بُک شیلف
جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال
سوز دل
مصنف : حمیداللہ حمیدی، قیمت:400 روپے، صفحات:200
ناشر:بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
کہانیاں ہنساتی بھی ہیں اور رلاتی بھی ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں ، صرف حساس دل و نظر ہونی چاہیے ۔ اگر دل پتھر کا ہو تو اس پر کاری سے کاری ضرب بھی بے اثر ہو جاتی ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جس کا ہر افسانہ قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر دکھ دیتا ہے اور یہی افسانے کی بڑی خوبی ہے ۔ مصنف نے اپنے ارد گرد بکھرے موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے سپرد قلم کیا ہے ۔
پہلے ہی افسانے کو لے لیں ، 'پہلی قسط ' میں ایک ماں اپنے بچے کو بچانے کے لئے ٹھیکیدار کو جس طرح قسط ادا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے وہ اس کی بے بسی کی کربناک داستان بیان کرتا ہے ۔ مصنف کا قلم نشتر کا کام کر رہا ہے اور ہمارے معاشرے کے اس ناسور کو آشکارا کرتا ہے ۔
ڈاکٹر وحید الرحمان کہتے ہیں '' حمیداللہ حمیدی صاحب دیار غیر میں رہتے ہیں اور یاد وطن میں افسانے تحریر کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں وطن کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو سوز دل سے بیان کیا ہے ۔ وہ اپنے وطن کے مزدوروں ، مفلسوں اور محنت کشوں کو دوست خیال کرتے ہیں اور ان کے دکھوں ، غموں اور محرومیوں کو افسانوی اسلوب میں پیش کرتے ہیں ۔
وہ سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے قائل ہیں اور ایک مثالی معاشرے کے قیام کے آرزو مند ہیں ، ان کے افسانے اپنے موضوعات اور لفظیات کے حوالے سے پریم چند کے اولین دور کے افسانوں کی یاد دلاتے ہیں ۔
حمیدی صاحب کے افسانوں میں جہاں انقلاب کی تمنا اور احتجاج کا رویہ ہے وہاں حسن کی آرزو اور عشق کا جذبہ بھی ہے ۔
انھوں نے واردات قلبی اور معاملات دل کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے ، محبت کی جو کہانیاں رقم کی ہیں وہ خاصی اثر انگیز ہیں ، کہیں کہیں جنس نگاری کے مرتکب بھی ہوئے ہیں مگر حقیقتوں کو برہنہ انداز میں بیان نہیں کیا۔'' انتہائی شاندار افسانے ہیں ضرور پڑھنے چاہیئں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
شام توں پہلاں آیاں راتاں
شاعر: ڈاکٹر نعیم کوہلی، قیمت :600 روپے، صفحات :144
ناشر : بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
اوہناں خواباں دی حسرت اتے راتاں نیر بہائے
پلکاںاوہلے رہ گئے جیہڑے اکھیاں وچ نہ آئے
شاعر کا انداز دل و دماغ کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے ، اسی طرح کہتے ہیں
نہ بجھیاں نہ پائیاں باتاں
شام تو پہلاں آئیاں راتاں
گھر نوں بال کے چانن کیتا
ہور وی گوڑھیاں چھائیاں راتاں
ان کی شاعری چونکا دیتی ہے اور قاری کو اپنے بہائو میں لئے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی نہیں بلکہ اس کے دل کی بات کہہ کر رہے ہوں اسی لئے قاری خیالات کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے ۔ ممتاز ادیب سلیم الرحمٰن کہتے ہیں '' نعیم کوہلی نے اپنی شاعری وچ کوئی نویاں علامتاں ، استعارے تے تشبیہاں نہیں گھڑیاں پر اوہدی شاعری سدھی سادی زبان دی شاعری اے ۔ چھوٹیاں چھوٹیاں نظمان تے غزلاں تے قطعیاں وچ سوہنے موتی پروئے نیں ۔
ایہناں نوں پڑھ کے مینوں بڑا لطف آیا۔ تہانوں وی ایہہ نظماں چنگیاں لگن گیاں۔'' پروفیسر خواجہ محمد زکریا کہتے ہیں '' ڈاکٹر صاحب کی پنجابی شاعری میں بھی ان کے اردو کلام کی طرح حقیقی قلبی واردات کی عکاسی کی گئی ہے ۔ پنجابی زبان اپنے مزاج کے اعتبار سے اردو زبان سے بہت مختلف ہے ۔ اردو زبان میں تکلف اور رسمی انداز زیادہ ہے جبکہ پنجابی زبان میں زیادہ بے باکی اور بے تکلفی ہے ۔
اردو زبان کے شعراء اکثر آرائش زباں سے دامن نہیں چھڑا سکتے جب کہ پنجابی شاعروں نے اکثر جذبات کا اظہار کھلے کھلے اور راست انداز میں کیا ہے ۔
یہی خوبی نعیم کوہلی کی پنجابی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتی ہے ۔ وہ شہری اور دیہاتی دونوں طرح کے ماحول سے بخوبی آشنا ہیں اس لئے ان کے ہاں دونوں طرح کی ثقافت اپنا اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔'' پنجابی شاعری میں خوبصورت اضافہ ہے ، ضرور مطالعہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
مصنف: سہیل پرواز، قیمت :800 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
یہ ایک ریٹائرڈ میجر کا قصہ ہے ، فوج میں بھرتی ہونے سے ریٹائرڈ ہونے تک کا قصہ ۔ مصنف انیس سو اکہتر میں بھرتی ہوئے اور انیس سو پچانوے میں ریٹائرڈ ہو گئے۔ تب سے اب تک فکشن رائٹنگ اور کالم نگاری کر رہے ہیں ۔ ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ والد مرحوم ممتاز شاعر ادیب الطاف پرواز قتیل شفائی ، احمد ندیم قاسمی ، بشیر منذر ، منیر نیازی کے ہم عصروں میں سے تھے ۔ ایسے ماحول میں پیدا ہونے والے پالنے ہی میں قلم پکڑ لیتے ہیں۔
