ حاضر سروس افسران پر بے بنیاد الزامات کے بجائے قانونی فورمز سے رجوع کیا جائے۔ وزیر آباد حملے کے بعد بھی میجر جنرل فیصل نصیر جیسے شاندار اور کیریئر آفیسر پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے گئے اور پھر انہیں آج تک تواتر کے ساتھ دہرایا جارہا ہے۔ ہمیں کل جو کچھ نظر آیا یہ سب اسی کا نتیجہ تھا۔
مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر فوجی مقامات پر حملے ایک سوچی سمجھی سازش ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تحریک انصاف کو علم تھا کہ جلد یا بدیر عمران خان اپنے جرائم کی وجہ سے گرفتار ہوگا اور انہوں نے یہ پلاننگ پہلے سے کی ہوئی تھی کہ گرفتاری کی صورت میں کب اور کہاں ٹارگٹ کرنا ہے اور کیا کرنا ہے؟ اور انہوں نے اپنی پلاننگ کے حساب سے بالکل ویسا ہی کیا۔ اس پلاننگ میں پی ٹی آئی کے تمام بڑے بھی شامل نظر آتے ہیں۔ کیسے؟ کیونکہ بعض مقامات پر خاموشی بھی جرم ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کارکنان کے جذبات کو کنٹرول کریں اور انہیں ڈائریکشن دیں۔ اس کے بعد یہ رزلٹ بتاتا ہے کہ ڈائریکشن ٹھیک تھی یا نہیں تھی۔ کل کے رزلٹ نے یہ بتایا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ڈائریکشن بالکل غلط تھی۔ انہوں نے حب عمران میں ریڈ لائنز کو کراس کیا ہے۔
اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی ٹولے نے یوں دھڑلے سے حملے کیے ہوں۔ احتجاج اور فساد میں فرق ہی صرف سلیقے کا ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان نے کل فساد کیا۔ وہ کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہوئے، اس میں لوٹ مار کی، توڑ پھوڑ کی، آگ لگائی اور پھر ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے رہے۔ ان ویڈیوز کو ہمسایہ ممالک نے اٹھایا اور پاکستان کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوا۔ اب یہ سوچیے کہ کیا فوج خاموش رہے گی؟ فوج میں انفرادیت کب ہوتی ہے؟ یہ ایک ادارہ ہے اور اس حملے کو ادارے پر حملہ ہی تصور کیا جائے گا۔ فوج کا ردعمل یقیناً بہت شدید ہوگا۔ اب پی ٹی آئی ایک کروڑ وضاحتیں بھی پیش کردے، یہ حملہ آوروں سے جتنا مرضی اعلان لاتعلقی کردے، یہ حملہ اس کے گلے میں بہت بری طرح سے فٹ ہوگا اور اس کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
اب جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو بعین قانون کے مطابق قرار دیا ہے تو یہ سارا احتجاج، جو کہ درحقیقت فساد تھا، یہ پی ٹی آئی کے کھاتے میں لکھا جاچکا ہے۔ جو کچھ ہوچکا، وہ احمقانہ حد تک غلط ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال اب پرانی طرح کی نہیں رہے گی۔ اس میں تبدیلی آئے گی اور شاید بڑی تبدیلی آئے۔ اب معاملات بالکل ہی بدلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یقیناً اس کا خمیازہ بھی پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑے گا۔ میں حیران ہوں کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو حالات کو ٹھیک سے پڑھ لیتا اور ریڈ لائن کو کراس ہونے سے روکتا؟ یہ سب کیا سوچ رہے ہیں اور کیا چاہ رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
نیب نے عمران خان کو القادر یونیورسٹی کی زمین وغیرہ کی بے ضابطگی کے کیس میں گرفتار کیا ہے۔ اس کیس میں انگلیاں بشریٰ بی بی پر بھی اٹھتی ہیں۔ یہ کیس کیا ہے؟ اس کالم میں اس کی تفصیل ممکن نہیں، لہذا فی الوقت ہم عمران خان کی گرفتاری کے معاملے کو فوکس کرتے ہیں۔
