حج کرپشن کا خاتمہ طلحہ محمود پرعزم

میرے سمیت ہر پاکستانی کے خیال میں طلحہ محمود کے لیے یہ آسان ہدف اور ٹارگٹ نہیں تھا


[email protected]

حج بیت اﷲ دین فطرت اسلام کا پانچواں ستون اور زندگی میں ایک بار ہر صاحب حیثیت مسلمان پر فرض ہے۔ آج ہم اس عبادت کے معاملے میں کہاں تک سنجیدہ ہیں؟ اب لاکھوں کی تعداد میں مسلمان حج کرتے ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ تجارت اور نمود و شہرت کا جذبہ اس سلسلے میں بری طرح فروغ پا رہا ہے۔

بہت سے لوگ حج اس مقصدکے لیے کرتے ہیں کہ لوگ انھیں حاجی کہیں یا الحاج کہہ کر پکاریں۔ ایک طرف مسلمان عوام کی یہ حالت ہے تو دوسری طرف ہماری حکومتوں نے بھی اس عبادت کو خدمت کے بجائے تجارت کا ذریعہ بنالیا ہے۔ آپ ریکارڈ اٹھا کر دیکھ لیں، کوئی بھی حکومت ہو، وزارت مذہبی امور میں بدعنوانی کے اسکینڈل سامنے آتے رہے ہیں۔

بااثر لوگوں نے حج کی آڑ میں کیا کیا گل کھلائے، سب کو معلوم ہے۔ حج کوٹے میں بدعنوانیوں سے لے کر بلڈنگوں کی خریداری تک، بلڈنگوں کی خریداری سے لے کر فلائٹ شیڈول کو ترتیب دینے تک، ہر معاملے کے حوالے سے عجیب عجیب کہانیاں سننے کو ملتی رہیں۔

مشرف دور میں ضیاء الحق کے صاحبزادے وزیر حج تھے لیکن وزارت میں موجود بدعنوانی پر قابو نہ پاسکے، پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں صاحبزادہ حامد سعید کاظمی مذہبی امور کے وزیر تھے۔

2010 سے لے کر 2012 کے دوران ملک کے سیاسی منظرنامے پر حج کرپشن اسکینڈل کا چرچا رہا۔ اس اسکینڈل کے نتیجے میں صاحبزادہ حامد سعید کاظمی اور وزارت کے اعلیٰ افسروں کی گرفتاری تک ہوئی۔ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے 2010 میں سعودی شاہی خاندان کے ایک فرد کی طرف سے لکھے گئے ایک خط اور حاجیوں کی شکایات پر حج انتظامات میں بدعنوانی سے متعلق از خود نوٹس لیا تھا۔

بہرحال ان تمام کو عدالت نے بری کردیا تھا لیکن ہماری یہ بات تو درست ہے کہ ہر دور میں وزارت مذہبی اورا سکینڈلز کی زد میں رہی ہے ۔ آپ اندازہ کیجیے حج جیسے فرض عبادت کو بھی لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ بنائے رکھا۔

گزشتہ سال جب پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو وزارت مذہبی امور کا قلمدان جمعیت علماء اسلام کے درویش صفت ایم این اے مفتی عبدالشکور کو سونپ دیا گیا۔ اللہ کریم نے مفتی صاحب کی صورت میں ایک ایسا فرشتہ صف انسان دیا تھا جس نے خلوص دل اور محض اللہ کی رضا کے لیے وزارت مذہبی امور کا قبلہ درست کردیا۔

ناصرف اپنا دامن کرپشن سے محفوظ رکھا بلکہ دوسروں کو بھی اس گھناؤنے کام کی اجازت نہیں دی۔ مفتی صاحب ٹریفک حادثہ میں شہادت سے قبل ایک سال وفاقی وزیر رہے۔ ان کے اندر وفاقی وزارت میں رہنے کے باوجود کوئی بھی تبدیلی نہیں آئی۔

نہ انھوں نے دولت جمع کی، نہ بنگلہ بنایا نہ فارم ہاؤس بنایا اور نہ ہی گاڑیاں خریدیں، جب کہ انھیں اربوں روپے کی ''کمیشن''کی آفر ہوتی رہی لیکن انھوں نے کمیشن لینے کے بجائے حجاج کرام کی سہولیات میں اضافہ کردیا۔ گزشتہ سال حج پر جانے والے زائرین سے پوچھیں پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سرکاری حج اسکیم پر جانے والوں کو فائیواسٹار ہوٹلوں تک میں ٹھہرایا گیا۔

مفتی صاحب خود حاجیوں کی خدمت کرتے نظر آتے تھے۔ اس درویش صفت مفتی کی شہادت کے بعد وزارت مذہبی امور کا قلمدان جے یو آئی ہی کے سینیٹر طلحہ محمود کو سونپ دیا گیا تو میرے سمیت ہر پاکستانی کے خیال میں طلحہ محمود کے لیے یہ آسان ہدف اور ٹارگٹ نہیں تھا۔

مگر سینیٹر طلحہ محمود نے مفتی عبدالشکور کے مشن کو آگے بڑھانے، وزارت مذہبی امور کو کرپشن سے پاک رکھنے کا عزم اور حجاج کی خدمت بلاامتیاز کرنے کا عہد کیا۔ گزشتہ دنوں انھوں نے پارلیمنٹ میں کھڑے ہوکرایک تقریر کی جس نے ہر ذی شعور مسلمان پاکستانی کا حوصلہ بڑھا دیا۔ اپنی تقریر میں انھوں نے ہر سوال کا تسلی بخش جواب دیا۔