سہیل پرواز ابھی طالب علم ہی تھے کہ مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں لکھنا ، چَھپنا شروع کردیا۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا جب عسکری زندگی آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ اب اڑتیس برس ہونے کو ہیں ، ادب و صحافت کے میدان میں بہ طور مصنف ، ادیب و کالم نگار پیش قدمی کر رہے ہیں۔ متعدد ٹیلی ویژن ڈرامے ، ڈاکومنٹریز اور کچھ نغمے بھی لکھ چکے ہیں۔
مطالعہ ، موسیقی ، جمنیزیم ، عکاسی اور مصوری کے دلدادہ سہیل پرواز کی اب تک تین تصانیف منظر عام پر آ چکی تھیں۔ انگریزی فکشن 'The Cornered Rogue' ، آپ بیتی ' جو تنہا کر گئی مجھ کو ' اور ناول ' ڈھاکہ میں آؤں گا '۔ اب چوتھی تصنیف 'اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے '۔ یہ کاکول اکیڈمی میں گزرے روزوشب کی داستان ہے ، جس کے ساتھ انھوں نے ملازمت کا احوال بھی شامل کر دیا۔
مصنف لکھتے ہیں : ''والد مرحوم الطاف پرواز ایک دفعہ فرمانے لگے کہ جب ریٹائر ہوگے تو اپنی یادداشتیں ضرور قلم بند کرنا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ، اباجی ! لوگ شفیق الرحمٰن اور کرنل محمد خان کو پڑھ چکے ہیں ، میری تحریر کو کون گھاس ڈالے گا ؟ انھوں نے مختصر بات کی کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور ہر کتاب کی پسندیدگی کی کوئی خاص وجہ ہوتی ہے برخوردار! ... تمھارا مشاہدہ جتنا زیادہ ہوگا کتاب اتنی ہی اچھی لکھی جائے گی۔ بس! اس بات کا خیال رکھنا کہ تمھاری کتاب کا مواد دیگر تصنیفات سے مختلف ہو ۔ ان میں جھلک بھلے محمد خان کی بھی ملے اور ضمیر جعفری کی بھی ، بے شک شفیق الرحمٰن بھی نظر آئیں اور صدیق سالک بھی لیکن تحریر سہیل پرواز کی بولے۔''
میرا خیال ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا یہ چوبیس سالہ طویل باب لکھتے وقت ، والد مرحوم و مغفور کی نصیحت کو خوب پلے باندھے رکھا۔ فوج میں بھرتی ہونے سے بالآخر واپس گھر پہنچنے تک کی ساری کہانی منفرد شگفتہ اسلوب میں لکھی۔ مصنف نے صرف اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہی بیان نہیں کیے بلکہ اپنی پلٹن کے ساتھیوں کے ساتھ اور دوسری یونٹ کے دوستوں کے دلچسپ واقعات بھی تحریر کیے ہیں۔
میری خواہش ہے کہ عام قارئین کے ساتھ ہی ساتھ عساکر پاکستان کے تمام جوان یہ داستان ضرور پڑھیں ، ان کی زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ وہ ایک پرلطف زندگی گزاریں گے ۔
آدمی
مصنف: عرفان جاوید، سن اشاعت: جنوری 2023
ناشر: سنگ میل، لوئر مال ، لاہور
خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک پرانی صنف ہے جو اب تک چلی آ رہی ہے ۔ خاکہ ایسے مضمون یا ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس سے کسی شخصیت کا بھرپور تاثر سامنے آئے ۔ ایک اچھے خاکے کی خصوصیت ہے کہ اس سے کسی شخص کی زندگی کے حالات کے ساتھ ساتھ اس کے طبعی رجحان ، اس کے انداز فکر اور کردار کے مختلف پہلوؤں کی آگاہی مل سکے ۔ اس میں مطلوبہ شخصیت کی خامیاں اور خوبیاں دونوں شامل ہوتی ہیں ۔
اردو کی خاکہ نویسی میں بہت بڑے بڑے نام آتے ہیں ۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کی ''نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی'' سے لے کر رشید احمد صدیقی کی ''گنج ہائے گراں مایہ'' مولانا چراغ حسن حسرت کی''مردم دیدہ'' جگن ناتھ آزاد کی ''آنکھیں ترستیاں ہیں'' شاہد احمد دہلوی کی ''گنجینہ ء گوہر'' منٹو کی ''لاؤڈ سپیکر'' ممتاز مفتی کی ''اوکھے لوگ'' بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ''چند ہم عصر'' سمیت بہت شاندار خاکے لکھے گئے ہیں ۔
اردو کے جدید خاکہ نگاروں میں عرفان جاوید ایک ایسا نام ہے جنہوں نے خاکے کی نئی جہتیں دریافت کی ہیں ۔ اور روایتی شخصیت نگاری سے ہٹ کر بسا اوقات نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے وہ نہاں گوشوں تک جا پہنچتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ کو برملا کہنا پڑا کہ آئندہ خاکہ لکھنے والے یا تو عرفان جاویدی ترکیب بروئے کار لائیں گے یا پھر خاکہ نگاری کا میدان چھوڑ دیں گے۔
''آدمی'' پڑھتے ہوئے آپ آغا خان یونیورسٹی کے ایک انتہائی معتبر ڈاکٹر، ڈاکٹر آصف فرخی سے ملتے ہیں جنھوں نے امنیہ سید کے ساتھ ملکر کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بنیاد رکھی وہ الگ بات ہے کہ جب ان دونوں کا لگایا ہوا بیج ایک بڑا درخت بن گیا تو دونوں کو اس فورم سے الگ کر دیا گیا۔ اسی خاکے کو پڑھ کر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ عملی زندگی اور کتابی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی میدان میں انتہائی کامیاب ڈاکٹر آصف فرخی کی ازدواجی زندگی بھی طلاق جیسی سخت ناپسندیدہ شے پر ختم ہوئی.