9 مئی کی دوپہر کو میں کینٹ کے علاقے میں موجود تھا کہ ایک واٹس ایپ گروپ میں ایک صحافی کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کی خبر آئی۔ سچ پوچھیے تو مجھے یہی لگا تھا کہ اب احتجاج ہوگا تو زمان پارک، لبرٹی اور پریس کلب وغیرہ پر ہوگا، اس سے زیادہ کیا ہوگا۔ میں بیگم اور بچوں کے ساتھ شیخ زید اسپتال کی طرف کام سے نکل گیا۔ اس کے تقریباً ایک ڈیڑھ گھنٹے کے بعد مجھے میرے بھائی کی کال آئی کہ شہر کے حالات خراب ہوگئے ہیں، جہاں ہو، وہیں رہو۔ اب اگر نکلو گے تو شرپسندوں میں پھنس جاؤ گے۔ میں نے کہا کہ مجھے کینٹ میں داخل ہونا ہے، اس کے بعد گھر ساتھ ہی ہے۔ کینٹ میں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔ بھائی نے بتایا کہ مظاہرین کینٹ میں داخل ہوگئے ہیں اور کور کمانڈر لاہور کے گھر کا گھیراؤ جاری ہے۔
یہ میرے لیے چونکا دینے والی خبر تھی۔ میں نے اپنا کام ادھورا چھوڑا، فوراً بیگم بچوں کو گاڑی میں بٹھایا اور گھر کےلیے نکل گیا۔ میرا روٹ فیروز پور روڈ سے والٹن، والٹن سے پیکجز مال کے ساتھ سے ڈیفنس، وہاں سے غازی روڈ سے ہوتا ہوا گھر پہنچنا تھا۔ راستے میں گلبرگ جانے والے تمام راستے بند تھے، نہر کی جانب بھی بندش تھی۔ اچھرہ کی جانب سے ٹولیاں غالباً گلبرگ کی جانب جارہی تھی۔ ماڈل ٹاؤن سے ایک قافلہ گلبرگ کی جانب جاتا ہوا نظر آیا۔ والٹن پر ٹولیوں کی صورت میں احتجاج ہورہا تھا۔ مجھے اللہ نے صحیح سلامت گھر پہنچا دیا۔
مجھے یاد ہے کہ جب بے نظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تھا تو ملک بھر میں ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ اس وقت میرا ایک دوست میرے گھر ملنے آیا ہوا تھا۔ اُس وقت ہم نے اپنے دوست کو چار گھنٹے کے بعد بمشکل اس کے گھر صحیح سلامت پہنچایا تھا۔ میں نے اُن چار گھنٹوں میں تب لاہور کو جلتے ہوئے دیکھا تھا۔ اُس وقت ایک عالمی لیڈر کا قتل ہوا تھا۔ لوگوں میں غم و غصہ تھا۔ اُس نازک وقت پر سابق صدر آصف زرداری نے ''پاکستان کھپے'' کا نعرہ لگایا تھا۔ اسٹبلشمنٹ آج بھی اس وجہ سے زرداری کی قدر کرتی ہے۔ اُس وقت کوئی اور نعرہ پاکستان کی وحدت کو ختم کرسکتا تھا۔ لیکن سیاسی انسان ہمیشہ وقت اور حالات کو دیکھ کر چلتا ہے۔ زرداری پر آج بھی کوئی مشکل وقت آتا ہے تو کہیں نہ کہیں سے آسانی کی کمک بھی پہنچ جاتی ہے۔ نجی محافل میں بھی یار دوست اس کی مٹی پلید ضرور کرتے ہیں لیکن ایک جگہ پر یہ بھی کہتے ہیں کہ پاکستان کھپے کا نعرہ ہمارا دل جیت گیا تھا۔ یہ سیاسی بصیرت کی بات ہوتی ہے۔
عمران خان کوئی فرشتہ نہیں۔ عمران خان ایک کھلنڈرانہ طبعیت کا مالک جارح مزاج سیاسی شخصیت ہے۔ اس کے دامن پر بھی بہت سے چھینٹے ہیں۔ عمران خان اپنے بہت سے گناہوں کا اعتراف اپنی زبان سے بہت سے انٹرویوز میں کرچکا ہے۔ اس میں جوا بازی بھی شامل ہے، جو کہ پاکستان کے قانون کے حساب سے جرم ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ موصوف حکومت میں تھے تو کیا گل کھلائے جارہے تھے، یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ اُس کو گرفتار کیوں نہیں کیا جاسکتا؟ کیا وہ قانون سے بالاتر ہے؟ کیا اس کا کہا ہوا پتھر پر لکیر ہے؟ عمران خان بھی دوسرے سیاسی لیڈروں کی طرح ہے۔ اگر انہوں نے الزامات پر جیلیں بھگتی ہیں تواس کو استثنیٰ کیوں حاصل ہو؟