انھوں نے اپنی تقریر میں کہا ،'' 2019 میں جو بلڈنگز 2600 ریال میں خریدی گئی تھی وہ بلڈنگ اس بار ہم نے 1900 سے 2300 ریال میں خریدی ہیں۔

اس بار جتنی درخواستیں آئیں ہم نے سب قبول کیں سات آٹھ ہزار حاجیوں کا کوٹہ ہم نے واپس کردیا ہے کیونکہ ہمارے پاس ان کی درخواستیں نہیں آئیں۔ اگر ہم واپس نہ کرتے تو ہمیں ان کی بلڈنگز ٹرانسپورٹ اور دیگر اخراجات اداکرنا پڑتے۔ اگر یہ کوٹہ اپنے پاس رکھتے تو اس کے لیے 24 ملین ڈالر سعودی عرب بھجوانے پڑتے۔ ہماری معاشی حالت پہلے ہی خراب ہے، میں یہ بوجھ کیسے قومی خزانے پر ڈال سکتا ہوں۔

میری پوری کوشش ہے کہ حج اخراجات کو نیچے لے کر آؤں۔ مجھے کہا جاتا ہے پچھلے سال حج ساڑھے آٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہوا تھا اس بار اتنا مہنگا کیوں؟ آپ پچھلے سال کا ڈالر کا ریٹ اور اب ڈالرکا ریٹ چیک کرلیں تقریباً پانچ لاکھ کا فرق نکل رہا ہے،جب کہ اس بار گیارہ لاکھ پچھتر ہزار میں حج کا خرچ آرہا ہے، اسے ڈالر کے ساتھ کیلکولیٹ کریں تو پچھلے سال کی نسبت اس بار سستا حج ہورہا ہے۔

حج سعودی عرب میں ہو رہا ہے مجھے اس کے لیے فارن کرنسی دینی ہے۔ اخراجات کم کرنے کے لیے میں سعودی عرب جارہا ہوں جومیںاپنے خرچے پر جاؤں گا، وہاں ہوٹل کے پیسے میں خود اداکرتا ہوں۔ میں نے 18 سال میں حکومت سے کوئی تنخواہ، کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں لیا، میں سرکاری گاڑی استعمال نہیں کرتا، میں نے کبھی اپنی وزارت یاکسی کمیٹی کی چیئرمین شپ کے حوالے سے تنخواہ یا کوئی مراعات نہیں لیں۔

میں یقین دلاتا ہوں کہ کسی کو مفت حج نہیں کرنے دوں گا۔ میں تمام عمل کو شفاف رکھوں گا، تمام دستاویزات سب کے سامنے رکھ دوں گا۔ میں نے اپنے تمام اسٹاف کو کہہ دیا ہے کہ اگر میں نے کسی کو کرپشن میں پکڑ لیا تو سعودی عرب سے واپس نہیں لاؤں گا بلکہ میں وہیں اس کے خلاف ایکشن لوں گا، اسلامی قوانین کے مطابق اس کے ہاتھ کٹواؤں گا۔ میں تمام حج آپریشن کی خود نگرانی کررہا ہوں۔

بہت سے دوستوں کی فرمائش ہے کہ حج کے لیے مخصوص لوگوں (ججز، جرنیل، ایم این ایز، سینیٹرز اور بیوروکریٹس) کے لیے وی آئی پی فلائٹ اور وی آئی پی ارینجمنٹ کیے جائیں، اگر آپ شارٹ حج شیڈول کی بات کریں تو اس پر بات ہوسکتی ہے لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ اسی عام پیکیج میں آپ کو وی آئی پی سہولیات دی جائیں تو میرے لیے ممکن نہیں ہوگا۔ وہاں آپ کو اسی طرح خیموں میں رہنا پڑے گا جس طرح ایک عام حاجی رہتا ہے۔ ا

س کے علاوہ کچھ نہیں ہوسکتا۔ وزارت مذہبی امور کا کوئی ملازم ان کی خدمت کے لیے دستیاب نہیں ہوگا۔''

پاکستان ایک غریب ملک ہے، یہاں بے شمار لوگ ارب پتی بلکہ کھرب پتی ہیں۔ وفاقی کابینہ میں بھی ایسے لوگوں کی کوئی کمی نہیں۔ اگر وہ بھی سینیٹر طلحہ محمود جیسا رویہ اپنائیں اور اس ملک کو لوٹنے کے بجائے ملک و ملت کی خدمت نیک جذبے سے سرشار ہو کر کریں تو انشاء اللہ، اللہ رب العزت پاکستان کے حالات کو بدل دے گا، اور یہ ملک خوشحال ہو کر سیدھے راستے پر آجائے گا۔ بدقسمتی سے اس ملک کی اشرافیہ کو مفت خوری کی عادتیں پڑی ہوئی ہیں، حج جیسی عبادت میں بھی غریبوں کے پیسوں پر عیاشیاں کرتے ہیں۔

ماضی میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے مگرکسی نے انھیں روکنے کی کوشش نہیں کی، کہ پاکستان ایک غریب اور مقروض ملک ہے، آپ یہ زیادتی نہ کریں۔ بدقسمتی سے پاکستان دنیا کا واحد غریب ملک ہے جس میں غریب امیروں کو پال رہے ہیں۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود کا قومی اسمبلی میں حج کے حوالے سے اظہار خیال نے پوری قوم کو حوصلہ بخشا ہے۔

ان کے بیان سے عوام کا حکومت پر اعتماد بحال ہوا ہے۔ پاکستان اس وقت جن معاشی مشکلات کا شکار ہے یہی طرز عمل ہمارے لیے آسانیوں کا باعث بن سکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