سندھ اسمبلی تحفظ پاکستان آرڈیننس مسترد کرنے کی قرارداد منظور نہ ہو سکی
قائمہ کمیٹی برائے قانون وپارلیمانی امورکے سپرد، ایک ہفتے میں قرارداد کانیامسودہ تیار کریگی
سندھ اسمبلی میں منگل کوتحفظ پاکستان آرڈیننس ( پی پی او ) کے خلاف پیپلزپارٹی،متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) اورپاکستان تحریک انصاف کے ارکان نے کھل کرتقریریں کیں لیکن اس آرڈی ننس کومستردکرنے کے حوالے سے پیش کردہ قرارداد منظور نہیں ہوسکی۔
یہ قرارداد اتفاق رائے سے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وپارلیمانی امور کے سپردکردی گئی ۔ یہ کمیٹی ایک ہفتے میں قرارداد کانیامسودہ تیارکریگی،جس میں آرڈیننس کوواپس لینے کی بات نہیں ہوگی بلکہ آرڈیننس میں ترامیم کے حوالے سے تجاویزدی جائیں گی۔ پیپلزپارٹی کے وزرا نے اپنی تقاریر میں کہا کہ اس آرڈیننس میں بہت سے نقائص ہیں لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں اس طرح کے سخت قوانین کاہونا ضروری ہے۔ موجودہ قوانین سے دہشت گردی پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ منگل کوپرائیویٹ ممبرز ڈے تھا ۔ ایم کیو ایم کے رکن خواجہ اظہار الحسن کی نجی قرارداد 15 اپریل کوبھی ایجنڈے میں شامل تھی لیکن ایم کیو ایم کی طرف سے لاپتہ کارکنوں کے مسئلے پراحتجاج اورشور شرابے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا اور اس قرار داد کی باری نہیں آئی تھی ۔ خواجہ اظہارالحسن نے قرار داد پیش کی،جس میں کہا گیا کہ'' یہ ایوان تحفظ پاکستان آرڈیننس کی سخت مذمت اور اسے مسترد کرتا ہے،جو نہ صرف پاکستان کے دستور کی خلاف ورزی ہے بلکہ عدالتی نظام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طاقت کی بھی تنسیخ کرتا ہے ۔ یہ ایوان حکومت سندھ سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے تاکہ وفاقی حکومت اس آمرانہ ، غیرآئینی اور غیر جمہوری آرڈیننس کو واپس لے کیونکہ یہ آرڈیننس انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا ہے۔ '' خواجہ اظہار الحسن نے اس آرڈیننس کے خلاف زبردست دلائل دیے اورکہاکہ یہ ایک کالا قانون ہے ، صرف شک کی بنیاد پرقانون نافذ کرنے والوں کے اہلکار کسی کو بھی گولی مارسکتے ہیں۔
جرم ثابت ہوئے بغیرکسی بھی جائیداد ضبط اور اس کی شہریت بھی منسوخ کی جا سکتی ہے۔ یہ آرڈیننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سرداراحمد، بلقیس مختار، ارم عظیم فاروق ،کامران اختر ، ظفر کمالی اور وقار حسین شاہ نے بھی مخالفت میں دلائل دیے ۔ اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ کالے قوانین بنانے کے بجائے اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان نے کہا کہ یہ ایک ڈریکولا قانون ہے ۔ وزیر ورک اینڈ سروسز میرہزارخان بجارانی نے کہا کہ ہمیں عجلت میں قرارداد منظور نہیں کرنی چاہیے ۔ سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے تجاویز دی جائیں اور ایک نئی قرارداد پیش کی جائے ۔ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف ہے ۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے یہ قرارداد قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کردی گئی ۔ دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا گیا ہے ۔
علاوہ ازیں سندھ اسمبلی میں منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ بجایا جائے۔قبل ازیں سندھ اسمبلی میں منگل کو متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز جاری نہ ہونے پر ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین خان نے تحریک استحقاق پیش کی، جسے خلاف ضابطہ قرار دے دیا گیا ۔ قبل ازیں سندھ حکومت نے منگل کو سندھ اسمبلی میں لاڑکانہ کے واقعے پر سخت تاسف کا اظہار کیا ، جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقم وصول کرنے والی خواتین میں بھگدڑمچنے سے ایک خاتون جاں بحق ہو گئی تھی ۔ ارکان نے سوالوں کے تسلی بخش اور مکمل جواب نہ ملنے پر بھی احتجاج کیا ۔ ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے حکومت کو ہدایت کی کہ اسمبلی کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات آنے چاہئیں ۔ نہ مکمل جواب دینے کا وطیرہ ختم ہونا چاہیے ۔ وزیرلائیو اسٹاک جام خان شورو نے بتایا کہ سندھ میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کیلیے صوبے کے 10 اضلاع میں مصنوعی ''ان سیمی نیشن فیلڈ سینٹرز'' قائم کیے گئے تھے ۔ ان میں تھرپارکر،عمرکوٹ ، ٹنڈوالہ یار ، ٹنڈو محمد خان ، مٹیاری ، جامشورو ، نوشہرو فیروز ، کشمور ، گھوٹکی اور قمبر شہداد کوٹ شامل ہیں ۔
