خیر خواہی
حدیث نبویﷺ کا مفہوم: ''جس نے لوگوں پر رحم نہ کیا، اﷲ اس پر رحم نہیں کرے گا۔'' (ترمذی)
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ''رحم کرنے والے جو ہیں ان پر رحمٰن رحم کرے گا۔ رحم کرو تم زمین والوں پر، رحم کرے گا تم پر آسمان والا۔'' (ترمذی)
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مسلمان، مسلمان کا بھائی ہے، نہ وہ اس سے خیانت کرے گا اور نہ وہ اس سے جھوٹ بولے گا اور نہ اسے بے یار و مددگار چھوڑے گا۔ مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے۔
اس کی آبُرو ریزی اس پر حرام ہے، اور اس کا مال اس پر حرام ہے اور اس کا خون اس پر حرام ہے اور (سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا) تقویٰ یہاں ہے اور کسی آدمی کے لیے یہی برُائی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر و توہین کرے۔'' (ترمذی)
اس حدیث کی بنا پر مسلمانوں کے لیے آپس میں معاملات اور معاشرت بھائیوں کی طرح کرنا چاہیے اور ایک دوسرے کے ساتھ رحمت، شفقت، نرمی برتنے اور بھلائی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون و تناصر میں پورے اخلاص اور خیر خواہی سے پیش آنا چاہیے۔
حضرت ابُو موسیٰ اشعری رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''مومن دوسرے مومن کے لیے ایک عمارت کی طرح ہے کہ اس عمارت کا بعض حصہ دوسرے حصہ کو مضبوط کردیتا ہے۔'' (ترمذی)
اس حدیث میں حضور ﷺ نے مسلمانوں کے باہمی اتفاق و اتحاد اور آپس میں ایک دوسرے سے تعاون و تناصر اور ہر کار خیر میں ایک دوسرے کی مدد کرنے پر زور دے کر ایک مثال سے اس کی توضیح کی ہے۔ جس طرح ایک عمارت متفرق اجزاء سے بنی ہوئی ہوتی ہے۔
ہر جُز نے دوسرے جز سے چمٹ کر اس کو مضبوطی سے پکڑ لیا۔ خود بھی مضبوط ہُوا اور اس کو بھی مضبوط بنا لیا اور اس طرح ایک مضبوط خوب صورت اور بلند عمارت ظہور پذیر ہوئی۔ مسلمانوں کو بھی ایک دوسرے سے افتراق اور ایک دوسرے سے قطع تعلق کرنا درست نہیں بل کہ آپس میں نرمی، رحم دلی اور محبت کے ساتھ مل کر رہنا چاہیے۔
نظم و ضبط اور اتفاق و اتحاد سے زندگی بسر کرنی چاہیے اور جس طرح دیوار سے نچلے حصے اوپر والے حصوں کا بوجھ اٹھائے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو اپنے استحکام اتفاق و اتحاد قائم کرنے اور پھر اپنی منظّم قوت و شوکت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنے آپ کو بڑی سے بڑی قربانی کے لیے پیش کرنا ہوگا۔
جو قوم اپنے اجتماعی نظام، قوت و استحکام اور نظم و ضبط قائم کرنے کے لیے اپنے بھائی کا بوجھ خوشی اور محبت کے ساتھ اُٹھا کر برداشت نہیں کرتی تو دشمن ان پر مسلط ہوکر زبردستی ان سروں پر بیٹھ جاتا ہے اور پھر جبراً و کرہاً ناگواری کے ساتھ دشمن کا بوجھ اٹھاتی ہے۔
بلاشبہ! سچ یہ ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کا اکمل طریقے سے حق ادا فرمایا ہے اور کسی قوم کو کسی نے اس سے زیادہ اسباق نہیں پڑھائے ہوں گے، جیسا کہ رسول اﷲ ﷺ نے اپنی امت کی راہ نمائی فرمائی ہے لیکن کاش! امت محمدی ﷺ خواہشات نفسانی کی پیر وی اور یہود و نصاریٰ کا اتباع چھوڑ کر جناب رسول اکرم ﷺ کی تعلیمات کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لیے بنیاد بنا لے اور امت کی کام یابی اور فلاح کے لیے جدوجہد کرے تو امید کی جاسکتی ہے کہ مسلمانوں پر چھائے ہوئے ان گھٹا ٹوپ اندھیروں کا جلد خاتمہ ہو اور مسلمان طلوع سحر کی نوید سن لیں۔
حضرت ابُو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ''بے شک! تم میں سے ہر ایک (مسلمان) اپنے بھائی (دوسرے مسلمان) کا آئینہ ہے، پس اگر اس نے اس مسلمان میں کوئی بُری اور تکلیف دہ چیز دیکھی تو اس چیز کو اس سے دُور کردے۔'' (مسلم)
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ''انما المٔومنون اخوۃ '' تمام اہل ایمان بھائی بھائی ہیں۔ آج کے خالص مادی دور میں شاید اس کو سمجھنا مُشکل ہو، دور جدید کے خالص مادی اور میکانکی نظام زندگی نے ساری انسانی قدریں خاک میں ملا دیں۔ ذرائع ابلاغ میں اکثر یہ خبریں بھی آنے لگی ہیں کہ ماں نے بیٹے کو قتل کیا، ماں بچیوں سمیت دریا میں کود گئی وغیرہ۔ بعثت نبوی ﷺ سے پہلے عربوں میں ہزار جاہلیت کے باوجود یہ درندگی نہ تھی، وہ بھائی کے رشتہ ٔ محبت سے آشنا تھے۔
اسی رشتے کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے، ایک بھائی کا بھائی سے جو تعلق ہوتا ہے وہی تعلق ایک ایمان والے کا دوسرے ایمان والے سے ہوتا ہے، عالمی اخوتِ اسلامی کی یہ دعوت ہی نہیں بل کہ حقیقت ایمان کا یہ نتیجہ ہے جس کو آیت مذکورہ میں بیان کردیا گیا ہے اور نتیجہ تب ہی ظاہر ہوگا جب ایمان اور ایمان کے تقاضوں کو سمجھ کر ان پر عمل کا جذبہ ہوگا۔
جب وہ اپنے مومن بھائی کو نہ رسوا کرے گا نہ اس کو بے یا ر و مددگار چھوڑے گا، بل کہ اگر ضرورت پڑے گی تو اس کے لیے سپر بن جائے۔ یہ ہے وہ ایمانی اخوت کا مضبوط تر رشتہ جس کے نتیجے میں صحابہؓ نے جان دے دی لیکن اپنے پیاسے ایمانی بھائیوں سے پہلے خود پانی پینا گوارہ نہ کیا۔
دینی اخوت کی فضیلت کے بارے میں سرکا ر دوعالم ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے رہیں، میری محبت ان لوگوں کے لیے ثابت ہے جو میری خاطر ایک دوسرے کو چاہتے ہیں۔ میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہے جو میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ (احیاء العلوم )