''من موجی'' کے ذریعے آپ اسحاق نور جیسی شخصیت پر پڑی پرتوں کو کھولتے ہیں۔ اگرچہ کہ مشہور زائچہ نویس و ستارہ شناس کو ہم سب اخبارات اور ٹی وی کی حد تک تو جانتے تھے مگر کسی ناول کے گم شدہ کردار جیسے اسحاق نور کی شخصیت کو اس قدر خوبصورت طریقے سے ہمارے سامنے پیش کرنا، عرفان جاوید جیسوں کا ہی کام ہے.
بڈی مانوں، بانسری بابا، خواب دیکھنے، دکھانے والا، مجھ لگتا ہے یہ سب خاکے تو بہانہ تھے ۔ عرفان جاوید صرف اور صرف ''گیبرئیل'' کو ہی لکھنا اور منظرِ عام پر لانا چاہتے تھے۔
عرفان جاوید صاحب کی کتاب ''آدمی'' کا ایک خاکہ ''گیبرئیل'' مجھے شدید پسند آیا ہے. یہ اتنا شاندار ہے کہ میں اسے ''برساتی'' کا ہی کوئی بھائی قرار دیتا ہوں ۔ اس خاکہ میں جہاں عرفان صاحب ایک سیاح کے روپ میں نظر آتے ہیں، وہیں دو دوستوں کی خوب صورت محبت کا بھی پیش خیمہ ہے یہ خاکہ. گیبرئیل جس نے عرفان جاوید صاحب کی ترکی کی سیاحت میں کلیدی کردار ادا کیا، ان دو اجنبیوں میں ایسی اپنائیت پیدا ہوئی کہ مصنف کی واپسی پر اس نے اپنا ایک قیمتی سرمایہ ، اپنی سونے کی چین ایک نشانی کے طور پر عرفان جاوید کو دے دی ۔
ایک ہپی ماں کا بیٹا گیبرئیل، جس نے مصنف کو تنہا جیل نہیں جانے دیا ، فقط دوستی نبھانے کو عرفان جاوید صاحب کے ساتھ جیل کی جانب چل پڑا ۔
لوگ سچ کہتے ہیں کہ آپ خوش قسمت اگر کوئی لکھاری آپ کی محبت میں گرفتار ہو جائے یا آپ لکھاری کی محبت میں گرفتار ہو جائیں ، دونوں صورتوں میں آپ امر ہو جاتے ہیں ۔ مصنف نے گیبرئیل کو بھی امر کر دیا ہے اور دوستی سے بھی ایک قدم بڑھتے ہوئے اسے اپنا بھائی کہا ہے ۔
عرفان جاوید کے صرف خاکے ہی کمال نہیں ہیں بلکہ اس کی نثر بھی اعلیٰ درجے کی ہے ۔ بہت سے لوگ الفاظ کو مرکب میں لکھنا پسند نہیں کرتے ۔ مرکب الفاظ کیسے ہماری زندگیوں میں حاوی ہو چکے ہیں ، یہ سب آپ کو عرفان جاوید کی نثر سے ہی پتہ چلتا ہے. لفظ یونی ورسٹی ہو یا گجراں والا کا تلفظ، اگر آپ سچ میں اچھی نثرکا مزہ لینا چاہتے ہیں عرفان جاوید کو پڑھیں ۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں آپ کو عرفان جاوید کی کتاب ''آدمی'' پڑھنے کے لئے اُکسا رہا ہوں تو آپ غلط ہیں ۔ میں آپ کو ''آدمی'' پڑھنے کے لئے قائل بالکل بھی نہیں کر رہا ۔ میں آپ کو قائل کرنا چاہ رہا ہوں کہ آپ عرفان جاوید صاحب کی خاکوں ہی کی کتاب ''دروازے '' پڑھیں ۔ دروازے آپ کو عرفان جاوید کی نثر سے عشق کروانے کے لئے کافی ہے ۔ ایک بار اگر آپ نے دروازے پڑھ لی تو آپ ''سرخاب '' اپنے آپ پڑھیں گے اور سرخاب پڑھنے کے بعد ''آدمی'' کو پڑھنے سے اپنے آپ کو روک پانا ، آپ کے لئے ناممکن ہو گا ۔
ایک عہد کی سرگزشت (1947-2022)
مصنف : جمیل اطہر قاضی، قیمت : 4000 روپے
ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101
جناب جمیل اطہر قاضی حقیقت میں ایک پورا عہد ہیں اور زیرنظر خود نوشت اس عہد کا ایک رخ ہے ۔ اس میں صرف ان شخصیات کے خاکے ہیں جن سے مصنف کا تعلق رہا ۔ ان میں مدیران اخبارات ، علمائے کرام ، اساتذہ کرام ، سیاست دان ، روحانی شخصیات ، کارکن صحافی ، بیوروکریٹ ، شعرائے کرام ، اخبار فروش رہنما اور دیگر احباب شامل ہیں ۔ ان سب کی تعداد لگ بھگ سوا سو بنتی ہے ۔ انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں اپنی یادیں بیان کیں ، دلچسپ واقعات شامل کیے ۔ تاہم اس کے علاوہ مصنف کی زندگی میں کیا کچھ ہوا ، وہ مکمل طور پر شامل نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحت و سلامتی بخشے اور وہ اپنی خودنوشت کے باقی رخ بھی دکھائیں۔
جناب جمیل اطہر ممتاز بزرگ صحافی ہیں، اس وقت تین اردو ، انگریزی روزناموں اور ایک اردو میگزین کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔ پاکستان بھر کے قومی اخبارات کے مدیران کی تنظیم ' کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز ' کے سابق صدر رہے، جبکہ قومی اخبارات کی تنظیم ' آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ' کے نائب صدر ہیں۔
