ہم کون ہیں
پردیس جانے والے کےلیے تو آخری دن، آخری وقت تک کوشش ہوتی ہے کہ والدین کے زیر سایہ وقت گزارا جائے۔ بادل نخواستہ ہمیں مقررہ وقت سے پہلے گھر سے نکلنا پڑا۔ خوف، ڈر اور انجانے خدشوں کے ساتھ بھیرہ سے شام پانچ بجے روانہ ہوئے۔ موٹروے پر حالات معمول کے مطابق تھے، مگر الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا پر مسلسل مایوسی کی خبریں آرہی تھیں۔
کچھ ہی وقت کے بعد انٹرنیٹ پہلے سست، پھر بہت زیادہ سست، اور پھر بند ہونا شروع ہوگیا۔ لاہور کے قریب ایک آرم گاہ میں نماز مغرب ادا کی تو یہاں پر حالات معمول کے مطابق نظر آئے۔ لاہور پہنچ کر رنگ روڈ پر داخلہ ہمارے لیے ہمالیہ سر کرنے کے مترادف ہوگیا۔ شہر کے داخلی راستوں پر ڈنڈوں سے لیس افراد ٹولیوں کی شکل میں ریاست کی رٹ کو چیلنج کررہے تھے۔
کافی تگ و دو کے بعد ماں باپ کی دعا کی برکت سے سروس روڈ سے شہر میں داخل ہوئے۔ ٹوٹی پھوٹی، خستہ حال، اونچی نیچی گلیوں سے گزرتے ہوئے مرکزی سڑک تک آئے اور بالآخر ایک ایسا راستہ دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے جو شرپسندوں سے بچا ہوا تھا۔ اور اللہ کے فضل و کرم سے اپنے ہی ملک میں ڈر و خوف کے ساتھ آخرکار لاہور ایئرپورٹ پہنچ گئے۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ لاہور شہر میں حالات نارمل نظر آئے، لوگ خوش گپیوں میں مصروف، سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی، کہیں پر انقلاب نظر نہیں آرہا تھا۔ یعنی اگر انقلاب تھا تو صرف داخلی راستوں پر تھا۔ احتجاج اگر ہورہا تھا تو صرف بے بس، مجبور لوگوں کو تنگ کرکے ہورہا تھا۔ حالات کے ہاتھوں مجبور ہوکر وطن چھوڑنے والے پردیسیوں کو اذیت دے کر ہورہا تھا۔ مسافروں کو تنگ کرکے، وطن عزیز کا دفاع کرنے والے، دھرتی کی خاطر اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دھرتی کی حفاظت کرنے والوں کی رہائش گاہوں پر، دفتروں پر حملے کرکے عمران خان سے محبت کا اظہار کرنے کی کوشش کی جارہی تھی۔
ہم تو خدا خدا کرکے ایئرپورٹ پہنچ گئے، مگر اس دن نجانے کتنے لوگ اپنے سرمائے سے محروم ہوئے ہوں گے، نجانے کتنے افراد ایمبولینسز کے اندر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہوں گے، کتنے لوگوں نے اس امید پر کہ اب پولیس یا فوج آئے گی، راستے کھلیں گے اور ان کی شرپسندوں سے جان چھوٹے گی، رات سڑکوں پر مچھروں کے ساتھ بھوک اور پیاس کے ساتھ گزاری ہوگی۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہماری سیکیورٹی فورسز چند سو افراد کے سامنے کیوں بے بس ہوجاتی ہیں، ہمارے ادارے کیوں اپنے نافرمان بچوں کے ہاتھوں بلیک میل ہوجاتے ہیں؟
گزشتہ روز آئی جی پنجاب نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے اس سلسلے میں عجیب منطق پیش کرتے ہوئے کہا کہ چونکہ یہ ہمارے اپنے ہیں، اس لیے ہم ان کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں، ورنہ چند سو افراد کو کنٹرول کرنا ہمارے لیے کون سا مشکل ہے۔ میری آئی جی صاحب سے انتہائی عاجزانہ التماس ہے کہ حضور اگر چند سو یا چند ہزار شرپسند، ریاست کے بگڑے بچے، آپ کے اپنے ہیں تو سڑکوں پر ان لوگوں کے ہاتھوں اذیت کا شکار کون ہیں؟ ایمبولینسوں سے نکال کر مار کھاتے، ایمبولینسوں میں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہوتے کون لوگ ہیں؟ تنگ و تاریک گلیوں میں راستہ ڈھونڈتے، ڈنڈا بردار چند سو نافرمان لوگوں کی انا کو تسکین پہنچاتے کون لوگ ہیں؟
خدارا! ایک لائن لیجیے۔ وہی لائن جو خالق کائنات نے آج سے ہزاروں سال قبل اس وقت لی تھی جب خدائے بزرگ و برتر کے برگزیدہ بندے نوح علیہ السلام نے اپنے اکلوتے مگر ایمان نہ لانے والے بیٹے کو عذاب الٰہی سے بچانے کی درخواست کی اور حوالہ دیا کہ یہ میرے اہل میں سے ہے تو خالق کائنات نے فرمایا کہ اے نوح جو آپ پر ایمان نہیں لایا تو وہ آپ کے اہل و عیال میں سے نہیں ہے۔ یعنی جو آپ کی بات نہیں مانتا وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔
ریاست پاکستان بھی پاکستان کی بقا کےلیے قانون بنادے کہ جو پرتشدد احتجاج کرے، جو راستے بند کرے، جو ریاستی اداروں پر حملے کرے، جو افواج پاکستان کے خلاف بدزبانی کرے، جو افواج پاکستان کی املاک پر حملہ کرے وہ ہمارا نہیں۔ اور پھر جو ریاست کا نہیں اس کےلیے کوئی رعایت نہیں۔ حضور خدا کےلیے بروقت فیصلہ کرلیں، اس سے پہلے فیصلہ کرنے کا موقع نہ ملے۔ کیونکہ اب پانی سر سے گزر چکا ہے۔
اگر ابھی بھی آپ نے فیصلہ نہیں کرنا، تو کسی دن ڈنڈوں سے لیس جھتوں کے سامنے پھنس کر دیکھیے۔ اگر ابھی بھی آپ سمجھ رہے ہیں کہ یہ شرپسند، نہتے بے بس عوام سے عمران خان کی گرفتاری کا بدلہ لیتے، ریاستی اداروں پر حملہ کرنے والے، افواج پاکستان کے خلاف گندی زبان استعمال کرتے چند شرپسند، آپ کے اپنے ہیں تو پھر ہمیں بتادیں کہ ہم کس کے ہیں، ہم کون ہیں؟
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