یہ قرارداد اتفاق رائے سے سندھ اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے قانون وپارلیمانی امور کے سپردکردی گئی ۔ یہ کمیٹی ایک ہفتے میں قرارداد کانیامسودہ تیارکریگی،جس میں آرڈیننس کوواپس لینے کی بات نہیں ہوگی بلکہ آرڈیننس میں ترامیم کے حوالے سے تجاویزدی جائیں گی۔ پیپلزپارٹی کے وزرا نے اپنی تقاریر میں کہا کہ اس آرڈیننس میں بہت سے نقائص ہیں لیکن پاکستان کے موجودہ حالات میں اس طرح کے سخت قوانین کاہونا ضروری ہے۔ موجودہ قوانین سے دہشت گردی پر کنٹرول کرنا ممکن نہیں۔ منگل کوپرائیویٹ ممبرز ڈے تھا ۔ ایم کیو ایم کے رکن خواجہ اظہار الحسن کی نجی قرارداد 15 اپریل کوبھی ایجنڈے میں شامل تھی لیکن ایم کیو ایم کی طرف سے لاپتہ کارکنوں کے مسئلے پراحتجاج اورشور شرابے کی وجہ سے اجلاس ملتوی کردیا گیا تھا اور اس قرار داد کی باری نہیں آئی تھی ۔ خواجہ اظہارالحسن نے قرار داد پیش کی،جس میں کہا گیا کہ'' یہ ایوان تحفظ پاکستان آرڈیننس کی سخت مذمت اور اسے مسترد کرتا ہے،جو نہ صرف پاکستان کے دستور کی خلاف ورزی ہے بلکہ عدالتی نظام اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کی طاقت کی بھی تنسیخ کرتا ہے ۔ یہ ایوان حکومت سندھ سے سفارش کرتا ہے کہ وہ وفاقی حکومت سے رجوع کرے تاکہ وفاقی حکومت اس آمرانہ ، غیرآئینی اور غیر جمہوری آرڈیننس کو واپس لے کیونکہ یہ آرڈیننس انسانی حقوق کا تحفظ نہیں کرتا ہے۔ '' خواجہ اظہار الحسن نے اس آرڈیننس کے خلاف زبردست دلائل دیے اورکہاکہ یہ ایک کالا قانون ہے ، صرف شک کی بنیاد پرقانون نافذ کرنے والوں کے اہلکار کسی کو بھی گولی مارسکتے ہیں۔
جرم ثابت ہوئے بغیرکسی بھی جائیداد ضبط اور اس کی شہریت بھی منسوخ کی جا سکتی ہے۔ یہ آرڈیننس انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سرداراحمد، بلقیس مختار، ارم عظیم فاروق ،کامران اختر ، ظفر کمالی اور وقار حسین شاہ نے بھی مخالفت میں دلائل دیے ۔ اپوزیشن لیڈر فیصل سبزواری نے کہا کہ کالے قوانین بنانے کے بجائے اداروں کو مضبوط کیا جائے ۔ تحریک انصاف کے پارلیمانی لیڈر ثمر علی خان نے کہا کہ یہ ایک ڈریکولا قانون ہے ۔ وزیر ورک اینڈ سروسز میرہزارخان بجارانی نے کہا کہ ہمیں عجلت میں قرارداد منظور نہیں کرنی چاہیے ۔ سینئر وزیر نثار احمد کھوڑو نے کہا کہ قوانین کا غلط استعمال روکنے کے لیے تجاویز دی جائیں اور ایک نئی قرارداد پیش کی جائے ۔ وزیر اطلاعات شرجیل انعام میمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی تحفظ پاکستان آرڈیننس کے خلاف ہے ۔ طویل بحث و مباحثے کے بعد اتفاق رائے سے یہ قرارداد قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور کے سپرد کردی گئی ۔ دریں اثنا معلوم ہوا ہے کہ قائمہ کمیٹی کا اجلاس جمعرات کو طلب کرلیا گیا ہے ۔
علاوہ ازیں سندھ اسمبلی میں منگل کو پاکستان تحریک انصاف کے رکن خرم شیر زمان نے ایک قرارداد پیش کی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ سندھ اسمبلی کے اجلاس کی کارروائی شروع ہونے سے پہلے قومی ترانہ بجایا جائے۔قبل ازیں سندھ اسمبلی میں منگل کو متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے ارکان کی ترقیاتی اسکیموں کے لیے فنڈز جاری نہ ہونے پر ایم کیو ایم کے رکن محمد حسین خان نے تحریک استحقاق پیش کی، جسے خلاف ضابطہ قرار دے دیا گیا ۔ قبل ازیں سندھ حکومت نے منگل کو سندھ اسمبلی میں لاڑکانہ کے واقعے پر سخت تاسف کا اظہار کیا ، جس میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رقم وصول کرنے والی خواتین میں بھگدڑمچنے سے ایک خاتون جاں بحق ہو گئی تھی ۔ ارکان نے سوالوں کے تسلی بخش اور مکمل جواب نہ ملنے پر بھی احتجاج کیا ۔ ڈپٹی اسپیکر سیدہ شہلا رضا نے حکومت کو ہدایت کی کہ اسمبلی کے سوالوں کے تسلی بخش جوابات آنے چاہئیں ۔ نہ مکمل جواب دینے کا وطیرہ ختم ہونا چاہیے ۔ وزیرلائیو اسٹاک جام خان شورو نے بتایا کہ سندھ میں دودھ اور گوشت کی پیداوار میں اضافے کیلیے صوبے کے 10 اضلاع میں مصنوعی ''ان سیمی نیشن فیلڈ سینٹرز'' قائم کیے گئے تھے ۔ ان میں تھرپارکر،عمرکوٹ ، ٹنڈوالہ یار ، ٹنڈو محمد خان ، مٹیاری ، جامشورو ، نوشہرو فیروز ، کشمور ، گھوٹکی اور قمبر شہداد کوٹ شامل ہیں ۔