کارکن صحافی سے لے کر مالک صحافی بننے تک ، ان کی ایک طویل کہانی ہے جس میں آزمائشیں ، مشکلات بھی ہیں اور دلچسپ واقعات بھی ہیں ۔ پہلے پہل گھروں میں اخبار پھینکے ، چوکوں و چوراہوں میں کھڑے ہوکر اخبارات فروخت کیے ، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اخبارات شائع کرنا شروع کر دیے۔ اخبار میں چپڑاسی سے سب ایڈیٹر تک اور پھر ایڈیٹر تک ہر جگہ کام کیا۔ اس سب کا پتہ چلے گا ان شخصی خاکوں کے مطالعہ سے ۔ اس اعتبار سے یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی ۔ ایک بھرپور داستانِ جہد مسلسل۔
مصنف نے کتاب کی ابتدا 'خاندان' کے عنوان سے کی جس میں اپنے والدین کے خاکے پیش کیے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کے شخصی خاکے، جو دراصل اُن اشخاص سے مصنف کے ذاتی تعلق کی کہانیاں ہیں ۔ یہ وہ تاریخ ساز لوگ تھے، جنھوں نے انگریزوں اور ان کے جانشینوں کی ہیبت کا طلسم توڑا اور مختلف میدانوں میں بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنے ۔
مرحوم عبدالقادر حسن نے مصنف کے بارے میں فلیپ میں لکھا: '' انھوں ( جمیل اطہر) نے کارکن صحافی سے مالک صحافی بننے تک سفر نیک نامی کے ساتھ طے کیا ۔ نیک نامی کا لفظ میں خاص طور پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں نیک نامی کمزور پڑتی جا رہی ہے جبکہ ہمارے استاد اور بزرگ رہنما صحافی اپنے پیشے کی اعلیٰ روایات قائم کرتے رہے ۔ وہ صحافی بھی رہے اور صحافت کے اصولوں پر سیاست بھی کرنا پڑی تو انکار نہ کیا ۔ جیلوں میں گئے اور جیلوں سے باہر بھی حکومتی سختیاں برداشت کرتے رہے ۔ جمیل اطہر قاضی انہی صحافیوں کی پیداوار ہے ۔''
میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی یہ کتاب صحافت کے طلبہ و طالبات کے لئے بالخصوص راہنما ثابت ہو گی، انھیں پتہ چلے گا کہ ان کے بزرگوں نے صحافت کس ماحول میں شروع کی اور اس راہ میں کیا کچھ جھیلا ۔ جب کہ یہ کتاب سیاست کے طالب علموں کے لیے بھی نہایت دلچسپ ثابت ہو گی ۔ مصنف لکھتے ہیں: '' جن قارئین کی نظروں سے یہ مجموعہ مضامین گزرے وہ اسے پڑھ کر اپنی صفوں سے اٹھ جانے والوں کی مختلف میدانوں میں شب و روز محنت شاقہ کی جدوجہد کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا رخ اور سمت متعین کر سکیں'' ۔
مصنف : حمیداللہ حمیدی، قیمت:400 روپے، صفحات:200
ناشر:بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
کہانیاں ہنساتی بھی ہیں اور رلاتی بھی ہیں جو ہمارے ارد گرد بکھری پڑی ہیں ، صرف حساس دل و نظر ہونی چاہیے ۔ اگر دل پتھر کا ہو تو اس پر کاری سے کاری ضرب بھی بے اثر ہو جاتی ہے ۔
زیر تبصرہ کتاب افسانوں کا ایسا مجموعہ ہے جس کا ہر افسانہ قاری کے ضمیر کو جھنجھوڑ کر دکھ دیتا ہے اور یہی افسانے کی بڑی خوبی ہے ۔ مصنف نے اپنے ارد گرد بکھرے موضوعات کو بڑی خوبصورتی سے سپرد قلم کیا ہے ۔
پہلے ہی افسانے کو لے لیں ، 'پہلی قسط ' میں ایک ماں اپنے بچے کو بچانے کے لئے ٹھیکیدار کو جس طرح قسط ادا کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے وہ اس کی بے بسی کی کربناک داستان بیان کرتا ہے ۔ مصنف کا قلم نشتر کا کام کر رہا ہے اور ہمارے معاشرے کے اس ناسور کو آشکارا کرتا ہے ۔
ڈاکٹر وحید الرحمان کہتے ہیں '' حمیداللہ حمیدی صاحب دیار غیر میں رہتے ہیں اور یاد وطن میں افسانے تحریر کرتے ہیں ۔ انھوں نے اپنے افسانوں میں وطن کے لوگوں کے مسائل اور مشکلات کو سوز دل سے بیان کیا ہے ۔ وہ اپنے وطن کے مزدوروں ، مفلسوں اور محنت کشوں کو دوست خیال کرتے ہیں اور ان کے دکھوں ، غموں اور محرومیوں کو افسانوی اسلوب میں پیش کرتے ہیں ۔
وہ سماجی انصاف اور معاشی مساوات کے قائل ہیں اور ایک مثالی معاشرے کے قیام کے آرزو مند ہیں ، ان کے افسانے اپنے موضوعات اور لفظیات کے حوالے سے پریم چند کے اولین دور کے افسانوں کی یاد دلاتے ہیں ۔