یہاں یہ بات بالکل بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ کیس تو نیب کا تھا، گرفتار بھی نیب کے حکم نامے کی وجہ سے ہوا تو حملہ فوجی اثاثوں پر کیوں کیا گیا؟ یہ اصل میں اُس بیانیے کا نتیجہ ہے جو عمران خان نے ایک سال میں بنایا تھا۔ اس بیانیے سے اپنے فالورز میں نفرت بھری گئی۔ جب عدم اعتماد کی وجہ سے حکومت سے نکالے گئے تو یہی بیانیہ بنایا تھا کہ امریکا کے حکم پر فوج نے مجھے بے دخل کیا ہے۔ اس کے بعد امریکا سے صلح کرلی لیکن فوج کی جانب اپنی توپوں کا رخ بدستور قائم رکھا اور حتیٰ کہ چند روز پہلے فوج کو پریس ریلیز جاری کرنی پڑی کہ حاضر سروس افسران پر بے بنیاد الزامات کے بجائے قانونی فورمز سے رجوع کیا جائے۔ وزیر آباد حملے کے بعد بھی میجر جنرل فیصل نصیر جیسے شاندار اور کیریئر آفیسر پر بے بنیاد اور جھوٹے الزامات لگائے گئے اور پھر انہیں آج تک تواتر کے ساتھ دہرایا جارہا ہے۔ ہمیں کل جو کچھ نظر آیا یہ سب اسی کا نتیجہ تھا۔
مجھے ایسا کیوں محسوس ہورہا ہے کہ جی ایچ کیو اور کور کمانڈر ہاؤس سمیت دیگر فوجی مقامات پر حملے ایک سوچی سمجھی سازش ہیں۔ سادہ سی بات ہے کہ تحریک انصاف کو علم تھا کہ جلد یا بدیر عمران خان اپنے جرائم کی وجہ سے گرفتار ہوگا اور انہوں نے یہ پلاننگ پہلے سے کی ہوئی تھی کہ گرفتاری کی صورت میں کب اور کہاں ٹارگٹ کرنا ہے اور کیا کرنا ہے؟ اور انہوں نے اپنی پلاننگ کے حساب سے بالکل ویسا ہی کیا۔ اس پلاننگ میں پی ٹی آئی کے تمام بڑے بھی شامل نظر آتے ہیں۔ کیسے؟ کیونکہ بعض مقامات پر خاموشی بھی جرم ہوتی ہے۔ سیاسی قیادت کا کام ہوتا ہے کہ وہ کارکنان کے جذبات کو کنٹرول کریں اور انہیں ڈائریکشن دیں۔ اس کے بعد یہ رزلٹ بتاتا ہے کہ ڈائریکشن ٹھیک تھی یا نہیں تھی۔ کل کے رزلٹ نے یہ بتایا ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی ڈائریکشن بالکل غلط تھی۔ انہوں نے حب عمران میں ریڈ لائنز کو کراس کیا ہے۔
اس سے قبل ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی سیاسی ٹولے نے یوں دھڑلے سے حملے کیے ہوں۔ احتجاج اور فساد میں فرق ہی صرف سلیقے کا ہوتا ہے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان نے کل فساد کیا۔ وہ کور کمانڈر ہاؤس میں داخل ہوئے، اس میں لوٹ مار کی، توڑ پھوڑ کی، آگ لگائی اور پھر ویڈیوز بنا کر سوشل میڈیا پر ڈالتے رہے۔ ان ویڈیوز کو ہمسایہ ممالک نے اٹھایا اور پاکستان کی بدنامی میں مزید اضافہ ہوا۔ اب یہ سوچیے کہ کیا فوج خاموش رہے گی؟ فوج میں انفرادیت کب ہوتی ہے؟ یہ ایک ادارہ ہے اور اس حملے کو ادارے پر حملہ ہی تصور کیا جائے گا۔ فوج کا ردعمل یقیناً بہت شدید ہوگا۔ اب پی ٹی آئی ایک کروڑ وضاحتیں بھی پیش کردے، یہ حملہ آوروں سے جتنا مرضی اعلان لاتعلقی کردے، یہ حملہ اس کے گلے میں بہت بری طرح سے فٹ ہوگا اور اس کو اس کا جواب دینا ہوگا۔
اب جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کی گرفتاری کو بعین قانون کے مطابق قرار دیا ہے تو یہ سارا احتجاج، جو کہ درحقیقت فساد تھا، یہ پی ٹی آئی کے کھاتے میں لکھا جاچکا ہے۔ جو کچھ ہوچکا، وہ احمقانہ حد تک غلط ہے۔ پاکستان کی سیاسی صورتحال اب پرانی طرح کی نہیں رہے گی۔ اس میں تبدیلی آئے گی اور شاید بڑی تبدیلی آئے۔ اب معاملات بالکل ہی بدلتے ہوئے نظر آئیں گے۔ یقیناً اس کا خمیازہ بھی پی ٹی آئی کو بھگتنا پڑے گا۔ میں حیران ہوں کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں ایک بھی شخص ایسا نہیں جو حالات کو ٹھیک سے پڑھ لیتا اور ریڈ لائن کو کراس ہونے سے روکتا؟ یہ سب کیا سوچ رہے ہیں اور کیا چاہ رہے ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