حمیدی صاحب کے افسانوں میں جہاں انقلاب کی تمنا اور احتجاج کا رویہ ہے وہاں حسن کی آرزو اور عشق کا جذبہ بھی ہے ۔
انھوں نے واردات قلبی اور معاملات دل کو خوبی کے ساتھ پیش کیا ہے ، محبت کی جو کہانیاں رقم کی ہیں وہ خاصی اثر انگیز ہیں ، کہیں کہیں جنس نگاری کے مرتکب بھی ہوئے ہیں مگر حقیقتوں کو برہنہ انداز میں بیان نہیں کیا۔'' انتہائی شاندار افسانے ہیں ضرور پڑھنے چاہیئں ۔ مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
شام توں پہلاں آیاں راتاں
شاعر: ڈاکٹر نعیم کوہلی، قیمت :600 روپے، صفحات :144
ناشر : بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور (03014568820)
اوہناں خواباں دی حسرت اتے راتاں نیر بہائے
پلکاںاوہلے رہ گئے جیہڑے اکھیاں وچ نہ آئے
شاعر کا انداز دل و دماغ کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے ، اسی طرح کہتے ہیں
نہ بجھیاں نہ پائیاں باتاں
شام تو پہلاں آئیاں راتاں
گھر نوں بال کے چانن کیتا
ہور وی گوڑھیاں چھائیاں راتاں
ان کی شاعری چونکا دیتی ہے اور قاری کو اپنے بہائو میں لئے آگے بڑھتی چلی جاتی ہے ، یوں لگتا ہے جیسے وہ اپنی نہیں بلکہ اس کے دل کی بات کہہ کر رہے ہوں اسی لئے قاری خیالات کے سمندر میں ڈوبتا چلا جاتا ہے ۔ ممتاز ادیب سلیم الرحمٰن کہتے ہیں '' نعیم کوہلی نے اپنی شاعری وچ کوئی نویاں علامتاں ، استعارے تے تشبیہاں نہیں گھڑیاں پر اوہدی شاعری سدھی سادی زبان دی شاعری اے ۔ چھوٹیاں چھوٹیاں نظمان تے غزلاں تے قطعیاں وچ سوہنے موتی پروئے نیں ۔
ایہناں نوں پڑھ کے مینوں بڑا لطف آیا۔ تہانوں وی ایہہ نظماں چنگیاں لگن گیاں۔'' پروفیسر خواجہ محمد زکریا کہتے ہیں '' ڈاکٹر صاحب کی پنجابی شاعری میں بھی ان کے اردو کلام کی طرح حقیقی قلبی واردات کی عکاسی کی گئی ہے ۔ پنجابی زبان اپنے مزاج کے اعتبار سے اردو زبان سے بہت مختلف ہے ۔ اردو زبان میں تکلف اور رسمی انداز زیادہ ہے جبکہ پنجابی زبان میں زیادہ بے باکی اور بے تکلفی ہے ۔
اردو زبان کے شعراء اکثر آرائش زباں سے دامن نہیں چھڑا سکتے جب کہ پنجابی شاعروں نے اکثر جذبات کا اظہار کھلے کھلے اور راست انداز میں کیا ہے ۔
یہی خوبی نعیم کوہلی کی پنجابی شاعری میں جگہ جگہ نظر آتی ہے ۔ وہ شہری اور دیہاتی دونوں طرح کے ماحول سے بخوبی آشنا ہیں اس لئے ان کے ہاں دونوں طرح کی ثقافت اپنا اپنا جلوہ دکھاتی ہے۔'' پنجابی شاعری میں خوبصورت اضافہ ہے ، ضرور مطالعہ کریں ۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے ۔
اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے
مصنف: سہیل پرواز، قیمت :800 روپے
ناشر: بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882
یہ ایک ریٹائرڈ میجر کا قصہ ہے ، فوج میں بھرتی ہونے سے ریٹائرڈ ہونے تک کا قصہ ۔ مصنف انیس سو اکہتر میں بھرتی ہوئے اور انیس سو پچانوے میں ریٹائرڈ ہو گئے۔ تب سے اب تک فکشن رائٹنگ اور کالم نگاری کر رہے ہیں ۔ ادبی گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ والد مرحوم ممتاز شاعر ادیب الطاف پرواز قتیل شفائی ، احمد ندیم قاسمی ، بشیر منذر ، منیر نیازی کے ہم عصروں میں سے تھے ۔ ایسے ماحول میں پیدا ہونے والے پالنے ہی میں قلم پکڑ لیتے ہیں۔
سہیل پرواز ابھی طالب علم ہی تھے کہ مختلف رسائل و جرائد اور اخبارات میں لکھنا ، چَھپنا شروع کردیا۔ اسّی کی دہائی کے وسط میں باقاعدہ لکھنا شروع کیا جب عسکری زندگی آدھی سے زیادہ گزر گئی۔ اب اڑتیس برس ہونے کو ہیں ، ادب و صحافت کے میدان میں بہ طور مصنف ، ادیب و کالم نگار پیش قدمی کر رہے ہیں۔ متعدد ٹیلی ویژن ڈرامے ، ڈاکومنٹریز اور کچھ نغمے بھی لکھ چکے ہیں۔
مطالعہ ، موسیقی ، جمنیزیم ، عکاسی اور مصوری کے دلدادہ سہیل پرواز کی اب تک تین تصانیف منظر عام پر آ چکی تھیں۔ انگریزی فکشن 'The Cornered Rogue' ، آپ بیتی ' جو تنہا کر گئی مجھ کو ' اور ناول ' ڈھاکہ میں آؤں گا '۔ اب چوتھی تصنیف 'اِدھر ڈوبے اُدھر نکلے '۔ یہ کاکول اکیڈمی میں گزرے روزوشب کی داستان ہے ، جس کے ساتھ انھوں نے ملازمت کا احوال بھی شامل کر دیا۔
مصنف لکھتے ہیں : ''والد مرحوم الطاف پرواز ایک دفعہ فرمانے لگے کہ جب ریٹائر ہوگے تو اپنی یادداشتیں ضرور قلم بند کرنا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے کہا ، اباجی ! لوگ شفیق الرحمٰن اور کرنل محمد خان کو پڑھ چکے ہیں ، میری تحریر کو کون گھاس ڈالے گا ؟ انھوں نے مختصر بات کی کہ ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے اور ہر کتاب کی پسندیدگی کی کوئی خاص وجہ ہوتی ہے برخوردار! ... تمھارا مشاہدہ جتنا زیادہ ہوگا کتاب اتنی ہی اچھی لکھی جائے گی۔ بس! اس بات کا خیال رکھنا کہ تمھاری کتاب کا مواد دیگر تصنیفات سے مختلف ہو ۔ ان میں جھلک بھلے محمد خان کی بھی ملے اور ضمیر جعفری کی بھی ، بے شک شفیق الرحمٰن بھی نظر آئیں اور صدیق سالک بھی لیکن تحریر سہیل پرواز کی بولے۔''
میرا خیال ہے کہ مصنف نے اپنی زندگی کا یہ چوبیس سالہ طویل باب لکھتے وقت ، والد مرحوم و مغفور کی نصیحت کو خوب پلے باندھے رکھا۔ فوج میں بھرتی ہونے سے بالآخر واپس گھر پہنچنے تک کی ساری کہانی منفرد شگفتہ اسلوب میں لکھی۔ مصنف نے صرف اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہی بیان نہیں کیے بلکہ اپنی پلٹن کے ساتھیوں کے ساتھ اور دوسری یونٹ کے دوستوں کے دلچسپ واقعات بھی تحریر کیے ہیں۔
میری خواہش ہے کہ عام قارئین کے ساتھ ہی ساتھ عساکر پاکستان کے تمام جوان یہ داستان ضرور پڑھیں ، ان کی زندگی کا رنگ ڈھنگ بدل جائے گا۔ وہ ایک پرلطف زندگی گزاریں گے ۔
آدمی
مصنف: عرفان جاوید، سن اشاعت: جنوری 2023
ناشر: سنگ میل، لوئر مال ، لاہور
خاکہ نگاری اردو ادب کی ایک پرانی صنف ہے جو اب تک چلی آ رہی ہے ۔ خاکہ ایسے مضمون یا ایسی تحریر کو کہتے ہیں جس سے کسی شخصیت کا بھرپور تاثر سامنے آئے ۔ ایک اچھے خاکے کی خصوصیت ہے کہ اس سے کسی شخص کی زندگی کے حالات کے ساتھ ساتھ اس کے طبعی رجحان ، اس کے انداز فکر اور کردار کے مختلف پہلوؤں کی آگاہی مل سکے ۔ اس میں مطلوبہ شخصیت کی خامیاں اور خوبیاں دونوں شامل ہوتی ہیں ۔
اردو کی خاکہ نویسی میں بہت بڑے بڑے نام آتے ہیں ۔
مرزا فرحت اللہ بیگ کی ''نذیر احمد کی کہانی کچھ ان کی کچھ میری زبانی'' سے لے کر رشید احمد صدیقی کی ''گنج ہائے گراں مایہ'' مولانا چراغ حسن حسرت کی''مردم دیدہ'' جگن ناتھ آزاد کی ''آنکھیں ترستیاں ہیں'' شاہد احمد دہلوی کی ''گنجینہ ء گوہر'' منٹو کی ''لاؤڈ سپیکر'' ممتاز مفتی کی ''اوکھے لوگ'' بابائے اردو مولوی عبد الحق کی ''چند ہم عصر'' سمیت بہت شاندار خاکے لکھے گئے ہیں ۔
اردو کے جدید خاکہ نگاروں میں عرفان جاوید ایک ایسا نام ہے جنہوں نے خاکے کی نئی جہتیں دریافت کی ہیں ۔ اور روایتی شخصیت نگاری سے ہٹ کر بسا اوقات نفسیاتی تجزیہ کرتے ہوئے وہ نہاں گوشوں تک جا پہنچتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ دور حاضر کے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ادیب مستنصر حسین تارڑ کو برملا کہنا پڑا کہ آئندہ خاکہ لکھنے والے یا تو عرفان جاویدی ترکیب بروئے کار لائیں گے یا پھر خاکہ نگاری کا میدان چھوڑ دیں گے۔
''آدمی'' پڑھتے ہوئے آپ آغا خان یونیورسٹی کے ایک انتہائی معتبر ڈاکٹر، ڈاکٹر آصف فرخی سے ملتے ہیں جنھوں نے امنیہ سید کے ساتھ ملکر کراچی لٹریچر فیسٹیول کی بنیاد رکھی وہ الگ بات ہے کہ جب ان دونوں کا لگایا ہوا بیج ایک بڑا درخت بن گیا تو دونوں کو اس فورم سے الگ کر دیا گیا۔ اسی خاکے کو پڑھ کر آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ عملی زندگی اور کتابی زندگی میں بہت فرق ہوتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ادبی میدان میں انتہائی کامیاب ڈاکٹر آصف فرخی کی ازدواجی زندگی بھی طلاق جیسی سخت ناپسندیدہ شے پر ختم ہوئی.
''من موجی'' کے ذریعے آپ اسحاق نور جیسی شخصیت پر پڑی پرتوں کو کھولتے ہیں۔ اگرچہ کہ مشہور زائچہ نویس و ستارہ شناس کو ہم سب اخبارات اور ٹی وی کی حد تک تو جانتے تھے مگر کسی ناول کے گم شدہ کردار جیسے اسحاق نور کی شخصیت کو اس قدر خوبصورت طریقے سے ہمارے سامنے پیش کرنا، عرفان جاوید جیسوں کا ہی کام ہے.
بڈی مانوں، بانسری بابا، خواب دیکھنے، دکھانے والا، مجھ لگتا ہے یہ سب خاکے تو بہانہ تھے ۔ عرفان جاوید صرف اور صرف ''گیبرئیل'' کو ہی لکھنا اور منظرِ عام پر لانا چاہتے تھے۔
عرفان جاوید صاحب کی کتاب ''آدمی'' کا ایک خاکہ ''گیبرئیل'' مجھے شدید پسند آیا ہے. یہ اتنا شاندار ہے کہ میں اسے ''برساتی'' کا ہی کوئی بھائی قرار دیتا ہوں ۔ اس خاکہ میں جہاں عرفان صاحب ایک سیاح کے روپ میں نظر آتے ہیں، وہیں دو دوستوں کی خوب صورت محبت کا بھی پیش خیمہ ہے یہ خاکہ. گیبرئیل جس نے عرفان جاوید صاحب کی ترکی کی سیاحت میں کلیدی کردار ادا کیا، ان دو اجنبیوں میں ایسی اپنائیت پیدا ہوئی کہ مصنف کی واپسی پر اس نے اپنا ایک قیمتی سرمایہ ، اپنی سونے کی چین ایک نشانی کے طور پر عرفان جاوید کو دے دی ۔
ایک ہپی ماں کا بیٹا گیبرئیل، جس نے مصنف کو تنہا جیل نہیں جانے دیا ، فقط دوستی نبھانے کو عرفان جاوید صاحب کے ساتھ جیل کی جانب چل پڑا ۔
لوگ سچ کہتے ہیں کہ آپ خوش قسمت اگر کوئی لکھاری آپ کی محبت میں گرفتار ہو جائے یا آپ لکھاری کی محبت میں گرفتار ہو جائیں ، دونوں صورتوں میں آپ امر ہو جاتے ہیں ۔ مصنف نے گیبرئیل کو بھی امر کر دیا ہے اور دوستی سے بھی ایک قدم بڑھتے ہوئے اسے اپنا بھائی کہا ہے ۔
عرفان جاوید کے صرف خاکے ہی کمال نہیں ہیں بلکہ اس کی نثر بھی اعلیٰ درجے کی ہے ۔ بہت سے لوگ الفاظ کو مرکب میں لکھنا پسند نہیں کرتے ۔ مرکب الفاظ کیسے ہماری زندگیوں میں حاوی ہو چکے ہیں ، یہ سب آپ کو عرفان جاوید کی نثر سے ہی پتہ چلتا ہے. لفظ یونی ورسٹی ہو یا گجراں والا کا تلفظ، اگر آپ سچ میں اچھی نثرکا مزہ لینا چاہتے ہیں عرفان جاوید کو پڑھیں ۔
اگر آپ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں آپ کو عرفان جاوید کی کتاب ''آدمی'' پڑھنے کے لئے اُکسا رہا ہوں تو آپ غلط ہیں ۔ میں آپ کو ''آدمی'' پڑھنے کے لئے قائل بالکل بھی نہیں کر رہا ۔ میں آپ کو قائل کرنا چاہ رہا ہوں کہ آپ عرفان جاوید صاحب کی خاکوں ہی کی کتاب ''دروازے '' پڑھیں ۔ دروازے آپ کو عرفان جاوید کی نثر سے عشق کروانے کے لئے کافی ہے ۔ ایک بار اگر آپ نے دروازے پڑھ لی تو آپ ''سرخاب '' اپنے آپ پڑھیں گے اور سرخاب پڑھنے کے بعد ''آدمی'' کو پڑھنے سے اپنے آپ کو روک پانا ، آپ کے لئے ناممکن ہو گا ۔
ایک عہد کی سرگزشت (1947-2022)
مصنف : جمیل اطہر قاضی، قیمت : 4000 روپے
ناشر : قلم فاؤنڈیشن ، بنک سٹاپ ، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ
رابطہ : 03000515101
جناب جمیل اطہر قاضی حقیقت میں ایک پورا عہد ہیں اور زیرنظر خود نوشت اس عہد کا ایک رخ ہے ۔ اس میں صرف ان شخصیات کے خاکے ہیں جن سے مصنف کا تعلق رہا ۔ ان میں مدیران اخبارات ، علمائے کرام ، اساتذہ کرام ، سیاست دان ، روحانی شخصیات ، کارکن صحافی ، بیوروکریٹ ، شعرائے کرام ، اخبار فروش رہنما اور دیگر احباب شامل ہیں ۔ ان سب کی تعداد لگ بھگ سوا سو بنتی ہے ۔ انھوں نے ان شخصیات کے بارے میں اپنی یادیں بیان کیں ، دلچسپ واقعات شامل کیے ۔ تاہم اس کے علاوہ مصنف کی زندگی میں کیا کچھ ہوا ، وہ مکمل طور پر شامل نہیں ہے ۔ اللہ تعالیٰ انھیں صحت و سلامتی بخشے اور وہ اپنی خودنوشت کے باقی رخ بھی دکھائیں۔
جناب جمیل اطہر ممتاز بزرگ صحافی ہیں، اس وقت تین اردو ، انگریزی روزناموں اور ایک اردو میگزین کے مدیر اعلیٰ ہیں ۔ پاکستان بھر کے قومی اخبارات کے مدیران کی تنظیم ' کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز ' کے سابق صدر رہے، جبکہ قومی اخبارات کی تنظیم ' آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی ' کے نائب صدر ہیں۔
کارکن صحافی سے لے کر مالک صحافی بننے تک ، ان کی ایک طویل کہانی ہے جس میں آزمائشیں ، مشکلات بھی ہیں اور دلچسپ واقعات بھی ہیں ۔ پہلے پہل گھروں میں اخبار پھینکے ، چوکوں و چوراہوں میں کھڑے ہوکر اخبارات فروخت کیے ، پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ اخبارات شائع کرنا شروع کر دیے۔ اخبار میں چپڑاسی سے سب ایڈیٹر تک اور پھر ایڈیٹر تک ہر جگہ کام کیا۔ اس سب کا پتہ چلے گا ان شخصی خاکوں کے مطالعہ سے ۔ اس اعتبار سے یہ آپ بیتی بھی ہے اور جگ بیتی بھی ۔ ایک بھرپور داستانِ جہد مسلسل۔
مصنف نے کتاب کی ابتدا 'خاندان' کے عنوان سے کی جس میں اپنے والدین کے خاکے پیش کیے ۔ اس کے بعد ان لوگوں کے شخصی خاکے، جو دراصل اُن اشخاص سے مصنف کے ذاتی تعلق کی کہانیاں ہیں ۔ یہ وہ تاریخ ساز لوگ تھے، جنھوں نے انگریزوں اور ان کے جانشینوں کی ہیبت کا طلسم توڑا اور مختلف میدانوں میں بڑی تبدیلی کا ذریعہ بنے ۔
مرحوم عبدالقادر حسن نے مصنف کے بارے میں فلیپ میں لکھا: '' انھوں ( جمیل اطہر) نے کارکن صحافی سے مالک صحافی بننے تک سفر نیک نامی کے ساتھ طے کیا ۔ نیک نامی کا لفظ میں خاص طور پر لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں نیک نامی کمزور پڑتی جا رہی ہے جبکہ ہمارے استاد اور بزرگ رہنما صحافی اپنے پیشے کی اعلیٰ روایات قائم کرتے رہے ۔ وہ صحافی بھی رہے اور صحافت کے اصولوں پر سیاست بھی کرنا پڑی تو انکار نہ کیا ۔ جیلوں میں گئے اور جیلوں سے باہر بھی حکومتی سختیاں برداشت کرتے رہے ۔ جمیل اطہر قاضی انہی صحافیوں کی پیداوار ہے ۔''
میں سمجھتا ہوں کہ بحیثیت مجموعی یہ کتاب صحافت کے طلبہ و طالبات کے لئے بالخصوص راہنما ثابت ہو گی، انھیں پتہ چلے گا کہ ان کے بزرگوں نے صحافت کس ماحول میں شروع کی اور اس راہ میں کیا کچھ جھیلا ۔ جب کہ یہ کتاب سیاست کے طالب علموں کے لیے بھی نہایت دلچسپ ثابت ہو گی ۔ مصنف لکھتے ہیں: '' جن قارئین کی نظروں سے یہ مجموعہ مضامین گزرے وہ اسے پڑھ کر اپنی صفوں سے اٹھ جانے والوں کی مختلف میدانوں میں شب و روز محنت شاقہ کی جدوجہد کی روشنی میں اپنی زندگیوں کا رخ اور سمت متعین کر سکیں'' ۔